مترجم : علی محمد نور بخشی منہاجین
حضرت سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ (م 786ھ) کی حیات و خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ خصوصاً کشمیر، ہزارہ، گلگت، بلتستان، لداخ، اسکردو، تبت اور شمال مشرقی مسلمان ریاستوں میں آپ کی دعوت و تبلیغ سے ہی اسلام آٹھویں صدی ہجری میں پھیل گیا تھا۔ آپ کو امیر کبیر اور سید السادات جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی سفیر اسلام کے طور پر گزاری اور جگہ جگہ اسلام کے نظام دعوت و تربیت کے عظیم الشان مراکز قائم فرما کر عہد صحابہ و تابعین کی یاد تازہ کردی۔ اقبال نے آپ کی انہی بے پایاں خدمات پر آپ کو ’’سالارِ عجم‘‘ اور ’’معمارِ تقدیر امم‘‘ جیسے خوبصورت ٹائٹل دیئے۔ سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ متبحر عالم، اعلیٰ پائے کے مصنف اور ثقہ ادیب بھی تھے۔ انہوں نے 70 سے زائد چھوٹی بڑی کتب لکھیں جن میں ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہے، اس کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ چھپ چکا ہے۔ آپ کی بہت سی کتب چھپ چکی ہیں اور بہت سی ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔ انہی غیر مطبوعہ عربی کتب میں سے ایک رسالہ ’’الطالقانیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے جو آپ نے دوران سفر ختلان کے جنوب میں واقع قصبہ ’’طالقان‘‘ میں کسی سالک کی فرمائش پر تحریر فرمایا جس میں مقامات سلوک و تصوف کو نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ اس مختصر مگر بنیادی نوعیت کی خصوصی تحریر کو ہمارے فاضل علامہ علی محمد نور بخشی منہاجین نے اردو میں ڈھالا ہے اور شاید پہلی مرتبہ ماہنامہ منہاج القرآن کو اشاعت کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ یہ کتابچہ بعد ازاں مکمل عربی عبارات اور حوالہ جات کے ساتھ زیورِ طبع سے آراستہ ہوجائے گا۔ (مدیر اعلیٰ)
فقر اور فقراء کے فضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
سراج الاغنياء في الدنيا اهل الاخرة هم الفقراء ولولا الفقراء لهلک الاغنياء دولة الاغنياء في الدنيا لا بقاء لها و دولة الفقراء في الآخرة لانها ية لها.
’’دنیا میں دولت مندوں کے چراغ آخرت والے فقراء ہیں۔ اگر فقراء نہ ہوتے تو دولت مند ہلاک ہوجاتے۔ دولت مندوں کا سرمایہ صرف دنیا میں رہتا ہے جس کی بقاء اور نفع بخشی کی کوئی ضمانت نہیں جبکہ اللہ والے اہل آخرت کا اصل سرمایہ (نیکیوں کی صورت میں) اخروی سامان ہے جس کی کوئی حد ہے نہ حساب‘‘۔ (یعنی نیکی اور تقویٰ کی صورت میں حاصل ہونے والا توشۂ آخرت لامحدود نفع بخشی کا ضامن ہے جبکہ دنیوی مال و دولت اس کے مقابلے میں جلد ختم ہونے والا سرمایہ ہے)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
لعن الله من اکرم غنيا لغنائه واهان فقيرا لفقره لايفعل هذا الا منافق ومن اکرم غنيها لغنائه واهان فقيرا لفقره سمي في السموت عدوالله وعدوالانبياء.
’’اللہ پاک نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو مالدار کی عزت اس کی دولت و ثروت کی وجہ سے کرے اور کسی فقیر کی توہین اس کی تنگ دستی کی وجہ سے کرے۔ ایسا منافق ہی کرتا ہے اور جو کسی مالدار کی عزت اس کی دولت مندی کی وجہ سے کرے اور کسی فقیر کی توہین اس کی تنگ دستی کی وجہ سے کرے تو اس کا نام آسمانوں میں اللہ کا دشمن اور انبیاء کا دشمن رکھ دیا جاتا ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے پوچھا :
اي الناس خير قالوا رجل موسر في المال يعطي حق الله من نفسه وماله فقال عليه السلام انعم الرجل وليس به قالوا ومن خيرالناس يارسول الله صلی الله عليه وآله وسلم قال فقير يعطي جهده.
’’اے میرے صحابیو! کیا تم جانتے ہو لوگوں میں بہترین شخص کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا : مال و دولت میں خوشحال شخص، اس لئے کہ وہ اپنی جان و مال سے اللہ کا حق دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ کیا ہی اچھا شخص ہے لیکن یہاں وہ مراد نہیں تو انہوں نے عرض کیا : پھر بہترین شخص کون ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ فقیر ہے جو اپنی محنت و مشقت دیتا ہے‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’قیامت کے دن بندے کو لایا جائے گا۔ اللہ اس بندے سے اسی طرح معذرت کرے گا جیسے لوگ دنیا میں ایک دوسرے سے معذرت کرتے ہیں۔ اور اللہ فرمائے گا میری عزت اور جلالت کی قسم میں نے دنیا میں تجھ سے کسی قسم کا لہو و لعب نہیں دیکھا۔ میرے ہاں تمہارے لئے جو کرامت اور فضیلت تیار ہے وہ یہ ہے کہ اے بندے ان صفوں کی طرف نکل جاؤ پس جس کو تو نے فقط میری رضا کے لئے کھلایا اور میری رضا کے لئے پہنایا، اس کھلانے اور پہنانے کا مقصد صرف میری خوشنودی تھی، تم اس کا ہاتھ پکڑ لو وہ تمہارے لئے ہے۔ اس دن لوگ پسینے میں شرابور ہونگے پھر وہ صفیں چیرتا ہوا جائے گا اور وہ دیکھے گا اس شخص کو جس کے ساتھ اس نے ایسا سلوک کیا پس وہ شخص اس کا ہاتھ پکڑے گا اور اسے جنت میں داخل کردے گا‘‘۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لقول الله تعالیٰ يوم القيامة اين صفولي من خلقي فيقول الملائکة من هم ياربنا فيقول الفقراء القانعون لعطائي الراضون بقدري ادخلهم الجنة. (الطبقات الصوفيه)
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری مخلوق میں میرے مخلص بندے کہاں ہیں؟ تو فرشتے عرض کریں گے اے ہمارے رب وہ لوگ کون ہیں؟ اللہ فرمائے گا (میرے مخلص بندے) وہ فقراء ہیں جو میری عطا کردہ نعمتوں پر قناعت کرتے ہیں۔ میری تقدیر پر خوش ہیں (جاؤ) انہیں جنت میں داخل کردو‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’فقراء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک قاصد بھیجا، اس نے عرض کیا : (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف فقراء کا قاصد بن کر حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تجھے خوش آمدید، ان کو (بھی خوش آمدید) جن کی طرف سے تو آیا ہے، اس قوم سے میں محبت کرتا ہوں۔ اس قاصد نے کہا : فقراء کہتے ہیں کہ اغنیاء یعنی مالدار جنت لے گئے (کیونکہ) وہ حج کرتے اور ہمیں حج کی قدرت نہیں، وہ عمرہ کرتے ہیں اور ہم عمرہ پر قدرت نہیں رکھتے۔ اور جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو وہ اپنے اموال (خدا کی راہ) میں خیرات کرتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فقراء کو میری طرف سے یہ بات پہنچا دو کہ تم میں سے جس نے صبر کیا اور اپنا محاسبہ کیا اسے تین ایسے انعام ملیں گے جو اغنیاء کو نہیں ملیں گے۔ ان میں سے پہلا یہ ہے کہ جنت میں ایک بالا خانہ ہے، اہل جنت اس کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے کہ زمین والے آسمان کے ستاروں کی طرف دیکھتے ہیں، ان میں نبی یا شہید یا مومن فقیر کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ فقراء لوگ اغنیاء سے نصف دن پہلے جنت میں داخل ہونگے اور یہ نصف دن پانچ سو سال کا ہے۔ تیسرا یہ کہ جب غنی شخص یہ کہتا ہے سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر اور فقیر بھی یہی کہتا ہے تو غنی آدمی فقیر کے ثواب تک نہیں پہنچ سکتا، چاہے اس کے ساتھ وہ دس ہزار درہم خیرات بھی کرے اور باقی تمام نیک اعمال کی ادائیگی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ قاصد فقراء کی طرف واپس آیا (اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے خوشخبری سنائی تو) فقراء نے کہا : ہم خوش ہوگئے ہم خوش ہوگئے‘‘۔ (قوت القلوب)
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
رکعتان من فقير صابر في فقره احب الي الله من عبادة الاغنياء الي اخرالدهر.
’’صبر گذار فقیر کی دو رکعت نماز اغنیاء یعنی مالدار کے آخری زمانے (قیامت) تک کی عبادت سے اللہ کو زیادہ محبوب ہے‘‘۔
حضرت ابو سلیمان الدارانی کا فرمان ہے :
تنفس فقير دون شهوته خير من عبادة الغني الف عام.
’’شہوت کے بغیر فقیر کا سانس لینا غنی کے ایک ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔
مقاماتِ سلوک و تصوف
پس یہ فقراء کی کچھ خصوصیات ہیں اور جب آپ کو غنی پر فقیر کی فضیلت کا یقین ہوگیا تو یہ بھی سمجھ لو کہ گروہ فقراء کے کچھ احوال و مقامات ہیں۔ جن کا تذکرہ حسب ذیل ہے :
1۔ پہلا مقام۔۔۔ ارادہ
ان مقامات سلوک و تصوف میں سے پہلا مقام ’’ارادہ‘‘ ہے۔ حضرت ابوعلی الدقاق رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ
لايکون المريد مريدا حتي لايکتب عليه صاحب الشمال عشرين سنة.
(رساله قشيريه ص 203)
’’اللہ پاک کا ارادت مند اس وقت تک مرید نہیں بن سکتا جب تک کہ بائیں کندھے والا فرشتہ بیس سال تک کچھ نہ لکھ سکے‘‘۔ (مراد یہ کہ کم از کم بیس سال تک اس سے کوئی برائی سرزد نہ ہو تو وہ مخلص مرید کہلائے گا۔ چہ جائیکہ شیخ اور مرشد)
حضرت ابوبکر واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ
ان يکون فيه ثلاثة اشياء نومه غلبه واکله فاقة وکلامه ضرورة.
(الرساله القشيريه ص 203)
’’اس مرید میں تین چیزیں بہر صورت ہونی چاہئیں اس کی نیند پر اسے غلبہ ہو، اس کا کھانا فاقہ ہو، اس کی گفتگو ضرورت کے مطابق ہو‘‘۔
2۔ دوسرا مقام۔۔۔ توبہ
ان میں سے دوسرا مقام ’’توبہ‘‘ ہے حضرت ذوالنون مصری کا ارشاد ہے :
توبة العوام من الذنوب وتوبة الخواص من الغفلة.
(الرسالة القشيريه ص 95)
’’عوام کی توبہ گناہوں سے ہے جبکہ خواص کی توبہ غفلت سے ہے‘‘۔
توبہ کرنے کے بعد بندے کا ایک دفعہ پھسلنا پہلے سے ستر گنا زیادہ ناپسندیدہ ترین ہے۔
حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :
التوبة ان يتوب من کل شئي سوي الله عزوجل.
(رساله قشيريه ص 95)
’’توبہ اللہ کے سوا ہر چیز سے رجوع کرنا ہے‘‘۔
3۔ تیسرا مقام۔۔۔ مجاہدہ
ان مقامات میں تیسرا مقام ’’مجاہدہ‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی :
حذو وانذر اصحابک عن اکل الشبهات محجوبة عني.
’’اے داؤد آپ اپنے اصحاب کو مشتبہ چیزیں کھانے سے ڈرائیں کیونکہ ایسا کرنا مجھ سے قربت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے‘‘۔
حضرت ابو عثمان مغربی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :
من ظن انه يفتح شئي من هذالطريق ولايلزم المجاهدة فهو علي غلط.
(رساله قشيريه ص 98)
’’جو سالک اس سلوک و تصوف کی راہ سے طریقت کے کچھ اسرار کے کھلنے کا گمان کرے اور اپنے اوپر ریاضت ومجاہدہ لازم نہ کرے وہ غلطی پر ہے‘‘۔
حضرت ابو علی روباری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :
الي الله ان يعمر المنازل الثلثة الاصناف الثلثة الدنيا باهل الغفلة والجنة باهل الطاعة والنار باهل الشهوة.
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں تین قسم کے لوگوں کے لئے تین مقامات تیار ہیں۔ دنیا غفلت والوں کے لئے تیار ہے جنت اطاعت والوں کے لئے مخصوص ہے اور دوزخ شہوت والوں کے لئے خاص ہے‘‘۔
حضرت یحیٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :
من عذب نفسه في طاعة الله قام القيامة وهو امن من عذاب الله.
’’جس سالک نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تکلیف دی وہ قیامت کے دن ایسے کھڑا ہوگا کہ وہ اللہ کے عذاب سے محفوظ ہوگا‘‘۔
حضرت علی الدقاق کا ارشاد ہے :
من ذين ظاهره بالمجاهدة زين الله سره بالمشاهدة.
’’جو اپنے ظاہر کو مختلف مجاہدے سے مزین کرتا ہے تو اللہ اس کے باطن کو مشاہدے سے سجائے گا‘‘۔
4۔ چوتھا مقام۔۔۔ خلوت
ان مقامات میں سے چوتھا مقام ’’عزلت و خلوت نشینی‘‘ ہے۔
حضر ذوالنون مصری کا فرمان ہے :
لم ارشيئا ابعث علي الاخلاص من الخلوة لانه اذاخلا لم يري سوي الله تعالیٰ.
(طبقات الصوفيه ص 2، رساله قشيريه ص 103)
’’میں نے خلوت نشینی سے بڑھ کر اخلاص پر اکسانے والی کوئی چیز نہیں دیکھی کیونکہ جب
کوئی خلوت نشین ہوتا ہے تو اللہ کے سوا کسی کو نہیں دیکھتا‘‘۔
حضرت ابوبکر ابوراق رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :
وجدت خيرالدنيا والاخرة في الخلوة ولقلة وشرهما في الکثرة والاختلاط.
(رساله القشيريه
ص 103)
’’میں نے دنیا و آخرت دونوں کی بہتری خلوت نشینی اور تنہائی میں پائی اور دنیا و آخرت
کی خرابی کثرت اور لوگوں سے غیر ضروری میل جول میں پائی‘‘۔
حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :
’’اللہ پاک سے انس و محبت کی تین علامتیں ہیں پہلی یہ کہ عام لوگوں کی صحبت سے وحشت
محسوس کرے، دوسری ذکر الہٰی کی کثرت سے سرور حاصل کرے اور تیسری یہ کہ خلوت و عزلت
نشین ہوکر اللہ کی طاعات و عبادات میں لذت محسوس کرے‘‘۔
حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بعض انبیاء علیہم
السلام کی طرف وحی کی۔
ان احبت ان تلقائي في حظيرة القدس فکن مهموماً محزوناً فريدا وحيدا مستوحساً بمنزلة
الطير الذي يطير في ارض قفر.
’’اگر تم مجھ سے بارگاہ قدس میں ملنا چاہتے ہو تو بے چین و بے قرار، غمگین، تنہا ہوجاؤ
اور دنیا اور اس کی زیب و زینت سے اس طرح وحشت محسوس کرنے والا بن جاؤ جس طرح پرندہ
غیر آباد زمین میں بے چین و بے قرار اڑتا پھرتا ہے‘‘۔
ان مقامات سلوک و تصوف میں سے پانچواں مقام ’’تقوی‘‘ ہے حضرت جنید بغدادی ارشاد
فرماتے ہیں۔ :
الطرق الي الله مسدودة کلها الا طريق المتقين.
(طبقات الصوفيه 159)
’’حاملین تقویٰ کے طریقے کے سوا اللہ تک جانے کے تمام راستے بند ہیں‘‘۔
حضرت ابو محمد الجریری فرماتے ہیں :
من لم يحکم بينه وبين الله بالتقوي والمراقبه لم يصل الي الکشف والمشاهده.
’’جو سالک اپنے اور اللہ کے درمیان تعلق کو تقوی اور مراقبہ کے ذریعے مستحکم و مضبوط
نہیں کرتا وہ کشف اور مشاہدہ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا‘‘۔
ابوالقاسم النصر آبادی ارشاد فرماتے ہیں :
التقوي ان يتقي العبد ماسوي تعالیٰ.
’’تقوی یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سوا ہر چیز سے بچا رہے‘‘۔
ان مقامات سلوک تصوف میں سے چھٹا مقام ’’زہد‘‘ ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
مازهد عبد في الدنيا الا اثبت الله الحکمة في قلبه وانطق بها لسانه وبصر عيوب الدنيا
ودواء ها واخرج منها سالما الي دارالسلام.
’’جب بندہ دنیا کی محبت سے بے رغبت ہوجاتا ہے تو اللہ اس کے دل میں ایسی حکمت و دانائی
داخل کر دیتا ہے جس کے ذریعے اس کی زبان کو قوت گویائی عطا کرتا ہے۔ دنیا کی کمزوریوں،
دنیوی بیماریوں اور علاج کی بصیرت عطا کرتا ہے‘‘۔
حضرت جعفر الخلدی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :
الدنيا اربعة اشياء کلها فناء ة المال والکلام والطعام والمنام. المال يطغي والکلام
يلهي والمنام ينسي والطعام يقسي.
’’دنیا کی طرف چار چیزیں راغب کرتی ہیں۔ جان لیجئے چاروں بے ثبات ہیں۔ مال و دولت،
بات چیت، کھانا اور نیند۔ مال و دولت انسان کو سرکش بناتی ہے، فضول بات چیت انسان کو
برباد کرتی ہے۔ نیند مقصد اصلی بھلا دیتی ہے۔ کھانا انسان کے دل کو سخت کر دیتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی
’’اے موسیٰ علیہ السلام آپ دنیا کی محبت کی طرف نہ جھکا کرو کیونکہ آپ اس کی کثرت کے
ساتھ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے وہ اس کی محبت سے شدید ترین ہے‘‘۔
حضرت الجلا کا فرمان ہے :
الزهد هوالنظر الي الدنيا بعين الزوال.
’’زہد دنیا کی طرف زوال و بے ثباتی کی نظر سے دیکھنا ہے‘‘۔
حضرت الدارنی کا ارشاد ہے :
الزهد ترک مايشغلک عن الله.
’’وہ تمام امور جو تجھے ماسوا اللہ کی طرف مشغول کر دیں انہیں چھوڑ دینا زہد ہے‘‘۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف اللہ نے وحی کی۔
’’اے داؤد تم اس عالم سے سوال نہ کرو جسے دنیا کی محبت نے مدہوش کررکھا ہے۔ وہ تجھے
میری محبت کے راستے سے روکے گا۔ جان لیجئے یہی لوگ میری محبت کے راستے پر چلنے والے
بندوں پر ڈاکے ڈالنے والے ہیں۔
ان مقامات سلوک و تصوف میں سے ساتواں مقام ’’خاموشی‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی
اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
لاتکثروا الکلام بغير ذکرالله فان الکلام بغير ذکرالله قسوة القلب وان ابعدالخلق من
الله تعالی القلب القاسي.
(ترمذي، السنن 4 : 602 رقم 2411)
’’لوگو اللہ کے ذکر کے بغیر کثرت سے فضول گفتگو نہ کیا کرو، اس بات میں کوئی شک نہیں
کہ اللہ کے ذکر کے بغیر لوگوں سے بات چیت کرنا قلب انسانی کو سخت کردیتا ہے۔ یاد رکھئے
خلق خدا میں اللہ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو‘‘۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جب آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ
نے زمین پر اتارا تو ان کی طرف وحی کی۔
ياآدم اقل من کلامک ترجع الي جواري.
(ديلمي، الفردوس بما ثورالخطاب 1 : 223 رقم 853)
’’اے آدم علیہ السلام لوگوں سے بات چیت بغیر ضرورت کم کیا کرو، ایسا کرنا تمہیں میری
بارگاہ میں دوبارہ لوٹائے گا‘‘۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا :
’’کسی ایسے عمل کی طرف ہماری رہنمائی فرمایئے جس کے کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوں تو
آپ نے فرمایا تم ہمیشہ کے لئے فضول کلام سے پرہیز کیا کرو‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :
العبادة عشرة جزاء تسعة منها فی الصمت وجزء فی الفرار من الناس.
(ديلمی، الفردوس، بماثورالخطاب 3 : 79 رقم : 4222)
’’عبادت کے دس اجزاء ہیں ان میں نو حصے خاموشی پر مشتمل ہیں اور ایک حصہ لوگوں سے دور
ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہونے میں ہے‘‘۔ (جاری ہے)
5۔ پانچواں مقام۔۔۔ تقویٰ
6۔ چھٹا مقام۔۔۔ زُہد
7۔ ساتواں مقام۔۔۔ خاموشی