حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ’’فوائد الفواد‘‘ کے جامع سید امیر حسن سنجری نے اس کتاب میں اخلاقی، تربیتی اور تہذیبی اقدار کے وہ لاثانی مرقعے پیش کردیے ہیں ، جو زمان و مکان کی قید سے خارج ہیں- اس تحریر میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے ایسے مستند اقوال ’’فوائد الفواد‘‘ سے جمع کیے جائیں، جن میں ایسی تعلیمات صوفیہ موجود ہوں جن میں ایسے تربیتی پہلو موجود ہوں، جو آج وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
1۔ دنیا سے چلے جانے کے باوجود چرچا کیوں؟
ایک مجلس میں حضرت نظام الدین اولیاؒ نے شیخ حمید الدینؒ کا ذکر کیا اور حکایت بیان فرمائی کہ مشائخ میں سے بعض انتقال کر جاتے ہیں اور ان کے انتقال کے بعد کوئی ان کا نام بھی نہیں لیتا اور بعض جب انتقال کر جاتے ہیں تو ان کا نام اور چرچا دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتا ہے-احوال کا یہ فرق کیسے ہوتا ہے؟ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے ارشاد فرمایا:
جو زندگی میں اپنے اشتہار کی کوشش کرتے ہیں، وفات کے بعد ان کا نام اور شہرت مٹ جاتے ہیں اور جو زندگی کے عہد میں خود کو پوشیدہ رکھتے ہیں، وفات کے بعد ان کا نام اور شہرت سارے جہان میں پہنچ جاتے ہیں۔
(فوائد الفواد، ص: 3)
2۔ درویشانہ اعمال
درویشانہ طرزِ عمل اور درویشانہ صفات کو بیان کرتے ہوئے حضرت نظام الدین اولیاؒ کی زبان مبارک سے جو ارشاد ہوا وہ قابل رشک ہے، قصہ یہ ہے کہ
’’شیخ بدرالدین اسحٰق نے کسی کو ایک شطرنجی دی او رکہا کہ اسے بازار میں لے جاکر بیچ ڈالو اور پھرفرمایا کہ درویشانہ بیچنا- ان سے پوچھا گیا کہ درویشانہ بیچنے کا کیا طریقہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا: واپس گھر نہ لانا، جو مول بھی لگے ، بیچ ڈالنا، یہی درویشانہ فروخت ہے۔‘‘
(ایضاً، ص: 63)
3۔ دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھیں
عام انسانی فطرت ہے کہ چاہے ہم میں لاکھ برائیاں ہوں، لیکن ہم اپنی برائیاں اور کمیاں بھول کر دوسروں کی برائیاں اور کمیاں ڈھونڈنے لگتے ہیں ، جب کہ صوفیاء کی تعلیمات کہتی ہیں کہ ہمیں دوسروں کو خود سے بہتر سمجھنا چاہیے- ایک موقع پر حضرت نظام الدین اولیاؒ نے حسن سنجری سے کہا تھا کہ جس کو بھی دیکھو اپنے سے بہتر خیال کرو، چاہے یہ اطاعت گزار ہو اور وہ گنہگار، کیوں کہ عین ممکنات میں ہے کہ اس کی اطاعت، اطاعتوں میں آخری اطاعت اور اس کا گناہ، گناہو ں میں آخری گناہ ہو-
اس کے بعد خواجہ حسن بصری کا قصہ بیان فرمایا کہوہ فرمایا کرتے تھے میں نے جس کسی کو دیکھا اپنے سے بہتر خیال کیا، سوائے ایک دن کہ اس کی سزا میں نے بھگتی- ہوا یہ کہ ایک روز میں نے کسی حبشی کو دیکھا کہ پانی کے کنارے بیٹھا ہے اور پہلو میں صراحی رکھی ہے-وقتاً فوقتاً اس میں سے کسی چیز کے گھونٹ بھرتا ہے اور ایک عورت اس کے پاس بیٹھی ہے- میرے دل میں خیال آیا کہ چلو اس سے تو میں اچھا ہی ہوں۔ اسی خیال میں تھا کہ ایک کشتی پانی میں ڈوبنے لگی، سات آدمی اس کشتی میں سوار تھے، ساتوں کے ساتوں ڈوبنے لگے- حبشی نے فوراً پانی میں چھلانگ لگائی اور چھ آدمیوں کو پانی سے نکال لایا اور مجھ سے مخاطب ہوکر بولا: اے حسن !اس ایک آدمی کو تم نکال لاؤ۔ خواجہ حسن فرماتے ہیں کہ میں حیران کھڑا رہ گیا۔ پھر مجھ سے بولا کہ اس صراحی میں پانی ہے اور یہ عورت جو میرے پہلو میں بیٹھی ہے، میری ماں ہے- میں تمہارے امتحان کے لیے یہاں بیٹھا تھا، ابھی تم صرف ظاہر بیں ہی ہو، باطن بیں نہیں۔
(ایضاً، ص: 120-119)
4۔ غصہ اور جفا برداشت کرنا
غصے کو پینا اور جفا کو برداشت کرنا نہایت مشکل کام ہے، اس کے لیے حضرت نظام الدین اولیا نے جو طریقہ بیان فرمایا ہے، اسے پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ انسان واقعتاً عملی زندگی میں ایسا بن جائے اور اگر بن نہ سکے تو اس جیسا عمل کرنے کی کوشش تو ضرور کرے- آپ نے فرمایا تھا:
جو بھی جفا کو سہ لیتا ہے، وہ سب سے اچھا ہے۔ غصے کو پی جانا چاہیے اور بدلے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اس کے بعد زبان مبارک سے ارشاد ہوا:
ہرکہ ما را یار نبود ایزد او را یار باد
وآنکہ مارا رنجہ داد راحتش بسیار باد
یعنی جو ہمارا دوست نہ بنے، اللہ اس کا دوست رہے اور جو ہمیں تکلیف پہنچائے اس کو خوب راحت ملے۔
اور اس کے بعد پھر ارشاد فرمایا:
ہر کہ او خاری نہد در راہِ ما از دشمنی
ہر گلی کز باغ عمرش بشگفدبی خار باد
یعنی جو دشمنی سے ہمارے راستے میں کانٹے بچھائے، اس کی زندگی کے چمن کا ہر پھول بنا کانٹے کے کھلا رہے۔
پھر فرمایا کہ: اگر کوئی کانٹا رکھے اور تم بھی (جواب) میں کانٹا رکھو تو کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے۔ پھر ان کلمات کے درمیان فرمایا کہ:
’’عوام میں یہ دستور ہے کہ اچھوں کے ساتھ اچھائی اور بروں کے ساتھ برائی، لیکن صوفیانہ طریقہ یہ ہے کہ اچھوں کے ساتھ اچھے اور بروں کے ساتھ بھی اچھے، تاکہ ان کی تربیت ہوسکے۔‘‘
(ایضاً، ص: 148-147)
5۔ نصیحت کیسے کریں؟
ہمارے معاشرے کا عام رواج ہے کہ کسی کو نصیحت کرنی ہو تو سب کے سامنے کرتے ہیں تاکہ وہ ذلیل و رسوا ہو اور جس کام اور عمل کے لیے نصیحت کی جارہی ہے، وہ شاید ساری زندگی میں اسے چھوڑنے میں تامل کرے، یاا س پر عمل ہی نہ کرے ، جب کہ نصیحت کرنے کا سب سے معقول طریقہ حضرت نظام الدین اولیا نے یوں بیان فرمایا ہے کہ
’’اگر کوئی شخص کسی کو نصیحت کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ سب کے سامنے نہ کرے، کیوں کہ یہ فضیحت (رسوائی) ہوجاتی ہے ، اس لیے ملامت اورنصیحت جو بھی کرنی ہے، وہ اکیلے میں کریں ، سب کے سامنے نہیں۔‘‘
(ایضاً، ص: 237)
6۔ ہم کیسے مسلمان ہیں؟
حضرت نظام الدین اولیاؒ نے اسلام اور مسلمانوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے امیر حسن سنجری نے حکایتاً یوں رقم کیا ہے:
’’ایک موقع پر اسلام اور مسلمانوں کے صدق و دیانت کے بارے میں حکایت فرمائی کہ ایک یہودی کا گھر خواجہ بایزید بسطامی قدس اللہ سرہٗ العزیز کے گھر کے پڑوس میں تھا۔ جب خواجہ بایزید بسطامی کا انتقال ہوگیا تو اس یہودی سے پوچھا گیا کہ تم مسلمان کیوں نہ ہوئے؟ یہودی بولا کہ کون سا مسلمان بنوں؟ اگر اسلام وہ ہے جو بایزید کا اسلام تھا تو ایسا اسلام میرے بس کا نہیں ہے اور اگر اسلام یہ ہے جس کا نمونہ تم لوگ ہو تو ایسے اسلام سے مجھے شرم آتی ہے۔‘‘
(ایضاً، ص: 308)
7۔ قطع تعلقی سے اجتناب
مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا تھا:
ما براے وصل کردن آمدیم
نی براے فصل کردن آمدیم
اسی بات کو زمانۂ قدیم سے صوفیا مختلف انداز سے سمجھاتے آرہے ہیں- حضرت نظام الدین اولیا نے اسی سلسلے کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے:
’’حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کی خدمت میں کوئی چاقو کا تحفہ لایا تو شیخ نے چاقو اس کو واپس دے دیا اور فرمایا کہ میرے پاس چاقو مت لاؤ- سوئی لاؤ کہ چاقو کاٹنے اور جدا کرنے کا آلہ ہے اور سوئی جوڑنے ، سینے او رپیوند لگانے کا آلہ ہے۔‘‘
(ایضاً، ص: 384)
حقیقت یہی ہے کہ صوفیہ نے ہمیشہ سماج کو جوڑنے اور ملانے کا کام انجام دیا ہے اور کاٹنے یا جدا کرنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔
8. الاستقامۃ فوق الکرامۃ
حضرت نظام الدین اولیاؒ نے ایک مرتبہ کشف و کرامت پر محبت میں استقامت کو ترجیح دیتے ہوئے اس طرح فرمایا کہ:
’’آدمی کے لیے کشف و کرامت راستے کا حجاب ہے ، کام کی چیز تو محبت میں استقامت ہے۔‘‘
(ایضاً، ص: 54)
9۔ محبوب کی رضا ہر حال میں مقدم
انسانی نفسیات ہے کہ پریشانی اور مصیبت میں وہ بردباری، صبر و تحمل سب کچھ کھودیتا ہے او رہمت ہار کر مایوس ہوجاتا ہے- اسی قسم کی ایک پریشانی امیر حسن سنجری کو لاحق ہوئی تو اس کا حل حضرت نظام الدین اولیا نے جس انداز میں بیان فرمایا، وہ بہت ہی سبق آموز ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے امیر حسن سنجری کو ایک برہمن کا قصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ایک برہمن مفلس ہوگیا اور پریشانی کے عالم میں اسے ایک دوست ملا جو پوچھنے لگا کہ کہو کیا حال ہے؟ برہمن نے جواب دیا: بہت اچھا ہے، آنند ہے-دوست بولا: تیری سب چیزیں تو چھن گئی ہیں، آنند کہاں سے آیا؟ برہمن نے جواب دیا میرا جنیو تو میرے پاس ہے- یہ حکایت بیان کر کے حضرت نظام الدین اولیا نے حسن سنجری سے مخاطب ہوکر فرمایا: میری تقریرسے کچھ سمجھے بھی؟ حسن سنجری نے کہا: یعنی تنخواہ رکنے اور اسباب دنیا میسر نہ آنے کا کچھ غم نہیں کرنا چاہیے سارا جہان بھی چلا جائے تو پرواہ نہیں کرنی چاہیے، بس محبتِ حق برقرار رہنی چاہیے۔‘‘
(ایضاً، ص: 94-93)
شاید اسی لیے شیخ نجیب الدین متوکل نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ:
’’دولت جب آئے تو دوکہ کم نہ ہوگی اور جب جائے تو نہ روکو کہ ٹھہرے گی نہیں-‘‘
(ایضاً، ص: 194)
10۔ حسنِ معاملہ اور اخلاق
حسنِ معاملہ ہمیشہ سے صوفیائے کرام کا خاص حصہ رہا ہے، اس کی تاکید حضرت محبوب الہٰی نے اس طرح کی ہے:
’’اتنے علما اور دانش مند ہوگزرے ہیں کون جانتا ہے کہ وہ کہاں گئے اور کون اور کیا تھے؟ یہ جو شہرت باقی ہے یہ حسنِ معاملہ کی وجہ سے ہے اور یہ حیاتِ معنوی ہے اور اسے آسانی سے حاصل نہیں کیا جاسکتا‘‘
(ایضاً، ص: 277)
- مکارمِ اخلاق پر فارسی ادب میں بہت سی کتابیں تحریر ہوئی ہیں مگر درویشوں کے ضمن میں شیخ ابوسعیدابی الخیر اور بوعلی سینا کی ملاقات قابل ذکر ہے، واقعہ یہ ہے کہ:
شیخ ابوسعید ابی الخیر اور بوعلی سینا کی آپس میں ملاقات ہوئی، جب ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو بوعلی سینا نے ایک صوفی کو جو شیخ کی خدمت میں ملازم تھا، اس کام کے لیے تیار کیا کہ جب میں شیخ کے پاس سے چلا جاؤں تو جو کچھ بھی شیخ میرے بارے میں کہیں وہ مجھے لکھ بھیجنا- جب بوعلی سینا واپس چلے گئے تو شیخ ابوسعید ابی الخیر نے ان کا کوئی ذکر زبان سے نہیں کیا، نہ نیکی کے ساتھ اور نہ بدی کے ساتھ- جب اس صوفی نے ان کا کوئی ذکر نہ سنا تو ایک روز شیخ سے خود ہی دریافت کیا کہ بو علی سینا کیسے آدمی ہیں؟ شیخ نے فرمایا: وہ دانشور آدمی ہیں اور طبیب ہیں اور بہت علم رکھتے ہیں البتہ اچھے اخلاق نہیں رکھتے- صوفی نے یہ ساری کیفیت بوعلی سینا کو لکھ بھیجی۔ بوعلی نے وہاں سے شیخ کی خدمت میں کچھ لکھ کر بھیجا تو یہ بھی لکھا کہ میں نے اتنی کتابیں (مکارمِ اخلاق کے موضوع) پرلکھی ہیں- شیخ کے لیے یہ کہاں تک مناسب ہے کہ کہیں فلاں میں حسنِ اخلاق نہیں ہے- شیخ ابی الخیر مسکرائے اور فرمایا کہ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ بو علی مکارمِ خلق کو نہیں جانتے میں نے تویہ کہا تھا کہ وہ مکارم اخلاق نہیں رکھتے۔
(ایضاً، ص: 322-321)
11۔ بے نیازی
صوفیا نے عام طور پر ملکیت، زمینوں اور جائیدادوں کو قبول کرنے سے گریز کیا ہے اور وہ درباروں اور بادشاہوں سے غیر متعلق رہتے تھے اور اگر کسی نے کبھی کوئی جائیداد یا زمین دینی بھی چاہی تو اسے لوٹا دیا۔ اسی ضمن میں ایک واقعہ’’ فوائد الفواد‘‘ میں ہمیں اس طرح ملتا ہے کہ:
’’جب سلطان ناصر الدین ملتان کی طرف گیا اور اجودھن (پاک پٹن شریف) سے گزرا تو سلطان غیاث الدین بلبن اس وقت الغ خان کہلاتا تھا۔ وہ شیخ الاسلام فرید الدین قدس سرہٗ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا- کچھ نقدی اور چار فرمان چار گاؤں کی نذر سامنے رکھی- شیخ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ الغ خان نے کہا کہ یہ نقدی اور چار گاؤں کے فرمان حضور کی خدمت میں لایا ہوں-نقدی تو حضور سے متعلق درویشوں کے لیے ہے اور گاؤں کے کاغذ حضور کے نام ہیں- شیخ الاسلام نے فرمایا کہ یہ نقدانہ تو مجھے دے دو، میں دریشوں کے ساتھ مل کر خرچ کرلوں گا، مگر ان کاغذات کو اٹھالو اور لے جاؤ کہ ان کے طلب گار بہت ہیں، ان کو دے دو۔‘‘
(ایضاً، ص: 328)
خلاصۂ کلام
یہ تھا ہمارے صوفیہ کا شعار ، جس کے باعث وہ عوام الناس کے دل و دماغ پر مثبت اثرات مرتب کرتے تھے اور حقیقی معنوں میں یہی وہ عملی زندگی ہے، جس کے باعث صوفیہ نے خدمتِ خلق اور حسنِ معاملہ سے خلق کے دلوں پر انتہائی مضبوطی سے حکمرانی کی اور واقعتاً وہ جگہ بنائی جو آج تک قائم و دائم ہے۔ اس ضمن میں ’’فوائد الفواد‘‘اخلاقی، تربیتی اور تہذیبی اقدار کے رہنما اصولوں کا عظیم شاہکار اور ایک ایسا گوہر نایاب ہے، جس میں بتائی باتوں پر عمل کر کے معاشرے کی اصلا ح کی جاسکتی ہے۔ دراصل یہی وہ تعلیماتِ تصوف ہیں ، جن کی طرف جدید عہد میں خاص توجہ دی جائے تو اکیسویں صدی میں عالمی بحران کے حل کے سلسلے میں تصوف اہم اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
مذکورہ تعلیماتِ صوفیہ اور اسی قبیل کے دوسرے واقعات سے ہمیں ترکِ دنیا، خواہشاتِ نفسانی سے کنارہ کشی، خلق پروری، مکارمِ اخلاق، خلوص، ایمانداری، وسعتِ قلب، خدمتِ خلق، تقویٰ، پرہیزگار ی، ظاہر و باطن کی پاکیزگی، توبہ، محبت، مودت، انکساری، تواضع، حلم، راست بازی اور راست کاری اور نہ جانے کیا کیا ہدایتیں، اصول و ضوابط اور تعلیمات کا ایک لاثانی شاہ کار میسر آتا ہے- انہی عملی باتوں کے باعث صوفیاء کا ایک ایسا سلسلہ جاری وساری ہے جو ہر روز زمانے کے ساتھ ساتھ محکم اور مستحکم اور قوی تر ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی میں جاری ہمہ جہتی عالمی بحران کے حل کے لیے تصوف اور تعلیماتِ اولیاء و صوفیاء ایک مثبت اور عملی کردار ادا کرسکتی ہیں۔