خوش نصیبی کے حوالے سے مختار مسعود نے لکھا ہے:
’’وہ مقام جہاں جہاں خواہش قلبی اور فرض منصبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش نصیبی کہتے ہیں‘‘۔
(آوازدوست، مختار مسعود)
میری دیرینہ خواہش تھی کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حوالے سے کچھ لکھوں لیکن ان کے وسیع علمی ذخیرے سے کماحقہ استفادہ نہ ہونے اور کچھ غم دوراں، کچھ غم جاناں کی وجہ سے اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ کمال حیرت ہے کہ آپ 530 بلند پایہ کتب لکھ کر انسانیت اور عالم اسلام کی عظیم خدمت کی ہے (اور اتنی ہی کتب ابھی زیر اشاعت ہیں) جب کہ ہم ایسے کم علم ابھی ان تمام کتب کو پڑھ بھی نہیں پائے۔۔ بہرحال یہ فقیر اپنی اس خواہش کی جزوی تکمیل کچھ یوں کر پایاکہ اپنی نگرانی میں آپ کے فکر و فن کے حوالے سے ایک پی ایچ ڈی کا اور ایک ایم فل کا مقالہ لکھوایا ہے۔ وحید عزیز چوہدری ایم فل اردو سیشن 16-2014ء شعبہ اردو، منہاج یونیورسٹی لاہور نے’’علامہ اقبال اورڈاکٹر طاہر القادری کا فلسفہ ء انقلاب ‘‘ کے عنوان سے ایک جامع مقالہ لکھا ہے۔ شہزادی ممتاز پی ایچ ڈی سکالر سیشن 18-2015ء شعبہ اردو، منہاج یونیورسٹی لاہوربھی میری نگرانی میں ’’پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کا فکری و اسلوبیاتی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھ رہی ہیں۔ )
ماہنامہ منہاج القرآن کی طرف سے برادرم نور اللہ صدیقی کا خط پہنچاتو گویا ’از کجا می آید ایں آواز دوست ‘ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔
اردو زبان وادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے لئے یہ امر باعث تشکر و افتخار ہے کہ شیخ الاسلام نے کمیت اورکیفیت (Quantity and Quality) کے لحاظ سے اردو زبان و ادب کا دامن لعل و جواہر سے بھر دیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں دینی سکالرز نے ہمیشہ اردو زبان وادب کو ایک مضبوط سہارا دیا ہے۔ ولی اللہّی خاندان کے قرآنی تراجم ہوں، مولانا اشرف علی تھانوی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں کا دینی لٹریچر ہو یا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی خطابت ہو، سب اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا عطیہ اس لحاظ سے فزوں تر ہے کہ یہ تقریری بھی ہے، تحریری بھی اور آن لائن بھی۔ اسکی کمیت بھی زیادہ ہے اور کیفیت بھی۔ چھوٹا منہ، بڑی بات کہ ایسی ہی ایک بات بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی کہی تھی۔ 1950ء میں حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے بابائے اردو نے کہا تھا:
’’میرے نزدیک اقبال کی جس بات کی بڑی قدر ہے، وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے عالی خیالات اور افکار بلند سے ہماری قومی زبان کا مرتبہ اس قدر بلند کر دیا کہ اس سے پہلے اسے کبھی نصیب نہ ہوا۔ ‘‘
( اقبال اور عبدالحق، ممتاز حسن)
کم و بیش 40 برس سے اردو زبان وادب شیخ الاسلام کی گراں قدر تحریروں سے فیض یاب ہورہی ہے۔ دو ماہ پہلے دورہ علوم الحدیث میں خطاب کے دوارن آپ نے فرمایا:
’’آج کل میں براہ راست پہلے انگریزی یا عربی میں لکھتا ہوں، پھر اس کا ترجمہ اردو میں آسانی سے ہو جاتا ہے ‘‘
میری رائے میں اب آپ کے لئے اردو، انگریزی یا عربی کا معاملہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اصل اہمیت ناظرین، سامعین اور قارئین کی ہے۔ پہلے ان کے اول مخاطبین زیادہ تر پاک وہند کے لوگ تھے مگر اب اول مخاطب یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کے لوگ ہیں۔ جو روانی، روشنی اور صفائی اردو زبان و ادب میں تھی، وہی انگریزی اور عربی میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان زبانوں میں بھی جدید اور عام فہم اسالیب اپنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
فرانسیسی فطرت پسند بفن(1707.88ء) سے ایک قول منسوب ہے۔
"Style is the man himself"
یعنی ’’اسلوب تو آدمی خود ہی ہوتا ہے‘‘۔ چلتا پھرتا، اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا۔ جیسے اسلوب گفتار، اسلوب رفتار، اسلوب تقریر، اسلوب تحریراور اسلوبِ حیات وغیرہ۔
اسلوبیات (Stylistics) اب باقاعدہ ایک صنف ادب بن چکی ہے۔ صاحب اسلوب ہونا ایک اعزاز ہے مگریہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ ایک لکھنے والا جانے کتنی بار اپنے لکھے کو کاٹتاہے، چھانٹتا ہے، بناتا ہے اور سنوارتا ہے اور پھر بھی وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ بقول حضرت امیر مینائی:
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر صورت
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بلاشبہ ایک صاحب اسلوب لکھاری ہیںمگریہ اعزاز انہیں کم وبیش پچاس سالہ شبانہ روز مشقت کے بعد ملا ہے۔ میرا گمان یہ ہے عنفوان شباب میں وہ مختلف اسالیب آزماتے رہے ہیں۔ ہر لکھنے والے کی طرح ایساکرنا ایک قدرتی عمل ہے لیکن آگے چل کر جب انہوں نے انقلاب کی طرف قدم بڑھایا تو صاحب اسلوب بننا، ان کا مقصد حیات نہ تھا۔ انہوں نے تو اپنے تئیں ایک مشن اور ایک اعلی نصب العین کے لئے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ اسلوب یاسٹائل بھی ساتھ ساتھ بنتا اور نکھرتا چلا گیا اور یہی ایک فطری طریقہ ہے۔
سر سید احمد خان (1817.98ء) پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا تھا کہ ان کا اسلوب کھردرا ہے۔ سر سید نے جواب دیا کہ جب کسی کے گھر کو آگ لگی ہو تووہ شخص لوگوں کو مدد کے لئے سُر میں نہیں پکارتا۔ یہاں سرسید احمد خاں اور شیخ الاسلام کا موازنہ مقصود نہیں۔ اُن کا مشن ہے کہ سر سید احمد خاں نے ایک یونیورسٹی بنائی تھی، میں 100 یونیورسٹیاں بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ چونکہ اردو زبان بھی اب سر سید کے زمانے سے ڈیڑھ سو برس آگے جا چکی ہے، اسی تناسب سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا اسلوب تحریر بھی زیادہ نکھرا ہوا ہے۔
موضوعاتی اعتبار سے توحید ربانی، عشق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اصلاح و وحدت امت، اصلاح معاشرہ، فلاح انسانیت اور عوامی انقلاب آپ کے خاص موضوعات ہیں۔ ان کا اسلوب تحریر بھی انہی مرکبات کا جامع ہے۔
اس حوالے سے ہم پہلے ترجمہ قرآن مجید ’’عرفان القرآن‘‘ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس میں شیخ الاسلام کا ایک منفرد اسلوب سامنے آتا ہے۔ ظاہر ہے، ترجمہ قرآن میں مترجم اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہیں کر سکتا لیکن جس طرح قرآن مجید کی ایک جیسی آیات کو مختلف قراء حضرات کی آوازیں ایک دوسرے سے متمیز کر دیتی ہیں، اسی طرح مختلف مترجمین کی تربیت، پس منظری مطالعے اور زبان و بیان پر گرفت سے ترجمہ قرآن کو شرف قبولیت ملتا ہے۔ شیخ الاسلام کا ترجمہ قرآن عالمانہ بھی ہے اور عاشقانہ بھی۔ ’’عرفان القرآن ‘‘ کی تقریب افتتاح منعقدہ 13 اپریل 2006ء کے موقع پر انہوں نے فرمایا:
’’تراجم تو بڑے بڑے لوگ کر گئے ہیں۔ میں نے توان بڑوں کی قطار میں ایک چھوٹے بچے کی حیثیت سے اپنی جگہ بنائی ہے۔ اللہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے طفیل میری اس عاجزانہ کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے‘‘۔
اگرچہ دیگر مترجمین نے بھی ترجمے کے ساتھ حواشی لکھے ہیں لیکن آپ نے وضاحت طلب بات کو ترجمے کے دوران قوسین میں سمو دیا ہے۔ شیح الاسلام کے ہاں وارفتگی زیادہ ہے۔ عالمانہ اور عاشقانہ ترجمے کی مثالیں عرفان القرآن میں ہمیں جا بجا نظر آتی ہیں۔ بلا شبہ یہ ترجمہ قرآن، اکیسویں صدی میں اردو داں طبقے کے لئے ایک تحفہ ہے جس میں ترجمہ اور تفسیر دونوں کی تاثیر یکجا نظر آتی ہے۔
عمدہ تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہر ذہنی سطح کے قاری کے لئے آسان ہوتی ہے۔ اس ترجمے میں یہ خوبی بھی موجود ہے۔ یہ با محاورہ ترجمہ ہے جس میں سلاست اور روانی بدرجہ کمال پائی جاتی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے ایک روحانی حلاوت، جو ادبی خاصہ ہے، قاری پر نزول کرتی ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی ہے جو کہ اپنی ایک الگ شان رکھتا ہے۔
شیخ الاسلام کے اسلوب تحریر کا ایک دلآویز عکس ’’سیرۃالرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں ترجمہ قرآن کے مقابلے پر، انہیں اپنے اسلوب تحریر کو منعکس کرنے کی آزادی زیادہ حاصل تھی۔ اب تک اردو میں علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ اورپیر کرم شاہ الازہری کی ’’ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ سب سے زیادہ ضخیم سیرت پاک کی کتب (6، 7 جلدیں) سمجھی جاتی تھیں۔ شیخ الاسلام نے 10 جلدوں میں ’’سیرۃالرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھ کر اردو سیرت نگاری میں ایک نیا ریکارد قائم کیا ہے۔ اس میں آپ نے بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے علم و ہنر کا تمام سرمایہ نچھاور کر دیا ہے۔
گلوبل ویلج کے جدید دور میں نمایاں افراد کو تو چھوڑئیے، عام آدمی کے معمولات اور حرکات و سکنات بھی ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ پچاس یا سو برس پہلے تک اس بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اللہ پاک کانظام دیکھئے کہ چودہ سو سال پہلے صحابہ کرام کے ذریعے اپنے حبیب کی ایک ایک ادا کو محفوظ فرما دیا۔ شیخ ا لاسلام لکھتے ہیں:
’’آج ہمیں ایک ہمہ گیر فکری تبدیلی (paradigm shift) کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب فکر و عمل کے باب میں براہ راست رہنمائی سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کریں۔ ‘‘
شیخ الاسلام اور عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے تو ایک الگ مقالہ درکارہے۔ ان محدود صفحات میں اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ تاہم اسی عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت آپ کی تحریریں پڑھنے والوں کے دلوں کی دھڑکن اور ہونٹوں کا نغمہ بن جاتی ہیں۔
آسکر وائلڈ (1900-1854)نے لکھا ہے:
Everybody will know who the writer is: one's style is one's signature always.''
(ڈیلی ٹیلیگراف، لندن، آسکر وائلڈ)
جس طرح ہم کسی معروف قاری، نعت خواں یا گلوکار کو پس پردہ بھی پہچان لیتے ہیں، اسی طرح معروف لکھنے والے بھی اپنے طرز تحریر سے صاف پہچانے جا تے ہیں۔ اسلوب تحریر، لکھنے والے کی ایک الگ پہچان بن جاتا ہے۔ شیخ الاسلام کااسلوب بھی اپنی دھلی دھلائی نثر، نفاست بیان، بر محل اشعار، برموقع مثالوں اور شفافیت کی وجہ سے صاف پہچانا جاتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’شرق سے غرب تک دنیا کا کوئی بھی گوشہ ہو، دین پر عمل کرنے میں کہیں بھی دشواری اور مشکل نہیں ہے۔ مشکل صرف اس لئے لگتی ہے کہ ہمیں خبر نہیں ہوتی کہ دین کا حکم کیا ہے ؟۔ ‘‘
(جدید مسائل کا اسلامی حل، شیخ الاسلام دکتور طاهرالقادری، ص 27)
آپ کی تحریر یں بنیادی طور پر دینی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، اسی لئے ان میں متانت اور سنجیدگی کا عنصر پایا جانا لازمی ہے۔ اس کے ساتھ تحریر کی روانی جو آپ کی تقریر کا خاصہ بھی ہے، قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ کہیں بھی عبارت میں لکنت یا رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ ایک دھارا (flow) ہے جو بہتا چلا جاتا ہے۔ ایک ایک فقرہ خیالات کی تندی و تیزی کو لے کر جوئے نغمہ خواں بن جاتا ہے۔
کسی لکھنے والے کے پیش نظر جس قدر ارفع واعلیٰ مقصد ہو گا، اسی قدر اس کی تحریر میں اثر آفرینی اور دیر پائی ہو گی۔ شیخ الاسلام کے سامنے بھی زندگی کے اہم ترین تقاضے ہیں، بلند مقاصد اور نیک تمنائیں ہیں، اسی لئے ان کی تحریروں میں بھی ایک دلگداز اثر آفرینی اور مقصدیت کی خوشبو فراواں ہے۔ صاف اور سادہ الفاظ میں کہی ان کی تحریروں میں مصطفوی انقلاب کی صدائیں گونجتی ہیں۔ اس مقام پر وہ حضرت علامہ اقبال کے ہمنوا ہو جاتے ہیں:
’’مگر (اقبال کے) یہ سارے افکار اپنی اہمیت کے باوجود ایک طرف اور ان کا پیغامِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک طرف ہے۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ کیا آپ کوان افکار نے حکیم الامت بنایا تو ان کا جواب نفی میں ہے۔ ان کا کلام پیغام عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ سارے افکار اگرچہ علامہ اقبال نے دیئے ہیں مگر وہ حکیم صرف نسبتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بنے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ حکیم الامت کس طرح بنے ؟تو وہ فرمانے لگے: ’’میں نے ایک کروڑ مرتبہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا ہے، یہ تم بھی پڑھ لو حکیم الامت بن جاؤ گے‘‘
(اقبال اور پیغام عشق رسول، شیخ الاسلام طاهرالقادری، ص24)
اقبال اور تصور عشق کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے قلم کے جوہر خوب دکھائے ہیں۔ یہاں ان کا اسلوب تحریرکچھ رومانویت اور کچھ خطابت میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق عناصر خمسہ کے امتزاج سے وجود پذیر ہوتا ہے یعنی اخلاص، یقین، عمل، فقر اور حضوری۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اقبال کے نزدیک صحیح رہنمائی کے لئے جس حضوری کی ضرورت ہے، وہ نہ عقل کے ذریعے سے میسر آ سکتی ہے، نہ علم کے واسطے سے۔ حسن ِتمام کی صحبت، جس قدرعشق کو نصیب ہے کسی اور کو نہیں۔ کیونکہ بقول اقبال اگر حسن محفل ہے تو عشق ہنگامہء محفل ہے۔۔۔ حسن اگر زلف ہے توعشق اس کی پیشانی ہے۔۔۔ حسن تصویر ہے تو عشق اس کی حیرانی ہے۔۔۔ حسن جلوہ ہے تو عشق اس کا پرتو ہے۔۔۔ حسن خورشید ہے تو عشق اس کی تپش ہے۔۔۔ حسن ماہتاب ہے تو عشق اس کی روشنی ہے۔ الغرض حسن و عشق جس جس روپ میں بھی ہوں، عشق کو حسن کا وہ قرب حاصل ہے جو کسی اور شے کو میسر نہیں۔ لہٰذ ا اسی سے حضوری ممکن ہے۔۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشق کی یہ چنگاری جو شعلہ ء جوالہ بن کر انسانی شخصیت کے ہر گوشے کو منور اور اس کے قلب و باطن کو انقلاب آشنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، کس طرح بھڑکائی جائے ؟ اقبال اس مقام پر ہماری رہنمائی کرتے ہوئے جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فریفتگی کی تلقین کرتا ہے۔ ‘‘
’’اقبال اور تصور عشق‘‘، شیخ الاسلام دکتور طاهرالقادری، ص20)
عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر زمانے میں شمعِ رسالت پر قربان ہوتے رہے ہیں۔ فی زمانہ ان کی آزمائش کے لئے ایک بہت بڑا فتنہ ’’قادیانیت یا مرزائیت ‘‘ کا ہے۔ برٹش ایمپائر کے وقتوں میں امت مسلمہ کو مزید پارہ پارہ کرنے کے لئے اس ناسور کو جسد امت میں انجیکٹ کیا گیاتھا۔ اب ناسور دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ اس حوالے سے شیخ الاسلام کی رگ حمیت و غیرت پھڑک اٹھتی ہے۔ ان کی تحریر ایک مجاہد کی تلوار بن جاتی ہے۔ ان کے لفظ لفظ اور سطر سطر میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آگ بھڑکنے لگتی ہے۔
’’اگر کوئی لعین آپ کے باپ کے بارے میں کہے کہ وہ تو سور کی چربی استعمال کرتے تھے، خود کو چودھویں کا چاند اور آپ کے والدکو پہلی رات کا چاند قرار دے تو آپ کا جواب کیا ہو گا ؟۔۔۔۔ اگر کوئی بدمعاش آپ کے مکان میں زبردستی گھس آئے اور اس پر مکمل قبضہ کرکے آپ کو وہاں سے بے دخل کرنا چاہے تو آپ کا سلوک اس کے ساتھ کیا ہوگا؟ مجھے یقین کامل ہے کہ ہر باغیرت شخص اس طرح کے سوال کرنے والوں کو برداشت نہیں کرے گا۔ قارئین کرام! توآئیے کتاب بند کرنے سے پہلے ہم سوچیں کہ اپنی بیٹی، اپنے دوست، اپنے باپ، اپنی بیوی، اپنے گھر اور اپنی ذات کی توہین و گستاخی کرے تو ہم برداشت نہیں کرتے اور اگر آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی توہین پر خاموشی سے آگے بڑھ جائیں تو یہ کیسے ممکن ہے۔ ‘‘
(عقیده ختم نبوت اور فتنه قادیانیت، شیخ الاسلام، ص: 363)
شیخ الاسلام کے اسلوب تحریر کی ایک اہم جہت آپ کی تحقیقات ہیں۔ قرآنی تعلیمات ہوں یا سیرت مطہرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان، فقہی مسائل ہوں یا مسالک کا بیان، اقتصادی نظریات ہوں یا سیاسی انقلابات، تعلیمات ہوں یا سماجیات، ہرحال میں محققانہ شان قائم رہتی ہے۔ کوئی بات بنا ثبوت اور دلیل کے نہیں کی جاتی اورہر بات پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ لکھی جاتی ہے۔ اس امر کاالتزام ان کی ہر تصنیف کی خوبصورتی کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
تفصیلی بیان کے بعد کہی گئی بات میں تشنگی نہیں رہتی۔ مثلاً: انسان اور کائنات کی تخلیق و ارتقاء کے حوالے سے لکھتے ہوئے جہاں نظامِ ربوبیت کے حوالے سے بات کی ہے وہاں خالص سائنس اور نیچرل سائنس (pure science and natural science) کا گہرا مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ ظاہری حواس خمسہ کی تفصیل پیش کی ہے تو باطنی حواس خمسہ کا مکمل احوال بھی لکھا ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ سائنس کی روز افزوں اور حیرتناک ترقی کے پیش نظر دوسرے اصحاب علم و فہم کو اختلاف رائے کا حق بھی دیا ہے۔ یہ کشادہ دلی اور نئے ڈسکورس کے لئے قلب و نظر کی فراخی، ان کے پڑھنے والوں کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔
’’کرۂ ارض پر تخلیق انسانی کے آغاز کے لئے خمیر بشریت اپنے کیمیائی ارتقاء کے کن کن مراحل سے گزرا۔ اپنی صفائی اور لطافت کی آخری منزل کو پانے کے لئے کن کن تغیرات سے نبردآزما ہوا اور با لآخر کس طرح اس لائق ہوا کہ اس سے حضرت انسان کا بشری پیکر تخلیق کیا جائے اور اسے خلافت و نیابت الٰہیہ کے منصب پر سرفراز کیا جائے۔ یہاں یہ امر پیش نظر رہے کہ ان ارتقائی مراحل کاجس ترتیب اور تفصیل سے ذکر کیا ہے، اسے حتمی نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی صاحب علم جزئیات و تفصیلات کے بیان سے اختلاف کر سکتا ہے۔‘‘
(انسان اور کائنات کی تخلیق و ارتقاء، شیخ الاسلام، ص25)
شیخ الاسلام کے اسلوب تحریر کا ایک اہم عنصردردمندی ہے۔ وہ درد مندی جس میں سوزوساز رومی بھی ہے اور پیچ و تاب رازی بھی۔ جس میں امت مرحوم کے زوال کا غم بھی ہے اور بنی نوع انسان کی بربادی کا دکھ بھی۔ یہ سوزو دردمندی جب تحریر کا روپ دھارتے ہیں تو ’’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ جیسی شاہکار کتابیںوجود میں آتی ہیںاور جب تقریر میں ڈھلتی ہے تو لانگ مارچ اور دھرنے کی شکل میں کاخ امراء کے درو دیوار کو ہلا کے رکھ دیتی ہے۔
لمحۂ موجود میں عالم انسانیت کو دہشت گردی کی شکل میں ایک نئے عفریت کا سامنا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ امن عالم غارت ہو چکا اور امت مسلمہ پرد ہشت گردی کا لیبل چپکا یا جا چکا ہے۔ ان حالات میں شیخ الاسلام کا تجزیاتی اور مدلل اسلوب تحریر فکرونظر کے نئے گوشے وا کر رہا ہے:
"Islam is a religion of peace and security, and it urges others to pursue the path of peace and protection. The most significant proof of this is that God has named it as Islam. The word ISLAM is derived from the Arabic word "salama or salima". It means peace, security, safety and protection. As for as its literal meaning, Islam denotes absolute peace. As a religion it is peace incarnate. It encourages humankind to be moderate, kind, balanced, tolerant, patiet and forbearing.''
(FATWA on Terrorism and Suicide Bombings, p. 21.)