یہ تحریرشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کے ساتھ تربیتی نشستوں کے دوران ان کی گفتگو کے نوٹس پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے یہ مواد قارئین کے سامنے نہیں آیا۔ (شیخ عبد العزیز دباغ۔ نائب ناظم اعلیٰ ریسرچ)
اعدائے اسلام نے دور انحطاط میں امت مسلمہ کو وسائل ایمان و عمل سے محروم کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دین اسلام کے بنیادی عقائد میں تشکیک و ابہام پیدا کر کے ان کے تشخص کو مجروح کیا اور امت کی psyche میں تشدد، منافرت اور جدلیاتی رجحانات کی ترویج پر محنت سے کام کیا۔ جس کی وجہ سے امت تفرقہ کا شکار ہوئی اور بنیادی عقائد پر اختلاف و انتشار کی وجہ سے ملی وحدت سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس صورت حال کا بغور مطالعہ کر کے انتہا پسندی کے رجحانات کا قلع قمع کرنے، دین اسلام کے بنیادی عقائد کی اصلاح، عالمی سطح پر ان کی ترویج، اختلاف و انتشار کی بیخ کنی، بین المذاہب ہم آہنگی، وحدتِ امت کی بازیابی اور عالمی سطح پر فروغ امن کی جدوجہد کا آغاز کیا۔دنیا بھر میں مسلم یوتھ پر عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے سیکڑوں پروگرامز کئے اور گذشتہ تین دہائیوں میں حوصلہ افزا نتائج حاصل کئے۔
یہ ایک ایسی جدوجہدہے جس کے لئے ایک وسیع البنیاد، علم و حکمت سے بہرہ مند، چاک و چوبند اور محنت کی عادی جماعت کی ضرورت ہوتی ہے جو تقسیم کار کی بنیاد پر شب وروز کام کرے اور عوامی شعور کی بیداری کے حصول کے بعد جملہ معاشرتی، معاشی اور سماجی وسائل کو حصولِ مقاصد کے لئے طے شدہ پروگرام کے مطابق استعمال کرے تاکہ مصطفوی انقلاب کے سویرے کی گھڑی کو قریب تر لایا جا سکے۔ یہ ایک عظیم جدوجہد ہے جس کے لئے شیخ الاسلام نے ہزارہا مسائل، دشواریوں اور رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عالمی سطح پر دینِ اسلام کے صحیح تشخص کے احیاء اور دفاع کا معرکہ تن تنہا سر کیا ہے اور آج بھی صحت کے گھمبیر مسائل کے باوجود مصروفِ عمل ہیں اور والہانہ قیادت کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے قافلے کو منزل تک پہنچانے کی جہدِ مسلسل میں شب و روز ایک کئے ہوئے ہیں۔
آپ کا مشن بین الاقوامی اور کثیر الجہات ہے۔ جس کے پھیلاؤ کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ اس تحریر کا مقصود یہ ہے کہ چونکہ مشن کا بنیادی ہتھیار ابلاغ ہے لہٰذا یہ دیکھا جائے کہ شیخ الاسلام نے اپنے پیغام کو عام کرنے کے لئے تحقیق و تدوین اور تصنیف و تالیف کے کن اسالیب کو اختیار کیا اور ان کی کیسے ترویج کی جس کی وجہ سے محض چار دہائیوں میں انہوں نے ہر اہم موضوع پر قلم اٹھایا، ہر شعبۂ زندگی میں اصلاح اور تبدیلی کا پیغام رقم کیا اور دین اسلام کے بنیادی عقائد کی اصلاح و ترویج کے لئے قرآن و حدیث کی ہدایت کا مدلل ابلاغ کیا اور اس سلسلے میں احادیث نبوی کی تبویب جدید کر کے علمائ، صلحائ، مشائخ اور یونیورسٹیز کے طلبا کے لئے بیک وقت ایک عظیم ذخیرہ مدون کر کے اس کی اشاعت کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ آپ نے اتنے قلیل وقت میں صدیوں کا کام سالوں یا چند عشروں میں کیسے سرانجام دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تجدیدی کام تائید ایزدی کے ساتھ ساتھ ان کی تصنیف و تالیف کی وہ ٹیکنالوجی ہے جسے عہد حاضر میں صرف کوئی مجددِ وقت ہی استعمال میں لا کر اس غیر معمولی اور محیرالعقول کارکردگی کو وجود بخش سکتا ہے۔
شیخ الاسلام کے اسالیب تصنیف
مشن کے ابلاغ کے ایک اہم تقاضے کی تکمیل کے لئے اوائل دور سے تصنیف و تالیف کی مختلف اَصناف رائج رہی ہیں اور مختلف طریقوں سے کتب کی تصنیف و تالیف کا کام ائمہ کرام سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس کی کچھ تفصیل حسبِ ذیل ہے:
1۔ قلمی تصنیف
یہ طریقہ تو معروف ہے جس کی وضاحت درکار نہیں ہے۔ اس میں مصنف اپنے قلم سے خود لکھتا ہے۔چنانچہ براہ راست تصنیف کے اس طریقے کے مطابق شیخ الاسلام نے متعدد تصنیفات تخلیق کیں۔
2۔ مراجعتی تصنیف
اپنے ہاتھ سے لکھی جانے والی کتب کے بعد یہ دوسرا طریقہ آتا ہے۔ یہ طریقہ بھی براہِ راست تصنیف کے زمرے میں آتا ہے، اس طریقہ میں مصنف خود کام کرواتا ہے۔ مثلاً ایک امام، شیخ اور استاد ہے۔ ان کے تلامذہ کام کر رہے ہیں، وہ انہیں کام دے رہے ہیں اور تلامذہ کام کر رہے ہیں۔ یہ طریقہ بھی ہمارے ہاں متداول ہے، البتہ شکلیں جدا ہوتی ہیں۔ اس طریقہ میں شیخ/استاد اپنے تلامذہ کو ہدایات دیتا ہے کہ ’’فلاں فلاں کتاب ہے، اس کتاب کے فلاں فلاں ابواب کو دیکھیں‘‘، ’’ان فصول کو دیکھیں‘‘، ’’یہ ابواب لیں‘‘، ’’یہاں سے تحقیق کریں‘‘، یہ ’’مواد لیں‘‘۔ یہ طریقہ بھی افادات سے اوپر درجے کی سو فیصد تصنیفات میں آتا ہے کیونکہ اس میں کامل ثقاہت رہتی ہے۔ ایک ایک چیز جو دی جا رہی ہے وہ مرتب ہو رہی ہے، بلکہ شیخ/استاد کی نگرانی میں طلبہ ریسرچ کر رہے ہیں، کتب دیکھ رہے ہیں، کمپوز کر رہے ہیں، مواد نکال رہے ہیں، پھر مراجعت ہو رہی ہے، شیخ کی طرف رجوع ہو رہا ہے اور وہ اس کی توثیق کر رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں، ردّ و بدل، حذف اور ترمیمات کر رہے ہیں؛ اور پھر اس کی ترتیب نو کے لئے اسے واپس دے رہے ہیں ۔ گویا وہ پوری کتاب اس طرح متشکل ہو رہی ہے جیسے انہوں نے اپنے قلم سے لکھی۔ جو کام آپ نے اپنے ہاتھ سے کرنا تھا، وہ اپنی نگرانی میںریسرچرز سے کروایا، اسے لفظاً لفظاً پڑھا، ترمیمات کیں، ترقیم تبدیل ہوئی، ابواب تبدیل ہوئے، تخریج ہوئی اوریوں اس کی تکمیل کر دی۔ اس طرح تصنیفات کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔
3۔ قولی تصنیف
افادات کا مطلب ہوتا ہے کسی کی گفتگو کو احاطہ تحریر میں لانا۔ تحریری صورت میں ڈھلنے کے بعد یہ گفتگو افادات کہلاتی ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام کے خطابات افادات بھی ہیں اور تالیفات بھی ہیں۔ جیسے علامہ اشرف علی تھانوی کی ’افاداتِ یومیہ‘ ہے۔ پہلے دور میں لوگ مجالس میں بیان کیا کرتے تھے اور ان کے تلامذہ براہ راست نقل کرلیتے تھے۔ پھر اس کی تصریح کر کے شائع کردیتے تھے۔ اسے ’افادات‘ کہتے ہیں۔ ’صحیح بخاری‘ کی اردو میں شائع ہونے والی شرح ’انوار الباری‘ علامہ انور شاہ کاشمیری کے افادات ہیں۔ یہ ان کے درس ہیں جو مجالس میں ہوئے اور مولوی چراغ علی یا دیگر نے انہیں مرتب کیا ہے۔ لیکن اب یہ ان کے نام سے بھی معروف ہے اور مرتب کے نام سے بھی۔
افادات میں ثقاہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس میں جس کا افادہ ہے اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ افادات ملفوظات کے معنیٰ میں بھی ہوتے ہیں۔ ’الفتح الربانی‘ اور ’غنیۃ‘ وغیرہ حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کی جتنی مجالس اور خطابات چھپے ہوئے ہیں، یہ آپ کے خطابات و دروس اور ارشادات ہیں جنہیں آپ کے تلامذہ نے نقل کیا ہے۔ دنیا کو معلوم نہیں کہ کس نے مرتب کیا اور کس نے چھاپا۔ یہ کسی کو معلوم نہیں مگر یہ کتب حضور غوث پاک کی تصنیف کے نام سے چل رہی ہیں اور آج اُن ہی کی تصانیف کے نام پر ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ ہمارے دور میں پیر سید وحید الدین نے ’ملفوظات اقبالـ‘ کے نام سے دو جلدیں شائع کی ہیں۔
افادات اور ملفوظات میں اتنی ثقاہت درکار ہوتی ہے کہ کسی ایک لفظ کا بھی فرق نہ ہو۔ اس طرح یہ مکمل طور پر صاحبِ کلام کی تصنیف ہو جاتی ہے، یعنی تصنیف قولی۔ جیسے آقاe کی حدیثِ تقریری ہے، یعنی کام کسی اور نے کیا، آپa دیکھ کر خاموش رہے، آپa نے منع نہیں فرمایا، تو وہ آپa کی حدیث تقریری ہوگئی۔ اب اس کی سنت اس صحابی کی طرف نہیں بلکہ حضورe کی طرف جاتی ہے۔ قولی تصانیف اولیاء کرام، علمائ، محدثین، ائمہ سے چلی آرہی ہیں، حتیٰ کہ فقہ کی سب سے بڑی اور جامع کتاب ’المبسوط‘ بھی افادات ہیں۔ شمس الائمہ سرخسی نے خود اپنے قلم سے نہیں لکھی، یہ ان کی قلمی تصنیف نہیں ہے۔ انہیں ایک کنویں میں پھینک دیا گیا تھا تو آپ کنویں کے اندر سے املاء کرواتے اور آپ کے تلامذہ کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر آپ کے بیانات کو نقل کرتے تھے۔ اب وہ کنویں سے بولتے تو انہوں نے ان کی آواز کو نقل کر لیا۔ آج ہم کیسٹ سے خطاب کو نقل کرتے ہیں۔ لہٰذا امام سرخسی کی ساری کتاب ’المبسوط‘ ایک transcribed book ہے جو بتیس (32) جلدوں پر مشتمل ہے۔
تاریخ میں اس کی تفصیل تو نہیں لکھی گئی مگر یہ طے شدہ اَمر ہے اور انسانی ذہن بھی یہی کہتا ہے کہ جب امام سرخسی کو کنویں میں پھینکا گیا تھا، ان کے پاس کتب تو نہیں تھیں، مصادر و مراجع نہیں تھے، تو حافظہ کی بنیاد پر انہوں نے ساری چیزیں بیان فرما دیں۔ جن تلامذہ نے ان کے بیانات کو لکھا لامحالہ واپس جا کر انہوں نے اصل کتب اور مصادر سے مراجعت کی ہوگی؛ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ حضرت شیخ الاسلام کا فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی ایسی ہی مراجعت کی جگہ ہے جہاں ریسرچرز خطابات کی تدوین کر کے مصادر و مراجع کی تخریج کرتے ہیں اور شیخ الاسلام کی زیر نگرانی مراجعت، ترمیمات اور تصحیحات کے مراحل سے گزر کر اس کام کی تکمیل کی جاتی ہے۔
خود امام اعظم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی چھ کی چھ کتابیں اسی نہج پر تالیف ہوئی ہیں۔ انہیں کتبِ ظاہر الروایۃ کہتے ہیں اور ان چھ کتب پر مذہبِ حنفی کی بنیاد ہے اور یہ تمام کتب امام اعظم کی ہی تصور ہوتی ہیں۔ انہی کو مذہبِ امام اعظم کہتے ہیں۔ یہ کتب بھی امام اعظم کی قلمی تصنیفات نہیں ہیں۔ انہیں امام اعظم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، ان کتب میں کچھ املاء کروائی ہیں، کچھ امام محمد اور امام ابو یوسف کے سوالات ہیں اور ان کے جوابات آپ نے دیے ہیں اور کچھ آپ کے دروس ہیں۔ سو امام اعظم کے بیان، املائ، دروس، افادات اور ارشادات کو ایک نظم کے ساتھ ان کے شاگردوں نے مرتب کیا ہے۔ لہذا قلم امام محمد بن حسن شیبانی کا ہے اور بیان، کلام، مسائل، فہم، ذہن، تحقیق، ارشادات، اجتہاد امام اعظم رضی اللہ عنہ کا ہے۔ پس مرتب امام محمد ہوئے۔
الحاکم الشہید ایک حنفی فقیہ ہو گزرے ہیں۔ انہوں نے ان چھ کتب کو ایک ہی کتاب میں یکجا کر دیا تھا اور اس کتاب کا نام الکافي رکھا۔
اسی طرح امام مالک کی کتاب ’المدونۃ الکبریٰ‘ فقہ مالکی کی بنیاد ہے مگر اس کے مرتب امام سحنون ہیں۔
کبھی ایسی کتب پر مرتب کا نام بھی چلتا ہے اور کبھی صرف صاحبِ تصنیف کا نام آتا ہے ۔
4۔ اِفادات و ملفوظات و اِرشادات
چوتھا طریقہ افادات کاہے۔ اس میں مراجعت نہیں کرتے، توثیق نہیں لیتے۔ خطابات ہوئے، دروس ہوئے، تلامذہ نے ان کے نوٹس بنائے اور نقل کیے۔ پھر اپنی اپنی صلاحیت اور فہم کے مطابق انہیں مرتب کرکے چھاپ دیا۔ یہ بھی جائز ہے کہ جن کے افادات ہیں ان کا نام لکھ دیا جائے۔ اسے ’افادات‘ اور ’ملفوظات‘ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اسے لوگ ’ارشادات‘ بھی لکھ دیتے تھے لیکن یہ اصطلاح تصوف میں استعمال ہوتی ہے۔ گویا تصنیفات کا یہ طریقہ ارشادات، ملفوظات اور افادات کا ہے۔
اگرچہ ایک آدمی افادات و ملفوظات کا بھی مرتب ہوتا ہے مگر اس میں یہ ضروری نہیں کہ مراجعت کی جائے اور اس کی توثیق کروائی جائے۔ لیکن یہ بات طے ہوتی ہے کہ یہ افادات شیخ/استاد کے ہیں اور انہی کے ارشادات کو مرتِب نے اپنی صلاحیت کے مطابق ترتیب دیا ہے۔
5۔ سماعی/ توثیقی تصنیف
اس اسلوبِ تصنیف کی ایک مثال تھانوی صاحب کی سوانح حیات ’اشرف السوانح‘ ہے جسے نور الحسن مجذوب نے لکھا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے لکھنے کے بعد تھانوی صاحب کو لفظاً لفظاً پڑھ کر سنائی۔ یہ تھانوی صاحب کے کلمات ہیں نہ ملفوطات۔ یہ ان کے ارشادات ہیں جو ان کی مجالس میں بیان ہوتے تھے، یہ تھانوی صاحب کی تلقینات بھی ہوسکتی ہیں جنہیں اپنی معلومات کے مطابق نور الحسن مجذوب نے خود مرتب کیا مگر لفظ بلفظ ان کو پڑھ کر سنایا تو گویا یہ سماعی تصنیف ہوگئی، سننے کے بعد اس کی توثیق کردی تو یہ توثیقی تصنیف بھی ہوگئی لیکن لکھی نور الحسن مجذوب نے تھی۔ جیسے آپ کہتے ہیں کہ ائمہ حدیث کی اجازت سماع و قرأت سے بھی ہے اور قرات سے بھی ہے اور دیگر طرق سے بھی۔ تحمل حدیث اور اَخذ حدیث کے آٹھ طرق ہیں:
- سماع
- قرأت
- اجازت
- مناولہ
- مکاتبہ
- اعلام
- وصیت
- وجادۃ
ان آٹھ میں سے جو بھی آگیا وہ شیخ کی اجازت ہوگئی، وہ شیخ کی طرف منسوب ہوگئی؛ خواہ بطریق سماع و قرأت ہو، بطریق مناولہ ہو، بطریق کتابت ہو یا بطریق اجازت ہو۔
افادات میں مرتب اپنی طرف سے کچھ نہیں کر رہا۔ اگر اپنی طرف سے کر رہا ہے تو پھر اس کی توثیق کروانا ضروری ہے تاکہ شیخ سماع کرکے توثیق کرے پھر اس کی تصنیف ہو جائے گی۔
6۔ ماخوذ از اِفاداتِ فلاں (مرتّبہ)
کوئی مواد دوسرے نے مرتب کرکے چھاپ دیا۔ اگر اپنے طور پر اضافہ کیا ہو تو اس میں مرتب خود لکھے کہ ’’یہ میرا کلام ہے‘‘، ’’یہ میری بات ہے‘‘، ’’یہ میرا بیان کردہ نقطہ ہے‘‘، ’’یہ میری توضیح ہے‘‘۔ آغاز میں بیان کر دے کہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ میرے شیخ کے افادات و ارشادات ہیں اورجہاں جہاں خود اپنی طرف سے اضافہ کیا جاتا ہے تواس کی تصریح کر دی جائے تاکہ پتہ چل جائے کہ یہ شیخ کی طرف سے نہیں ہے۔ یہ افادات کا طریقہ ہوتا ہے۔
فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ویمن ریسرچرز ’سلسلہ تعلیماتِ اسلام‘ پر کام کر رہی ہیں۔ اب ’سلسلہ تعلیماتِ اسلام‘ پر جو کام ہو رہا ہے، وہ شیخ الاسلام کی طرف نہیں بھیجا جاتا کہ وہ اسے دیکھیں۔کتاب کا بنیادی مواد آپ کے خطابات اور تصانیف سے لیں گے اور سرورق پر ان کے نام کے ساتھ ’ماخوذ اَز اِفادات‘، یا ’ماخوذ اَز تصنیفات و خطبات‘ لکھا جاتا ہے۔
تحریر و تصنیف کے بنیادی قاعدے
شیخ الاسلام ریسرچرز کے ساتھ تربیتی نشستوں میں اِنہی اصول و ضوابط سے بھی فیضیاب فرماتے ہیں۔ ایسی ہی نشستوں میں آپ نے تخلیقی تحریر لکھنے کے حوالے سے فرمایا ہے:
- سب سے پہلے موضوع کا ذہن میں تعین ضروری ہے۔ اس ضمن میں لازم ہے کہ مضمون اور اس کے جملہ پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے۔ یہ تعیین اور تضمین کا مرحلہ کہلاتا ہے۔ پھر مضمون کی تضمین یعنی مضمون میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں، پھر شامل چیزوں سے اجتناب، تحدید (حدود کا تعین) یعنی کیا موضوع کی حد میں ہے اور کیا موضوع سے باہر ہے۔
- جب تضمین کر لی جائے یعنی مضمون میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں،تو پھر شامل نہ کی جانے والی چیزوں سے اجتناب کا مرحلہ آتا ہے اور حدود کا تعین کیا جاتا ہے اسے تحدید کہتے ہیں۔ یعنی کیا موضوع کی حد میں ہے اور کیا موضوع سے باہر ہے۔ جو کچھ موضوع میں شامل نہیں اسے چھوڑ دیا جائے۔
- موضوع کے مشمولات کی تمییز انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ روایات بیان کرنے میں ترجیحات دیکھیں۔مثلا ’’سچ کی ترغیب‘‘ موضوع ہے تو ایسی حدیث نہ لیں جس میں ہو کہ جو سچ نہ بولے اسے یہ سزا دی جائے گی۔ احکام اور ترغیب میں فرق ہے۔ احکام کے لئے احادیث صحیحہ یا حسن کی ضرورت ہے جبکہ ترغیب کے لئے نچلے درجے کی سند کی حدیث بھی لائی جاسکتی ہے۔
- تعیین، تضمین، تحدید اور تمییز مواد حاصل کرنے اور انہیں ضبطِ تحریر میں لانے کے بنیادی اصول ہیں جن کی پابندی نہ کی جائے تو متحقق تحریر وجود میں نہیں آ سکتی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ایک ہزار سے زائد کتب مکمل ہو چکی ہیں۔ ان میں سے 530 کتب چھپ چکی ہیں اور باقی مسودات پر بیان کردہ طریقہ ہائے تصنیف و تالیف کے مطابق کام ہو رہا ہے۔ فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ آپ کا تحقیق و تصنیف کا ادارہ ہے جس میں 24گھنٹے کام جاری رہتا ہے اور آپ کے بیرون ملک ہونے سے اس ادارے کی کارکردگی پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے کیونکہ انسٹیٹیوٹ میں مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والے ریسرچ اسکالرز ہمہ وقت آپ کے ساتھ ٹیلی فون اور ویڈیو لنک کی سہولت رکھتے ہیں اور آپ سے ہدایات لے کر کام جاری رکھتے ہیں۔