اہلِ تصوف کے نزدیک عرفانِ ذات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔کوئی شخص اس وقت تک عرفانِ حق کی منزل کو نہیں پا سکتا جب تک اپنے نفس کی حقیقت کو نہ جان لے۔جس شخص کو اپنی ذات کی پہچان حاصل ہوجاتی ہے، اسے اپنے خالق و مالک اور رازق کی پہچان نصیب ہو جاتی ہے۔قرآن مجید انسان کو ترغیب دلاتا ہے کہ اگر وہ معرفتِ خداوندی چاہتا ہے تو پہلے اپنے من کی دنیا کو غور سے دیکھے، اسے مقصودِ حقیقی تک رسائی نصیب ہو جائے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ.
(فصلت، 41: 53)
’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔‘‘
اس آیت میں انسان کو اپنی ذات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے کیونکہ اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلیل ہے۔غور وفکر کی دو صورتیں ہیں: ایک ظاہری شکل و صورت پر غور اور دوسری باطن میں غور وفکر۔ دونوں صورتیں انسان کو ذات باری تعالیٰ کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اہل تصوف اسے عرفانِ ذات سے تعبیر کرتے ہیں۔مطالعہ انفس و آفاق، انسان میں توحید باری تعالیٰ کے عقیدہ کو مزید پختہ اور مستحکم کرتا ہے اورانسان کو اس ذریعے سے معرفتِ خداوندی نصیب ہوتی ہے۔
عرفانِ ذات اور معرفتِ حق پر بات آگے بڑھانے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم عرفان اور معرفت کے مفہوم کو بھی سمجھیں:
1۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
المَعْرِفۃُ والعِرْفانً إِدْراکُ الشیءِ بتَفَکُّرٍ وتَدَبُّرٍ لأَثَرِهِ.
(زبیدی، محمد مرتضیٰ، تاج العروس، 24: 133)
’’اس کے کسی نشان کی بنیاد پر کسی شے کا تفکر و تدبر کے ساتھ ادراک کرنے کا نام معرفت اور عرفان ہے۔‘‘
2. العرفان کالمعرفۃ إدراک الشیء بتفکر و تدبر فهو أخص من العلم و یقال فلان یعرف الله ولا یقال یعلم الله.
(المناوی، محمد عبد الرؤوف، التعاریف، ص: 511)
عرفان بھی معرفت کی مانند کسی شے کا تفکر و تدبر کے ساتھ ادراک کرنا ہے۔ یہ علم سے زیادہ خاص ہے۔کہا جاتا ہے کہ فلان کو اللہ کا عرفان حاصل ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں کو اللہ کا علم ہے۔
عرفانِ ذات سے مراد
عرفانِ ذات سے مراد انسان کی خود شناسی ہے۔اپنی ذات کی پہچان انسان کو خدا کی پہچان عطا کرتی ہے کیونکہ انسان تخلیق خداوندی کا شاہکار ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.
(التین، 95: 4)
بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔
احسنِ تقویم کی تفسیر میں تفسیر أبي السعود میں حدیث ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ کا تذکرہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ عرفان ذات کے ذریعے عرفان باری تعالیٰ کی منزل کا حصول کیسے ممکن ہوتا ہے:
إن النفس الإنسانیة مجردة لیست حالة فی البدن ولا خارجة عنه متعلقة به تعلق التدبیر والتصرف تستعمله کیف ما شاء ت فإذا أرادت فعلا من الأفاعیل الجسمانیة تلقیه إلی ما فی القلب من الروح الحیوانی الذی هو أعدل الأرواح وأصفاها واقربها منها وأقواها مناسبة إلی عالم المجردات إلقاء روحانیا وهو یلقیه بواسطة ما فی الشرایین من الأرواح إلی الدماغ الذی هو منبت الأعصاب التی فیها القوی المحرکة للإنسان فعند ذلک یحرک من الأعضاء ما یلیق بذلک الفعل من مبادیه البعیدة والقریبة فیصدر عنه ذلک بهذه الطریقة فمن عرف نفسه علی هذه الکیفیة من صفاتها وأفعالها تسنی له أن یترقی إلی معرفة رب العزة.
(العمادی، ابو سعود محمد بن محمد، تفسیر أبی السعود، 9: 175)
نفس انسانی ایک مجرد شے ہے یہ نہ تو جسم کے اندر کی کسی حالت کا نام ہے اور نہ ہی اس سے خارج ہے۔اس کا تعلق جسم کے ساتھ تدبیر اور تصرف کا ہے۔یہ جسم کو جس طرح چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔ جب وہ کسی فعلِ جسمانی کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اسے روحِ حیوانی کے توسط سے دل میں القاء کرتا ہے۔ یہ روحِ حیوانی ارواح میں سب سے زیادہ بہتر، زیادہ مصفی اور نفس کے زیادہ قریب ہے اور عالم مجردات کے لئے روحانی القاء کے حوالے سے زیاد ہ مناسب ہے۔دل سے نفس میں القاء ہوتا ہے اور وہاں سے دماغ جو کہ اعصابی نظام کا منبع ہے، اسے پیغام دیا جاتا ہے اور وہاں سے حکم ملتا ہے اور جسم کوئی فعل سر انجام دیتا ہے۔اگر کوئی اپنے نفس کی اس کیفیت کی صفات و افعال کو جان لیتا ہے تو اس کے لیے معرفتِ ربانی کا راستہ روشن ہو جاتا ہے۔
عرفانِ ذات کا ذریعہ تزکیہ نفس
عرفانِ ذات کا ایک بہترین ذریعہ تزکیہ نفس ہے۔اس عمل سے انسان کے دل سے تمام کثافتیں دور ہو جاتی ہیں اور نفس کی تمام پلیدیاں ختم ہو جاتی ہیں۔اس کا وجود پاکیزہ اور مصفی ہو جاتا ہے جس پر انوارِ الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے۔ انسان عبادت و ریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے اپنے من کو اتنا مصفی کر لیتا ہے کہ اس پر اپنی ذات کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔اس کا اپنا وجود وجود باری تعالیٰ پر گواہی دینے لگتا ہے اور اسے ہر طرف اللہ تعالیٰ کے جلوے نظر آتے ہیں اورہر شے میں اسی کا پرتو نظر آتا ہے۔جسے عرفان ذات کی دولت نصیب ہوجاتی ہے، اس کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔ اہلِ تصوف کے نزدیک وہ روحانیت میں احسان کے مقام پر فائز ہو جاتاہے اور یہ درجۂ احسان روحانیت کا آخری درجہ ہے۔یہ وہ مقام ہے کہ جہاں بندے بندۂ مرتضیٰ بن جاتا ہے ۔اسے رضائے الہٰی کا مژدۂ جانفزا سنایا جاتا ہے۔ اسے ہاتفِ غیبی سے آواز آتی ہے کہ اے بندے! تیرا رب تجھ پر راضی ہے، بلکہ کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ اے بندے تیرا رب تو تجھ سے راضی ہے کیا، تو اپنے رب سے راضی ہے۔
تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کو تصوف میں خاص اہمیت حاصل ہے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کا ذکر ملتا ہے۔تزکیہ نفس کا شمار چہارگانہ فرائض نبوت میں ہوتا ہے۔
تزکیہ نفس انسانی کو رذائل اخلاق سے پاک کر کے اس میں اعمالِ صالحہ اور ذکرِ الہٰی کا نور بھر دیتا ہے۔انسان کی فکر سوچ، نیت اور عمل سب پاک ہو جاتے ہیں۔اس پاکیزگی اور طہارت نفس کے اثرات و ثمرات نہ صرف انسان کی اپنی ذات پر مترتب ہوتے ہیں بلکہ ارد گر د کے ماحول کی آلودگیوں کو بھی دور کر دیتے ہیں۔اس پاکیزہ ماحول میں انسان کو عرفانِ ذات اور معرفتِ الہٰیہ کی منزل تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
عرفانِ ذات اور عرفانِ باری تعالیٰ
عرفانِ ذات کے متعلق ایک مشہورقول منقول ہے کہ:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ، فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ.
(علی القاری، مرقات المفاتیح، 1: 246)
’’جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘
معناه من عرف نفسه بالحدوث عرف ربه بالقدم ومن عرف نفسه بالامکان عرف ربه بالوجوب ومن عرف نفسه بالحاجۃ عرف ربه بالاستغناء۔
(رازی، تفسیر الکبیر، 9: 111)
مطلب ہے کہ جس نے اپنے نفس کے حادث ہونے کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کے قدیم ہونے کو پہچان لیا۔ جس نے اپنے نفس کے ممکن ہونے ہوکو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کے واجب الوجود ہونے کو پہچان لیا، جس نے اپنے نفس کے محتاج ہونے کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کے مستغنی ہونے کو پہچان لیا کہ وہ کسی کا محتا ج نہیں۔
وفی الأخبار أن الله تعالی أوحی إلی داود اعرف نفسک واعرفنی فقال یا رب کیف أعرف نفسی وکیف أعرفک فأوحی اللہ إلیه اعرف نفسک بالضعف والعجز والفناء واعرفنی بالقوة والقدرة والبقاء.
(البغوی، تفسیر البغوی، ج1: ص: 117)
’’روایات میں ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اپنے نفس کو پہچان لو تو مجھے پہچان لو گے۔ انہوں نے عرض کیا: مولا میں اپنے نفس کو کیسے پہچانوں اورتجھے کیسے پہچانوں؟ تواللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اپنے نفس کو اپنے ضعف، عجز اور فنا کے سبب پہچانو اور مجھے میری قوت، قدرت اور بقاء کے سبب پہچانو۔‘‘
امام سیوطی الحاوی للفتاوی (جلد: 2، ص: 288) میں اپنی تحقیق ’’القول الأشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ کے عنوان سے فرماتے ہیں:
امام نووی اپنے فتاوی میں اس حوالے لکھتے ہیں: جس نے اللہ کو اپنے ضعف، فقر اور اس کی عبادت کے ساتھ پہچانا تو اسے اس کے رب نے قوت، ربوبیت، کمالِ مطلق اور بلند و بالا صفات کے ساتھ پہچانا ۔
شیخ تاج الدین بن عطاء اللہ لطائف المنن میں لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے شیخ ابوالعباس المرسی سے سنا کہ انھوں نے اس حدیث کے دو مفہوم بیان کیے ہیں:
پہلا مفہوم: جس نے اپنی ذات کو اپنی خاکساری، عاجزی اور فقر کے ساتھ پہچانا، اس نے اللہ تعالیٰ کو اس کی عزت، قدرت اور غنا کے ساتھ پہچانا۔ پس معرفتِ نفس کا درجہ پہلے ہے اور معرفتِ خداوندی کا درجہ بعد میں ہے۔
دوسرا مفہوم: جس نے اپنے نفس کو پہچانا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سے قبل معرفتِ الہٰی حاصل کر چکا ہے، معرفت ذاتِ اس کے بعد ہے۔
پہلے مفہوم کا اطلاق سالکین کے حال پر ہوتا ہے اور دوسرے مفہوم کا اطلاق مجذوبین کے حال پر ہوتا ہے۔ اس استدلال کی کئی وجوہ ہیں:
1۔ انسان کا بدن روح کے ارادہ کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔اس سے معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر شے مشیتِ الہٰی کے تابع ہے۔کائنات کا ہر وجود تقدیر الہٰی کا پابند ہے۔
2۔ جب انسانی بدن میں کوئی چیز روح کے علم و شعور کے بغیر حرکت نہیں کرتی تو کوئی شے زمین و آسمان میں خالقِ کائنات کے علم کے بغیر کیسے حرکت کر سکتی ہے۔اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔
3۔ انسان کے بدن کا کوئی حصہ روح کے زیادہ قریب نہیں بلکہ روح جسم کے ہر حصے کے قریب ہے ۔ معلوم ہوا کہ باری تعالیٰ ہر شے کے قریب ہے، کوئی شے اس سے زیادہ قریب نہیں اور نہ کوئی شے اس سے کسی دوسری شے کے مقابلے میں بعید ہے۔وہ دورو نزدیک کی مسافت سے منزہ اور پاک ہے۔
4۔ جب روح جسم کی موجودگی سے قبل موجود تھی اور اس کے بعد بھی موجود رہے گی تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر شے سے پہلے موجود تھا اور ہر شے کے فنا کے بعد بھی موجود رہے گا ۔وہ زوال سے پاک ہے۔
5۔ جسم میں روح کی موجودگی کی کیفیت معلوم نہیں کہ وہ جسم میں کس طرح موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ ذات باری تعالیٰ کیفیت سے پاک ہے۔
6۔ جسم میں روح کا مقام معلوم نہیں کہ وہ جسم کے کس حصے میں موجود ہے، اسے أیْنَ اور کَیْفَ کے ساتھ بیان کرنا ممکن نہیں، روح پورے بدن میں موجود ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، کوئی جگہ اس کے وجود سے خالی نہیں اور وہ مکان و زمان کی حد میں آنے سے پاک ہے۔
7۔ روح جسم میں آنکھ سے دیکھی نہیں جا سکتی اور نہ ہی اس کی کوئی صورت اور مثل بنائی جا سکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی ذات کا بھی آنکھیں احاطہ نہیں کرسکتیں اور نہ ہی اس کی کوئی صورت اور مثل ہے ۔وہ سورج اور ستاروں سے مشابہت نہیں رکھتا۔
8۔ بدن میں روح کو نہ تو محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ چھوا جا سکتا ہے۔معلوم ہوا کہ ذات باری تعالی بھی حس، جسم، لمس اور مس سے منزہ اور پا ک ہے۔
(رازی، التفسیر الکبیر، ج: 9: ص: 111)
- امام غزالی معرفت ِالہٰی کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں:
میں نے دس سال مجاہدہ کے لئے خلوت گزینی اختیار کی۔ اسی خلوت کے دوران مجھ پر ایسے امور کا انکشاف ہوا جس کا احاطہ واندازہ ممکن نہیں لیکن امورِ نافعہ جن کا تذکرہ یہاں ضروری ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ صوفیاء کرام ہی معرفتِ الہٰی کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان کی سیرت سب کی سیرتوں سے بہتر ہے۔ ان کا طریقہ سب کے طریقوں سے درست، ان کا خلق سب کے اخلاق سے پاکیزہ ہے بلکہ اگر تمام عقلاء کی عقل، حکماء کی حکمت، علماء کا علم اوراس کے اسرار کو جمع کر لیاجائے، تب بھی ان کے سیرت و اخلاق سے بہتر نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے تمام ظاہری و باطنی حرکات وسکنات براہ راست سینہ نبوت کے نور سے فیضیاب مستنیر ہوتے ہیں اور اس کائنات میں نور نبوت سے بڑھ کر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جائے۔(غزالی، ابو حامد، المنقذ من الضلال)
ó شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ’’حقیقت تصوف‘‘میں معرفت ربانی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
تصوف تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن پر اسی لئے زور دیتا ہے کہ اس کے ذریعے معرفتِ ربانی کی تحصیل ہوتی ہے۔ قرآن حکیم نے انسانی تخلیق کی غرض وغایت ہی معرفت ربانی کو قرار دیا ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.
(الذاریات، 51: 56)
’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘
شیخ ابو محمد روز بہان بقلی شیرازی نقل فرماتے ہیں:
قال جعفر الا لیعرفونی ثم لیعبدونی علی بساط المعرفۃ لیسرا وامن الریاء.
(تفسیر عرائس البیان، 2: 281)
حضرت جعفرنے فرمایا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) میری معرفت حاصل کریں اور پھر بر بنائے معرفت میری عبادت کریں تاکہ ریا کا شائبہ نہ رہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
ان دعامة البیت اساسه و دعامة الدین المعرفة بالله تعالیٰ والیقین.
(القشیری، الرسالة القشیریة، ص: 141)
گھر اپنی اساس پر قائم ہوتا ہے اور دین کی اساس خدا کے لیے معرفت اور اس کا یقین ہے۔
امام ابو القاسم قشیری فرماتے ہیں:
من عرف ذھب عنہ خوف المخلوقین ورغبة الاشیاء.
(القشیری، الرسالۃ القشیریة: 141)
جس نے اللہ کو پہچان لیا، اس کے دل سے مخلوق کا خوف اور اشیاء کی رغبت ختم ہو جاتی ہے۔
طریقت کا مقصد قرآن و سنت کی روشنی میں نہایت پسندیدہ ہے لیکن سوال یہ ہے معرفتِ حق کیسے حاصل ہو؟
صوفیاء کرام کا نقطہ یہ ہے معرفتِ حق کا واحد ذریعہ معرفتِ نفس ہے، اس لئے تصوف کی جدوجہد معرفتِ نفس ہے اور نتیجہ معرفت حق۔
(القادری، محمدطاهر، ڈاکٹر، حقیقت تصوف: ص: 71-73)
حاصل بحث
انسان اس وقت تک معرفتِ ربانی کی منزل کو نہیں پا سکتا جب تک اسے عرفانِ ذات حاصل نہ ہو۔ عرفانِ ذات کا حصول شریعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے ممکن ہے۔ تزکیۂ نفس اور تزکیۂ باطن سے صفائے قلب نصیب ہوتا ہے اور جب انسان کا باطن تمام دنیوی کثافتوں اور آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے تو اس کے دل کے شفاف آئینے پر انوارِ الہٰیہ کا نزول ہونے لگتا ہے جو معرفتِ ربانی کی منزل کے حصول پر منتج ہوتا ہے اور اسے بارگاہ صمدیت سے بندۂ مرتضیٰ قرار دے دیا جاتا ہے۔