ڈنمارک کے اخبارات کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاکوں کی اشاعت کی ناپاک جسارت اور گستاخی کے خلاف تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 2 مارچ کو "ناموس رسالت کنونشن" منعقد ہوا۔ کنونشن کی صدرات منہاج القرآن سپریم کونسل کے ممبر محترم صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے کی۔ کنونشن میں جملہ مرکزی قائدین اور ملک بھر سے تحریک منہاج القرآن کے کارکنان و رفقاء اور تحصیلی عہدایدران کے علاوہ ہزاروں افراد نے خصوصی شرکت کی۔
امیر تحریک پنجاب محترم احمد نواز انجم نے کنونشن میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کی طرف سے ملک بھر سے آنے والے شرکاء و مندوبین اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر انہوں نے کنونشن کی غرض و غایت بتاتے ہوئے کہا کہ آج ہم اس کنونشن میں توہین رسالت کی ناپاک جسارت کے خلاف جمع ہیں۔ تحریک منہاج القرآن نے اسلام کے خلاف ہر سازش کا منفرد انداز سے جواب دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے گزشتہ سال شائع شدہ خاکوں کے خلاف دنیا کے تمام رہنماؤں، سربراہان مملکت، انسانی حقوق کے عالمی اداروں، UNO، سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف کو خصوصی مراسلہ ارسال کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اس مکتوب میں شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآن کی طرف سے مؤقف پیش کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت مغرب کی آزادی رائے نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تہذیبوں کے ٹکراؤ کی خفیہ جنگ ہے ۔ اس کے خلاف عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے تاکہ کسی کو بھی دنیا کے کسی بھی مذہب کیخلاف کسی قسم کی گستاخی کی اجازت نہ ہو۔
اس موقع پر نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض نے ماہ فروری میں ہونے والی تقریبات قائد ڈے کے انعقاد پر جملہ تنظیمات و کارکنان کو مبارکباد دی اور ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لئے تحریک کے آئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے شرکاء کو بریفنگ دی۔
ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کنونشن سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کی توہین آمیز جسارت پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ گستاخی کی یہ روایت اس وقت شروع ہو گئی تھی جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے ۔ دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دشمنوں نے ابتداء سے ہی آپ کے خلاف سازشیں اور گستاخی کا سلسلہ شروع کیا جو آج بھی جاری ہے ۔ اس کے مقابلے میں غلامان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آقا علیہ السلام کے ذکر کو فروغ دے کر اس کا جواب دیا۔ اس پس منظر میں ہم آج اس تحفط ناموس رسالت کنونشن میں جمع ہیں۔ منہاج القرآن اس صدی کی تجدیدی تحریک اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس صدی کے مجدد ہیں۔ اس لیے توہین رسالت کیخلاف ہمارے احتجاج کا طریقہ سب سے جدا ہے ۔ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت و عشق کو عام کرنے اور فروغ ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اس گستاخی کا جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہم عشق و محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظیم تحریک کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا کر دم لیں گے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت اور عشق کے چراغ ہر سو جلاکر دم لیں گے۔ ہم گستاخی کا جواب توڑ پھوڑ اور جارحانہ طرزِ عمل سے نیہں دیں گے، کیونکہ وہ ہمیں پھنسانا چاہتا ہے اور ہم پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا لیبل لگانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ احتجاج کریں، گھیراؤ جلاؤ کریں، توڑ پھوڑ کریں تاکہ ان کو عالمی دنیا کے سامنے رکھ کر اسلام اور مسلمانوں کو مزید بدنام کریں۔ لہذا ہمیں ان کی سازش کا شکار نہیں ہونا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو بلند بھی کرنا ہے لہذا ہم محبت و تعلیمات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلائیں گے اور فروغ محبت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تحریک کو نگر نگر پہنچائیں گے ۔
ناظم اعلیٰ نے اپنے خطاب کے اختتام پر ڈنمارک کے اخبارات میں توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر ایک مذمتی قرار دادبھی پیش کی کہ عالمی عدالت انصاف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرے ۔ جس پر ہزاروں شرکاء کنونشن نے اپنے ہاتھ کھڑے کر کے اور تحریک منہاج القرآن کی طرف سے جاری کیے گئے دل کی شکل میں سرخ رنگ کے دائرے میں اسم محمد والے پوسٹر اٹھا کر قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ ہزاروں شرکاء کنونشن کے علاوہ سٹیج پر موجود معزز مہمانان گرامی نے بھی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والے پوسٹر اٹھا کر قرار داد کی حمایت کی۔
کنونشن سے صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے سازشی عناصر مسلمانوں کو مشتعل کر کے انہیں انتہاپسند اور دہشت گرد ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ آج مسلمانوں کو اس سازش کا پردہ چاک کرنے کیلئے ان کے اس مذموم حربے کا جواب بھی حکمت سے دینا چاہیئے ۔ عشاقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کو دنیا میں اتنا پھیلائیں کہ ایسی گستاخیوں کا وجود ہی مٹ جائے ۔ ہر مسلمان کے دل میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا سمندر موجزن ہے اور وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے کوئی بھی ایسی حرکت برداشت نہیں کر سکتے جس میں بے ادبی اور تحقیر کا شائبہ بھی پایا جاتا ہوں۔ ہم اس سازش کا جواب آقا علیہ السلام کی محبت کو مزید عام کر کے دیں گے ۔ ہمارے اس عزم کو ان شاء اللہ ضرور کامیابی ملے گی اور وقت دور نہیں جب دنیا کے کونے کونے میں آقا علیہ السلام کی محبت کے ڈنکے بجیں گے ۔
اس عظیم الشان کنونشن سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادر ی نے کینیڈا سے خصوصی ٹیلی فونک خطاب کیا ۔
خصوصی خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
دنیا بھر کی پوری تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمیشہ اسلام پر حملہ آور ہوتی رہی ہیں ۔ اس وقت بدقسمتی یہ ہے کہ امت مسلمہ پرتفرقہ وانتشار‘ بزدلی اور کمزوری پیدا کرنے کے لئے نظریاتی وثقافتی، عقیدہ و نظریات اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تسلسل کے ساتھ حملے کئے جارہے ہیں۔ اس کا مقصد اسلام کو کمزور کرنا اور نقصان پہنچانا ہے، تاکہ آنے والے وقتوں میں اسلام ایک زندہ مذہب نہ رہے۔ مغربی دنیا کی معاشرتی وسیاسی زندگی یا عائلی وخاندانی زندگی پر قطعی طور پر مذہب کی چھاپ نہیں رہی ہے۔ ان کی ساری زندگی سیکولر ہو چکی ہے۔ انہوں نے اپنیState اور Church الگ الگ کر دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں مذہب ایک رسمی اکائی کے طور پر رہ گیا ہے اور اس کا کوئی عمل دخل زندگی کے کسی امر حتی کہ حلال وحرام میں بھی نہیں رہا۔
ان تمام حملوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام کو اس مقام تک لایاجائے کہ اس کی کوئی وقعت نہ رہے۔ دوسرا یہ کہ جب اس طرز پر حملے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں اس بات کا سو فیصد علم ہے کہ یہ لوگ کمزور ہیں اور دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ہم اس طرح مختلف محاذوں پر حملے کر کے ان کو کمزور کر دیں گے۔ لہذا جب آپ کمزور ہو تے ہیں تو اس وقت طریقہ اور ہوتا ہے اور اگر آپ طاقتورہوں تو کوئی اور طریقہ ہوتاہے ۔جب حالات بدقسمتی سے موافق نہ ہوں جیسے اب ہیں کہ دشمن کو پتہ ہے کہ ہم کمزور ہیں اور کمزور آدمی شور شرابہ ہی کرتاہے ‘ وہ ردعمل میں جو کچھ بھی کرے گا دشمن اس کو دہشت گرد ہی کہیں گے‘ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی ہوئے مگر اس کا جواب خود اللہ تعالی نے دیا اور فرمایا :
هُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.
(المائدہ، 5 : 67)
’’اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘
دشمنان اسلام نے پورے دین پر حملے کی انتہا کر دی مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پورے تیرہ برس میں صبر کی تلقین فرمائی۔ جہاد کے احکام مکی زندگی میں نازل نہیں ہوئے اس لئے کہ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اور ابھی اس اقدام کا وقت نہیں آیا تھا ۔ تین برس تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کا معاشرتی مقاطعہ ہوا اور قید کیاگیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہر اپنی کو ششیں کر رہے تھے۔ جبکہ خاندان بنی ہاشم نے اندر صبر واستقامت کا دامن تھامے رکھا۔ علی ہذا القیاس طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لہولہان کر دیا۔ جب کفارمکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو آپ ہجرت فرما گئے۔ لہذا آج بھی اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہمارے پاس احتجاج اور جنگی محاذ پر مقابلہ کرنے کے لئے وہ طاقت دستیاب نہیں ہوتی تو ظاہری طور پر آپ کا میاب نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کسی کی دانش نہیں ہے۔ اللہ کی غیرت، محبوب کے تحفظ میں ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو حکم دے دیتا اور معجزات کی صورت میں یا اپنے طور پر تدبیر فرما دیتا مگر یہ طریق امت مسلمہ کے لئے قابل عمل نہ رہ سکتا تھا۔ معجزات کا ظہور انبیاء علیہم السلام کی سنت رہی ہے۔ اب امت تو پتھروں کی بارش نہیں کروا سکتی‘ لہذا اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو امت کے لئے قیامت تک اسوہ بنانا ہے تو اس صورتحال میں اللہ تعالی نے اپنے ضابطہ قدرت کو بدل دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری حیات طیبہ کے لئے وہ اسلوب دیا جو پہلے انبیاء علیہم السلام کے اسلوب سے ہٹ کر تھا۔ اللہ تعالی نے یہ Struggle معجزاتی طریقے سے نہیں بلکہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انسانی اسوہ کے ذریعے کروائی ۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کو خطرہ لاحق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اوپر اٹھا لیا مگر ان حالات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اوپر نہیں اٹھایا گیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کروا دی گئی۔ پوری حیات طیبہ میں دفاعی حکمت کے ساتھ ایک قدرتی لائحہ عمل کے تحت ہوا۔ پورا عرصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کی بجائے معاہدہ امن کو ترجیح دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے تو مدنی زندگی میں پورے دس سال تک ان کی توانائی کو محفوظ رکھا۔ دفاعی جنگیں بھی ناگزیر ہوئیں تو لڑی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام غالب آ گیا۔ صلح حدیبیہ 6ھ میں ہوئی ۔ اس وقت تک ابھی احکام جہاد نازل نہیں ہوئے تھے۔ مکی دور کے تیرہ سال اور مدنی زندگی کے چھ سال یعنی 19 سال تک احکام جہاد کے بغیر مسلمان اپنا Defend کرتے رہے صرف آخری تین، چار سال کا عرصہ ہے جس میں احکام جہاد پر عمل رہا۔
آج ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنونشن کے موقع پر پیغام دینا چاہتا ہوں ‘ زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ نشیب وفراز آتے رہتے ہیں۔ سورج کبھی مشرق کی طرف جاتانظر آتا ہے کبھی مغرب کی طرف‘ یہ انسانی زندگی کے بالکل مطابق ہے۔آپ نے ہزار سال کامیابی اور عروج سے گزارے ہیں۔ اب امت مسلمہ کی آزمائش ہے ۔ ان حملوںکے صرف دو مقصد ہیں۔
- ان حملوں کے نتیجے میں مسلمان خوفزدہ ہو جائیں‘ بزدل ہو جائیں اور ہمارا کہنا مان لیں‘ گویا ان کی وقعت ختم کر دی جائے۔
- اگر وہ کہنا نہیں مانتے تو جواب میں احتجاج کریں جب یہ احتجاج کریں گے‘ جلاؤ گھراؤ کریں گے تو ہم انہیں دہشت گرد بنائیں گے۔
اس گھناؤنی سازش کے مقابلے میں اگر امت میں اتفاق و اتحاد آجائے تو امت مضبوط ہو جائے گی۔ ان تمام معاملات میں ہمیں دانش محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کام لینا ہو گا۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہم ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دھوم مچادیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستگی "تمسک" غیرت وحمیت اور اپنی افرادی قوت کو بڑھائیں ۔ یہ تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنیادی طریق ہے۔ ہمارا اسلوب وہ ہے جو آقاعلیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عطا فرمایا ہے ۔ وہ نہیں ہے جس سے پوری امت مشکل میں گرفتار ہو جائے ۔ پس جس قدر یہ لوگ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے دلوں سے کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ اتنی ہی الفت و محبت اور جوش وجذبہ مزید بڑھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق اور عظمت و رفعت کا بھرپور چرچا کرکے ثابت کریں کہ ہمارا یہ عظیم مصطفوی قافلہ مزید آگے بڑھے گا اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ کر رہے گا۔ ان لوگوں کے پاس گولی اور بندوق کا ہتھیار ہے جبکہ آپ کے پاس عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور غیرت وحمیت کا ہتھیار ہے۔ آگے بڑھیں اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو عام کرنے میں محنت کریں۔