ہم نے تاریخ و سیّر اور تذکرہ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کی برسات اسکے کچھ بندوں کو یوں سرشار کرتی ہے کہ وہ افراد اپنی ذات میں انجمن بن جاتے ہیں۔ علاوہ ازیںہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ کچھ لوگ علم لدنی کی نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں،جب وہ کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں یا قلم اٹھاتے ہیں تو علم کے خزانے لٹاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ جان کرحیرانگی اور تعجب ہوتا تھا اور ذہن میں یہ سوال ابھرتا تھا کہ ایسا کیونکر ممکن ہے؟
مگر الحمد للہ کہ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن لاہور میں سات سالہ دورِ تعلیم کے دوران شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی شخصیت کو قریب سے دیکھا تو مذکورہ بالا سوال کا جواب ملا اور معلوم ہوا کہ علم و عمل اور وقت میں برکت کیا ہوتی ہے۔ شیخ الاسلام کی شخصیت اور انہیں حاصل علوم و معارف کا اظہار تو اکثر اوقات جامعہ منہاج القرآن میں دوران تعلیم ہمیں ہوتا ہی تھا مگر راقم کو مصر سے لسانیات میں ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کے بعد شیخ الاسلام مدظلہ العالی کی شخصیت کا نیا عرفان نصیب ہوا۔ مجھے ان کی ذات میں اللہ تعالی کی رحمتوں اور بارگاہ ِ رسالت کے فیوض کی بہاریں نظر آئیں اور کھلی آنکھوں سے یہ دیکھنا نصیب ہوا کہ’’علم لدنی‘‘کے جلوے کیا ہوتے ہیں۔
شیخ الاسلام مدظلہ نے انگلش میڈیم سکول میں پڑھتے ہوئے سائنس میں میٹرک کیا، اس کے بعد ایف ایس سی (پری میڈیکل) کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی سے لیکر پی،ایچ،ڈی تک قانون کی تعلیم حاصل کی۔
اس رسمی تعلیم کے ذرائع سے اکتساب کرنے کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام کو اپنے والد گرامی ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی علوم و معارف حاصل کرنے اور علمی، فکری، تربیتی اور روحانی جواہر سمیٹنے کا موقع ملا۔ شیخ الاسلام کو عربی اور اسلامی علوم میں حاصل گہرے رسوخ کی وجہ آپ کے والد گرامی فرید ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں کہ جنہوں نے اپنے نور نظر کو نہ صرف خود عربی اور اسلامی علوم کی تعلیم دی بلکہ اپنے عہد کے دیگر بہترین اہل علم سے استفادہ کا ذوق بھی بخشا۔ ان میں عرب شیوخ مولانا ضیاء الدین المدنی رحمۃ اللہ علیہ اور سید علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ قابل ذکر ہیں۔ شیخ الاسلام سکول سے پڑھ کر واپس آتے تو گھر میں عربی واسلامی علوم کی تدریس کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اس طرح حضرت فرید ِملت نے اپنے بیٹے کی تربیت میں کچھ کمی نہ چھوڑی اور اپنے لخت جگر کو درسیات کا کچھ نصاب خود پڑھایااور کچھ دوسرے اساتذہ سے بھی پڑھوایا۔آپ نے ایک مرتبہ اپنے ہونہار صاحبزادے کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ہم نے جو علوم و معار ف ہندوستان، مصر اور حرمین شریفین کے لمبے اسفار کے بعد حاصل کئے تھے، وہ آپ کو اس چار پائی پر بیٹھ کر منتقل کر دئیے ہیں۔‘‘
یہ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاص اور لگن کی برکت تھی کہ ان کے سراپا سعادت صاحبزادے نے بھی اس اضافی تعلیم کے حوالے سے کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہ کیا تھا،بلکہ اپنے عظیم والد کی آرزوؤں اور امنگوں کے عین مطابق دل وجان سے عربی واسلامی علوم حاصل کئے۔
عربی زبان و ادب میں کمال مہارت
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ ایک متبحرعالم دین ہیں جو اسلامی علوم و فنون میں لکھے گئے دقیق عربی نصوص کے فہم اور ان نصوص سے استدلال و استنباط کے ساتھ ساتھ اس میں مضمر بلاغی و اسلوبی، نحوی و صرفی پیراؤں کے ادراک میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اس قدرت و صلاحیت کو پانے کے لیے آپ نے بچپن سے انتہائی محنت و مشقت کے ساتھ عربی واسلامی علوم و فنون کو پڑھا اور آج تک مسلسل عربی کتب کا مطالعہ آپ کا معمول ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ تحریر و تصنیف اور عربی تقریر و تکلم کے میدان میں بھی نمایاں خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اس میدان میں آپ کی اعلیٰ مہارتیں اور ثقاہت آپ کے علمی و تصنیفی شہہ پاروں میں موجود ہیں۔ آپ جب عربی میں گفتگو فرماتے ہیں تو عرب شیوخ آپ کی فصاحت لسانی، قوی استدلال، وسعت مطالعہ، اندازِ تخاطب، دینی حمیت، جوش و جذبہ ،فکری پختگی اور ابلاغی مہارت پر حیران و ششدر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ الغرض آج ہم عربی زبان و ادب کے جس گوشے پر نظر دوڑائیں تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہمیں تابناک و روشن سورج کی مانند نظر آتے ہیں۔ چند گوشے درج ذیل ہیں:
عربی خطبات
حضرت شیخ الاسلام کے دل میں عربی زبان کی محبت آپکے والد گرامی حضرت فرید ملت کی تربیت کی بدولت رچی بسی ہے اور آپ کو عربی میںخداداد مہارت حاصل ہے۔ آپ جب عرب ممالک کے دورہ کے موقع پر عربی میںخطاب فرماتے ہیں تو عرب شیوخ آپ کے علمی نکات اور عربی میں آپکی مہارت سے متاثر ہو کر آپ کی دست بوسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جامعہ الازہر کے شیخ الحدیث ڈاکٹر سعد جاویش آج بھی اپنی حدیث کی نشستوں میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے لی گئی اپنی سندِ حدیث کا تذکرہ فرماتے ہیں اور دور حاضر میں حدیث کے میدان میں آپ کی علمی مساعی کا سنہری الفاظ میں ذکر کرتے ہیں۔
شام کے مفتی اعظم الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب ’’المنہاج السوی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقفت علی تألیف جلیل لمولانا شیخ الإسلام الجهبذ الجَحجاح أوحد زمانه وفرید عصره وأوانه البروفسور العلامة والشیخ الحبر الفهّامة بحر العلوم صاحب التصانیف ومؤلف المؤلفات العارف باﷲ والدال علیه بالحال والقال العالم العامل عماد الدوحة القادریة الأستاذ الدکتور محمد طاهر القادري الموسوم: ’’المنهاج السوي من الحدیث النبوي صلی الله علیه وآله وسلم‘‘ قد حوی علی ما یحتاجه المسلم في بناء نفسه وروحه وسلوکه ومجتمعه وإقامة العلاقة بربه.
’’مجھے شیخ الاسلام، علامّہ زماں، فریدِ دوراں، نابغہ عصر، رہنمائے اسرارِ حال و قال، عالم باعمل، عارف باﷲ، شوکتِ سلسلۂ قادریہ، صاحب تصانیف کثیرہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی بلند پایہ تالیف ’’المنہاج السوي من الحدیث النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ دیکھنے کا موقع ملا، یہ کتاب ایسی احادیث پر مشتمل ہے جن سے ہر مسلمان اپنے نفس و روح کی اصلاح، تعمیرِ شخصیت و اصلاح معاشرہ اور اپنے رب کے ساتھ تعلقِ بندگی قائم کرنے میں رہنمائی لے سکتا ہے‘‘۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دور حاضر میں عرب خطہ میںاسلامی تصوف اور عقیدئہ اہل سنت وجماعت کو تقویت دینے والی احادیث کو تخریج کے نام پر کتب حدیث سے خارج کیا جارہا ہے اور بدقسمتی سے عرب علماء اس علمی خیانت کی گرفت کرنے کی طرف متوجہ نظر نہیںآتے۔مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی تصنیفات میں ایسی احادیث کی ثقاہت کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا ہے، نیزاصول حدیث اور اسماء الرجال کے دقیق اور پیچیدہ موضوعات کو سرزمین مصر اور دیگر عرب ممالک میںعلمی ثقاہت کے ساتھ عربی زبان میں مدلل و محقق انداز میں پیش کیا ۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ عرب ممالک میں رہنے والے افراد جانتے ہیں کہ ان کے ہاں خطاب آدھ گھنٹہ سے پون گھنٹہ دورانیہ کا ہوتا ہے لیکن ہم نے مصر میں شیخ الاسلام کے نومبر 2012ء کے دورے کے دوران دیکھا کہ جس جگہ بھی آپ نے خطاب فرمایا کم از کم اڑھائی گھنٹے خطاب فرمایا ۔اس دوران جامعۃ الازہر اور دیگر مصری جامعات کے علماء ہمہ تن گوش ہو کر آپ کے عالی استدلال اور عربی فصاحت سے محظوظ ہورہے تھے۔
ابو ظہبی کے الشیخ اسماعیل فخرانی آپ کے علمی مقام و مرتبہ اور خدمات ِاسلام کے بارے میں یوں تذکرہ کرتے ہیں:
’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم نے عجمیوں سے قرآن سیکھا ہے، شیخ الاسلام کی زبان سے علم ٹپکتا ہے ،میں ان سے محبت کرتا ہوں۔پاکستان ،افغانستان اور روس تک گیا ہوں، ان جیسا عالم کہیں نظر نہیں آیا۔‘‘
عربی تصنیفات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان ادق اور باریک موضوعات پر عربی زبان میں کتب و رسائل تحریر فرمائے کہ بندہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عظیم علمی صلاحیت سے نوازا ہے۔ آپ کی تصنیفات: حدیث، تفسیر، اصول فقہ، علم الکلام، فقہ وتربیت، عقیدہ اور فکری و اصلاحی موضوعات پرمشتمل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حدیث، اصول حدیث، تفسیر اور علم الکلام پر لکھی گئی قدیم کتب کی عبارت پڑھ اور سمجھ لینا یقینا علمی رسوخ پر دلالت کرتا ہے۔
عربی میں تصنیف کی گئی آپ کی درج ذیل کتب عربی زبان میں آپ کی عظیم صلاحیت کی عکاس ہیں:
- کَشْفُ الْغِطَا عَنْ مَعْرِفَةِ الْأَقْسَامِ لِلْمُصْطَفٰی صلی الله علیه وآله وسلم
- مَعَارِجُ السُّنَنِ لِلنَّجَاةِ مِنَ الضَّلَالِ وَالْفِتَنِ
- اَلْخُطْبَةُ السَّدِیْدَة فِي أُصُوْلِ الْحَدِیْثِ وَفُرُوْعِ الْعَقِیْدَة
- تَرْغِیْبُ الْعِبَاد فِي فَضْلِ رِوَایَةِ الْحَدِیْثِ وَمَکَانَةِ الْإِسْنَاد
- رِحْلَةُ الْعَاشِقِیْن إِلَی الْبَلَدِ الْمُبَارَکِ الْأَمِیْن
- غَایَةُ الْإِنْعَام فِي فَضَائِلِ الشُّهُوْرِ وَالْأَیَّام
- اَلْقَوْلُ السَّوِيِّ فِي رَدِّ الشَّمْسِ لِعَلِيِّ علیه السلام
- اَلْکِفَایَة فِي حَدِیْثِ الْوِلَایَة
- الْقَولُ الْقَوِيّ في سَمَاعِ الْحَسَنِ عَنْ عَلِيّ رضی الله عنهما
- تَکْمِیْلُ الصَّحِیْفَة بِأَسَانِیْدِ الْحَدِیْث فِي الْإِمَامِ أَبِي حَنِیْفَة رضی الله عنه
- اَلْمُنْتَقَی لأَسَانِیْدِ الْعَسْقَلَانِي إلٰی أَئِمَّةِ التَّصَوُّف وَالْعِلْمِ الرَّبَّانِي
- أَحْسَنُ الْمَوْرِدِ فِي صَلٰوةِ الْمَوْلِدِ
- صَلَوَاتُ سُوَرِ الْقُرْآنِ عَلٰی سَیِّدِ وَلَدِ عَدْنَانَ صلی الله علیه وآله وسلم
- أَسْمَاءُ حَامِلِ اللِّوَاءِ مُرَتَّبَةٌ عَلٰی حُرُوْفِ الْهِجَاءِ
- دَلَائِلُ الْبَرَکَات فِی التَّحِیَّاتِ وَالصَّلَوَات
- الإرهاب وفتنة الخوارج (فتوی)
- مِنْهَاجُ الْخُطْبَات لِلْعِیْدَیْنِ وَالْجُمُعَات
- اَلتَّصَوُّرُ التَّشْرِیْعِيّ لِلْحُکْمِ الْإِسْلَامِيّ
- فَلْسَفَةُ الْإِجْتِهَاد وَالْعَالَمُ الْمُعَاصِر
- اَلْجَرِیْمَةُ فِي الْفِقْهِ الْإِسْلَامِيّ
- قَوَاعِدُ الإِقْتِصَادِ فِي الإِسْلاَمِ
- اَلْإِقْتِصَادُ اللَّارِبَوِيُّ وَالنِّظَامُ الْمَصْرَفِيُّ الإِسْلاَمِيُّ
- اَلتَّصَوُّرُ الْإِسْلَامِيُّ لِطَبِیْعَةِ الْبَشَرِیَّة
مستقبل میں عربی زبان میں آپ کے علمی و تحقیقی کام کی نوعیت کا اندازہ اس سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ عرصہ سے آپ نے یہ اسلوب اور طریقہ اختیار فرمایا ہے کہ آپ تفسیر قرآن اور دیگر کتب براہ راست عربی میں ہی لکھ رہے ہیں۔
تصنیفات کے عربی نام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اکثراردو تصنیفات کے نام بھی عربی میں ہوتے ہیں جو کہ عربی میں آپ کی مہارت کا ایک واضح ثبوت ہے۔ مثلاً:
- اَلمِنْهَاجُ السَّوِيّ مِنَ الْحَدِیْثِ النَّـبَوِيّ
- هِدَایَةُ الْأُمَّة عَلٰی مِنْهَاجِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّة
- إِزَالَةُ الْغُمَّة عَنْ حُجِّیَّةِ الْحَدِیْثِ وَالسُّنَّة
- اَلْمَکَانَةُ الْعَلِیَّة فِي الْخَصَائِصِ النَّبَوِیَّة
- اَلْمِیْزَاتُ النَّبَوِیَّة فِي الْخَصَائِصِ الدُّنْیَوِیَّة
- اَلْعَظَمَةُ النَّبَوِیَّة فِي الْخَصَائِصِ الْبَرْزَخِیَّة
- اَلْفُتُوْحَاتُ النَّبَوِیَّة فِي الْخَصَائِصِ الأُخْرَوِیَّة
- اَلْجَوَاهِرُ النَّقِیَّة فِي الشَّمَائِلِ النَّبَوِیَّة
- اَلإِنْتِقَا مِنْ طُرُقِ الْحَدِیْثِ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی علیهما السلام
- فَرْحَةُ الْمُؤْمِنِیْن فِي طُرُقِ الْحَدِیْثِ: فَاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ
- الرُّطَبُ الْجَنِيّ فِي طُرُقِ الْحَدِیْثِ: فَاطِمَةُ بَضْعَۃٌ مِّنِّي
- جَلَاءُ الْغُمَّة مِنْ طُرُقِ الْحَدِیْثِ: الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّة
- نُورُ الْأَبْصَار بِذِکْرِ النَّبِيِّ الْمُخْتَار صلی الله علیه وآله وسلم
- مَعَارِفُ الشِّفَاء بِتَعْرِیْفِ حُقُوقِ الْمُصْطَفٰی صلی الله علیه وآله وسلم
- تُحْفَةُ السُّرُورِ فِي تَفْسِیْر آیَةِ النُّوْر
- فلسفة الحروف المقطّعة في القرآن الکریم
- تکوین الشخص الإنسانی في سورة السبع المثاني
- الفلسفة الإسلامیة للحیاة الإنسانیة
- أیها الولد الصالح
- التکشف في أصول الولایة والتصوف
- الرقائق والحقائق
- آداب الصحبة والأخوة
- البیان الصریح فی الحدیث الصحیح
- حکم السماع عن أهل البدع والأهواء
- حسن النظر فی أقسام الخبر
- الإکتمال فی نشأة علم الحدیث وطبقات الرجال
- القول المتقن فی الحدیث الحسن
- القول اللطیف فی الحدیث الضعیف
- القواعد المهمة فی التصحیح والتحسین والتضعیف عند الأئمة
آپ کی عربی اوراردو کتب کے اسماء محسنات ِبدیعیہ کی ایک قسم’’ سجع ‘‘پر مشتمل ہوتے ہیں جیسے کہ مذکورہ بالاکتب کے اسماء میں سلاست اور بے ساختگی پائی جاتی ہے اور کہیں بھی تکلف دکھائی نہیں دیتا۔ علمائے بلاغت کا یہ قول بھی مدنظر رہے کہ محسنات بدیعیہ میں خوبصورتی وہیں ہوگی جہاںبے ساختگی، سلاست اور روانی ہوگی اور جہاں تکلف سے محسنات لائے گئے ہوں، ان محسنات کو معیاری شمار نہیں کیا جائے گا۔
عربی شاعری
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عربی میں مہارت یہیں تک محدود نہیں بلکہ آپ عربی نظم و نثر پر بھی مہارت رکھتے ہیں۔ آپ نے عربی میںکلام اگرچہ کم لکھا مگر جو کچھ لکھا بہت عمدہ لکھا۔ ذیل میں شیخ الاسلام کے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کردہ عربی درودکے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ الْمُصْطَفٰی
مَا دَامَ وَجْهُکَ بَاقِیًا یَا ذَا الْعُلَا
’’اے رب کریم! اے بلند و بالا ذات! جب تک تو قائم ہے تب تک اپنے منتخب نبی مکرّم پر رحمت نازل فرما۔‘‘
یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِهِ
مَا دَامَتِ الْأَفْـلَاکُ تَجْرِي فِي السَّمَا
’’اے رب کریم! تو نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پاک پر رحمت نازل فرما جب تک افلاک (اجرام سماوی) آسمان میں محو گردش رہیں۔‘‘
یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِهِ
مَا کَوْکَبٌ فِي الْجَوِّ قَابَلَ کَوْکَبًا
’’اے رب کریم! تو نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پاک پر رحمت نازل فرما جب تک فضا میں ایک ستارہ دوسرے ستارے کے سامنے رہے۔‘‘
یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَ آلِهِ
مَا اهْتَزَّتِ الْأَشْجَارُ مِنْ رِیْحِ الصَّبَا
’’اے رب کریم! تو نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پاک پر رحمت نازل فرما جب تک درخت باد صبا سے جھومتے رہیں۔‘‘
یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَ آلِهِ
مَا أَمْسَتِ الزُّوَّارُ طَیْبَةَ أَبْطَحَا
’’اے رب کریم! تو نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پاک پر رحمت نازل فرما جب تک زائرین مدینہ منورہ میں شام گزاریں۔‘‘
یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِهِ
بِقَدْرِ أَیَّامِ الدُّهُوْرِ وَمَرِّهَا
’’اے رب کریم! تو نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پاک پر رحمت نازل فرما جتنے زمانے کے دن ہیں اور جتنی اس کی رسی لمبی ہے۔‘‘
یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِهِ
مَا قَالَ ذُوْبَیْتٍ لِضَیْفٍ مَرْحَبَا
’’اے رب کریم! تو نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پاک پر رحمت نازل فرما جب تک گھر والا مہمان کو خوش آمدید کہتا رہے۔‘‘
یہ قصیدہ63 اشعار پر مشتمل ہے جس میں سیرت طیبہ کے مختلف پہلو اجاگر کئے گئے ہیں۔ کچھ اشعار مناجات پر مشتمل ہیں اور کچھ میں اھل بیت کرام f اورصحابہ کرام l کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔
افصح الکتب ’’قرآن ‘‘ کا افصح ترجمہ’’عرفان القرآن‘‘
قرآن کریم نے زمانہ جاھلی کے عربی زبان و ادب میں مہارت رکھنے والے بڑے بڑے ادباء اور فصاحت و بلاغت کے دعوے داروں کے ناطقے بند کر دیے۔قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت عرب خطہ پر ایسے چھائی کہ سب نے اس کے سامنے اپنی گردنیں خم کردیں لہذاقرآن کریم کے افصح الکتب ہونے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں۔ اب اس الوہی کلام کا ترجمہ کرنا عربی زبان و ادب اور قواعد میں مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔جب ہم عرفان القرآن کو دیکھتے ہیں تو اس میں مترجم مدظلہ کی عربی زبان و ادب میں مہارت تامہ سنہری موتیوں کی طرح ہر سطر میں ٹپکتی نظر آتی ہے۔قرآنی دقیق عبارتوں اور مشکل موضوعات کا اتنا شاندار اور عام فہم ترجمہ کیا گیا ہے کہ بندہ یہ کہنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ حضرت مترجم تما م علمی و فنی مہارتوں پر مکمل عبور اور گرفت رکھتے ہیں،اس لیے ہم یہ بات کہنے میں کوئی دوسری رائے نہیں رکھتے کہ ترجمہ عرفان القرآن ’’افصح الکتب‘‘قرآن کریم کا افصح التراجم ہے ۔
تراث کی کتب پڑھانے کا اہتمام
راقم الحروف نے ازہر یونیورسٹی کے بزرگ اساتذہ سے سنا تھا کہ نوجوان ازہری ڈاکٹروںکا تراث کی کتابوں سے تعلق منقطع ہوچکا ہے،یعنی یہ حضرات مختلف علوم و فنون میں جدید دور کی لکھی ہوئی کتب تو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں مگر عربی و اسلامی فنون پر لکھی ہوئی متقدمین کی کتب کو سمجھنا ان حضرات کے لیے بہت دشوار ہوتا ہے۔ بزرگ ازہری اساتذہ کو اس بات کی تشویش بھی تھی اور وہ اسے علمی زوال اور انحطاط شمار کرتے تھے۔ اس تناظر میں راقم نے شیخ الاسلام کی بلند سوچ دیکھی تو انتہائی خوشی ہوئی کہ ہم کیسی عظیم ہستی سے وابستہ ہیں۔
جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن لاہورکے نصاب کی تشکیل جدید کے لیے متعین کی گئی ٹیم میں راقم بھی شامل تھا۔ الحمد للہ اس حوالے سے متعدد بار شیخ الاسلام سے ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والی میٹنگز میں حاضر رہا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ آپ نے دیگر کئی امور کے علاوہ دو چیزوں پر بہت تاکید کی:
ایک تو یہ کہ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے طلبہ و طالبات کوعربی زبان میں ایسی مہارت ہونی چاہیے کہ انہیں عربی عبارت پڑھنے اور سمجھنے میں کسی دقت کا سامنا نہ ہو۔
دوسری بات یہ کہ انہیں مختلف اسلامی و عربی علوم و فنون میں اسلاف کی اہم کتب سے منتخب ابواب پڑھائے جائیں، تاکہ انہیں عملی زندگی میں تراث کی کتب سے استفادہ کرنے میں آسانی ہو۔
الحمد للہ میں نے دیکھا کہ شیخ الاسلام خود بھی جب اپنے محاضرات (لیکچرز) کے دوران مختلف علوم و فنون میں لکھی گئی تراث کی کتابوں سے عبارات پڑھتے ہیں تو ایسی روانی سے پڑھتے چلے جاتے ہیں کہ سننے والوں کو رشک آتا ہے۔ میرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوا کہ عربی عبارات پڑھنے میں یہ روانی اور مہارت تو ہمیں عرب اساتذہ سے براہِ راست تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی حاصل نہیں ہوئی۔ تب یہ قرآنی کلمات میرے سامنے آئے:
ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُط وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.
(الحدید: 21)
’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو صحت و عافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور آپ کی قیادت میں مصطفوی انقلاب کا سویرا جلد طلوع فرمائے۔