زندہ قومیں اپنے تاریخی دنوں کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ مناتی ہیں۔ ان تاریخی دنوں کے موقع پر ترقی و خوشحالی اور عظمت و سربلندی کے نئے اہداف مقرر کیے جاتے ہیں اور ان اہداف کے حصول کے لئے دن رات محنت کرنے کا عزمِ نو کیا جاتا ہے۔ تاریخی ایام اور تہواروں کی تاریخ ہزاروں سال پر مشتمل ہے۔ تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب اور مختلف تہذیبوں میں تاریخی ایام منائے جانے کی پختہ روایات قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور تاریخ کی کتب میں مذکور ہیں۔
ہر سال اہلیانِ پاکستان اپنی آزادی کا دن بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ جشن و جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سیمینارز، کانفرنسز، ٹاک شوز منعقد کئے جاتے ہیں۔ تمام چھوٹی بڑی جماعتیں، تحریکیں قومی پرچم لہرا کر وطنِ عزیز کے ساتھ اپنی محبت کا والہانہ اظہار کرتی ہیں اور اس عزم کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے وطن کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے۔ سیاسی، سماجی، مذہبی قیادت بڑے خوش نما الفاظ کے ساتھ خوشحال مستقبل کا نقشہ پیش کرتی ہے مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ وطن کے ساتھ محبت کے دعوے اس وقت کاغذی ثابت ہوتے ہیں جب عوام کی حالتِ زار گزرے ہوئے سال کی نسبت زیادہ ابتر نظر آتی ہے۔ اسی طرح سرکاری اداروں کی کارگزاری، تعلیم، صحت کی سہولتیں بھی گزرے ہوئے سال کی نسبت مزید نچلے درجے پر نظر آتی ہیں۔ اگر ہم سماجی اور انسانی نفسیات کے اعتبار سے اپنے قومی احوال کا جائزہ لیں تو صبر و تحمل، عفو و درگزر، اعتدال اور رواداری کے اخلاقی معیار بھی کم تر سطح پر نظر آتے ہیں۔ امن کے فروغ اور عدمِ برداشت کے خاتمے کے حوالے سے جس قدر مہمات چلتی ہیں، اس طرح کے مثبت اثرات ہمیں انسانی رویوں کا حصہ بنتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ تمام تر اخلاقی و اصلاحی خطابات اور لٹریچر کی بھرمار کے باوجود کساد بازاری، مہنگائی، ملاوٹ، رشوت ستانی، اقربا پروری، وعدہ خلافی، تہمت و الزام تراشی جیسی برائیاں مزید جڑ پکڑتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ آج بہت سارے سوالات ہیں، ان سوالات میں ایک یہ سوال بھی شامل ہو گیا ہے کہ ہمیں اپنے آزادی کے تاسیسی یوم کو کس انداز سے منانا چاہیے؟
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود بڑی تیزی کے ساتھ وسعت پذیر ہورہی تھیں، مختلف مذاہب، تہذیبوں، زبانوں اور ثقافتوں کے حامل ملک اسلامی سلطنت کا حصہ بن رہے تھے اور مالی و انتظامی معاملات کے لئے باقاعدہ دفاتر قائم ہورہے تھے۔ اس دوران ایک انتہائی اہم بحث کا آغاز ہوا کہ اسلامی سلطنت کی سرحدیں پھیل رہی ہیں، حساب کتاب بڑھ رہے ہیں اور فیصلے جاری کرتے ہوئے اور ان پر عملدرآمد کی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لئے باقاعدہ سن و تاریخ کی ضرورت ہے۔مفتوحہ علاقہ جات کے ذمہ داران بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے تھے کہ تاریخ اور سن کا استعمال کیا جائے۔ اس ضمن میں مشاورت کا آغاز ہوا کہ اسلامی سال کا آغاز کس عظیم واقعہ سے ہونا چاہیے۔ اس مشاورت میں مفتوحہ سلطنتوں کے غیر اسلامی ذمہ داران سے بھی رائے لی گئی۔ جید اصحاب رسول ﷺ نے اس مشاورت میں بھرپور حصہ لیا اور مختلف آراء دیں۔کچھ کا خیال تھا کہ کائنات کے اندر سب سے بڑا عظمت والا واقعہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہے۔ اسی ولادتِ باسعادت کے ذریعے انسانیت کو زندہ رہنے کا شعور اور منشور ملا، لہٰذا اسی عظیم واقعہ کی نسبت سے اسلامی سن کا آغاز کیا جائے۔ کچھ کی رائے تھی کہ فتح مکہ کے عظیم المرتبت اور اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی شان و شوکت اور عظمت والی فتح کے سال سے اسلامی سن کا آغاز کیا جائے۔ کچھ کی رائے تھی کہ فتح بدر کی عظیم فتح کے سال سے اسلامی سال کا آغاز کیا جائے۔ تمام اصحاب رسول ﷺ کی رائے تھی کہ اسلام کی شان و شوکت والے کسی عظیم واقعہ کی نسبت سے نئے سال کا آغاز ہونا چاہیے مگر خلیفہ رسول ﷺ کا دلی اطمینان نہیں ہورہا تھا کیونکہ قرآن مجید نے بھی واضح بتا دیا ہے کہ کرۂ ارض کی عظیم ترین ہستی رسول اللہ ﷺ کی ہے اور ان کے بعد سب سے زیادہ پاکیزہ دل و دماغ والے اور فہم و فراست والے ان کے اصحاب ہیں۔
تاریخ کی کتب میں ہے کہ اسی مشاورت کے عمل کے دوران حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رائے دی کہ اسلامی سال کی ابتداء واقعۂ ہجرت کے سال سے کی جائے۔ آپ کی اس رائے کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قبول کر لیا۔ اب یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے واقعہ سے بڑھ کر اور کون سا واقعہ ہو سکتا ہے۔ اس عظیم واقعہ سے سال کا آغاز کیوں نہ ہوا؟ فتح مکہ کرہ ارض کی ایک عظیم فتح ہے، اس واقعہ سے اسلامی سال کا آغاز کیوں نہ ہوا؟ اسی طرح فتح بدر کی عظیم فتح بھی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے، یہاں سے سال کا آغاز کرنے کی بجائے ایک ایسے واقعہ سے سال کا آغاز کیا جانا کیوں پسند کر لیا گیا جسے ہجرت مدینہ کہتے ہیں حالانکہ یہ ہجرت انتہائی تکلیف دہ حالات سے عبارت ہے۔ ایک ایسا واقعہ کہ جس نے حضور نبی اکرم ﷺ اور ان کے اصحاب کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور اس قافلے کے پاس سفر کے وسائل بھی نہیں۔ بظاہر یہ ایک انتہائی مظلومانہ سفر ہے۔ اس کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس کی حکمت اور فلاسفی سے رسول اللہ ﷺ کے جانثار ہی بخوبی آگاہ ہیں اور وہ ہے جذبۂ ایثار۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے جان و مال قربان کر دینے کا جذبہ اور ایذائیں برداشت کرتے ہوئے اُف تک نہ کرنے کا صبر۔ جن اصحاب نے حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر اسلام کو بطورِ مذہب، بطورِ دین اختیار کیا، ان کے لئے ابھی دنیاوی جاہ و حشم کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔ ہجرتِ مدینہ کو اسلامی سال کے آغاز کے طور پر منتخب کرنے والی ہستیاں وہ عظیم ہستیاں تھیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی امانت و دیانت اور صداقت سے متاثر ہو کر اپنے گلوں میں عشقِ مصطفی ﷺ کی غلامی کا طوق ڈالا اور پھر استقامت کے ساتھ اپنے عہد پر جم گئے۔ یہاں تک کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اپنا وطن بھی چھوڑنا پڑا اور ہجرت اختیار کرنا پڑی۔ اگر بنظرِ فکر و تدبر اس ہجرت کا سرسری سا بھی احاطہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہی وہ ہجرت ہے جو کرۂ ارض کی پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل کا سبب بنی۔ ریاستِ مدینہ کو قیامت تک یہ اعزاز حاصل رہے گا کہ یہ ریاست تلوار لہرائے بغیر فکر کی صداقت اور کردار کی قوت سے قائم ہوئی۔
یہی وہ ہجرت ہے جس نے کرہ ارض کی عظیم فتح، فتح بدر کی راہ ہموار کی، اسی ہجرت کے صدقے فتح مکہ کا عظیم الشان دن آیا بلکہ آج اگر دنیا میں 2 ارب سے زائد مسلمان ہیں اور مسلم اکثریت والے ممالک 57 ہیں تو وہ اسی ہجرت مدینہ کے صدقے سے ہیں۔ گویا اسلام کی بنیاد ظاہری شان و شوکت، فتوحات، سامان حرب و ضرب کی کثرت سےنہیں ہیں بلکہ اسلام ایثار و قربانی، عزم و استقامت ، صبرو شکر کی تعلیمات دینے والا ضابطہ حیات اور دین ہے۔ اسی ایثار و قربانی اور عزم و استقامت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسلامی تاریخ کا حصہ بنانے کے لئے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلامی سال کا آغاز ہجرت مدینہ کی نسبت سے محرم الحرام سے فرمایا کیونکہ ہجرت مدینہ کا آغاز محرم الحرام سے ہوا اور اس کی تکمیل ربیع الاول میں حضور نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ پہنچنے سے ہوئی۔ ہمیں اسی حکمت اور فلاسفی کو اپنانا ہوگا۔
پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے غریب اور کمزور لوگ تھے مگر ان کے دلوں میں آزادی کے ساتھ زندہ رہنےکی تڑپ اور جذبہ تھا۔ وہ آزادی کے حصول کے لئے جان، مال قربان کر دینے کے لئے ہمہ وقت پر عزم رہتے تھے اور پھر جب آزادی کا دن آیا تو عظیم مجاہدینِ آزادی نے اپنے گھر بار، مال و اسباب، عزیز و اقارب سب کو چھوڑ کر غلام خطے سے آزاد خطے کی طرف ہجرت کی۔ جب بھی ہم آزادی کا دن منائیں تو ہماری نظریں ان شہداء کے خون کے تصور سے جھکی ہوئی ہونی چاہئیں جنہوں نے آزادی کے لئے سب کچھ قربان کر دیا۔۔ ۔آزادی کے دن ہمارے دل و دماغ میں ان ہزاروں ماؤں کی بےگور و کفن لاشیں ہونے چاہئیں جنہوں نے آزادی کا خواب دیکھتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ اس دن ان مفلس اور بوڑھوں کا تصور دل میں زندہ کرنا چاہیے جنہوں نے غلامی کی زندگی کو موت پر ترجیح دی۔۔۔ ان ہزاروں، لاکھوں بچوں کا تصور ذہن میں لانا چاہیے جنہیں ان کی ماؤں کے سامنے نیزوں پر اچھالا گیا۔ اگر ہم ان قربانیوں کو یومِ آزادی کے دن اپنے دل ودماغ میں زندہ کر لیں تو ہمیں پاکستان اور تصور پاکستان کی سمجھ آجائے گی پھر ہم ناچ گانے میں وقت ضائع نہیں کرینگے بلکہ ان قربانیوں کو ذہن میں لا کر اپنے اندر پھر اسی جذبۂ ایثار کو زندہ کرنے کوشش کریں گے اور جب تک پاکستان حاصل کرنے کے لئے جان و مال لٹا دینے والا جذبہ ہمارے اندر زندہ نہیں ہوگا، اس وقت تک ہم پاکستان کی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی امنگوں کے مطابق تعمیرِ نو نہیں کر سکیں گے۔