موت۔۔۔۔زندگی کی سب سے بڑی حقیقت

عبدالستار منہاجین

مسلمانوں سمیت تمام آسمانی مذاہب کا یہ عقیدہ ہے کہ جس طرح خالقِ کائنات نے ہمیں پہلی بار پیدا کیا، اُسی طرح وہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ پھر پیدا کرے گا اور ہمیں اپنے اَعمال کی جواب دہی کیلئے اُسی خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہوگا۔

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.

(البقرة، 2: 28)

’’تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

اللہ رب العزت نے اِبتدائے خلق میں تمام اِنسانوں کی رُوحوں کو پیدا کرکے اُن سے اپنی ربوبیت کا اِقرار کروایا تھا۔

أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى.

(الأعراف، 7: 172)

’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے)۔‘‘

تب سے وہ سب عالمِ اَرواح (یعنی روحوں کی دنیا) میں قیام پذیر ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفقہ حدیثِ مبارکہ کے مطابق عالمِ اَرواح میں اکٹھے رہتے ہوئے جن ارواح میں آپس میں جان پہچان ہوگئی تھی، وہ اِس زمینی زندگی کے دوران بھی ایک دُوسرے سے اُلفت اور محبت کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ اور اِس کے برعکس جن ارواح کے درمیان وہاں ایک دُوسرے سے شناسائی نہیں تھی، وہ یہاں آ کر بھی ایک دُوسرے سے ناواقف ہی رہتی ہیں۔

سب اِنسان اپنی اپنی باری پر اِس کرۂ ارض پر آتے ہیں اور اپنی زمینی زندگی کی عمر پوری ہونے پر واپس عالمِ اَرواح کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ عالمِ اَرواح بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے:

1۔ ایک حصے میں وہ ارواح رہتی ہیں جو ابھی دُنیا میں نہیں آئیں اور وہ جسمانی زندگی کیلئے اپنی باری کا اِنتظار کررہی ہیں۔

2۔ دُوسرے حصے میں اپنی جسمانی زندگی گزار کر واپس جانے والی ارواح رہتی ہیں۔ اِس کے مزید دو حصے ہیں:

(i) عِلیّین: اس میں مؤمنین کی ارواح رہتی ہیں۔

(ii) سجین: اس میں کفار و مشرکین اور منافقین کی ارواح رہتی ہیں۔

اِنسان جسم و رُوح کا مجموعہ ہے۔ اِنسان اُس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اُس کے جسم میں رُوح موجود رہتی ہے اور جب موت کا فرشتہ اِنسان کی رُوح اُس کے جسم سے نکال کر عالمِ اَرواح میں واپس لے جاتا ہے تو اِنسان مر جاتا ہے۔ اُس کا جسم آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ جلد از جلد میّت کو غسل دے کر، کفن پہنا کر، نماز جنازہ پڑھیں اور اُسے زمین میں دفن کر دیں۔ اِنسانی جسم میں پہلے سے موجود بیکٹیریا اُس کی موت کے بعد جسم کو مکمل طور پر اُدھیڑنا شروع کر دیتے ہیں، یوں گلنے سڑنے (decomposition) کے مرحلے سے گزرنے کے بعد اُس اِنسان کے جسم کے خلیے دیگر مخلوقات اور نباتات کی خوراک بن جاتے ہیں۔ صرف اللہ ربّ العزت کے انبیاء کرام اور نیک بندوں کے جسم قبروں میں گلنے سڑنے (decomposition) سے محفوظ رہتے ہیں۔

إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ يُرْزَقُ.

(سنن ابن ماجہ، 1: 524، الرقم: 1637)

’’اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اُسے رزق فراہم کیا جاتا ہے۔‘‘

تمام مسلمان اِس پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہر ذِی رُوح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ہماری زندگی کے جتنے لمحے لکھ دیئے گئے ہیں، اُن میں کمی بیشی ممکن نہیں۔ جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آ سکتی۔ گویا موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔

إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَ لاَيَسْتَقْدِمُونَ.

(يونس، 10: 49)

’’جب ان کی (مقررہ) میعاد آپہنچتی ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

موت ہماری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ہزاروں سالوں سے لوگ اِس زمینی دُنیا میں پیدا ہو رہے ہیں اور اپنی زندگی کی طے شدہ عمر پوری کرنے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ کوئی پچاس ساٹھ سال تک جیتا ہے تو کوئی سو سال سے بھی زیادہ زندہ رہتا ہے۔ بالآخر سب کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے اور اپنے ربّ کے حضور حاضر ہو کر اُن آزمائشوں کیلئے جوابدہ ہونا ہوگا، جن سے وہ زندگی میں گزرتے رہے ہیں۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ.

(الأنبيآء، 21: 35)

’’ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لئے مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے۔‘‘

ہمارے ساتھ صرف ہمارے نیک و بد اَعمال جائیں گے۔ یہ زمینی دُنیا ایک اِمتحان گاہ ہے اور ہمارے ساتھ صرف اِمتحان کا نتیجہ ہی جا پائے گا، باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ خواہ ہم ہزاروں سال زندہ رہ لیں، پھر بھی ایک دن ہمیں مرنا ہوگا اور اِس زندگی کے خاتمے کے بعد ہمارا مال و دولت ہمارے کسی کام نہیں آ سکے گا۔ یہ سب جاننے کے باوُجود ہم نفرتوں، کدُورتوں، حسد اور بُغض سے باز کیوں نہیں آ جاتے؟ چند روزہ زندگی پیار، محبت، اَخلاق، اِحساس، خلوص اور ہمدردی کے ساتھ کیوں نہیں گزارتے؟

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُّعَمَّرَ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ.

(البقرة، 2: 96)

’’آپ اُنہیں یقیناً سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس میں مبتلا پائیں گے اور (یہاں تک کہ) مشرکوں سے بھی زیادہ، اُن میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اُسے ہزار برس کی عمر مل جائے، اگر اُسے اِتنی (طوِیل) عمر مل بھی جائے، تو بھی یہ اُسے عذاب سے بچانے والی نہیں ہو سکتی، اور اللہ اُن کے اَعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘

موت... دنیاوی پابندیوں سے آزادی کا ذریعہ

ہماری یہ دُنیاوِی زندگی پنجرے میں قید پرندے کی سی زندگی ہے۔ اِس دُنیاوِی زندگی کی قید سے آزادی کے بعد اِنسان کو مادّی کائنات کی بندشیں روک نہیں پاتیں اور وہ اپنے نیک اَعمال کی بدولت ایسی آزادی پا لیتا ہے کہ وہ آسمانوں کی وُسعتوں میں اڑتا پھرتا ہے۔ موت زندگی کا دوام ہے۔ موت ہمیں حقیقی زندگی تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ موت ہمیشہ قائم رہنے والی نعمتوں کا دروازہ ہے۔

وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى.

(الأعلیٰ، 87: 17)

’’حالانکہ آخرت (کی زندگی) بہتر (ہے) اور (وہ) ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔‘‘

موت دنیاوی پابندیوں سے آزادی کا ذریعہ ہے۔ موت خالقِ کائنات اور اُس کے محبوب نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔ موت سے قبل ہماری رُوح جسم میں قید ہوتی ہے اور موت کے ذریعے وہ اِس قید سے آزاد ہو جاتی ہے اور نیک اَعمال کی صورت میں عالمِ اَرواح میں ’عِلیّین‘ کی خوبصورت زندگی میں رہنا شروع کر دیتی ہے، جہاں زمان و مکان (time & space) کی کوئی قید نہیں ہے۔

ہمیں روزانہ اللہ ربّ العزت سے یوں دُعاگو رہنا چاہیئے کہ:

اللَّهُمَّ اجْعَلْ خَيْرَ عُمُرِي آخِرَهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ خَوَاتِيمَ عَمَلِي رِضْوَانَكَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ خَيْرَ أَيَّامِى يَوْمَ أَلْقَاكَ.

(المعجم الأوسط 9: 157، الرقم: 9411)

’’اے میرے پروردگار! میرے آخری وقت کو میری عمر کا بہترین حصہ بنا دے، اے میرے پروردگار! میرے آخری اعمال کو بہترین بنا دے، اے میرے پروردگار! وہ میری زندگی کے دنوں میں سب سے اچھا اور بہترین دن ہو جس دن میں تجھ سے ملاقات کروں۔‘‘

حدیثِ مبارک میں ہے کہ جب کوئی نیک آدمی وفات پا جاتا ہے تو :

يَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِغَائِبِهِ يَقْدَمُ عَلَيْهِ. فَيَسْأَلُونَهُ: مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ فَيَقُولُونَ: دَعُوهُ، فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا.

(سنن النسائی، 4: 8، الرقم: 1833)

’’فرشتے نیک انسان کی روح کو (عالم ارواح میں) مؤمنین کی روحوں کے پاس لاتے ہیں تو وہ اس کی آمد سے ایسی مسرت محسوس کرتی ہیں جیسے تمہیں اپنے کسی بچھڑے ہوئے شخص کی ملاقات سے بھی نہیں ہوتی۔ پھر وہ ارواح اس سے دنیا کے حالات پوچھتی ہیں کہ (ہمارے بعد) فلاں نے کیا کیا اور فلاں نے کیا کیا؟ (ان میں سے کچھ) کہتی ہیں کہ ابھی اِسے آرام کرنے دو، اِس لیے کہ یہ دنیا کے غموں میں تھا (اور ابھی تک اِسے اِستراحت کا موقع نہیں ملا)۔‘‘

مؤمن کی موت اُس کی روح کی ’عِلیّین‘ کی طرف پرواز ہے، جو اُس کیلئے زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جبکہ کافر و منافق کی موت اُس کے گناہوں میں اِضافے کا خاتمہ ہے، چنانچہ اُس کیلئے بھی یہ بڑی نعمت ہے۔ کسی کی موت پر اُسے بے چارہ کہتے ہوئے دُکھی نہیں ہونا چاہیئے۔ ہم مرنے والے کا ذکر کرتے وقت عموماً اُسے بے چارہ کہتے ہیں، حالانکہ مرنے والا (اگر نیک ہو تو) بڑا ہی خوش نصیب ہوتا ہے کیونکہ وہ اِس فانی دُنیا کے مکروفریب سے نجات پا چکا ہوتا ہے اور وہ اپنے پسماندگان کو بے چارہ خیال کرتا ہے کہ اُن پر ابھی زندگی کی آزمائش باقی ہے۔ موت کو اپنے رشتہ داروں سے جدائی اور غم کے طور پر پیش کرنے کی بجائے اُسے اپنے آباؤ اَجداد اور نیک لوگوں سے ملاقات کا ذریعہ سمجھیں۔ موت دُنیا کے غموں اور تکلیفوں سے راحت کا ذریعہ ہے۔ مؤمنوں کی موت درحقیقت اُن کیلئے راحت ہے۔ اِس لئے ہمیں یہ دعاء سکھائی گئی ہے:

اَللَّهُمَّ اجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِن كُلِّ شَرٍّ.

(صحیح مسلم، 4: 2087، الرقم: 2720)

’’اے اللہ! موت کو میرے لئے ہر قسم کے شر سے راحت کا ذریعہ بنا دے۔‘‘

تصوّر کریں کہ اگر کسی شخص کو پانچ سو سال تک موت جیسی نعمت کے اِنتظار میں زندہ رہنا پڑے تو اُس کی کیا کیفیت ہوگی!! ایسے شخص کیلئے زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوجائے گا!! وہ اِس زمینی دُنیا کی رنگینیوں کے باوُجود اِسے عذاب سمجھنے لگے گا اور ہر پل موت کو ترسے گا۔ ایسے میں اُسے اِس زمینی دُنیا کی قید سے نجات دِلانے کیلئے موت ہی زندگی کی سب سے بڑی نعمت ثابت ہوگی۔

موت سے خوف؟... یا... تیاری؟

عذابِ قبر پر اِصرار کرتے ہوئے لوگوں کو موت سے ایسا خوفزدہ کر دینا کہ وہ اُس سے نفرت کرنے لگیں، یہ کسی صورت میں اِسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔ عذابِ قبر یقیناً حق ہے اور اُس کے وُجود سے اِنکار کرنا اِسلام کے بنیادی عقیدے سے اِنحراف کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم ہر نیک و بد اور ہدایت یافتہ و گمراہ کیلئے عذابِ قبر کو لازمی قرار دینا بھی اُسی طرح اِسلام کی بنیادی تعلیمات سے رُوگردانی کے مترادف ہے۔

اِسلام ہمیں یہ درس نہیں دیتا کہ عذابِ قبر کے عقیدے کو ایسے پیش کیا جائے کہ لوگ اپنے رحیم و کریم رب سے متنفّر ہونے لگیں اور اُسے محض عذاب دینے والا خدا سمجھنے لگیں۔ اِسی غیرمتوازن تبلیغ کا نتیجہ ہے کہ اُمت کی ایک بڑی اکثریت کا عقیدہ یہ بن چکا ہے کہ ہمارا ربّ ہمیں مرنے کے بعد بہت سخت عذاب دے گا، چنانچہ کم از کم اِس زندگی میں تو خوب عیاشی کر لو، بعد میں تو بس عذاب ہی عذاب ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ہم اِس بات پر کیوں اِصرار کرتے ہیں کہ ہمارا ربّ ہمیں صرف عذاب ہی دے گا!! ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر اپنا رحم و کرم کرے گا!! اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ وہ صرف اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو عذاب دے گا:

وَمَن يُشَاقِقِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.

(الأنفال، 8: 13)

’’اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے تو بیشک اللہ (اُسے) سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘

دُوسری طرف اللہ ربّ العزت پر اِیمان رکھنے والے وہ لوگ جو اپنی دُنیوی زندگی میں اچھے کام کرتے ہیں، اللہ تعالی کے اَحکامات کی بجا آوری کے علاوہ اُس کی مخلوق کیلئے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں، اُن کیلئے اِس زمینی زندگی کے بعد ایک ایسی نئی پاکیزہ زندگی کا وعدہ ہے، جو ہمیشہ قائم رہے گی اور کبھی ختم ہونے والی نہ ہوگی:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّه حَیٰوةً طَیِّبَةً وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.

(النحل، 16: 97)

’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اُسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور اُنہیں ضرور اُن کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے، اُن اچھے اَعمال کے عِوض جو وہ انجام دیتے تھے۔‘‘

ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ سے اچھی اُمید رکھیں اور اپنے اُوپر ایسا خوف طاری نہ کریں کہ جو ہمیں اپنے ربّ سے نااُمید کر دے۔ اللہ کا عذاب اُس کے دُشمنوں کیلئے ہے، دوستوں کیلئے نہیں ہے۔

ذَلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ.

(حٰم السجدة، 41: 28)

’’یہ دوزخ اللہ کے دشمنوں کی جزا ہے، اُن کے لئے اِس میں ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔‘‘

اگر ہم مسلمان ہیں اور اللہ سے دُشمنی نہیں رکھتے تو ہمیں بھلا کس بات کا خوف! جب ہم کافر نہیں ہیں تو یقینی بات ہے کہ ہم اللہ کی رحمت سے دُور نہیں پھینک دیئے گئے ہیں۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ اللہ نے ہمیں عذاب کی خاطر پیدا ہی نہیں کیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا، اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے کام کون سے ہیں اور ناراضگی کے کون سے ہیں؟ ہم دُنیا میں آزاد ہیں کہ جو چاہیں وہ کریں۔ اگر ہم اپنی زندگی کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہتر ادائیگی کے ساتھ مزیّن کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ رحیم و کریم ربّ ہم سے ناراض ہو۔ ہمارے اَعمالِ صالحہ قبر میں ہم سے الگ نہ ہوں گے، بلکہ ہمارے مُونس اور غمخوار ہوں گے۔

وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَى.

(الكهف، 18: 88)

’’اور جو شخص اِیمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اُس کے لئے بہتر جزا ہے۔‘‘

قبر کی سختی اور عذاب

اِسلامی عقیدے کے مطابق قبر کی سختی اور عذاب اُسی کو ہوگا جو منکر نکیر (قبر کے فرشتوں) کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالوں کا درست جواب نہیں دے پائے گا۔ منکر نکیر کی طرف سے قبر میں یہ تین سوال پوچھے جاتے ہیں۔پہلے دو سوالوں کے جواب درست ہوں یا غلط؛ تیسرا سوال حتمی اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔

حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِﷺ ، فَيَقُولَانِ لَهُ: وَمَا عِلْمُكَ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ، فَيُنَادِي مُنَادٍ فِي السَّمَاءِ: أَنْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَی الْجَنَّةِ.

(أحمد بن حنبل في المسند، 4: 287، الرقم: 18557)

’’مردے کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ پھر دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اسے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ’’میرا رب اللہ ہے۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ’’میرا دین اسلام ہے۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں کہ تمہاری طرف بھیجے گئے یہ آدمی کون ہیں؟ وہ کہتا ہے: ’’یہ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ وہ اسے کہتے ہیں کہ تیرے علم (بالرسالت) کی حقیقت کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے: ’’میں نے اللہ کی کتاب پڑھی (جس میں ان کا ذکر تھا) سو میں ان پر ایمان لے آیا اور ان کی (کہی ہر بات کی) تصدیق کی۔‘‘ (اسی لمحے)آسمان سے ایک آواز آتی ہے کہ ’’میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو، اسے جنت کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کا دروازہ کھول دو۔‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ تمام سوالات کے جوابات ملنے کے بعد فرشتے جواباً کہتے ہیں:

نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ.

(سنن الترمذی، 3: 383، الرقم: 1071)

’’تو سو جا اُس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگاتا ہے جو اس کے گھر والوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے؛ یہاں تک کہ اللہ اُسے اُس کی اس خواب گاہ سے اُٹھائے گا۔‘‘

لیکن اگر تیسرے سوال کا درست جواب نہ دیا جاسکا تو فرشتے بائیں طرف والی کھڑکی کھول کر اُس میں سے اسے جہنم کا منظر دِکھا کر کہتے ہیں کہ درست جواب نہ دے سکنے کی وجہ سے اب تمہارا مُستقل ٹھکانہ جہنم ہے۔ جانے سے پہلے وہ فرشتے اُس کھڑکی کو قیامت تک کیلئے کھلا چھوڑ جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ کیلئے اُس آگ سے جُھلستا رہتا ہے۔

(سنن أبي داود، كتاب السنة، ج: 4، ص: 239-240، الرقم: 4753)

موت کے بعد جسم و رُوح کا تعلق کیسا ہوگا؟

مرنے والے اِنسان کی رُوح اُس کے جسم سے نکل کر عالمِ اَرواح کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔اِنسان کے مرنے کے بعد اُس کے جسم کا تعلق اِس مادّی دُنیا سے ختم ہو کر عالمِ برزخ کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ موت کے بعد بھی رُوح کا جسم کے ساتھ ایک خاص فاصلاتی تعلق برقرار رہتا ہے، جس کی وجہ سے دونوں ایک دُوسرے پر بیتنے والے معاملات سے آگاہ رہتے ہیں۔

عالمِ برزخ اِس سہ جہتی مادّی دُنیا سے الگ تھلگ جہات پر مبنی ایک جہان ہے۔ مرنے والے کا مُردہ جسم اِسی دُنیا میں موجود ہونے کے باوُجود اِس مادی دُنیا کے اِحساسات سے عاری ہوچکا ہوتا ہے اور وہ عالمِ برزخ کے معاملات کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ مرنے والے پر عذاب یا راحت کا جو بھی معاملہ ہوتا ہے، کرۂ ارض کے مادّی ماحول میں رہنے والے اِنسان اُس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ اُسے صرف وہی جان سکتا ہے جو موت کی دہلیز کو پار کرکے عالمِ برزخ کے ساتھ رابطہ قائم کر چکا ہو۔ مُردے کو اپنے نیک یا بد اَعمال کی وجہ سے جو راحت یا تکلیف محسوس ہوتی ہے، اُسے زندہ اِنسانوں سے مخفی رکھنا اللہ ربّ العزت کے عظیم منصوبے کا حصہ ہے، تاکہ اِیمان بالغیب کے حوالے سے اِنسان کی آزمائش کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہونے پائے۔

حکیم الاُمت علامہ محمد اِقبالؒ نے اپنے بہت سے اَشعار میں موت کو ایک نئی زندگی کے آغاز کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

موت، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے

موت کو سمجھے ہیں غافل اِختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

مؤمن کی موت کی کیفیت کو علامہ اِقبالؒ نے اپنے اِس فارسی شعر میں جس بہترین انداز میں بیان کیا ہے، اُن کی وفات کے وقت اُن کی اپنی حالت بھی ایسی ہی تھی:

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم
چُوں مرگ آید تبسم برلبِ اُوست

’’میں تجھے مردِ مؤمن کی نشانی بتاتا ہوں کہ جب اُسے موت آتی ہے تو اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ ‘‘

اِس دُنیا میں ہماری پیدائش اور موت دونوں کی حیثیت سنگِ میل (milestone) کی سی ہے۔ ہماری اصل پیدائش لاکھوں سال قبل ہوئی تھی، جس کے بعد ہم اپنی زمینی پیدائش کے اِنتظار میں ایک طوِیل زمانے تک عالمِ ارواح میں قیام پذیر رہتے ہیں۔ اِسی طرح زمینی موت بھی ایک سنگِ میل ہے، جس کے بعد ہم اِنعقادِ قیامت کے اِنتظار میں طوِیل زمانے تک عالمِ برزخ میں قیام کرتے ہیں۔