جب ہم اسلامی معیشت (Economics) کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد معیشت کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ اسلامی معیشت سے مراد کوئی ایسی Product نہیں ہے جسے ہاتھ میں پکڑ لیں اور کہیں یہ اسلامی معیشت ہے بلکہ یہ ایک life style کا نام ہے۔ اسلامک بنکنگ اینڈ فنانس سے تعلق رکھنے والے بنکس کچھ ٹولز، ٹیکنیکس اور پروڈکٹس متعارف کرانے کے بعد سمجھتے ہیں کہ شاید انہوں نے اسلامک اکنامکس اختیار کرلی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔اسلامک اکنامکس ایک سوچ اور نظریے کا نام ہے۔ یہ ہماری کاروباری زندگی کے بدلنے کا نام ہے۔ اس میں ہمارا thinking process، سوچنے کا انداز، ملازمین اور خریداران کے ساتھ رویہ و برتاؤ اور معاشرے میں ہمارے اخراجات کا مزاج بدل جاتا ہے۔
اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادی تعلیمات
اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادی تعلیمات درج ذیل ہیں:
1۔ اسلامی نظام معیشت کا آغاز درحقیقت نیت سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ انسان کی نیت کیا ہےاور وہ چاہتا کیا ہے؟ کیا وہ قانون کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے یا وہ حقیقی طور پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے؟
2۔ اسلامی نظام معیشت ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ اپنی لامحدود خواہشات کو محدود کیسے کرنا ہے؟ جب انسان مسلسل اپنی خواہشات کو محدود کرتا چلا جائے گا تو خود بخود معاشرے کے اندر موجود وسائل اس کے لیے لامحدود ہوجائیں گے۔
3۔ اسلامی نظامِ معیشت میں تجارت سے مال کمانے کا حکم تو ہے مگر کسی کا مال ناجائز طریقے سے غصب نہ کرنے یا لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر intrest کے ذریعے پیسے کمانے کی ممانعت ہے۔ حکم یہ ہے کہ ایسی تجارت اور کاروبار کرو جس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہواور لوگوں کو روزگار میسر آئے۔
(مذکورہ تین بنیادی تعلیمات کا تفصیلی تذکرہ اس مضمون کے پہلے حصہ (شائع شدہ جولائی 2023ء) میں ہوچکا ہے)
4۔ اسلامی نظام معیشت کی ایک بنیادی خوبی کسبِ حلال ہے۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا:
أيُّ الكسبِ أطيَبُ قال: عملُ الرَّجلِ بيدِه وكلُّ بيعٍ مبرورٍ.
(احمد بن حنبل، المسند، ج: 4، ص: 141، الرقم: 17304)
’’کس طرح کی کمائی بہترین ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: کسی شخص کے اپنے ہاتھ سے کیا ہوا کام اور جائز قرار دیئے گئے کاروبار میں کوئی بھی لین دین یہ سب سے بہترین کمائی ہے۔‘‘
5۔ دوسروں سے تلخی اور سختی سے پیش آنے کی ممانعت بھی اسلامی نظامِ معیشت کی ایک بنیادی تعلیم ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رَحِمَ اللهُ عَبداً سَمْحًا إذا باع، سَمْحًا إذا اشترى، سَمْحًا إذا اقتضى.
(ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، ج: 2، ص: 742، الرقم: 2203)
’’اللہ ایسے شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو جب کچھ خریدتا ہے تو نرمی کرتا ہے، جب کچھ بیچتا ہے تو نرمی کرتا ہے اور کسی سے ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے تو بھی نرمی اختیار کرتا ہے۔‘‘
یعنی کسی کی جان پر سوار نہیں ہوجاتا کہ مجھے ہر صورت ادائیگی کرو۔ اللہ کی رحمت کا مستحق وہ بندہ بنتا ہے جس نے اگر کسی سے کچھ وصول کرنا ہے تو پہلے اس کی مجبوری کو دیکھتا ہے۔ اس فرمان کی روشنی میں ہم اپنے کاروباری رویے خود دیکھ سکتے ہیں۔
6۔ تجارت اور کسبِ حلال کے دوران خوفِ خدا، بھلائی اور سچائی کو بھی اسلامی نظامِ معیشت میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ التُجَّارَ يُبعَثُونَ يَومَ القِيَامَةِ فُجَّارًا، إِلَّا مَن اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ وَصَدَقَ.
(ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، ج: 2، ص: 726، الرقم: 2146)
’’بلاشبہ روز قیامت تاجروں کو گناہگاروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ماسوائے ایسے تاجر کے جو اللہ کا خوف رکھتا ہے، دوسروں سے بھلائی کرتا ہے اور سچ بولتا ہے۔‘‘
اس سچ بولنے میں بہت سارے عوامل شامل ہیں۔ جب ہم تشہیری مہم (advertisement design ) چلاتے ہیں تو کیا واقعی اس advertisement کے اندر خوبیاں اور خامیاں مدنظر رکھتے ہیں؟ کیا اپنے خریدار پر ہم واضح کردیتے ہیں کہ ہمارے پروڈکٹ کی اہلیت کیا ہے اور ا س سے بہتر بھی کچھ میسر ہے مگر ہم آپ کو سستا دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ہم بیچتے ہوئے اللہ کی قسم بھی اٹھاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے تجارتی لین دین میں سامان فروخت کرنے کے لیے خدا کی قسم کھائے۔ہمارے ہاں تو یہ معمول ہے کہ دکاندار آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ اتنا تو مجھے نہیں بچتا، اس سے زیادہ تو میری لاگت ہے اور پھر اس پر بے خوفی کے ساتھ قسم بھی کھا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر لعنت بھیجی ہے کہ جو اپنے تھوڑے سے منافع کے لیے اللہ کا نام استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔
ان ہی تعلیمات کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اسلامی معیشت چند پروڈکٹ کا نام نہیں بلکہ ان مذکورہ اوصاف کی بناء پر ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔
7۔ اسلامی نظامِ معیشت کی ایک اہم خوبی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ممانعت کی صورت میں ہے۔ اس اہم خوبی کی ہمیں انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر اشد ضرورت ہے۔آقا علیہ السلام نے فرمایا:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ كَانَتْ بِهِ حَاجَةٌ فَقَالَ لَهُ أَهْلُهُ ائْتِ النَّبِيَّ ﷺ فَاسْأَلْهُ فَأَتَاهُ وَهُوَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ مَنْ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللَّهُ وَمَنْ اسْتَغْنَى أَغْنَاهُ اللهُ وَمَنْ سَأَلَنَا فَوَجَدْنَا لَهُ أَعْطَيْنَاهُ قَالَ فَذَهَبَ وَلَمْ يَسْأَلْ.
(احمد بن حنبل، المسند، ج: 3، ص: 3، الرقم: 11002)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی کو ضرورت مندی نے آگھیرا، اس کے اہل خانہ نے اس سے کہا کہ جا کر حضور نبی اکرم ﷺ سے امداد کی درخواست کرو، چنانچہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ ﷺ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے کہ جو شخص عفت طلب کرتا ہے، اللہ اسے عفت عطا فرما دیتا ہے، جو اللہ سے غنا طلب کرتا ہے، اللہ اسے غنا عطا فرما دیتا ہے اور جو شخص ہم سے کچھ مانگے اور ہمارے پاس موجود بھی ہو تو ہم اسے دے دیں گے، یہ سن کر وہ آدمی واپس چلا گیا، اس نے نبی ﷺ سے کچھ نہ مانگا۔
گویا اگر کوئی پاکدامنی چاہے یعنی قرض سے ہمیشہ آزاد رہنا چاہے اور اللہ رب العزت سے قرض سے پاکدامنی طلب کرے تو اس کو چاہیے کہ خودمختاری کی زندگی اللہ سے طلب کرے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے۔
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا:
مَن نَزَلتْ به فَاقةٌ، فأَنَزَلَها بالنَّاسِ، لَم تُسدَّ فاقتُه، و مَن نَزلَتْ به فاقةً ، فأنزلَها باللهِ، فيُوشِكُ اللهُ له برزقٍ عاجلٍ، أو آجلٍ.
(ترمذی، السننن، کتاب الزهد، 4: 563، الرقم: 2326)
جس پر غربت آتی ہے اور وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا شروع کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ کبھی اس کی ضرورت مندی ختم نہیں کرتا۔ اور جس پر غربت آتی ہے وہ اپنی ضرورتوں کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ جلد یا بدیر اسے روزی دے دیتا ہے۔
اس کا اطلاق ممالک پر بھی کرلیں کہ جب کوئی ملک اپنی ضرورت کی خاطر بے دریغ ہاتھ پھیلانا شروع کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ محتاج رکھتا ہے اور جو خودمختاری، حیا اور عزت کے ساتھ اپنی ضرورت کو چھپاتا ہے اور صرف اللہ سے مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کو بے نیاز رکھتا ہے اور اس کی مدد اپنی راہ سے کرتا ہے۔
افسوس کہ ہم اللہ کے عطا کردہ نظامِ معیشت کی پیروی نہیں کرتے۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں نے اپنے ہاتھ ہر ایک کے آگے پھیلائے، در بدر ہر کسی سے مانگتے پھرتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارا ملک کا مذاق بن گیا ہے۔ مانگنے کا یہ wishes circle اس لیے کبھی ختم نہیں ہوگا کہ ہر کوئی ملکی خودمختاری کی بات کرتا ہے، قرض نہ لینے کے وعدہ کرتا ہے مگر آج تک کسی نے بھی اس سلسلہ کو روکنے کے لیے واضح اقدامات نہیں اٹھائے۔ ہر کوئی اپنا دورِ حکومت آرام سے اور بغیر مشقت و تکلیف کے گزارنا چاہتا ہے۔
مواخاتِ مدینہ کے وقت آقا علیہ السلام نے مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا کہ انصار مہاجر بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ آقا علیہ السلام نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بھائی چارہ حضرت سعد بن الربیع الانصاریؓ کے ساتھ قائم فرمایا۔ حضرت سعد بن الربیع الانصاریؓ نے اپنی ملکیت کا آدھا حصہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے فرمایا کہ:
بارك الله لك في أهلك ومالك دلني على السوق.
(بخاری، الصحیح، کتاب فضائل الصحابہ، 3: 1432، الرقم: 3722)
اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور مال میں برکت فرمائے۔ مجھے تمہارا مال نہیں چاہیے مجھے صرف بازار کا راستہ بتادیں۔ آپ بازار تشریف لے گئے اور کاروبار شروع کیا۔ چند دنوں کے بعد اللہ رب العزت نے آپ پر اتنی رحمت فرمائی کہ مواخات کے اس رشتے میں بندھے تمام صحابہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مالدار بنادیا۔
ایسا کس طرح ہوا؟ اس لیے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس مدد کے راستے کو اپنے اوپر نہیں کھولا بلکہ تجارت کے راستے کو اختیار کیا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
فإن الرزق عشرون بابا تسعة عشر منها للتاجر وباب واحد للصانع.
(الھندی، کنزالعمال، 4: 53، الرقم: 9874)
’’رزق کے بیس دروازے ہیں جن میں سے انیس دروازے تاجر کے لیے ہیں اور ایک دروازہ صنعتكار کے لیے ہے۔‘‘
پس جب بھی کوئی تجارت اختیار کرتا ہے اور دوسروں سے مانگنے کا راستہ اپنے اوپر نہیں کھولتا تو اللہ رب العزت اس کے لیے رزق کے کئی دروازے کھول دیتا ہے۔
8۔ قناعت بھی اسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی عنصر میں شامل ہے۔ کیا ہم مال کی تلاش میں اپنے آپ کو دیوانہ کرلیں یا اسلام ہم سے کچھ اور تقاضا کرتا ہے؟آقا علیہ السلام نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَن أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بما آتَاهُ.
(مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، 2: 730، الرقم: 1054)
کامیاب آدمی وہ ہے جس نے اسلام قبول کیا اور اس کی ضرورت کے مطابق اسے رزق دیا گیا اور اللہ نے اسے جو بھی عطا فرمایا ہے اس پر وہ قناعت کرنے والا تھا۔
اس حدیث مبارک میں ضرورت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا وہ ہل من مزید کی آگ میں نہیں جلتا۔ اللہ نے اسے جتنا دیا ہے، اس کی ضرورت کے لیے کافی ہے، وہ اس پر مطمئن ہوگیا اور اس سے زائد وہ لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ یعنی خیرات کرنے والا ہوجاتا ہے۔
9۔ قناعت کے ساتھ اخراجات میں اعتدال کرنا بھی اسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی خدوخال میں شامل ہے۔ اخراجات میں اعتدال کا اطلاق ملکی سطح پر بھی ہوتا ہے اور ذاتی سطح پر بھی۔ اعتدال کا مطلبover expenditure ختم کردینا اور فضول خرچی روک دینا ہے۔ اس حوالے سے آقا علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے:
الِاقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ.
(الطبرانی، المعجم الاوسط، 7: 25، الرقم: 6744)
’’خرچ میں میانہ روی آدھی معیشت ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
مَا عَالَ مَنِ اقْتَصِدَ.
(الطبرانی، المعجم الکبیر، 10: 108، الرقم: 10118)
’’اعتدال کی راہ اپنانے والا کبھی بھی غربت کا شکار نہیں ہوتا۔‘‘
انفرادی اور اجتماعی کسی بھی سطح پر جب بھی اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اختیار کیا جائے گا، خوشحالی مقدر بنے گی۔ اپنے ہمسایہ ملک ایران کو دیکھ لیجئے کہ وہ کتنی پابندیوں میں سے گزرا ہے لیکن انھوں نے اپنے سرکاری اخراجات کو توازن اور کنٹرول میں رکھا ہے، ان کے نظام اور عوام دونوں میں ناجائز تعیشات و آسائشات نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ پابندیوں کے باوجود بھی وہ survive کرگئے ہیں اور آج بھی ترقی کی نئی راہیں اور منزلیں تلاش کرتے جارہے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری صورتحال یہ ہے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہم نے گذشتہ ستر پچھتر سال کے اندر جھولی پھیلا پھیلا کر پوری دنیا سے بے دریغ قرض لیا اور اسے بادشاہوں کی طرح اڑایا ہے۔ نتیجتاً ملک میں ہر طرف غربت و افلاس ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ نہ کرنے اور دنیوی آقاؤں پر اپنا بھروسہ قائم کرنے کے سبب مفلسی نے ہمیں گھیر لیا ہے۔
10۔ غرباء، مساکین، یتماء اور مفلوک الحال لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی اسلامی نظامِ معیشت کا طرہ امتیاز ہے۔آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اپنی تکلیف اور مفلسی کو دور کرنا چاہتے ہو تو اپنے غریبوں کی پرواہ کرو۔ ایک صحابی کو اللہ تعالیٰ نے بہت مال دیا تھا، وہ سمجھتے کہ نہ جانے کون سی ادا پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا مال عطا فرمارکھا ہے۔ آقا علیہ السلام نے انھیں متوجہ فرمایا کہ:
هَل تُنْصَرون وتُرْزَقُون إِلاَّ بِضُعَفَائِكُم.
(بخاری، الصحیح، کتاب الجہاد والسیر، 3: 1061، الرقم: 2739)
اللہ تعالیٰ نے یہ جو تم پر کرم نوازی کی ہے، یہ ان غریبوں کی دعاؤں کے نتیجے میں کی ہے جن کی تم مدد کرتے ہو۔
آج ہمارے ملک کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں ہر دور میں نچلا اور درمیانہ طبقہ (lower & middle class) ہی ہر طرح کی سہولیات سے محروم رہا اور اسی طبقات کی مشکلات میں اضافہ ہوا جبکہ اس کے برعکس اس ملک کی اشرافیہ تو ہمیشہ comfortable آرام و سکون سے رہی ہے اور ہر اگلے دور میں ہر اگلے سال میں پہلے سے زیادہ بہتر ہوتے چلے گئی ہے۔
اشرافیہ اور تاجر طبقہ سال میں ایک دو مرتبہ رمضان کے دوران یا زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت نچلے طبقات کو یاد رکھتا ہے، ان کے لیے دستر خوان بچھاتا ہے یا انھیں زکوٰہ دیتا ہے۔ لیکن کیا یہ بھی سوچا ہے کہ ہمارے دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے والا خود کفیل ہوجائے اور اگلے سال اس دستر خوان پر نظر نہ آئے۔ اس پر ہم غور اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہم لوگوں کی غربت کو اس طرح دور کرتے ہیں کہ یہ کلیتاً دور نہ ہو اور غرباء ہمارے آگے ہمیشہ ہاتھ پھیلاتے رہیں۔ یہ سوچ اسلامک اکنامکس کے خلاف ہے۔ زکوٰۃ کی تقسیم کے حوالے سے بھی یہی حکم ہے کہ غربت کا کلیتاً خاتمہ ہوجائے۔ جیسا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زکوٰۃ اس طرح تقسیم کیا کرو کہ جو مانگنے والا ہے، وہ اغنیاء میں شامل ہوجائے اور دوبارہ مانگنے کی حالت میں نہ رہے بلکہ دینے کی پوزیشن میں آجائے۔مثال کے طور پر اگر کوئی اپنی زکوٰۃ کے پیسے سے پانچ یا دس ہزار کا راشن 500 لوگوں کو لے کر دیتا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ 50 لوگوں کو چھوٹے کاروبار کھول دے تاکہ وہ پچاس لوگ اگلے سال زکوٰۃ لینے والوں میں شامل نہ ہوں۔ اسلامی نظام معیشت میں اس جانب توجہ مرکوز کرائی گئی۔
18 ہجری کا واقعہ ہے کہ مدینہ منورہ میں بہت سخت قحط آگیا، لوگ بھوک سے مرنے لگے، بہت عرصہ بارش نہ ہوئی جس کے باعث قحط سالی ہوگئی، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ریاست کے تمام وسائل لوگوں میں تقسیم فرمادیئے، بعد ازاں اللہ رب العزت کی بارگاہ سے موسلا دھار بارش ہوئی اور قحط سالی جاتی رہی۔ اس صورتحال پر امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ رب العزت کی بارگاہ سے بارش نازل نہ ہوتی اور قحط کی صورتحال اسی طرح جارہی رہتی تو میں کسی ایک غنی شخص کا گھر مدینہ میں نہ چھوڑتا کہ جب تک کسی غریب اور محتاج کو اس کے گھر میں داخل نہ کردیتا اور اس کے مال میں شریک نہ کردیتا۔
(البخاری، الادب المفرد، ص198، الرقم: 562)
یعنی سرکاری طور پر میں ہر غنی کے مال میں محتاجوں کو شریک کردیتا اور غریبوں کو اغنیاء کی پناہ میں دے دیتا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اسلامی نظام معیشت کے تناظر میں فرمایا کہ اپنی معیشت کو یوں تقسیم کرو کہ::
طَعامُ الرَّجُلِ يَكْفِي رَجُلَيْنِ، وطَعامُ رَجُلَيْنِ يَكْفِي أرْبَعَةً، وطَعامُ أرْبَعَةٍ يَكْفِي ثَمانِيَةً.
(مسلم، الصحیح، کتاب الاشربۃ، 4: 1630، الرقم: 2059)
ایک شخص کی خوراک دو لوگوں کے لیے کافی ہوجائے، دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوجائے اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہوجائے۔
مذکورہ روایات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام معیشت درحقیقت ایک سوچ کا نام ہے جس کو ہم نے اختیار کرنا ہے۔ اسی سوچ کے اندر غمگساری، غریب پروری، لوگوں کی فلاح اور ویلفیئر، اپنی ضرورت سے زائد خرچ کردینا اور میانہ روی اختیار کرنا ہے۔ اغنیاء کو چاہیے کہ وہ اپنے پرتعیش (luxury) لائف سٹائل کو بھی اس حد تک محدود کردیں کہ جس سے انسان ایک قابلِ عزت زندگی گزار سکتا ہے اور پھر باقی وسائل کے ساتھ ان کی مدد کردی جائے جو لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔
پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے چند تجاویز
آج معاشی حوالے سے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ یوں تو بہت سارے مفکرین اور مصنفین ہیں جو مختلف مشورے اور آراء دیتے رہتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ سوچنے والوں کے پاس قوتِ نافذہ نہیں ہے اور قوتِ نافذہ رکھنے والوں کے پاس سوچ نہیں ہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے چند ایک تجاویز یہ ہیں:
1۔ پچھلے دو سال یعنی 2021۔22ء میں انڈیا کی IT ایکسپورٹس ایک سو ستاون بلین ڈالرز تھی جبکہ پاکستان کی IT ایکسپورٹ اس دور کے اندر صرف ساڑھے تین بلین ڈالر تھی۔ برآمدات کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف یہ کرنا ہے کہ فوری ایمرجنسی کے طور پر قومی سطح پر اقدامات اٹھانے ہیں اور وہ یہ کہ نیشنل لیول پر IT سیکٹر میں ہزارہا کی تعداد میں گریجویٹس ہیں جو سافٹ ویئر ہاؤسز بناکر اپنے طور پر فری لانسنگ کررہے ہیں، حکومت ان سافٹ ویئر ہاؤسز کی پراڈکٹ کو دیگر ممالک میں متعارف کرانے کے لیے معاون و مددگار ثابت ہو تو ہم تیزی سے IT ایکسپورٹس میں اضافہ کرسکتے ہیں اور اس طرح اپنا تجارتی خسارہ کم کرسکتے ہیں۔
2۔ دوسری اہم تجویز یہ ہے کہ کچھ ممالک جو پاکستان کے ساتھ آزاد ہوئے تھے اور اب ان ممالک نے بہت تیزی سے ترقی کرلی ہے، ان میں چائنہ، ملائشیا اور کوریا بھی شامل ہیں۔ ملائیشیا نے 70ء کے اوائل میں جب اپنی ترقی کے سفر کا آغاز کیا تو اس نے ایک اکنامک کونسل تشکیل دی جو ہر سیاسی جماعت اور ہر الیکشن سے بلند تھی۔ اس کونسل کے اندر نیشنل سٹیک ہولڈرز تھے۔ گورنمنٹ، اپوزیشن، دیگر ادارہ جات اور بزنس مین حضرات کی نمائندگی بھی شامل تھی۔انھوں نے بیس سالہ پالیسی دی اور سیاسی جماعتوں کو کہا کہ سیاست سیاست کھیلتے رہیں لیکن اس کونسل کے امور میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ یہ کونسل اپنی پالیسی اور اپنے ایریاز کی محافظ ہے۔ بدستور حکومتیں بدلتی رہیں گی مگر یہ کونسل تبدیل نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کی پالیسی کے تسلسل میں کوئی رکاوٹ آئے گی۔ پھر 1970ء سے 1990ء تک بیس سالہ پالیسی کے بعد 1990ء میں پھر مزید بیس سالہ پالیسی دی یعنی پالیسی کا بیس سال کا تسلسل قائم رکھا۔ یاد رکھیں! قومیں تسلسل سے بنا کرتی ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ دو اڑھائی سال کی پالیسی آئی، پھر نیا دور حکومت آئے گا تو اگلے دور حکومت میں آنے والے پہلوں کی تختیوں کے نام بھی مٹائیں، کارڈز بھی تبدیل کریں، پروگرامز بھی تبدیل کریں کیونکہ مطمع نظر انتخابات ہیں۔ پالیسیوں میں اس طرح کے عدم تسلسل کے باعث ملک نہیں چلا کرتے۔
اسی طرح چائنہ میں جب انقلاب آیا تو وہاں پر بھی انھوں نے ایک نیشنل اکنامک کونسل تشکیل دی جس میں تمام سٹیٹ فیکٹرز شامل ہیں اور وہ ملکی معیشت کے چار پانچ ایریاز کے محافظ ہیں۔
یہی تجاویز پاکستان کے لیے ہیں۔ آج چند سیکٹرز کا انتخاب کرنا ہوگا، مثلاً: مائننگ، ایگریکلچر، ٹیکسٹائل، IT، ایجوکیشن، ہیلتھ وغیرہ۔ اور ان کے لیے ایک نیشنل کونسل تشکیل دی جائے، پھر اس کے اندر اعلیٰ ترین ذہن جمع کیا جائے اور ان کو اختیار بھی دیا جائے۔ ایسی ایڈوائزری نہ ہو جیسے پچھلے زمانوں میں بنتی رہی ہیں اور مذاق پر اختتام ہوتا ہے۔ اس کونسل کے اندر ہر سٹیک ہولڈر کی نمائندگی ہو۔ ایسی کونسل تشکیل دی جائے جو کم از کم اگلے دس سے پندرہ سال تک پالیسی بنائے اور اس کونسل کو کسی صورت میں بھی نہ چھیڑ اجائے۔ اگر یہ اقدامات اٹھائے جائیں تو شاید پاکستان کے Survival کا کوئی امکان ہوجائے بصورتِ دیگر پھر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
3۔ ایک تجویز کوریا کی مثال بھی ہے۔ اگر گورنمنٹ کچھ نہیں کرتی جو کہ پاکستان کی روایت ہے تو کوریا کو پرائیویٹ سیکٹرز نے بنایا ہے۔ کوریا کی ترقی کے اندر 60 فیصد شیئر ہولڈرز اور سٹیک ہولڈرز کوریا کے انڈسٹریلسٹ ہیں۔ یعنی گورنمنٹ اور پرائیویٹ پارٹنرشپ نے کوریا کو develope کیا ہے۔ کوریا میں بڑی بڑی کمپنیز میں الیکٹرانکس، ٹیکنالوجی اور گاڑیوں کی کمپنیز ہیں۔ ان کمپنیز نے پورے پورے شہر، ہسپتال اور یونیورسٹیز بنائی ہیں۔ ہمارا تاجر اگر یونیورسٹی کھولتا ہے تو کاروبار کی نیت سے کھولتا ہے جبکہ انھوں نے قوم کو مدنظر رکھا ہے۔ Samsung نے قوم کو یونیورسٹی دی ہے۔ Dawoo (ڈائیوو) نے یونیورسٹی دی ہے۔ وہاں سکالر شپس پر تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر گورنمنٹ اور ریاست نے ان کو آنر شپ دی ہے، یعنی پروٹیکشن دی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ کسی تاجر سے خرچ کرالیں اور اگلا دور حکومت اس پر کیس بنادے کہ اس نے ہمارے مخالفین کی مدد کی ہے۔ جس طرح کہ ہمارے ہاں ہے کہ چونکہ اس نے فلاں سیاسی جماعت کے دور اقتدار میں خرچ کیا تھا، اگلا دور حکومت اس پر کیس بنا دیتا ہے۔ لہذا وہ تاجر سمجھتا ہے کہ بہتر ہے میں کسی اور ملک میں سرمایہ لگاؤں۔
پس اگر حکومت دلچسپی نہیں لیتی تو تاجر حضرات خود ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور قوم کے ساتھ بھلائی کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ریاست ان سرمایہ کاروں کو تحفظ دے۔ایسا نہیں ہے کہ ان سے خرچ کروایا جائے اور اگلے سال وہ کٹہرے میں کھڑے ہوں۔ یہ ظلم ہے اور انویسٹر کو بھگانے والی بات ہے۔ تاجروں کے لیے تحفظ ضروری ہے تاکہ پاکستان کا تاجر اعتماد کے ساتھ پاکستان کی فلاح و ترقی پر خرچ کرے۔