ہر دور میں علم الاخلاق کا مرکزی مسئلہ یہ رہا ہے کہ خیرو شر کی معرفت کا پیمانہ کیا ہے؟یعنی وہ کون سا معیار ہے جس کے ذریعہ اشیاء پر خیر و شر کا حکم لگا یا جائے گا اور کسی عمل کے اچھا یا بُر ا ہونے کا تعین کیا جائے گا؟ اس سلسلہ میں ماہرینِ علم الاخلاق میں اختلاف رہا ہے۔ بعض مفکرین "عرف " کو خیروشر کا پیمانہ قرار دیتے ہیں تو بعض لذت کو۔ کسی نے "فراست" کو معیار قرار دیا تو کوئی ’’منفعت‘‘ کو معیار بنانے کا قائل ہے۔ تاہم حکمائے اسلام کی کثیر تعداد جس میں ابن مسکویہ، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے لوگ شامل ہیں وہ ’’سعادت‘‘ کو خیروشر کا پیمانہ مانتے ہیں اور یہی نظریہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ ’’سعادت‘‘ سے مراد صر ف دنیوی کامیابی و کامرانی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ فوز و فلاح ہے جس میں دنیوی زندگی کی بہتری کے ساتھ ساتھ اُخروی زندگی کی ابدی بھلائی بھی شامل ہو۔ اسے سعادتِ حقیقی، سعادتِ ابدی، سعادتِ تامہ اور مثلِ اعلیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث اور صوفیاءکے ہاں رضائے الٰہی اور ’’نفس مطمئنہ‘‘ کی اصطلاحات بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
عام طور پر سعادت کو خوشی، کامیابی، خوشحالی اور عزت وغیرہ کے معنوں میں لیا جاتا ہے اور ان چیزوں یا ان میں سے بعض کے حصول کو سعادت کی علامت سمجھ لیا جاتا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی لفظ ایسا نہیں ہے جو سعادت کا نعم البدل بن سکے۔ نہ ہی سعادت محض ان چیزوں کے حصول تک محدود ہے۔
مقصدِ تخلیق کی بجا آوری سعادت ہے
سعادت کا حقیقی تصور کیا ہے؟ ابنِ مسکویہ اس حوالے سے فرماتے ہیں:
’’ہر وہ چیز جو موجود ہے اُس کا کوئی مخصوص مقصد ہے جس کے لیے اُسے تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت بطور خاص فنونِ لطیفہ میں زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ فنونِ لطیفہ کا کوئی آلہ یا چیز بغیر کسی مقصد کے نہیں ہوتی۔ مزید برآں کوئی چیز یا آلہ کسی دوسرے کے کام کو مکمل طور پر سرانجام نہیں دے سکتا۔ ہرایک کی اچھائی کا دارو مدار اس نکتے پر ہے کہ جس مخصوص کردارکو ادا کرنے کے لیے اُسے بنایا گیا ہے اور جو اسی کے ساتھ مخصوص ہے وہ اُسے اچھی طرح ادا کر ے۔ لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ انسان کی سعادت اُس مخصوص کردار کو ادا کرنے میں مضمر ہے جو اُس کے ساتھ مختص ہے۔ انسان تمام مخلوقات میں سے افضل و اعلیٰ ہے اور اُس پر یہ قانون نہایت اعلیٰ درجے میں لاگو ہوتا ہے۔ "
(کتاب السعادة، ابن مسکویه، ابو علی، احمد بن محمد، ص: 33، 34)
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ موجوداتِ عالم میں انسان کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور اُس حوالے سے اُس کی تخلیق کی غایت کیا ہے؟ جب ہم کائنانت پر نظر دوڑاتے ہیں تو انواع و اقسام کی مخلوقات مختلف درجات حیوانات، نباتات اور جمادات میں منقسم دکھائی دیتی ہیں۔ سب سے نچلا اور ادنیٰ درجہ جمادات کا ہے جن میں زندگی خوابیدہ حالت میں ہے۔ نہ تو وہ حرکت کر سکتے ہیں اور نہ ہی نشوونما پا سکتے ہیں۔ جمادات سے اوپر والا درجہ نباتات کا ہے جو اگر چہ ایک سے دوسری جگہ تو نہیں جاسکتے تاہم اپنی جگہ پر رہتے ہوئے نشوونما پاتے ہیں، پھلتے پھولتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں کئی قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ نباتات سے اوپر والے درجے میں حیوانات آتے ہیں جن میں نشوونما کے ساتھ ساتھ آزادانہ نقل و حرکت اور بعض دوسری چیز یں ہوتی ہیں جونبا تات کی دنیا میں مفقود ہوتی ہیں۔ تاہم اُن میں زیادہ تر حرکات و سکنات اور افعال جبلی ہوتے ہیں جن میں عقل و شعور کا عمل دخل نہیں ہو تا یا بہت کم ہوتا ہے۔
ان تمام مخلوقات میں انسان کا درجہ کائنات میں بلند ترین ہے۔ انسان میں نشو ونما، آزادانہ نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ اختیار اور عقل و شعور کی قوتیں بھی موجود ہو تی ہیں جن سے دیگر مخلوقات محروم ہوتی ہیں۔
(تهذیب الاخلاق، ابن مسکویه، ص: 55)
موجوداتِ عالم میں انسان کی امتیازی حیثیت کے اس نظریہ کی تصدیق جا بجا قرآنِ مجید سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِى اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.
(التین، 95: 4)
’’بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِى اٰدَمَ.
(الا سراء، 17: 70)
’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی۔‘‘
انسانیت کی ابتدا جہالت و لاعلمی سے ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ قوتِ فکرو تمیز اور علم و آگہی بڑھتی ہے اور انسانیت وحشی پن سے نکل کر تہذیب و تمدن کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ فکر و تمیز ترقی کرتے کرتے جب خود شناسی کی منزل پر پہنچتی ہے تو اس کی سرحد خدا شناسی سے مل جاتی ہے۔ یہ اس فلسفی یا صوفی کا مقام ہے جو ریاضت و مشقت کر کے حقیقتِ مطلق تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ یہ لوگ فرشتوں کی اقلیم کے قریب ہیں۔ آخر میں وہ منفرد ہستیاں ظاہر ہوتی ہیں جنھیں ہم پیغمبر کہتے ہیں۔ یہ الوہیت کی روح کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں اور اس طرح وجود کا دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔
(تهذیب الاخلاق، ابن مسکویه، ابو علی، احمد بن محمد، ص: 59)
عقل کو کامل بنانا نفس کی سعادت ہے
سلسلہ ارتقاءمیں جو چیز انسان کو دیگر موجودات سے ممتاز کرتی اور اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشتی ہے، وہ قوتِ فکر و تمیز یا عقل ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو اسے خود شناسی سے خدا شناسی کی منزل تک لے جاتی اور خدا کی نیابت کا مستحق بناتی ہے۔ پس انسان کی تخلیق کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو حکمت و دانائی کا نمونہ بنائے۔ اس کے نفس کی سعادت بھی اسی میں ہے کہ وہ اپنی عقل کو کامل سے کامل تر بنائے اور عقل کا یہ کمال عمل اور علم دونوں میں ظاہر ہوتا ہے۔
عقل کے دو درجے ہیں:
1۔ درجۂ عمل
2۔ درجۂ علم و نظر
اسی بناء پر نفس کی سعادت کے بھی دو درجے ہوں گے:
1۔ سعادتِ اخلاقی
2۔ سعادتِ قصویٰ
1۔ اخلاقی سعادت کے معنی یہ ہیں کہ انسان عقل، غضب اور شہوت کی تہذیب و اصلاح کے ذریعے اپنے اندر اخلاقِ الٰہیہ پیدا کرے۔ سعادتِ اخلاقی کے حوالے سے قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
صِبْغَةَ اللّـٰهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّـٰهِ صِبْغَةً.
(البقرة، 2: 138)
’’اللہ کا رنگ، اللہ کے رنگ سے اور کس کا رنگ بہتر ہے۔‘‘
حضورنبی اکرم ﷺ نے اللہ کے رنگ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
تخلقوا بأخلاق الله.
(مبارکپوری، تحفۃ الاحوذی، 6: 29)
’’اللہ کے اخلاق اپناؤ۔‘‘
2۔ سعادتِ قصویٰ کا مطلب یہ ہے کہ دین، سائنس اور فلسفے کے مطالعے کے ذریعے انسان پہلے اپنی ذات کو پہچانے اور پھر خدا کی معرفت حاصل کرے۔
سعادتِ قصویٰ کے حوالے سے قرآن کا کہنا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ.
(الذاریات، 51: 56)
’’اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔‘‘
رئیس المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہاں عبادت کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
ای لیعر فون.
(آلوسی، روح المعانی فی سبع المثانی، 27: 25)
’’یعنی میری پہچان حاصل کریں۔‘‘
عقل کے فرائض اور اس کی تربیت کے اصول
عقل کے دو کام ہیں:
1۔ خواہش اور غصہ کی قوتوں کی تہذیب و اصلاح کرنا۔
2۔ غور و فکر کی صلاحیتوں کی اس طرح نشوونما کرناکہ مجرد تصورات کا ادراک کرنا اُن کے لیے آسان ہوجائے۔
پہلے کام کا تعلق عمل و مشق سے ہے دوسرے کا علم و نظر سے ہے۔ ان ہی کاموں کی بنا پر ارسطو نے عقل کے دوحصے کر دیے: ایک کا نام عقلِ عملی رکھا اور دوسرے کا عقلِ نظری۔ آئیے اب ہم دیکھیں کہ ابن مسکویہ نے ان دونوں عقول کی تّر بیت اور نشوو نما کے لیے کیا نصاب تعلیم مقرر کیا ہے؟
1۔ طبعی ترتیب میں عقلِ عملی کا ظہور عقلِ نظری سے پہلے ہوتا ہے، اس لیے تعلیم کی ابتدا بھی ہمیں عقلِ عملی ہی سے کرنی چاہیے۔ اس کی تّر بیت کے لیے مسکویہ نے جو نصاب تجویز کیا ہے اس میں سر فہرست قرآن، حدیث اور ان سے متعلقہ علوم آتے ہیں۔ یعنی تعلیم کی اساس دین پر استوار ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ان فلسفیانہ علوم کی باری آتی ہے جن کا تعلق عمل سے ہے۔ یعنی اخلاقیات، معاشیات اور سیاسیات۔ حکمتِ عملی کے ان تینوں اجزاءپر عبور حاصل کرنے کے بعد عقل عملی کی تربیت مکمل ہو جاتی ہے۔
2۔ ابن مسکویہ کے نظریہ کے مطابق عقلِ عملی کی تربیت کے بعد عقلِ نظری کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کی تّر بیت کے نصاب میں منطق، حساب اور اقلیدس کے تجریدی علوم سر فہرست ہیں۔ ان کے بعد طبعیات، نباتیات، حیوانیات اور نفسیات کے طبعی علوم کی باری آتی ہے۔ سب سے آخر میں مابعد الطبیعیات کا مطالعہ کرنا چاہیے جسے الٰہیات بھی کہتے ہیں۔
(السعاده، ابن مسکویه، ص: 60)
عقلِ عملی اور عقلِ نظری کی اس طرح تربیت کے بعد نفس پر روحانیت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اسے اپنی عملی صلاحیتوں کے کمال کے اعتبار سے خدا کی ذات کا وجدان ہوتا ہے۔ اخلاقی جد و جہد کا منشاءصرف یہی نہیں ہے کہ انسان اپنے اندراخلاقِ الہٰیہ پیدا کرے، صفات کے اعتبار سے وہ اپنے آپ کو خداکے رنگ میں رنگ لے، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اس کی ذات کا عرفان اور رضا بھی حاصل کرے اور کشف و وجدان کی سعادت بھی اسے نصیب ہو۔
درجاتِ سعادت
ابن مسکویہ سعادت کے درجات کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وآخر المراتب في الفضيلة أن تكون أفعال الإنسان كلها أفعالا إلهية، وهذه الأفعال هي خير محض، والفعل إذا كان خيرا محضا فليس يفعله فاعله من أجل شيء آخر غير الفعل نفسه.‘‘
(تهذیب الاخلاق، ابن مسکویة، ابو علی، احمد بن محمد، ص: 91)
’’سعادت کا آخری درجہ یہ ہے کہ انسان کے تمام افعال ’’افعالِ الہٰیہ‘‘ بن جائیں اور یہ ’’خالص خیر‘‘ کا درجہ ہے یعنی اس کی تمام مرضیات فنا ہوکر مرضیاتِ الٰہی کے تابع ہوجائیں کہ اُس کی اپنی مرضی کے کوئی معنیٰ نہ رہیں جو کچھ ہو، خدا کی مرضی ہی ہو۔‘‘
اس درجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ اپنے اُس خاص بندے سے پیار بھرے الفاظ میں مخاطب ہوتا ہے:
يَآ اَيَّتُـهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّـةُ اِرْجِعِى اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِىْ فِىْ عِبَادِيْ وَادْخُلِىْ جَنَّتِيْ.
(الفجر، 89: 27۔30)
’’(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہواور میری جنت میں داخل ہو۔‘‘
جب انسان اس درجہ پر پہنچ جائے کہ وہ اللہ کی رضا کو ہی اپنی رضا بنالے اور صرف اور صرف رب کی رضا کو مدنظر رکھے تو پھر اس کا کوئی عمل اس غرض کے علاوہ سرزد نہیں ہوگا اور وہ کسی غرض و غایت کا پابند نہیں رہے گا اور یہی درجہ مقصود و مطلوب ہے۔
أي هو الأمر الـمطلوب المقصود.
(مسکویة، ابو علی، احمد بن محمد، تهذیب الاخلاق، ص: 91)
’’یہی امر مطلوب و مقصود ہے۔‘‘
انسانی زندگی کا یہی وہ بلند ترین نصب العین ہے جسے قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.
(الانعام، 6: 162)
’’کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔‘‘
حصولِ اخلاق کے طریقے
یہ مسلّمہ امر ہے کہ انسان کی شخصیت کا نکھار اچھے اخلاق میں مضمر ہے۔ اچھے اخلاق کی بدولت انسان نہ صرف اس دنیا بلکہ مرنے کے بعد بھی اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی سعادت سے بہرہ مند ہوگا۔ ابن مسکویہ نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں اچھے اخلاق کو اپنانے کی نہ صرف تلقین کی ہے بلکہ نفس کی تہذیب و تربیت کے لیے کچھ ایسے نکات پیش کیے ہیں جن پر عمل کر کے انسان اپنے اخلاق سنوار سکے۔ یہ طریقے اور نکات درج ذیل ہیں:
1. إيثار الخير على الشر في الأفعال، والحق على الباطل في الاعتقادات، والصدق على الكذب في الأقوال.
’’تمام افعال و اعمال میں خیر کو شرپر، عقائد میں حق کو باطل پر، اور اقوال میں صدق کو کذب پر ہمیشہ فوقیت دینی چاہیے۔‘‘
2. ذکر السعادة، وأن تحصیلها یکون باختیار دائما.
’’سعادت کا ذکر اور اس کا حاصل کرنا ہمیشہ انسان کے اختیار میں رہا ہے۔‘‘
3. کثرة الجهاد الدائم لأجل الحرب الدائم بین الـمرء ونفسه.
’’دائمی جہاد کرتے رہنا یعنی انسان اور نفس کے درمیان جو جنگ جاری رہتی ہے وہ دائمی ہے۔‘‘
4. التمسك بالشريعة، ولذوم وظائفها.
’’شریعتِ اسلامیہ پر عمل کرنا اور اُن تمام اعمال کو لازم پکڑنا جو کہ شریعتِ محمدی ﷺ کے وظائف میں شامل ہیں۔‘‘
یعنی جن باتوں کا حکم دیا ہے اُن کو کرنا اور جن سے منع فرمایا ہے، اُن سے رک جانا۔ ان سب کی سختی سے پابندی کرنا۔
5. حفظ الـمواعید حتی ینجزها، وأول ذلک ما بیني وبینَ الله.
’’تمام جرائم کی وعیدوں کو یاد رکھنا تاکہ انسان گناہوں سے بچ سکے اور اپنے اور خدا کے درمیان معاملات کو درست رکھنا۔‘‘
6. قلة الثقة بالناس بترک الاسترسال.
’’لوگوں سے امیدیں نہ لگانا اور ان سے کثرتِ اختلاط سے بچنا۔‘‘
یعنی لوگوں کے ساتھ بے تکلف ہونے سے احتراز کرنا تاکہ ان پر اعتماد کرنے کی نوبت نہ آئے۔
7. محبة الجمیل، لأنه جمیل لا لغیر ذلك.
’’اللہ کے ساتھ محبت رکھنا اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔‘‘
8. الصمت في أوقات حرکات النفس للکلام، حتی یستشأشر فيه العقل.
’’جب نفس کثرتِ کلام کی طرف مائل ہو تو نفس کو کثرتِ کلام سے روکنا، اور عقل سے بھی مشورہ کرنا۔‘‘
یعنی غصے کی حالت میں خاموشی اختیار کرنا یہاں تک کہ عقل اصل معاملے کو سمجھنے اور صحیح رائے دینے کے قابل ہوجائے۔
9. حفظ الحال التي تحصل في شيء حتی تصیر ملكة ولا تفسد بالاسترسال.
’’اپنے حال کی حفاظت کرنا اور استرسال کی حالت و کیفیت میں فساد اور گناہوں میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
10. الإقدام علی کل ما کان صوابا.
’’ہر نیک کام کی طرف پیش قدمی کرنا۔‘‘
یعنی اچھے اور پسندیدہ کاموں میں دلچسپی لینا اور ان کیلئے اقدام کرنا۔
11. الاشتقاق على الزمان الذي هو العمر يستعمل في المهم دون غيره.
’’صرف ان چیزوں کا شوق ہونا جو کہ آخرت کے اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں اور ان چیزوں سے اجتناب کرنا جو کہ لا یعنی اور فضول ہیں۔‘‘
یعنی ادنی مشاغل کی بجائے اعلیٰ ذہنی اور اخلاقی مشاغل میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا۔
12. ترك الخوف من الموت والفقر بعمل ما ينبغي، وترك الدنية، وترك الأكثرات لأقوال أهل الشر والحسد لئلا يشتغل بمقالتهم، وترك الانفعال لهم.
’’موت کا ڈر دل سے نکال دینا اور فقر کے خوف کو بھی دل میں جگہ نہ دینا اور جتنا کارِ خیر انسان کرسکے اتنا کرتا رہے اور کثرتِ کلام چھوڑ دے۔ ‘‘
یعنی کاہلی سے بچنا، اور غربت و موت کے خوف سے اپنے آپ کو دور رکھنے کیلئے کوئی کسر نہ اٹھا رکھنا۔
13. حسن احتمال الغني والفقر، والكرامة والهوان بجهة وجهة.
’’غناء اور فقر دونوں صورتوں میں اللہ پر بھروسہ رکھنا۔ نیک نیتی اور بدبختی، شائستگی اور حقارت دونوں قسم کے سلوک کا اپنے آپ کو خوگر بنانا۔‘‘
14. ذكر المرض وقت الصحة، والهم وقت السرور، والرضا عند الغضب، يعقل الطغى والبغي، وقوة الأصل وحسن الرجاء.
’’مرض کو صحت کے وقت یاد کرنا، اور غم کو خوشی کے اوقات میں، رضا کو غضب کے وقت یاد کرنا تاکہ طغی اور بغاوتِ نفس کم ہو اور اللہ رب العزت کی رضا پر راضی رہنا چاہیے اور اس سے امید رکھنی چاہیے۔‘‘
یعنی صحت کی حالت میں بیماری کے ایام، غصے میں خوشی و مسرت کے لمحات کو یاد کرنا تاکہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کی نوبت نہ آئے۔
15. الثقة بالله عزوجل وصرف جميع البال إليه.
’’اللہ رب العزت پر توکل کرنا اور تمام معاملات اس ذات کی طرف لوٹانا۔‘‘
یعنی خدا پر بھروسہ رکھنا اور امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔
اگر ابنِ مسکویہ کے ان پندرہ نکاتی پروگرام کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہت واضح ہوجائے گی کہ انہوں نے اس میں دینِ اسلام کی جملہ تعلیمات کو سمونے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ عملی طور پر انسان کو اخلاقیات کے حوالے سے جن چیزوں کو سنوارنے کی ضرورت ہوتی ہے، امام ابن مسکویہ نے انہیں بیان کیا۔ اُنہوں نے ہمیشہ سچ بولنے پر زور دیا۔ صدق و کذب، عقائد و معاملات، خیر و شر، عقل، شریعت کے احکام و قوانین، غرض کہ وہ تمام امور جن کا دین نے حکم دیا اور جن کو اپنانے اور اپنی زندگی میں عملی طور پر شامل کرنے سے انسان اپنی اخلاقیات کو راہِ راست پر لاسکتا ہے، ابن مسکویہ نے اُن تمام ا ُمور کو اپنےاِن نکات میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔