یومِ آزادی، بانئ پاکستان اور لیڈرشپ کے اوصاف

نوراللہ صدیقی

مملکت خداداد پاکستان کے قیام کو 76 برس بیت چکے ہیں۔ آج ہم بطور قوم اپنا یُوم آزادی روایتی جوش و جذبے سے منا رہے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے یوم آزادی کا جشن تجدیدِ عہد اور سجدۂ شُکر کے ساتھ منایا کرتی ہیں۔ اِس آزادی کے لئے ہمارے بزرگوں نے بے مثال قربانیاں پیش کی تھیں۔ لاکھوں مردوزن نے ہر طرح کی قربانی دیتےہوئے ہجرت کی اور آگ و خون کے دریا سے گزرے ، قافلہ آزادی رواں دواں رہا اور بالآخر انہیں آزاد مملکت میں سانس لینا نصیب ہوا۔

آج سے 76 سال قبل حصولِ پاکستان کے لئے جتنی جدوجہد کی گئی تھی، آج تعمیر پاکستان کے لئے اس سے کئی گنا زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ آج پھر تحریک پاکستان جیسے جذبے کی ضرورت ہے۔ آج تعمیرِ پاکستان کے لئے ہمیں قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور ان کے قائدانہ اوصاف سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی، اسی صورت ہم قیامِ پاکستان کے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔

قائداعظمؒ کے بدترین مخالفین بھی انہیں ایک سچااور قوم کا مخلص راہنما تسلیم کرتے تھے۔ ہم جب کبھی بانی پاکستان کے اقوال پڑھتے ہیں تو ہمارا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ ایک سچے لیڈر کی کہی ہوئی باتیں ہیں۔ شہرۂ آفاق شخصیات کو ان کے علم و مرتبہ اور نظریات و عقائداور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں ان کے شخصی محاسن کی وجہ سے بڑا مانا اور تسلیم کیاجاتا ہے، بڑا شخص اپنی عوامی اور نجی زندگی میں اپنے عادات و اطوار کے اعتبار سے بھی بڑا اور اپنے مصاحبین کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے۔ کسی بھی بڑے شخص کی سب سے بڑی خوبی اس کی سچائی اور دیانت و امانت ہوتی ہے۔ فخر موجودات خاتم النبین حضور نبی اکرم ﷺ ابھی منصبِ نبوت پر فائز نہیں ہوئے تھے مگر عرب شرفا میں صادق و امین کی شہرت و شناخت رکھتے تھے اور آپ ﷺ کے اوصافِ حمیدہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان کی ذاتِ اقدس میں عفو و درگزر، احسان، شکر گزاری، ایفائے عہد، شفقت و محبت، صبر و قناعت، معاملہ فہمی، جرأت، عزم، استقامت کے کمال اوصاف ملتے ہیں۔ آپ ﷺ کائنات کے سب سے بڑے لیڈر اور سب سے بڑے رہبر و راہنما ہیں۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت کے بارے میں معاصرین کے تجزیے اور تبصرے تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محمد علی جناحؒ محض کسی کی طرف سے لقب دیے جانے سے قائداعظم نہیں بنے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کے وسیلے سے ان کی طبیعت اور شخصیت کو ایسے اوصاف سے متصف کر دیا تھا جو قدم قدم پر ان کی پذیرائی کا سبب بنے رہے اور اخلاصِ نیت کی وجہ سے آج تک ان کا نام سیاسی، سماجی، عوامی، بین الاقوامی حلقوں میں عزت و احترام سے لیاجاتا ہے۔ زیر نظر تحریر میں ہم بانی پاکستان کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کا احاطہ کریں گے کہ آخر ان کی شخصیت کے وہ کون سے گوشے تھے جن کی وجہ سے وہ اپنے عہد میں بھی اور تاریخ میں بھی معتبر ٹھہرے۔

1۔ قائداعظم...ایک سچے مومن

سر شیخ عبدالقادربارایٹ لاء علامہ اقبالؒ کے معتمد ساتھی تھے۔ انہوں نے قائداعظمؒ سے وابستہ ایک واقعہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی 1926ء میں مجھے محمد علی جناحؒ کے ساتھ دو، تین دن گزارنے کا موقع ملا۔ میں ان کی فصاحت وبلاغت، قانون دانی اور اعلیٰ پائے کی قائدانہ صلاحیتوں کا معترف و مداح تھا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ انگریزی لباس زیب تن کیے ہوئے اس شخص کے اندر ایک انتہائی درجہ کا مومن پوشیدہ ہے جو ملتِ اسلامیہ کے درد سے معمور ہے۔

بانی پاکستان کے خطابات، بیانات اور پیغامات کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں جگہ جگہ قرآن مجید اور حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین مبارکہ کے حوالہ جات ملیں گے۔ یہ محض زیبِ داستان یا اتفاق نہیں ہو سکتا بلکہ سچے اور کھرے لیڈر کا خمیر ہی عشق مصطفی ﷺ سے اٹھتا ہے۔ اُمہ کے کسی سچے لیڈر کا دل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے خالی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ قرآن و سنت میں رقم ہونے والے ارشادات و احکامات سے غافل رہ سکتا ہے۔

5۔ مشاورت پر یقین

ممتاز ادیب ملک حبیب اللہ اپنی کتاب ’’قائداعظمؒ کی شخصیت کا روحانی پہلو‘‘ میں بانی پاکستان کی ایک تقریر کا اقتباس رقم کرتے ہیں کہ بانی پاکستان نے فرمایا: ’’میں بھی انسان ہوں، مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے، لہٰذا ہر شخص کو اختیار ہے کہ میرے کام کے بارے میں مجھے مشورہ دے اور اس پر تنقید کرے۔ قائداعظمؒ فرماتے ہیں کہ یقین کیجئے کہ ہر خط اور ہر تار جو مجھے بھیجا جاتا ہے، میں بذاتِ خود پڑھتا ہوں، ایک ایک سطر پڑھتا ہوں اور میرا زیادہ وقت اسی میں گزرتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان زبانی باتوں کی بجائے جو کچھ سوچے، محسوس کرے مجھے لکھے میں غور کروں گا۔‘‘

یہ الفاظ لیڈر شپ کوالٹی کے حوالے سے سنہری حروف ہیں اور ہر سطح کی قیادت کرنے والوں کے لئے حکمت و دانش کے موتی ہیں، انہیں پلے باندھ لینا چاہیے۔ جو شخص بھی عوامی قیادت کرتا ہے یا کسی منصب پر فائز ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ فیصلے کرتے وقت مشاورت کرے، اپنے ساتھیوں، حلقہ احباب کو اجازت اور حوصلہ دے کہ وہ ان سے کھل کر بات کریں اور اپنی سفارشات پیش کریں تاکہ فیصلہ سازی کے مراحل زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہو سکیں۔ لیڈر مشاورت پر یقین رکھتا ہے اور کبھی تنقید سے نہیں گھبراتا بلکہ ناقدین سے لیڈر سیکھتا اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کرتا ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم جس سطح کی قیادت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، زبانی گفتگو تک محدود رہنے کی بجائے اپنی تحریری تجاویز سے نوازتے رہیں۔ یہ بات ہر سطح کی لیڈر شپ کے ہمہ وقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ منزہ عن الخطاء صرف وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ منصبِ نبوت سے نوازتا ہے، باقی سب کو جماعت کی مشاورت اور تجاویز کی حاجت رہتی ہے۔

میں یہاں احساسِ تفاخر کے ساتھ لکھنا چاہوں گا کہ فی زمانہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہے جن کی مجلس میں بیٹھنے والا ہر شخص کھلے دل و دماغ سے بیٹھتا ہے اور اپنا ما فی الضمیر بیان کرتا ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنے رفقائے کار، کارکنان اور ذمہ داران کی ایسی ماحول میں تربیت کی ہے کہ وہ دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے چنداں نہیں گھبراتے۔ گزشتہ سالوں میں جب پاکستان عوامی تحریک ملکی سیاست میں ایک فعال جدوجہد کررہی تھی، اس دوران مشاورت کے سیشن رات بھر چلتے تھے ،کارکنان اور ذمہ داران کو تجاویز دینے اور مشاورت کے مرحلے میں تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی مکمل آزادی ہوتی تھی۔ شاید یہ اسی مشاورت کے کلچر کا اعجاز ہے کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنان آج بھی سوسائٹی کے اندر منفرد اور اپنی ایک خاص شناخت رکھتے ہیں اور قائد کے ساتھ ان کی محبت آج بھی پختہ تر ہے۔ حالانکہ پچھلی چار دہائیوں میں ہم نے بڑے بڑے رہنماؤں کو آسمانِ سیاست کی کہکشاں بنتے بھی دیکھا اور پھر گرد اور دھول بن کر انہی فضاؤں میں اڑتے ہوئے بھی دیکھا۔

3۔ نظریہ و فکر اور مشن کے ساتھ حد درجہ وابستگی

قائد اپنے نظریات، اہداف اور مشن میں عالمگیریت کا حامل ہوتا ہے اور اس آفاقی فکر میں اس کی ذات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس کا جینا، مرنا، سونا، جاگنا، دوستی، مخالفت، خوشی اور غمی سب نظریہ، فکر اور مشن کے لئے ہوتی ہے۔ نظریاتی اعتبار سے اس کی نگہ بلند اور سخن دلنواز ہوتا ہے۔ قائداعظمؒ کا ایک بیان روزنامہ انقلاب لاہور میں 22 اکتوبر 1939ء میں شائع ہوا جس کو منشی عبدالرحمن نے اپنی کتاب ’’قائداعظمؒ کا مذہب و عقیدہ‘‘ میں شامل کیا ہے۔ بانی پاکستان ایک موقع پر فرماتے ہیں:

’’میں نے دنیا کو بہت دیکھا، شہرت کے بہت لطف اٹھائے، اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں، میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور یہ اطمینان لے کر مروں کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔‘‘

یہ عزم اور یہ سوچ حقیقی معنوں میں کسی مردِ مومن اور حق شناس کی ہی سکتی ہے۔ بانی پاکستان کو اللہ نے دنیاوی آسودگی اور فہم و فراست کی دولت سے مالا مال کیا تھا۔ اگر وہ بندہ مومن کی بجائے بندہ سود و زیاں ہوتے تو اپنے لئے لندن کا کوئی پرآسائش محل منتخب کرتے اور اپنی زندگی کے آخری سال آرام و سکون کے ساتھ بسر کرتے مگر انہوں نے غلام قوم کی آزادی اور حریتِ فکر کے لئے خود کو ایک مشکل اور کٹھن سفر کا مسافر بنایا یعنی لیڈر کی سوچ اور صلاحیتیں ہمہ گیر اور عالمگیر فلاح اور کامیابی کے لئے ہوتی ہیں۔

4۔ عاجزی و انکساری کے پیکر

لیڈر کی ایک خوبی عاجزی و انکساری ہوتی ہے۔ تکبر، نخوت اور بڑے بول کسی کھرے لیڈر کی شخصیت کا حصہ نہیں ہوتے۔ حکیم الامت نے ایک موقع پر فرمایا تھا:

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

بانی پاکستان انگریزوں سے زیادہ اچھی اور شستہ انگریزی بولتے تھے، انگریزوں سے زیادہ اچھی ڈریسنگ کرتے تھے، انگریزوں سے زیادہ خوش خیال، خوش خوراک اور خوش خرام تھے۔ وہ آمدن وسائل ،رہن سہن اور ظاہری بود و باش میں کسی طور کسی وائسرائے سے کم نہ تھے۔ انہوں نے یہ ساری آسودگی باکمال ذہن، قانونی دسترس اور کٹھن جدوجہد سے حاصل کی تھی۔ ان سب دنیاوی اوصاف کے باوجود آپ ایک عاجز و ملنسار بندے تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنے خطاب میں اس طرح کیا کہ :

’’میں نے مسلمانوں اور پاکستان کی جو خدمت کی ہے وہ اسلام کے ایک ادنیٰ سپاہی اور خدمت گزار کی حیثیت سے کی ہے۔‘‘

بانی پاکستان نے کبھی اپنے لئے القابات اور منصبِ جلیلہ کی خواہش نہیں کی اور نہ ہی آپ پروٹوکول کے شائق تھے۔ ہمیشہ سادگی اور وقار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ قائداعظم کے اس کردار سے سبق ملتا ہے کہ سادگی اور عاجزی قائدانہ صفات میں سے ایک صفت ہے۔ لیڈر کبھی اپنے لئے القاب و آداب اور پروٹوکول نہیں مانگتا بلکہ اس کے لئے دلوں میں پائی جانے والی عزت ہی اس کا اصل پروٹوکول ہوتی ہے۔ ہم اپنی زندگی میں بار بار یہ دیکھتے چلے آرہے ہیں اور جب تک زندہ ہیں، دیکھتے رہیں گے کہ ایک شخص جب وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس کی خوشآمد اور رضا جوئی کے لئے سیکڑوں افراد اس کے اطراف میں رہتے ہیں، وہ جب باہر نکلتا ہے تو گاڑیوں کا لمبا قافلہ اس کے شانہ بشانہ ہوتا ہے، وہ نمایاں جگہ پر اٹھنا بیٹھنا پسند کرتا ہے مگر جب وہی شخص منصب سے ہٹتا ہے تو وہ معمولی رینک کے افسران اور اہلکاروں کے دھکوں میں عدالتوں اور مختلف احتساب کے اداروں میں انکوائریاں بھگتتا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنا وکیل، اپنی گاڑی اور اپنے ملازمین کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ یاد رکھیں صبر و قناعت اور عاجزی و انکساری قائد کی ایک نمایاں کوالٹی ہوتی ہے۔

۵۔ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین و بھروسہ

قائد کی ایک صفت اللہ پر کامل بھروسہ اور یقین ہوتا ہے۔ سچا لیڈر رحمن کی آنکھ سے حالات و واقعات کو دیکھتا، تجزیہ کرتا اور دو ٹوک رائے قائم کرتا ہے۔ قائد کے اظہار خیال میں اگر مگر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے اظہار بیان میں کوئی جھول، ’’گرے ایریا‘‘ یا فکری کجی ہوتی ہے۔ بانی پاکستان بھی ایسے ہی تقین والے قائد تھے۔ ممتاز مسلم لیگی راہنما میاں بشیراحمد نے ایک نشست میں بانی پاکستان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ: ’’لوگ کہتے ہیں کہ قرارداد لاہور تو پاس ہو گئی ہے لیکن پاکستان شاید 100 برس میں بن سکے۔‘‘

قائداعظم نے اس موقع پر میز پر موجود قرآن مجید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’جب مسلمانوں کے پاس یہ کتاب موجود ہے، انہیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

حکیم الامت نے کیا خوب فرمایا :

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

قرآن مجید کی فضیلت اور عالمگیریت کے حوالے سے حکیم الامت نے کیا خوب فرمایا:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلمانوں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

اُمہ کے سچے لیڈر کے دل میں قرآن مجید کی محبت موجزن ہوتی ہے۔ 1977ء میں جرمنی میں پاکستان ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام قائداعظمؒ کے جشن صد سالہ کی ایک تقریب منائی گئی۔ اس تقریب میں شریک ایک جرمن سکالر DR. Kraknan نے کہا: ’’قائداعظم محمد علی جناحؒ کے سامنے قرآن مجید تھا‘‘ یعنی یہ جرمن غیر مسلم سکالر اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ بانی پاکستان کی فکری پختگی، استقامت اور واضحیت کی وجہ قرآن مجید تھا۔

6۔ اقربا پروری سے اجتناب

اب آخر میں اقرباپروری کی جڑیں کاٹ کر رکھ دینے والا ایک سچا واقعہ پڑھیں۔ قائداعظم کے آخری ایام میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) گل حسن کی ذمہ داریاں بانی پاکستان کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے ’’آتش فشاں‘‘ میگزین میں ایک انٹرویو دیا۔ انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا کہ کیا قائداعظمؒ کا کوئی عزیز یا رشتہ دار بھی کبھی گورنر جنرل ہاؤس میں ان سے ملنے آیا...؟ اس پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) گل حسن نے جواب دیا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ ان کا بھائی آیا تھا۔ مجھے ان کا اب نام یاد نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا اور بانی پاکستان سے ملاقات کی خواہش کی۔ میں نے وہ وزٹنگ کارڈ اور ملاقات کی خواہش کا معاملہ بانی پاکستان کے سامنے رکھ دیا اور کہا: سر آپ کے بھائی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ بانی پاکستان نے سوال کیا: کون ہے؟ میں نے کارڈ کی طرف اشارہ کیا۔ بانی پاکستان نے پوچھا کہ کیا انہوں نے ملاقات کا پیشگی وقت لیا؟ میں نے جواب دیا: نہیں سر۔ تو اس پر قائداعظمؒ نے فرمایا:

‘‘Then say him Get out’’

جنرل گل حسن مزید بتاتے ہیں کہ میں جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا تو بانی پاکستان نے مجھے زور دار آواز سے واپس بلایا اور انہوں نے میرے ہاتھ سے وہ کارڈ لے لیا اور اس کارڈ پر جہاں لکھا تھا ’’Quaid azam,s Brother‘‘ اس پر سرخ پین سے کانٹا لگاتے ہوئے مجھے کہا کہ اسے کہو کہ کارڈ پر صرف اپنا نام لکھے۔‘‘

خلاصۂ کلام

قائداعظم کے مذکورہ کردار اور اوصاف کی روشنی میں آج ہمیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرنا ہو گا۔ آزادی کے بعد سے آج تک کا ہمارا سفر’’معکوس‘‘ہے ۔ ہم نے آگے نہیں بلکہ پیچھے کی جانب سفر کیاہے۔ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کا خواب دیکھا گیا تھا اور جسے حاصل کرنے کیلئے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر طرح کے وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن ہم اپنی ناہلی کے باعث ان کو بروئے کار نہ لا سکے اور آج ملک قرضوں کی دلدل میں ایسا دھنس چکا ہے کہ عالمی اداروں سے ملنے والے قرض پر ہی ملک کی بقا منحصر ہے۔

کیا قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا:’’‏ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھےجہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘

قائداعظم سے جب بھی سوال پوچھا جاتا تھا تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل قرآن کی شکل میں آئین اور دستور عطا فرما دیا ہے۔ ہمیں کسی اور دستور کی ضرورت نہیں۔ جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، 76 سال گزر جانے پر بھی وہ ایک فلاحی مملکت نہیں بن سکا اور آج بھی یہاں کے رہنے والے بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے ہم قائد اعظم کی تعلیمات اور مقاصد پاکستان کے سامنے رکھتے ہوئے تجدید عہد کریں کہ ہم اپنے ملک و قوم کی بہتری کے لئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے اور اس ملک کی فلاح و بقا کے لئے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔