افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسول
جن کے تمام لفظ ہیں چشمے علوم کے
تاریخ جن کے نقشِ قدم پر ہے گامزن
وہ ارتقا کی آخری منزل کی آرزو
ساری بشارتوں کا وہی مرکزِ سخن
سارے تمدنوں کی تمنا حضور ہیں
ساری بصیرتوں کا وہی نقطۂ کمال
ساری بصارتوں کا وہی حسنِ دلنشیں
سورج کرے حضور کی دہلیز کو سلام
خوشبو پڑی رہے درِ آقا پہ آج بھی
سردارِ کائنات کا بے حد ادب کرو
اللہ سے مصطفی کا وسیلہ طلب کرو
افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسول
ہر انقلاب جن کی قیادت کے واسطے
ارضِ دعا پہ چشمِ تمنا بچھائے ہے
اس کو ازل سے اُن کے تمدن کی ہے تلاش
اُن کے لیے ہوائیں ادب سے کھڑی رہیں
اُن کا وجود باعثِ تسکینِ قلب و جاں
لکھنے لگا ہوں آپ کی توصیف آج بھی
بادِ صبا گلاب بکھیرے سرِ قلم
ہر حسن اُن کی راہ گزر میں ہے منتظر
آئے سرُور اُن کے قدم چوم چوم کر
محشر تلک مَیں اپنا مقدر سنوار لوں
خود کو نقوشِ پائے نبی میں اتار لوں
(ریاض حسین چودھری)