القرآن: یزید پر لعن اور کفر کا مسئلہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد ظفیر ہاشمی

گذشتہ سے پیوستہ

شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے ایک اشکال یہ پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ نفسِ انسانی کے قتل کا مسئلہ ہے۔ کسی مومن کو قتل کرنے والا ملعون، فاسق و فاجر اور فعل حرام کا مرتکب ہے مگر اس کے اسی عمل کی وجہ سے اسے کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی اصول کی بناء پر امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے سے کوئی شخص کافر نہیں ہوجاتا، اس لیے کہ انسانی نفس کا قتل حرام فعل ضرور ہے مگر یہ باعثِ کفر نہیں ہے۔ یہ علت قائم کرکے درحقیقت یزید اور اس کے حواریوں کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یاد رکھیں! شہادت امام حسین علیہ السلام نفسِ انسانی کے قتل جیسا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے محض ایک حرام عمل قرار دیا جائے بلکہ سیدنا امام حسین علیہ السلام اور اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کو شہید کرکے درحقیقت حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت پہنچائی گئی ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانا کفر ہے۔

یزید کےبارے میں کفر کا حکم کیوں؟ یہ مسئلہ قرآن مجید کے درج ذیل قاعدہ و کلیہ سے اخذ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں عذاب کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں:

1۔ عذابِ عظیم (بڑا سخت عذاب)

2۔ عذابِ الیم (درد ناک عذاب)

3۔ عذابِ مھین (ذلت انگیز عذاب)

1۔ عذابِ عظیم کا ذکر قرآن مجید میں 15مرتبہ آیا ہے۔ ایسے جرائم جس کے نتیجے میں انسان عذابِ جہنم کا حقدار بنے گا، اس کے لیے ’’عذاب عظیم‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ کافر و غیر کافر دونوں کے لیے آیا ہے۔ جہنم میں صرف کافر نے نہیں جانا بلکہ غیر کافر یعنی کئی مسلمان بھی اپنے ظلم کے باعث جہنم میں جائیں گے۔ الغرض گناہگاروں، فاسقوں، فاجروں، ظالموں، چوروں، جھوٹوں اور ہر قسم کے مجرم کے لیے ’’عذاب عظیم‘‘ کا ذکر آیا ہے۔

2۔ اگر اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر سخت عذاب نازل کرنا چاہے تو اس کے لیے قرآن مجید میں ’’عذاب الیم‘‘ کا لفظ آیا ہے، اس کا معنی درد ناک عذاب ہے۔ قرآن مجید میں عذاب الیم کا ذکر 66 مرتبہ آیا ہے۔ اس لفظ کا استعمال بھی قرآن مجید میں کافروں اور غیر کافر دونوں کے لیے ہوا ہے۔ اس میں عذاب کی شدت عذاب عظیم کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔ قاتلوں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب افراد کے لیے اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ گویا عذاب عظیم اور عذاب الیم کا ذکر کافر اور غیر کافر دونوں کے لیے ہوا ہے۔

3۔ جب عذاب الیم سے بھی زیادہ شدت کا عذاب دینا مقصود ہو تو ’’عذاب مھین‘‘ یعنی اہانت انگیز، ذلت آمیز اور درد ناک عذاب کا ذکر آیا ہے۔ عذاب مھین کاذکر قرآن مجید میں 14 بار آیا ہے اور یہ ذکر صرف کفار و مشرکین کے لیے آیا ہے۔ ذیل میں چند ایک حوالہ جات درج کیے جارہے ہیں:

1۔ سورہ النساء، 37: وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَاباً مُّهِیْنًا.

2۔ سورہ البقرہ، 90: وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ

3۔ آل عمران، 178: وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْۤا.... وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ

4۔ سورہ الحج، 57: وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِنَا فَاُولٰۤئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ

5۔ سورہ جاثیہ، 9: اُولٰۤـئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ

6۔ المجادلہ، 16: اِتَّخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ

گویا قرآن مجید کے جن مقامات پر عذابِ مھین وارد ہوا ہے، وہ صرف کفار کے لیے ہے۔ اُس کا اطلاق غیر کافر پر نہیں ہوسکتا۔ مسلمان کو اس کے برے اعمال کے سبب فاسق، فاجر، حرام کار، لعنت کا حقدار، جو چاہیں کہہ لیں، مگر وہ مسلمان ہے۔ اُس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عذابِ مھین یعنی ذلت آمیز عذاب کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جب عذابِ مھین آجائے تو مراد کافر ومشرک ہے۔

اس قاعدہ و کلیہ کے مطابق جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی اپنے قول، فعل اور عمل کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت پہنچاتا ہے تو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بھی عذابِ مھین کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ، لَعَنَهُمُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا.

(الاحزاب، 33: 57)

’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو اذیت دیتے ہیں، اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘

ایک طرف ’’عذابِ مھین‘‘ کا ذکر قرآن مجید میں کافروں کے لیے آیا ہے اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے والے کے لیے بھی ’’عذاب مھین‘‘ کا ذکر آیا ہے تو اس سے یہ امر متحقق ہوجاتا ہے کہ بلاشک و شبہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت دینے والے کا شمار بھی کفار ومشرکین میں ہے اور وہ جہنمی ہے۔

وہ ائمہ جو یزید پر کفر کا قول کرتے رہے، میں نے ان کی پیروی میں یزید کے بارے میں کفر کا حکم اسی اصول کی بناء پر اختیار کیا ہے۔ پس یزید کے بارے میں کفر کے مسئلہ کی بنیاد ایک مومن کو قتل کرنا نہیں ہے۔ کفر ِ یزید کا جو قول ہم نے اختیار کیاہے، وہ اِس دلیل پر نہیں ہے کہ اُس نے ایک مومن کو قتل کیا۔ نہیں، ہماری یہ دلیل ہی نہیں بلکہ یزید کے بارے میں کفر کا قول رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانے کے سبب ہے۔ یزید نے براهِ راست جان مصطفیٰ ﷺ کو اذیت دی۔ بے شک مومن کو قتل کرنے والا فاسق ہوتا ہےمگر جانِ مصطفیٰ ﷺ کو اذیت دینے والا کافر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سوچ کا رخ ہی بدل گیا ہے۔ ہم غلط پیمانے اور راستے سے حکم کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔ شہادت امام حسین علیہ السلام کو نفسِ انسانی کے قتل کے حکم کے دائرے میں نہیں دیکھا جائے گا بلکہ اسے حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت پہنچانے کے حکم کے دائرے میں دیکھا جائے گا۔

آپ ﷺ اور عام مومنین کو اذیت پہنچانے والے کے بارے میں الگ الگ حکم

قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ اور عام مومن کو اذیت پہنچانے والے کے بارے میں الگ الگ حکم ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت پہنچانے والے کے لیے عذاباً مھیناً کے وہی الفاظ آئے جو کفار و مشرکین کے لیے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ جبکہ عام مومنین کو اذیت پہنچانے والے کے بارے میں قرآنی حکم یہ ہے:

وَٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ بِغَيۡرِ مَا ٱكۡتَسَبُوْا فَقَدِ ٱحۡتَمَلُوْا بُهۡتَٰناً وَإِثۡماً مُّبِيناً.

(الأحزاب، 33: 58)

”اور جو لوگ مومِن مردوں اور مومِن عورتوں کو اذیّت دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا۔ “

یعنی جو مومن مردوں اور عورتوں پر الزام اور تہمت لگا کر انھیں اذیت دیتے ہیں، وہ اپنے اوپر کھلے گناہ کا بوجھ اُٹھا لیتے ہیں مگر جب یہی اذیت امہات المومنین رضی اللہ عنھن کو پہنچائی جائے تو وہاں حکم مختلف ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگی تو اس بابت میں قرآن مجید نے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْٰاخِرَۃِ.

(النور، 24: 23)

’’بے شک جو لوگ ان پارسا مومن عورتوں پر جو (برائی کے تصور سے بھی) بے خبر اور ناآشنا ہیں (ایسی) تہمت لگاتے ہیں، وہ دنیا اور آخرت (دونوں جہانوں) میں ملعون ہیں۔ ‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت مبارکہ خصوصیت کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اب سورہ احزاب کی آیت نمبر58 اور سورہ نور کی مذکورہ آیت کا موازنہ کریں تو واضح ہوجاتا ہے کہ سورۃ الاحزاب میں عام مومن مردوں اور عورتوں پر بہتان لگانے کو گناہ قرار دیا گیا ہے مگر لعنت نہیں بھیجی مگر جب وہی تہمت، وہی الزام، وہی بہتان کا بیان ازواجِ مطہرات کے ساتھ جڑ گیا تو اب چونکہ ان کو اذیت دینا رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینا ہے، ان کی حرمت رسول اللہ ﷺ کی حرمت تک پہنچ جاتی ہے، ان کی عزت و تکریم رسول اللہ ﷺ کی عزت و تکریم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اس لیے قرآن مجید نے اس کا حکم بھی جدا کردیا اور فرمایا کہ ’’لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْٰاخِرَۃِ‘‘ یعنی ایسے لوگوں پر دنیا و آخرت میں لعنت کی گئی ہے۔

قرآن مجید کا منہج ہے کہ جب دنیا اور آخرت دونوں کا عذاب کسی کے لیے تصریح کے ساتھ ایک ساتھ بیان کردیا جائے تو یہ کفر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس لیے کہ جو مسلمان ہوں گے وہ اپنے فسق و فجور کے باعث جہنم کا عرصہ گزار کر پھر شفاعت سے بخش دیئے جائیں گے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان: ’’من قال لاإله إلا الله دخل الجنة‘‘کے مصداق بالآخر جنت میں جائیں گے۔ گویا آخرت کا عذاب اُن کے لیے دائمی نہ رہا۔ مگر جب قرآن مجید نے تصریح کر دی کہ: لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْٰاخِرَۃِ ”وہ دنیا اور آخرت (دونوں جہانوں) میں ملعون ہیں۔“ تو مراد یہ کہ دنیا میں بھی اورآخرت میں بھی ان پر اللہ کی طرف سے لعنت رہے گی اور جس پر آخرت میں ہمیشہ لعنت رہے گی، وہ دوزخ سے نکل کر جنت میں کیسے جاسکتا ہے۔۔۔؟ اگر آخرت میں اس پر لعنت ختم ہوگئی تو قرآن مجید کی مذکورہ نص ٹوٹ گئی۔ لہذا جس پر دنیا اور آخرت کاعذاب اور لعنت کا حکم اکٹھا آجائے تو یہ اُن کے کافر ہونے کی طرف دلالت کرتا ہے۔

اندازہ لگائیں کہ ایک عام نفسِ انسانی کو اذیت دینے والے کے بارے میں کیا حکم (الاحزاب: 58) ہے، ام المومنین رضی اللہ عنہ کے لیے کیا حکم (النور: 23)ہے اور نفسِ رسول و عترتِ رسول اللہ ﷺ کے لیے کیا حکم (الاحزاب: 57) ہے۔ پس اذیت دینے کا عمل حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات تک جاتا ہے تو اذیت دینے والے کے لیے لعنت اور اس عذابِ مھین کا ذکر کیا ہے جو صرف کفار و مشرکین کے لیے ہے اور جب رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے کے جرم میں عذابِ مھین کا ذکر آگیا تو وہ شخص کفار و مشرکین کے دائرے میں چلا گیا۔

علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتا ب الصارم المسلول میں لکھا ہے:

إِنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ أَذَى اللهِ وَرَسُوْلِهِ ﷺ وَبَيْنَ أَذَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ.

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیّت پہنچانا اور اَہلِ اِیمان کو اذیّت پہنچانے میں قرآن نے فرق ‏بیان کیا ہے۔ یعنی دونوں کے حکم کو جدا جدا بیان کیا ہے۔ یہ معلو م ہے کہ مومنون کو اذیت دی جائے تو یہ کبیرہ گنا ہ ہےاور اُس میں سزا ہے مگر جب یہ اذیت اللہ اور رسول ﷺ کو دی جائے تو:

وَلَيْسَ فَوْقَ ذَلِكَ إِلَّا الْكُفْرُ.

(امام ابن تیمیہ، فی الصارم المسلول على شاتم الرسول، ص: 87)

اُس کا حکم اُس سے اوپر ہو گااور اُس سے اوپر سوائے کفر کے اور کوئی حکم نہیں ہے۔

گویا علامہ ابن تیمیہ نے اس امر کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا کہ جس نے اللہ اور رسول ﷺ کو اذیت دی تو اذیت دینے والے کا یہ عمل صرف گناہ کبیرہ تک نہیں رہتا بلکہ وہ پھر کفر پر پہنچتا ہے۔

آپ ﷺ کے لیے باعثِ اذیت افعال

1۔ قرآن مجید میں آقا علیہ السلام کی بارگاہ کے آداب کا ایک تفصیلی بیان مذکور ہے، ان آداب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَمَا كَانَ لَكُمۡ أَن تُؤۡذُوْا رَسُولَ ٱللهِ وَلَآ أَن تَنكِحُوٓا أَزۡوَٰجَهُ مِنۢ بَعۡدِهِٓ أَبَدًا.

(الأحزاب، 33: 53)

یعنی کسی مسلمان کلمہ گو کے شایان شان نہیں اور اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت دے اور آقا علیہ السلام جب وصال فرما جائیں تو اُن کے بعد اُن کی ازواج مطہرات میں سے کسی زوجہ مطہرہ سے تم نکاح نہیں کرسکتے۔

اندازہ لگائیں کہ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد زوجۂ رسول سےنکاح کرنے سے جانِ مصطفیٰ ﷺ کو اذیت پہنچتی ہے تو امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنا، اُن کے سر انور کونیزے پر چڑھانا، شہزادیوں کو قیدی بنا نا، قافلے میں رسوا کرکے دمشق لےجانا اور لبوں پر چھڑی مار کے اُن کی بے توقیری کرنا، اِس سے بڑی اذیت جانِ رسول ﷺ کو اور کیا ہوگی۔ پس اس قدر شدید اذیت کے باعث یزید پر کفر سے کم حکم کسی طرح بھی نہیں ہے۔

2۔ اسی طرح قرآن مجید میں ایک اور مقام پر منافقین کی سازشوں اور پھر ان کی سزا کا ذکر ہے۔ منافقین جو ہر وقت سازشوں کے ذریعے آق علیہ السلام کو اذیت دیتے، آپ ﷺ کو فکر مند کرتے، آپ ﷺ کے خلاف منصوبہ بندی کرتے اور آپ ﷺ کو تکلیف دیتے، اُن کی سزا کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

مَلۡعُونِينَۖ أَيۡنَمَا ثُقِفُوٓاْ أُخِذُوْاْ وَقُتِّلُوْا تَقۡتِيْلاً.

(الأحزاب، 33: 61)

”(یہ) لعنت کیے ہوئے (جنگ جُو، دہشت گرد، فسادی اور ریاست کے خلاف باغیانہ سازشوں میں ملوث) لوگ جہاں کہیں پائے جائیں، گرفتار کر لیے جائیں اور ایک ایک کو (نشان عبرت بناتے ہوئے ان کی باغیانہ کارروائیوں کی سزا کے طور پر) قتل کر دیا جائے (تاکہ امن کو لاحق خطرات کا صفایا ہو جائے)۔ “

اس طرح کی شدید سزا قرآن اور حدیث میں کسی گناہگار مومن اور فاسق فاجر کسی کے لیے بیان نہیں ہوئی۔ یہ سزا اسی صورت ہوتی ہے جب تک کوئی کفر سے بھی اگلی حد کو نہ بڑھ جائے۔ اس سے بھی آقا علیہ السلام کو اذیت دینے کے عمل کی شدت کا مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے۔

شہادتِ امام حسین علیہ السلام، رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانے کا باعث کیسے ہے؟

شہادتِ امام حسین علیہ السلام آپ ﷺ کو اذیت پہنچنے کا باعث کس طرح ہے؟ یہ امر احادیثِ صحیحہ اور احادیثِ حسنہ سے ثابت ہے۔ اس ضمن میں ذیل میں چند احادیث کا ذکر کیا جاتا ہے:

1۔ ایک روز حضور علیہ السلام اچانک سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراd کے گھر تشریف لے گئے۔ شہزادے گھر میں موجود نہیں تھے۔ آپ ﷺ نے جب انھیں گھر میں موجود نہ پایا تو فرمایا:

أَيْنَ ابْنَايَ؟

فاطمہ میرے بیٹے کہاں ہیں؟

سیدہ کائنات سلام اللہ علیہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! اُنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ باہر لے کر گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے جونہی یہ سنا تو آپ ﷺ بھی ان سے ملنے چلے گئے۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے انھیں کھیلتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:

يَا عَلِيُّ، أَلَا تَقْلِبُ ابْنَيَّ قَبْلَ الْحَرِّ.

(اخرجه الحاكم فی المستدرك، 3: 180، الرقم: 4774)

علی ہمیشہ خیال رکھنا کہ میرے بیٹے حسن اور حسین کو گرمی شروع ہوجانے سے پہلے واپس گھر لے کر چلے جایا کرو۔

حسنین کریمین علیہما السلام کے بارے میں یہ احساساتِ مصطفیٰ ﷺ ہیں کہ آپ ﷺ اِن کے جسموں کو گرمی لگنے سے بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس حدیث مبارک سے آپ ﷺ کے حسنین کریمین کے ساتھ احساسات کا تعلق واضح ہورہا ہے۔ ہم بھی باپ، دادا اور نانا ہیں، اولاد والے ہیں، ہمارے بھی بیٹے، بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں۔ ہمارا اپنی ذریت کے ساتھ تو صرف بشری تعلق ہے مگر آقاعلیہ السلام کا تعلق صرف انسانی قلبی احساسات کانہیں بلکہ وہاں احساس بھی ایمان میں بدل جاتا ہے۔ یہ احساس کا تعلق ہمارا ایمان ہے۔ اُ س کو برقرار رکھنا جنت ہے اور اُس احساس کو توڑ دینا، دکھی کر دینا، دوزخ ہے۔ وہاں رشتہ ایمان میں بدل جاتا ہے۔

آقا علیہ السلام کو پہنچنے والی اذیت کا مفہوم اس مثال سے بھی سمجھ میں آجائے گا کہ اگر ہمارے چھوٹے بچے کو کوئی تھپڑ مار دے تو ہمارے جذبا ت کا عالم کیا ہوگا؟ ہم جذبات کے عالم میں غصے میں بھڑ ک اُٹھیں، آگ بگولہ ہوجائیں، جوچاہیں کر دیں، مگر ہمارے جذبات کے بھڑکنے سے مارنے والا کافر نہیں ہوگا، وہ گناہگار ہو گا، فاسق ہوگا، ظالم ہوگا، جو سزا چاہیں دے دیں، دلوا دیں مگر اِس پر کفر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جذبات تو سب کے ایک جیسے ہیں مگر یاد رکھیں کہ حکم ایک جیسا نہیں ہے۔ آقا علیہ السلام کے حسنین کریمین کے بارے میں جذبات ہم سے کروڑوں گنا زیادہ ہیں۔ پس جو اذیت اور تکلیف آقا علیہ السلام کو پہنچی، اُس سے وہ بندہ اُسی لمحے کافر ہوگیا اور خارج از اسلام ہوگیا۔

2۔ امام حسین علیہ السلام کو تکلیف پہنچنے سے جان مصطفیٰ ﷺ کو اذیت پہنچنے سے متعلق ایک اور حدیث ملاحظہ کریں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

كُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا خَلَا سَبَبِي وَنَسَبِي، كُلُّ وَلَدِ أَبٍ فَإِنَّ عَصَبَتَهُمْ لِأَبِيْهِمْ مَا خَلَا وَلَدِ فَاطِمَةَ، فَإِنِّيْ أَنَا أَبُوْهُمْ وَعَصَبَتُهُمْ.

(أخرجه أحمد بن حنبل فی فضائل الصحابۃ، 2: 626، الرقم: 1070)

قیامت کے دن سب نسب، سب رشتے ٹوٹ جائیں گے۔ سوائے میرےنسب کے، وہ قائم رہے گا۔ ہر کسی کا نسب اُس کے باپ کی طرف جاتا ہےمگر میرا نسب فاطمہ کی اولاد ہے۔ ان کا باپ بھی میں ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہوں۔

گویا آپ ﷺ واضح فرمارہے ہیں کہ ان کو محض نفسِ مومن نہ سمجھنا بلکہ نفسِ مصطفیٰ ﷺ سمجھنا۔ معلوم ہوا قتل حسین ایک نفسِ مومن کا قتل نہیں ہے بلکہ ان کا قتل ہے جنھیں آقا علیہ السلام اپنا نسب، ذریت، بضعیت قرار دے رہے ہیں۔ ان پر حملہ حضور علیہ السلام کی جان پر براهِ راست حملہ کرنا ہے۔

کیا یزید نے قتل حسین کا حکم دیا؟

بعض ذہنوں میں یہ مغالطے بھی ڈالے جاتے ہیں کہ یزید نے تو حکم ہی نہیں دیا تھا، یہ تو ابن زیاد نے کیا تھا۔ یزید تو دمشق میں بیٹھا تھا۔ معلوم نہیں کہ اُس نے حکم دیا بھی تھا یانہیں؟ یہ فتنہ اور مغالطہ بھی لوگوں کے ایمان کو آگ لگا دے گا اور فتنے اور گمراہی کے دروازے کھول دے گا۔ یاد رکھیں! بارہ سو سال کی تاریخ میں کسی کو اس امر میں شک نہیں رہا، ہر ایک کو معلوم تھا، علماء، مورخین، اہل سیّر، محدثین، فقہاء، سب کو واضح تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم یزید نے ایک خط کے ذریعے ابن زیاد کو دیاتھا۔ ابن زیاد نے تو صرف اُس کے حکم کی تعمیل کی۔ اِسی وجہ سے یزید نے ابن زیاد، شمر، ابن زیاد کی فوج کے کسی لشکری، کمانڈر اور کسی وزیر کو سزا نہ دی، بلکہ اُن کے رتبے بلند ہوئےاور یزید نےاُن کو انعامات سے نوازا۔ اگر یزید نے حکم نہ دیا ہوتا اور وہ اس کام پر راضی نہ ہوتا تو ابن زیاد کو معطل کر دیتا، اپنی نیک نامی دکھانے کے لیے قتل کردیتا کہ میں اِس قتل میں شریک نہیں، یہ میری اجازت کے بغیر قتل کیاہے، وہ جعلی قسم کے قدم اُٹھا لیتا لیکن اُس نے یہ بھی نہیں کیا۔ یعنی وہ اس حد تک متکبر تھا کہ اس نے اپنا دفاع تک نہیں کیا، مگر افسوس کہ اُس کا دفاع چودہ سو سال کے بعد آج ہم پاکستان میں کر نے لگ گئے ہیں۔ استغفر اللہ العظیم۔

نجانے ہم اِس دور میں اس کا کیوں دفاع کرنے لگ گئے ہیں، جس نے اپنے اس کام پر فخر کے باعث اپنا دفاع خود نہیں کیا۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا رشتہ کتابوں، ائمہ کبار اور مسلک سے تعلق کٹ گیا ہے۔ بارہ سو سال کی تاریخِ سوادِ اعظم سے تعلق کٹ گیا ہے۔ نجانے کونسی بدبختی ہے جس نے حبِ اہلِ بیت ہمارے دلوں سے نکالنی شروع کر دی ہے اور بُغضِ اہلِ بیت بالواسطہ ملفوف طریقے سے ڈالناشروع کر دی ہے اور توجہ کا رخ دوسری سمتوں کی طرف ہو گیا ہے۔

یزید نے ابن زیاد کو جو خط لکھا یہ خط نہ صرف کتب تاریخ بلکہ کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔ امام بلاذری نے انصاب الأشراف میں خط کا حوالہ دیا اور فصل قائم کی ہے: ’’المراسلۃ بین الحسین واہل العراق‘‘ (حسین اوراہل عراق کے درمیان خط وکتابت)، امام ابن عساکر، امام ہیثمی اور امام ذہبی نے اُس خط کو بیان کیا ہے۔ اُس خط میں وہ اشارے کی زبان میں زیاد سے کہتا ہے کہ تمہارے پاس دو آپشن ہیں: حسین کو قتل کردو یا خود قتل ہوجاؤ۔

امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں بیان کیا کہ یزید نے خط لکھ کر صریح حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ محاربت کرو۔ اُس کے نتیجے میں حسین قتل کر دئیے گئے۔

امام ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ میں ابن زیاد کا قول لکھا ہے کہ ابن زیاد سے اس بارے پوچھا گیا تو اس نے کہا:

أَمَّا قَتْلِي الْحُسَيْنَ، فَإِنَّهُ أَشَارَ إِلَيَّ يَزِيدُ بِقَتْلِهِ أَوْ قَتْلِي، فَاخْتَرْتُ قَتْلَهُ.

(ابن الأثير فی الكامل، ثم دخلت سنۃ أربع وستين، 3: 474)

اگر مجھ سے پوچھتے ہو کہ میں نے حسین کو قتل کیوں کیا؟ تو یزید نے مجھے لکھ بھیجا تھا کہ یا حسین کو قتل کردو یا اپنا قتل ہوجانا قبول کرلو۔ سو میں نے اپنی جان بچائی اور اُس کو قتل کر دیا۔

یعنی ابن زیاد نے بھی خود اِس کو قبول کیا۔ جس چیز کا انکار ابن زیاد نہیں کرسکا، سوال یہ ہے کہ اُس کا انکار ہم کیوں کرنےپر آگئے۔ ہمارے ساتھ کیا ماجرا ہوا۔ جس کا انکار بدبخت یزید نہیں کرسکا، ہم اُس کا انکار اور دفاع کس کے لیے کرنے لگ گئے ہیں۔۔۔ ؟

  • یزید نے قتل کا حکم دیا تھا یا نہیں۔۔۔ ؟ اس پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تصریح دیناچاہتا ہوں تاکہ اُس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں بیان کیا ہے کہ یزید نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرنے کے لیے کہا اور کہا کہ میری بیعت کر لو۔ اُس خط کا جواب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے دیا۔ میری کتاب ’’القول المتین فی امر یز ید اللعین‘‘میں یزیدکا یہ خط نقل ہے اورجواب میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا خط بھی موجود ہے۔ اُس خط کے آخری دو جملے پڑھنے کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ کسی مسلمان کے لیے یا کسی عالم کے لیے اِ س موضوع میں شک رکھنے کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید کو لکھا:

أَتَرَانِي أَنْسَى قَتْلَكَ حُسَيْنًا۔ وَفِتْيَانَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، مَصَابِيْحَ الدُّجَى، وَنُجُوْمَ الْأَعْلَامِ. غَادَرَتْهُمْ جُنُوْدُكَ بِأَمْرِكَ.

(أخرجہ الطبرانی فی المعجم الكبير، 10: 241۔ 242، الرقم: 10590)

اے بدبخت یزید! تومجھے اپنی بیعت کرنے کے لیے دعوت دے رہا ہے۔ تمہیں شرم نہیں آئی۔ کیا تو بھول گیا ہے کہ تونے حسین علیہ السلام کو قتل کیا تھا۔ تم نے عبد المطلب کے شہزادوں کو قتل کیا، جن سے دنیا کے اندھیرے دور ہوتے تھے۔ ابن زیاد کے جس لشکر نے قتل کیا، وہ تمہارے حکم سے گئے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس صریح شہادت کے بعد اس امر میں کوئی شک نہیں کہ واقعہ کربلا یزید کے حکم پر ہوا۔

اُس کے بعد پھر ایک اور خط حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید کو لکھا۔ یزید نے پھر ایک خط لکھا۔ جواب الجواب، آپ نےپھر اُس کا جواب بھیجا :

ثُمَّ كَتَبْتَ إِلَى ابْنِ مَرْجَانَةَ يَسْتَقْبِلُهُ بِالْخَيْلِ وَالرِّجَالِ وَالْأَسِنَّةِ وَالسُّيُوْفِ، ثُمَّ كَتَبْتَ إِلَيْهِ بِمُعَاجَلَتِهِ، وَتَرْكِ مُطَاوَلَتِهِ.

’’ اے بدبخت!تو نے ابن مرجانہ کو خط لکھا کہ (ابن مرجانہ ابن زیاد کا لقب ہے۔ ) حسین کا استقبال کرو، گھوڑوں کے ساتھ، لشکروں کے ساتھ، نیزوں کےساتھ، تلواروں کے ساتھ۔ پھر تو نے اسے لکھا کہ اِس معاملے کو فوری نمٹا دو۔ تاخیر نہیں کرنی، ختم کردو۔ طوالت نہیں دینی۔ ‘‘

اور پھر آخر پر لکھتے ہیں کہ :

حَتَّى قَتَلْتَهُ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ فِتْيَانِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَهْلِ الْبَيْتِ.

اے یزید!حتی کہ تونے حسین علیہ السلام کو قتل کردیا اور ان کے ساتھ بنی عبدالمطلب کے جوانوں اور اہل بیت کو قتل کیا۔

کیا اس صریح شہادت کے بعد ابھی بھی کسی کی طبیعت اُس کا دفاع کرنے کو کرتی ہے اور اسے بے گناہ بنا کر باعزت بری کرنے کا دل کرتا ہے۔ اگر یزید کا حکم نہ ہوتا تو ابن زیاد کی کیا جرأت کہ وہ اہل بیت سے ایسا سلوک کرتا، ان کے مقدس اجساد کی بے حرمتی کرتا، اُن کے سرانور کونیزوں پر چڑھاتا اور تمام شہداء اہل بیت کے سروں کو نیزوں پر چڑھا کر جلوس لے کے کوفہ سے دمشق پہنچاتا۔ اہل بیت اطہا رکی اِتنی بے توقیری ابن زیاد کیسے کر سکتا تھا، اگر یزید اُس کی پشت پر کھڑا نہ ہوتا۔

بعد ازاں جب یہ قافلہ یزید کے دربا ر میں پہنچا تو اُس بدبخت نے امام حسین علیہ السلام کے لبوں پر چھڑی ماری اور چھڑی مار کر اُ س نے کہا کہ :

لَيْتَ أَشْيَاخِي بِبَدْرٍ شَهِدُوْا
جَزَعَ الْخَزْرَجِ فِي وَقْعِ الْأَسَلْ
قَدْ قَتَلْنَا الضِّعْفَ مِنْ أَشْرَافِکُمْ
وَعَدَلْنَا مَيْلَ بَدْرٍ فَاعْتَدَلَ

(ابن كثير فی البدایۃ والنھایۃ، 8: 192)

’’کاش! میرے بدر والے آباء و اَجداد نیزوں کی ضرب کی وجہ سے خزرج کی جزع اور چیخ و پکار دیکھ لیتے۔ ہم نے تمہارے سرداروں میں سے دوگنا اَفراد کو قتل کیا ہے اور ہم نے بدر کا حساب برابر کر دیا ہے۔ ‘‘

یزید یہ اعلان کر رہا ہےاور دوسری طرف پاکستان کی سرزمین پر اس کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ اُس نے حکم دیا ہی نہیں تھا۔ اہل بیت رسول سے اِتنی بے وفائی اور تاجدار کائنات ﷺ کی عزت وناموس سے اِتنی بے اعتنائی کا کبھی سوچا نہیں تھا۔ بارہ سو سال کی تاریخ کی تمام کتب یزید کے ان اشعار اور ایسے کلمات سے بھری پڑی ہیں۔ وہ بدر میں مارے جانے والے مشرکوں کےقتل کا بدلہ قتلِ حسین سے لے رہا ہے، کیا اب بھی اس کا ایمان باقی رہ گیا ہے۔

  • یزید کا دفاع کرنے والے اور اس کا ایمان ثابت کرنے والے یزید کے ان اقدامات کے بارے میں کیا کہیں گے جو اس نے واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی بے حرمتی و پامالی کی صورت میں کیے۔ مدینہ میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر پہنچی تو اہل مدینہ نے اُس کی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ یزید نے اس بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی اور واقعہ حرہ پیش آیا۔

جب یزید نے مدینہ منورہ میں لشکر بھیجا تو امیر لشکر کو کہا کہ وہاں کے رہنے والوں کو پہلے میری بیعت کا حکم دینااگر وہ میری بیعت کرلیں توٹھیک ہے۔ اگر انکار کریں تو پھر لشکر کشی کرو۔ میں تمہارے اوپر مدینہ کو تین دن کے لیے حلال کرتا ہوں۔ یہ جملہ کفر در کفر ہے۔ پھر ظلم اور سفاکیت کا بازار گرم کیا گیا۔ مدینہ پاک کی حرمت کو یزید نے پامال کروایا اور سیکڑوں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کو شہید کیا گیا۔ مسجد نبوی ﷺ کو نعوذ باللہ اصطبل بنایا گیا۔ تین دن تک مسجد نبوی میں آذان اور نماز نہ ہوئی۔

یاد رکھیں کہ آقا علیہ السلام کے کپڑوں کی کوئی توہین کر دے، تووہ کافر ہے، آق علیہ السلام کی حدیث کی توہین کر دے، وہ کافر ہے، آقا علیہ السلام عصا مبارک کی توہین کر دے، وہ کافر ہے، آقا علیہ السلام کے اہل بیت کی توہین کرے، وہ کافر ہے، آقا علیہ السلام کے عمامہ مبارک کی توہین کرے، وہ کافر ہے، آپ کے کلمات کی توہین کرے، وہ کافر ہے یعنی گستاخی کی سو اقسام کتب میں بیان کی گئی ہیں۔ سارے کافر ہیں۔ مگر کتنا تعجب ہے کہ جس یزید نے یہ سب کچھ کیا ہے، صرف اس کو کافر نہیں کہا، اِس کو بچا لیا اور کہا کہ اِس پر لعنت نہ کی جائے۔ استغفر اللہ العظیم۔

پھر یہاں بات ختم نہیں ہوئی۔ پھراِ س کے بعد اِس کا لشکر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے خاتمے کے لیے مکہ معظمہ پہنچا۔ مکہ معظمہ پر یزید نے حملہ کرایا۔ مکہ معظمہ کی حرمت پامال کی گئی۔ کعبۃ اللہ پر منجنیق سے پتھر برسائے گئے اور کعبۃ اللہ پر آتش گیر مادہ پھینکا جس سے غلافِ کعبہ جل گیا۔

ابھی کعبہ جلایا جا رہا تھا، پتھر پھینکے جا رہے تھے، اِس کے لشکر نے کعبۃ اللہ اور مکہ معظمہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا کہ اِسی دور ان یزید بدبخت مرگیا۔ جب وہ اِ س ظلم کے دوران مر گیا تو جو لوگ اس کی توبہ کے احتمال کی بات کرتے ہیں کہ شاید کہیں توبہ کر لی ہو۔ سوال یہ ہے کہ توبہ کا وہ احتمال کہاں رہا؟ وہ بدبخت تو روضۂ رسول کو پامال کروا رہا ہے، کعبۃ اللہ کو جلوا رہا ہے اور اِسی دور ان تو وہ مرگیا۔ اب اس کی کونسی سے تو بہ تلاش کرتے ہو۔ ایسے بدبختوں کو توبہ کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ حضور علیہ السلام کے گستاخِ سے توبہ کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ اِس سے بڑا گستاخِ رسول تاریخ انسانی میں اور کون پیدا ہوا ہو گا۔

یزید کے اِن جرائم کے بعد کیا اب بھی اس کے بارے میں سوچنے کی کوئی گنجائش ہے کہ اُس کےلیے لعن کرنا اور کفر کا قول کرنا، بالتعیین درست ہے یا نہیں۔۔۔ ؟

یزید کے کفر کے قائلین ائمہ

یزید کے کفر کے قائلین کبار ائمہ ہیں، ذیل میں ان میں سے چند کے اقوال درج کیے جاتے ہیں:

1۔ امام اعظم اور ائمہ ثلاثہ رحمۃ اللہ علیھم

ایک مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ یزید کے حوالے سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت اختیار فرمایا۔ سن لیں کہ امام اعظم سے سکوت فرمانے کا کوئی قول سرے سے بارہ سو سال میں مروی ہی نہیں ہے۔ کبار ائمہ، علماء، متکلمین، فقہاء، احناف، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ، سلفیہ، کسی کے ایک عالم نے بارہ سو سال میں یہ قول کسی کتاب میں نقل ہی نہیں کیا کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ یزید کے بارے میں سکوت کا قول رکھتے ہیں۔ اِس لیے اس مغالطے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔

یاد رکھیں! سکوت کے قول کے لیے لازم ہوتا ہے کہ آپ سے کوئی پوچھےتو آپ سکوت اختیار کریں۔ یا کہیں کہ سکوت أحوت ہے یا سکوت أحسن ہے یا سوال کے جواب میں چپ رہیں۔ امام اعظمؒ سے سکوت کے بارے میں ایسا کچھ مروی ہی نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ مغالطہ کہاں سے آیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا امام اعظمؒ کا اس حوالے سے کوئی قول ملتابھی ہے یانہیں؟ میں نے بارہ سو سال کی تاریخ اسلام کی جتنی کتب کھنگالی ہیں، ان میں مجھے امام اعظمؒ کے حوالے سے ایک قول ملا ہے اور اُس قول کی کسی کتاب میں نفی نہیں ملی۔ کسی نے اُ س قول کاامام اعظمؒ کی طرف منسوب ہونا رد نہیں کیا۔ یہ قول امام ابوالحسن علی بن محمد الطبری البغدادیؒ کا ہے، جنھیں ہمارے فقہ اور اُصول کی کتابوں میں امام الکیاء الہراسی کہتے ہیں۔ عقائد کی کتب میں ان کے حوالے درج ہیں۔ یہ امام غزالیؒ کے کلاس فیلو ہیں۔ دونوں امام جوینی کے شاگرد ہیں۔ جامعہ نظامیہ بغداد کے وائس چانسلر امام غزالیؒ جب خلوت میں چلےگئے تو اُن کے بعد دس سال تک امام الکیاء الہراسی نےؒ جامعہ نظامیہ بغداد میں امام غزالیؒ کے منصب پر وائس چانسلر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیں، یعنی اِتنا بڑا علمی مقام ہے۔

اِن سے یزید کے بار ے میں پوچھا گیا کہ:

هَلْ هُوَ مِنَ الصَّحَابَةِ؟ وَهَلْ يَجُوْزُ لَعْنُهُ؟

کیا یزید صحابہ میں سے تھا اور کیا اُس پر لعنت کرنا جائز ہے؟ انھوں نے فرمایا:

إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ مِنَ الصَّحَابَةِ.

وہ صحابہ میں سے نہیں تھا۔ (وہ سیدنا فاروق اعظم کے دور میں پیدا ہوا۔ ) پھر اُس پر لعنت بھیجنے کے حوالے سے امام الکیاء الہراسی ائمہ اربعہ کے اقوال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

لِأَحْمَدَ قَوْلَانِ.تَلْوِيْحٌ وَ تَصْرِيْحٌ.

اس حوالے سے امام أحمد بن حنبل کے دو قول ہیں: اشارۃ ً بھی یزید پر لعنت کرنا جائز ہے اور نام لے کر تصریحاً بھی لعنت کرنا جائز ہے۔

وَلِمَالِكٍ قَوْلَانِ: تَلْوِيْحٌ وَ تَصْرِيْحٌ.

امام مالک کے بھی دو قول منقول ہیں: یزید کا نام لے کر بھی تصریحاً لعنت جائز ہے اور اشارتاً تلویحاً بھی لعنت جائز ہے۔

وَلِأَبِي حَنِيْفَةَ قَوْلَانِ: تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ.

امام اعظم سے بھی دو قول ثابت ہیں: اُس کے کرتوت کا ذکر کرکے اشارتاً بھی لعنت کرے اور اُس کا نام لے کر تصریحاً لعنت کرے، یہ بھی جائز ہے۔

وَلَنَا قَوْلٌ وَاحِدٌ اَلتَّصْرِيْحُ دُوْنَ التَّلْوِيْحِ.

ہمارے مذہب میں (یعنی امام شافعی کے ہاں) ایک ہی قول ہے کہ اِس بے ایمان پر اشارے کنائے سے کیوں لعنت کی جائے بلکہ کھلم کھلا، تعیین، تصریحاً نام لے کر لعنت کی جائے۔

(ذكره ابن خلكان فی وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، 3: 387، والكتبی فی فوات الوفيات، 2: 641، وابن الوزير فی العواصم والقواصم فی الذب عن سنۃ أبی القاسم، 8: 39۔ 40، وأيضا فی الروض الباسم فی الذب عن سنۃ أبی القاسم 2: 398۔ 399، والحلبی فی إنسان العيون فی سيرة النبی المأمون، 1: 266۔ 267، وابن العماد فی شذرات الذهب، 4: 8۔ 9)

پس امام الکیاءالہراسیؒ کے مطابق امام اعظمؒ سے بھی یزید پر بالتعیین اور بالتلویح دونوں صورتوں میں لعنت کرنا جائز ہے۔ امام شافعی سے بھی جائز، امام أحمد بن حنبل سے بھی جائز اور امام مالک سے بھی جائز ہے۔ اما م الکیاء الہراسی کے وقت سے آج تک مجھے آٹھ سو سال کے ذخیرۂ علم میں ایک کتاب بھی کسی امام کی نہیں ملی، جنہوں نے اِ س قول کی یا انتساب کی نفی کی ہو۔ اسے کسی نے رد نہیں کیا۔

حتی کہ اس پر مجھے امام عسقلانی کی ایک بہت بڑی تائید ملی۔ امام عسقلانی اپنی کتاب ’’الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع‘‘ میں بیان کرتےہیں کہ ہمارے شیخ سے پوچھا گیا کہ یزید پر لعنت بھیجنے کا قول کیا ہے؟ اُنہوں نے اِس کا جواب دے کر کہا کہ جہاں تک لعنت بھیجنے کا تعلق ہے تو الطبری المعروف الکیاءالہراسی نے سارے اقوال بیان کر دیئے ہیں۔

الطَّبَرِيُّ الْمَعْرُوْفُ بِـالْكِيَا الْهَرَّاسِيِّ الْخِلَافَ فِي الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةِ فِي الْجَوَازِ وَعَدَمِهِ فَاخْتَارَ الْجَوَازَ.

(العسقلانی فی الإمتاع بالأربعين المتباینۃ السماع، ص: 96)

امام عسقلانی کی اس توضیح اور توثیق سے مزید تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ قول امام الکیاء الہراسی کی طرف غلط منسوب نہیں ہے۔

(2) شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ

شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ، امام حدیث جن کے ذریعے علم حدیث برصغیر پاک وہند میں پہنچا اور پھیلا۔ وہ اپنی کتاب تکمیل الإیمان میں لکھتے ہیں:

بعضی دیگر گویند کہ قتلِ امام حسین گناہ کبیرہ است چہ قتل نفس مومنہ بنا حق کبیرہ است نہ کفر ولعنت مخصوص بکافران است و لیت شعری کہ ارباب ایں اقاویل باحادیث نبوی کہ ناطق اند بآنکہ بعض و عداوت و ایذا و اہانتِ فاطمہ و اولاد او موجب بغض و ایذا واہانتِ رسول ﷺ است چہ میگویند۔ وآں سببِ کفر و موجب لعن و خلود نارِ جہنم است.

(عبد الحق محدث دہلوی، تكميل الايمان، ص: 172۔ 173)

’’ایک طبقہ کی رائے ہے کہ قتلِ حسین علیہ السلام دراصل گناهِ کبیرہ ہے۔ مؤمن کا ناحق قتل گناهِ کبیرہ کے زُمرے ميں آتا ہے، کفر کے زمرے میں نہیں آتا۔ جب کہ لعنت تو کافروں کے لیے مخصوص ہے۔ ایسی رائے کا اظہار کرنے والوں پر افسوس ہے۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمانِ اقدس سے بھی بے خبر ہیں، کیوں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی اولادِ اطہار سے بغض و عداوت رکھنا، انہیں تکلیف دینا اور ان کی توہین کرنا باعثِ ایذاءِ رسول ﷺ ہے۔ کیا اہانت و عداوتِ رسول اللہ، کفر و لعنت کا سبب نہیں ہے؟ کیا یہ بات جہنم کی آگ میں پہنچانے کے لیے کافی نہیں ہے؟ ‘‘

پس شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ایذائے رسول کے اسی اُصول پر یزید کے کفر، لعنت اور واصل جہنم ہونے کا قول کیا ہے۔

(3) امام ابن الہمام الحنفیؒ

امام ابن الہما م الحنفیؒ، جو حنفی فقہاء میں سے ہیں۔ ملا علی قاری نے شرح الفقہ الأکبر میں اُن کا حوالہ دے کر نقل کیا ہے کہ جو چیزیں یزید کے کفر پر دلالت کرتی ہیں اُن میں تحلیل خمر بھی ہے۔ پھر فرماتے ہیں:

وَلَعَلَّهُ وَجْهُ مَا قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ بِتَكْفِيْرِهِ لِمَا ثَبَتَ عِنْدَهُ نَقْلُ تَقْرِيْرِهِ.

(الملا علی القاری فی شرح فقہ الأكبر، ص: 88)

شاید اسی وجہ سے امام احمد بن حنبل نے بھی اس کی تکفیر کی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے۔

(4) قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ

قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے تفسیر مظہری میں قرآن مجید کی چار آیات کریمہ کا ذکر کرکے اُن نصوص سے یزید کا کفر ثابت کیا ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے علم الحدیث کے وارث اور حدیث میں ان کے شاگرد ہیں۔

(5) علامہ صدیق حسن خان قنوجی

علامہ صدیق حسن خان قنوجی، برصغیر پاک وہند کے سلفی مکتب فکر کے اہل الحدیث علماء میں سے ہیں۔ اپنی کتاب بغية الرائد في شرح العقائد میں لکھتے ہیں کہ بعض ائمہ نے یزید پر صراحتاً لعنت کا اطلاق کیا ہے۔ جیسے امام أحمد بن حنبل اور اُن کی طرح کے دیگر ائمہ، علامہ ابن جوزی نے یزید پر لعنت کا قول اسلاف سے نقل کیا ہے۔ یزید نے جس وقت امام حسین کےقتل کا حکم دیا، وہ اُسی لمحےکافر ہو گیا۔

علامہ قنوجی کہتے ہیں کہ اکثر علماء کے نزدیک وہ تمام لوگوں سے مبغوض ترین ہے۔ پھر اُس نے امام حسین کے قتل کے بعد مدینہ منورہ کی حرمت پامال کی، باقی صحابہ و تابعین کو قتل کرنے حکم دیا۔ حرم مکہ میں بے دینی کی۔ بدترین حالت میں وہ دنیا سے گزر گیا۔ تواُس کی توبہ اور رجوع کا احتمال کہا ں رہا۔ آخر میں علامہ قنوجی کہتے ہیں:

احتمالِ توبہ و رجوعِ اُو کجا است؟

(صديق حسن القنوجی فی بغیۃ الرائد فی شرح العقائد، ص: 97، 98)

اُسی دوران وہ لعین مر گیا تو اُس کا توبہ کر لینے کا احتمال کہاں رہ گیا؟

الغرض کل کبار جو اِس طرف گئے ہیں، اُنہوں نے امام حسین علیہ السلام کا قتل کے حوالے سے نفس مومن اور نفس انسانی کے قتل سے دلیل نہیں لی اور نہ اُس پر حکم کا مدار رکھا بلکہ وہ اذیت رسول ﷺ کی طرف گئے ہیں۔

(6) علامہ تفتازانیؒ

علامہ تفتازانیؒ نے شرح عقائد نسفیہ میں کہا کہ جس وقت یزید نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا، وہ اُسی لمحے کافر ہوگیا۔ سو جس نے امام حسین سے جنگ کی یا جنگ کرنےکا حکم دیا اُس پر لعنت کے جواز پر سب ائمہ کا اجماع ہے۔

علامہ تفتازانی مزید لکھتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ اِ س یزید کا قتل حسین پر راضی ہونا، اُس کی خوش خبری سننا اور اہل بیت کی توہین کرنا، متواتر المعنیٰ ہے۔ اِ س وجہ سے ہم یزید کے بارے میں ایمان کے مسئلہ پر کوئی توقف اور خاموشی نہیں رکھتے۔ یعنی یزید کے بارے میں یہ شک بھی نہیں کرتے کہ کہیں مومن نہ ہو۔ نہیں، بلکہ جس لمحے اس نے قتل حسین کا حکم دیا، وہ ایمان سے خارج ہو گیا۔ وہ پہلے مسلمان تھا، شراب پیتا تھا، بندروں سے کھیلتا تھا، کتوں سے کھیلتا تھا، بدکاریاں کرتاتھا، وہ فاسق فاجر تھا۔ مگر جس لمحے اُس نے قتل حسین کا حکم دیا، اُسی لمحے وہ کافر ہوگیا کہ وہ اذیت رسول کا حکم دے رہا ہے، جان رسول کو اذیت پہنچانےاور اُن کو بے حرمت کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ اب ہم اس کے ایمان کے مسئلہ پر خاموشی نہیں رکھیں گے کہ پتہ نہیں مومن ہے یانہیں۔ وہ بالکل واضح انداز میں خارج از ایمان ہے۔ پس یزید پر اُس کے حامیوں پر، اُس کے مددگاروں پر سب پر اللہ کی لعنت۔ یاد رکھیں!ایک ایک پر نام لے کر اللہ کی لعنت کرنا، یہ محقق اور مسلم کافر کے بغیر نہیں ہوتا۔

(7) اعلیٰ حضرت شاہ أحمد رضا خان بریلویؒ

اعلیٰ حضرت شاہ أحمد رضا خان بریلویؒ فتاوی رضویہ میں امام أحمد بن حنبل اور دیگر ائمہ سنت کے مذاہب کا ذکر کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ جو یزید کے ملعون اور کافر ہونے کا قول کرے، وہ بھی مورد الزام نہیں ہے چونکہ یہ بھی امام أحمد بن حنبل اور دیگر بعض ائمہ اہل سنت کا مذہب ہے۔

(أحمد رضا خان فی العطايا النبویۃ فی الفتاوى الرضویۃ، 24: 508)

یزید پر کوئی نرمی نہیں

یزید کی طرف داری اور اہل یزید کی طرف داری، ایک رتی برابر میں اس کے بارے نرمی، ہمدردی رکھنا، خواہ کسی بھی بنیاد پر ہو، کوئی بھی گمان کر لیں، یہ دراصل بُغض اہلِ بیت کا شاخسانہ ہے اور ایسا کرنا اپنے خرمنِ ایمان کو جلانے کا سبب ہے۔ لہذا تمام علماء، اساتذہ اپنے طلبہ اور اگلی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کریں۔ یزید کے حوالے سے اِس وقت جو رویے بدل رہے ہیں، پیمانے بدل رہے ہیں اور لوگ نرمی اختیار کرتے ہیں، یہ امر خرمنِ ایمان کو جلانے کا باعث ہے۔ ایک مولوی صاحب سے میں نے سنا کہ ’’یہ دو شہزادوں کے درمیان جنگ تھی۔ یزید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شہزادہ اور امام حسین علیہ السلام حضور نبی اکرم ﷺ کے شہزادے، یہ جنگ اُن کے درمیان جنگ تھی۔ ہمیں خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ بہترہے کہ کچھ نہ کہا جائے۔ ‘‘ میں نے مولوی صاحب کو پکڑ لیا اور کہا کہ خدا کا خوف اور شرم وحیا کرو، یہ شہزادہ کونسا نکل آیا۔ کل تم ابن زیاد کو بھی شہزادہ بنا ڈالوگے کہ وہ بھی حضرت سفیان کا پوتا ہے۔ اِس طرح کی بداعتقادی وہ لوگ پھیلایا کرتے تھے، جنہوں نے ناصبیت اور خارجیت کو ملک میں فروغ دیا۔

فضیلت میں سب برابر نہیں

ایک وقت تھا کہ لوگ شہادت امام حسین علیہ السلام کے جلسے کرتے تھے اور تمام صحابہ اور اہل بیت سے محبت کرتے تھے مگر افسوس کہ آج اُن کے اندر یہ فتنہ داخل کر دیا گیا کہ آج یہی لوگ ان ہستیوں کا آپس میں کا موازانہ کرتے پھرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خلفاء راشدین کے برابر کون ہے۔۔۔ عشرہ مبشرہ کے برابر کون ہے۔۔۔ 313 بدری صحابہ کے برابر کون ہے۔۔۔ پندرہ سو صحابہ جو بیعت رضوان میں تھے اُن کے برابر بقیہ صحابہ میں سے کوئی نہیں۔۔۔ اسی طرح جنھوں نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیااور ایمان لائے یا اُس سے تھوڑا قبل اسلام قبول کیا، اللہ نے ان سے جنت کاوعدہ کیا لیکن اُن کا درجہ خلفاء راشدین، بدری صحابہ، اہلِ بیتِ اطہار کے برابر نہیں۔ لہذا فتح مکہ کے وقت یا اس سے کچھ عرصہ قبل قبول اسلام کرنے والے صحابہ کو ان صحابہ کے ساتھ ملانا جواہل بیت میں ہیں، جو خلافت راشدہ میں ہیں، جو عشرہ مبشرہ میں ہیں، جو 313 بدری صحابہ میں ہیں، جو بیعت رضوان کے صحابہ ہیں، اُن کے ساتھ موازانہ یہ کسی اعتبار سے قرآن، حدیث، سنت، عقیدہ، فقہ اور کلام کے مطابق جائز نہیں۔

لہذا اصلاح کرنی چاہیے اور اپنی فکر کو درست سمت رکھنا چاہیے۔ صدیوں سے اسلاف اور سوادِ اعظم کا جو طریق رہا ہے، اس پر کار بند رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدہ اور عمل کی حفاظت کرے۔۔۔ ہمیں محبت و مودت اہل بیت اور محبت و تعظیم صحابہ پر قائم رکھے۔۔۔ آق علیہ السلام کی غلامی میں رکھے۔۔۔ اور ہر قسم کے فتنہ اور شر سے محفوظ کرے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ