محرم الحرام کے ایام ہمیں ان عظیم المرتبت ہستیوں کی یاد دلواتے ہیں جنھوں نے دین اسلام کی بقا کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بلاخوف وخطر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کردیا۔ یہ عظیم المرتبت ہستیاں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے وہ نفوسِ مقدسہ ہیں کہ جن سے محبت ومؤدت کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ سے محبت کرو، اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالامال فرما دیا اور وہ تم پر شفقت فرماتا ہے اور تم پر بے حساب رحمت فرماتا ہے۔ مجھ سے محبت کرو تاکہ اللہ تم سے محبت کرے۔ پھر فرمایا: میری اہل بیت سے محبت اِس لیے کرو تاکہ میں تم سے محبت کروں۔
(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، 664، رقم: 3789)
پس حضور ﷺ کی محبت کے حصول کا ذریعہ محبتِ اہلِ بیت ہے۔ آقا ﷺ نے اہلِ بیت سے محبت و مودت کی حد درجہ تلقین فرمائی۔ محبت اہل بیت عمر بھر رہنی چاہئے، اس لیے کہ یہ آقا ﷺ کی محبت ہی کا حصہ ہے۔ اہل بیت کی محبت، عترت و ذریت پاک کی محبت بالخصوص حسنین کریمین کی محبت نہ صرف ہمارے ایمان کاحصہ ہے بلکہ عینِ ایمان ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: ـ
یَا آلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ حُبُّکُمْ
فَرْضٌ مِّنَ اللّٰهِ فِی الْقُرْآنِ اَنْزَلَهُ
’’اے اہل بیت رسول تمہاری محبت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرض کردی ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے۔‘‘
یَکْفِیْکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْفَخْرِاَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُمْ لَا صَلاَة لَهُ
’’اے اہل بیت تمہاری عظمت اور تمہاری شان اور تمہاری مکانت کی بلندی کے لئے اتنی دلیل کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام اور اہلِ بیت اطہار علیہم السلام سے محبت کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ، سیدہ کائنات کی توجہات اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے درکی خیرات کے حصول کاذریعہ ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی قسمیں کھائیں۔ یہ امر کئی لوگو ں کے لیے حیرت کا باعث ہوگا مگر آیئے اس علمی و روحانی نکتہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
فَـلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ.
(الواقعة: 75)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس آیت کا ایک معنی بیان کیا ہے، جسے حضرت عکرمہ، حضرت مجاہد، حضرت عبداللہ بن جبیر، حضرت سدی الکبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نقل کیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسی معنی کی رو سے اس آیت کا درج ذیل ترجمہ کیا ہے:
’’پس میں ان جگہوں کی قسم کھاتا ہے جہاں جہاں قرآن مجید کے مختلف حصے (رسول عربی ﷺ ) پر اترتے ہیں۔‘‘ پھر فرمایا:
وَ اِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ. اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ. فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ. لَّا یَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ.
(الواقعة، 56: 76 تا 79)
’’اور اگر تم سمجھو تو بے شک یہ بہت بڑی قَسم ہے۔ بے شک یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے (جو بڑی عظمت والے رسول ﷺ پر اتر رہا ہے)۔ (اس سے پہلے یہ) لوحِ محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے۔ اس کو پاک (طہارت والے) لوگوں کے سوا کوئی نہیں چُھوئے گا۔‘‘
اِن آیات مبارکہ میں اللہ رب العزت نے دو اہم موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے:
1۔ اللہ رب العزت قسم کھا رہا ہے اور اس قسم کو ان مقامات سے منسوب کررہا ہے جہاں جہاں قرآن مجید کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے ہیں۔
2۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید جسے اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں اپنے انوار و تجلیات میں سمو کر رکھا تھا اور جسے اپنے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل کیا ہے، اس قرآن کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ
لَّا یَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ
کہ پاکیزہ، طہارت والے اور آلودگی سے پاک لوگ ہی اسے چھو سکتے ہیں۔
آیئے! ان دونوں نکات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں:
1۔ نزولِ قرآن کے مقامات کی قَسم
غور طلب مقام یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قرآن مجید کے نازل ہونے والے مقامات کی قسم کھائی ہے کہ میں ان مقامات کی قسم کھاتا ہوں، جہاں جہاں قرآن اترتا ہے تو وہ ہستیاں جن سے قرآن جدا ہی نہ ہو، ان کے مقام کا عالم کیا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس وقت ذکرِ اہلِ بیتؓ پر مشتمل آیات حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہورہی تھیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ اُن مقامات کی قسم کے ساتھ ساتھ ان آیات کے نزول کا سبب بننے والے اہلِ بیتؓ کی قسم بھی کھارہا تھا۔
چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
1۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا.
(الانسان، 76: 8)
’’اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔‘‘
اس آیت کے نزول کا سبب تمام مفسرین کے نزدیک اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام ہیں کہ ایک دفعہ جب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما بیمار ہوگئے تو ان کی صحتیابی پر تین روزوں کی نذر مانی۔ جب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما صحت یاب ہوگئے تو حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت فاطمہؓ اور سیدہ فضہؓ نے روزہ رکھا۔ پہلے دن وقتِ افطار کسی مسکین نے بھوکے ہونے کی صدا دی تو اہلِ بیت علیہم السلام کے مقدس گھرانے کے مقدس نفوس نے اپنی افطاری کا سامان اس مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کرلیا۔ دوسرے دن وقتِ افطار کسی یتیم نے بھوکے ہونے کا اظہار کیا تو افطاری کی چیزیں اُسے عطا کردیں اور خود پانی سے افطار کرلیا۔ تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا کہ ایک قیدی نے آواز دی کہ بھوکا ہوں، ان مقدس ہستیوں نے تیسرے دن کی بھی افطاری کا سامان اس قیدی کو دے دیا اور خود پانی سے افطار کرلیا۔ اگلے دن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے اس ایثار کی قبولیت کے اظہار پر مذکورہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
اس آیت کا نزول اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے لیے ہورہا ہے۔ جب اللہ ہر اُس مقام کی قسم کھاتا ہے جہاں قرآن نازل ہوا تو اب کیسے ممکن ہے کہ مذکورہ آیت کے مقامِ نزول کی قسم تو اللہ کھائے اور وہ اہل بیت جن کے سبب اور جن کے لیے یہ آیت نازل ہورہی ہو، اُن کو اس قسم سے خارج کردے۔ پس جب مقام کی قسم کھائی تو اُس آیت کے نزول کا سبب بننے والے حضرت علی المرتضیؓ، سیدہ کائناتؓ اور حسنین کریمینؓ کی قسم بھی اس مقام کی قسم میں شامل ہوگئی۔
2۔ اسی طرح آیتِ مباہلہ پر غور کریں کہ جب اللہ نے آیت کریمہ نازل کی:
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَنَا وَاَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَناَ وَنِسَآئَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ.
(آل عمران، 3: 61)
’’تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔‘‘
اس آیت کے مصداق آپ ﷺ نے مباہلہ کے لیے حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور حسنین کریمینؓ کو اپنے ساتھ لیا۔ جب اس آیت کے نزول کے مقام کی قسم اللہ تعالیٰ کھا رہا ہے تو لامحالہ ان نفوسِ قدسیہ کی قسم بھی اللہ تعالیٰ کھا رہا ہے جنہیں حضور ﷺ اپنے ساتھ لے کر مباہلہ کے لیے تشریف لے جارہے ہیں۔
3۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّ لَاتَفَرَّقُوْا.
(آل عمران، 3: 103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘
حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’حبل اللّٰہ‘‘ ((اللہ کی رسی) سے مراد اہلِ بیتِ اطہارؓ ہیں۔ گویا اس آیت کا نزول بھی اہلِ بیتِ اطہار کے لیے ہے اور جب اس آیت کے مقامِ نزول کی قسم اللہ کھا رہا ہے تو یقینا ’’حبل اللّٰہ‘‘ کی مراد کے حامل اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی قسم بھی اللہ کھا رہا ہے۔
4۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.
(الاحزاب، 33: 33)
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول ﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘
حضور ﷺ نے اہلِ بیتِ اطہار پر جس مقام پر چادرِ تطہیر کا سایہ کیا، اگر اس مقام کی قسم اللہ کھا رہا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چادرِ تطہیر کے سایہ میں موجود نفوسِ مقدسہ کی قسم نہ کھائی ہو۔
5۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
(الشوری، 42: 23)
’’میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اللہ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)۔‘‘
جب اللہ کے اپنے فرمان کے مطابق اللہ خود اس آیت کے نزول کے مقام کی قسم کھا رہا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس آیت میں جن کی محبت ومؤدت کا ذکر موجود ہے، اُن کی قسم نہ کھائی گئی ہو۔
2. لَّا یَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ کا مفہوم
اول الذکر آیات کریمہ (الواقعہ: 75۔ 79) میں سے آخری آیت میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
لَّا یَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ.
’’اس کو پاک (طہارت والے) لوگوں کے سوا کوئی نہیں چُھوئے گا۔‘‘
الْمُطَهَّرُوْنَ کے درج ذیل معانی مفسرین نے بیان کیے ہیں:
1۔ اس کا اطلاق ظاہری طہارت پر ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو حا لتِ طہارت کے بغیر کوئی چھو نہیں سکتا، یعنی بغیر وضو کے قرآن کو چھو نہیں سکتا۔ کثیر مفسرین نے اس معنی کو بیان کیا ہے۔
2۔ الْمُطَہَّرُوْنَ سے مراد ملائکہ اور انبیاء ہیں۔
3۔ امام قشیری لطائف الاشارات میں بیان کرتے ہیں کہ دوسری قرأت میں اَلمُطَهِرُوْنَ (ھ کے نیچے زیر کے ساتھ: ھِ) ہے۔ اس قرأت کی رو سے معنی یہ ہوگا کہ:
اَلَّذِیْنَ یُطَهِرُوْنَ نُفُوْسَهُمْ عَنِ الذِّنُوْبِ وَخُلُقِ الدنی.
وہ نفوسِ قدسیہ جو ہر قسم کی آلودگی، رذائلِ نفس، رذائلِ ظاہریہ و باطنیہ اور ہر طرح کے شک و نقص سے پاک ہوتے ہیں اور ہر طرح کی دنیوی شہوتوں، دنیا کی آلودگی، گندگی، نجاست اور ہر بری سوچ سے پاک ہوکر اس قابل ہوجاتے ہیں کہ قرآن ان کے ہاتھ میں آجائے۔
معلوم ہوا کہ یہ لوگ یا تو ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں طہارت خود مل رہی ہوتی ہے یا کوئی اور انھیں پاک کررہا ہوتا ہے یعنی کوئی وسیلہ انہیں طہارت دلوارہا ہوتا ہے۔
المطہرون کے اس آخری معنی و مفہوم کو سامنے رکھ کر قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ پر غور کریں کہ جس میں فرمایا گیا:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.
(الاحزاب، 33: 33)
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول ﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘
امام قشیری نے اس عقدے کو حل کردیا اور واضح کردیا کہ مُطَهِرُوْن سے مراد یہ ہے کہ جن کی زندگی کا مقصد ہی طہارت ہے، جن کی سوچ طہارت سے نکلتی ہے، جن کا ارادہ طہارت سے ماخوذ ہوتا ہے، جن کا وجود بھی طاہر ہے، جن کی بنیاد بھی طہارت پر ہے، جن کا وجود طہارت پیدا کرنے والا ہے اور اگر کوئی ان سے مس ہوجائے اور ان کے در پر آجائے تو وہ بھی طاہر و مطہر ہوجاتا ہے۔ اگر ان سے نسبت رکھنے و الوں کایہ عالم ہوجائے کہ وہ طاہر و مطہر ہوجاتے ہیں تو ذرا سوچئے کہ اُن کی اپنی طہارت کا عالم کیا ہوگا۔
ان نفوسِ قدسیہ کی طہارت کو جاننا چاہیں تو اس حدیث مبارک پر غور کریں کہ حضرت صفیہ بنت شیبہ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ
’’حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت باہر تشریف لائے در آں حالیکہ آپ ﷺ نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حسن بن علی علیھما السلام آئے تو آپ ﷺ نے انہیں اس چادر میں داخل کرلیا پھر حسین علیہ السلام آئے اور آپ کے ہمراہ چادر میں داخل ہوگئے، پھر فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں، آپ ﷺ نے انہیں اس چادر میں داخل کرلیا، پھر علی علیہ السلام آئے تو آپ ﷺ نے انہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ’’اے اہل بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کردے اور م کو کمال درجہ طہارت سے نواز دے۔‘‘
(مسلم، الصحیح، 4: 1883، کتاب فضائل الصحابہ، رقم: 2424)
اِن نفوسِ قدسیہ کو اپنی چادر میں داخل کرنے کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے جو آیت تلاوت کی اس میں آپ ﷺ نے اللہ کے ارادے سے امتِ مسلمہ کو مطلع فرمایا۔ اللہ کا ایک ارادہ تو وہ ہے جو آیت مبارکہ میں نازل ہوا اور ایک ارادہ وہ ہے جو عملِ مصطفی ﷺ سے ظاہر ہورہا ہے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ سے صادر ہونے والے جملہ اقوال و اعمال مبنی بر وحی ہوتے ہیں۔ اللہ نے ایک طرف وحی متلو اور وحی جلی کے ذریعے انما یریداللہ لیذہب عنکم الرجس کے الفاظ حضور ﷺ کی زبانِ مبارک سے کہلوائے اور دوسری طرف وحی غیر متلو اور وحی خفی کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کو اہلِ بیتِ اطہار کے نفوسِ مقدسہ کو چادر تطہیر میں جمع کرنے کا حکم دیا تاکہ امت کو معلوم ہوجائے کہ یہ اہلِ بیت ہیں، جن سے اللہ نے ہر طرح کی آلودگی اور گناہوں کو دور کردیا اور ہر طرح کی آلودگی، شک، نقص اور دنیوی آلائشوں سے پاک صاف کردیا ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پروردہ عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت امِ سلمہj کے گھر حضور نبی اکرم ﷺ پر یہ آیت (اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا) نازل ہوئی تو:
فدعا فاطمة وحسنا و حسینا فجللهم بکساء وعلی خلف ظهره فجلله بکساء ثم قال: اللهم! ھولاء اهل بیتی، فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا.
(ترمذی، الجامع الصحیح، 5: 351، کتاب تفسیر القرآن، رقم: 3205)
’’آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اللہ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے تھے، آپ ﷺ نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا: اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کردے۔‘‘
یعنی آپ ﷺ نے چادرِ تطہیر میں حضرت فاطمہؓ کو اپنے سامنے بٹھالیا، امام حسن علیہ السلام کو دائیں طرف بٹھالیا، امام حسین علیہ السلام کو بائیں طرف بٹھالیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے بٹھالیا۔ ان نفوسِ مقدسہ کو اس ترتیب سے بٹھانے میں بھی ایک راز پنہاں ہے۔ اس راز سے آگاہی کے لیے قرآن مجید کی اس آیت کی طرف غور کریں، جس میں شیطان کے حملوں کا ذکر ہے کہ شیطان کہتا ہے:
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِهِمْ.
(الاعراف، 7: 17)
’’پھر میں یقینا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا۔‘‘
آپ ﷺ کے اس عمل میں اشارہ ہے کہ اگر شیطان اوپر کی جانب سے حملہ آور ہوگا تو اوپر میری چادرِ تطہیر ہے، شیطان اگر دائیں سے آنا چاہے گا تو وہاں میرا حسن علیہ السلام موجود ہوگا، بائیں سے آنا چاہے گا تو وہاں میرا حسین علیہ السلام موجود ہوگا، سامنے سے آنا چاہے گا تو وہاں میری فاطمہh موجود ہوگی، پیچھے سے آنا چاہے گا تو وہاں علی علیہ السلام موجود ہوگا۔ بتانا مقصود تھا کہ جب تک یہ سہارا امت کے پاس رہے گا، شیطان اُن سے دولتِ ایمان کو نہیں چھین سکتا۔
قرآن مجید اور اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام
اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام امتِ مسلمہ کے لیے کس درجہ کی نعمت ہیں؟ اس کا اظہار حضور نبی اکرم ﷺ کی درج ذیل روایت سے ہوتا ہے۔ سیدنا زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إنی تارک فیکم ما إن تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی، احدهما اعظم من الآخر، کتاب الله حبل ممدود من السماء إلی الارض، وعترتی اهل بیتی، ولن یتفرقا حتی یردا علی الحوض، فانظروا کیف تخلفونی فیهما.
(سنن ترمذی، کتاب فضائل مناقب، باب مناقب اہل بیت نبی ﷺ، رقم: 3788)
’’میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوضِ کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو‘‘۔
کتاب اللہ کے بعد اپنی عترت کی بات کرکے آپ ﷺ نے اصل عقیدہ واضح کردیا کہ یہ دونوں نعمتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ میری عترت کا عالم یہ ہے کہ یہ خود قرآن سے جڑے ہوئے ہیں اور قرآن اِن سے جڑا ہوا ہے اور اگر تم میری اہلِ بیت سے جڑ جائو گے تو قرآن تمہارا ہوگیا اور تم اہلِ بیت اطہار کے ہوگئے۔
مزید فرمایا کہ قرآن اور میرے اہلِ بیت آپس میں ایسے جڑے ہوں گے کہ ولن یتفرقا حتی یردا علی الحوض
یہ آپس میں جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ سارا دور گزار کر روزِ محشر حوضِ کوثر پر میرے پاس دونوں ساتھ ساتھ آئیں گے۔ یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ روزِ محشر اکٹھے ہوں گے۔ نہیں بلکہ فرمایا: لن یتفرقا دونوں کبھی جدا ہی نہ ہوئے ہوں گے، دنیا میں بھی ایک ساتھ ہوں گے اور آخرت میں بھی ایک ساتھ ہوں گے۔
آقا علیہ السلام نے اپنے اس فرمان کے ذریعے ایک عقیدہ واضح کردیا ہے۔ آیئے اس عقیدہ کو سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا توحید، رسالت، ملائکہ، بعث بعد الموت، علم کائنات و مافیھا کا علم قرآن مجید میں ہے یا نہیں؟ جب سب کچھ قرآن مجید میں ہے تو پھر یہ کیوں نہیں فرمایا کہ صرف قرآن کو تھام لو، کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ قرآن مجید کے ساتھ اپنی عترت اور اہلِ بیت کو شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ ہر چیز کا بیان اور رہنمائی قرآن میں موجود ہے؟
دراصل سمجھانا یہ مقصود تھا کہ یہ دونوں عینِ یک دیگر ہیں جو کچھ قرآن میں ہے، وہی اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے نفوسِ قدسیہ میں ہے اور جو کچھ ان نفوسِ مطہرہ میں ہے، وہی کچھ قرآن میں ہے۔ پس جو قرآن کا ہوگیا، وہ اہلِ بیت اطہار کا ہوگیا اور جو کوئی اہلِ بیت اطہار کا ہوگیا وہ قرآن کا ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی محبت عطا فرمائے اور ان کی سیرت کے مطابق اپنے اعمال و احوال کو سنوارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ