قرآن مجید کے مطابق اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت نہ ہو تو اسلام سے محبت نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کے سارے راستے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ سے محبت سے ہوکر گزرتے ہیں۔ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر محبت الہیٰ کا کوئی تصور نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ اگر تم مجھ سے محبت رکھنا چاہتے ہو تومیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْ نِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللُّٰهُ غَفُوْرُ رَّحِیْمُo
’’(اے حبیب!) آپ فرمادیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنالے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرمادے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘
(سوره آلِ عمران، 3: 31)
اسی لیے مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے عشق کی حقیقی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:
عشقست طریق و را پیغمبرما
’’عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا ہی نام ہے‘‘۔
(دیوان شمس، رباعی: 57)
اسلام میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی حقیقی ولایت ہے، کراماتِ اولیاء اسی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری علامات ہیں۔ دین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا ایک انداز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں سے عقیدت و محبت بھی ہے۔ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور نصیب نہیں ہوا، وہ اپنے اپنے ادوار میں غلامانِ مصطفیٰ سے محبتوں کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتوں کے فیض کو پا رہے ہیں۔ غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت درحقیقت محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ایک شکل ہے۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی تصور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے بڑی خوبصورتی سے یوں سمجھایا ہے:
گفت طوبیٰ مَن رَآنی مُصطفٰی
’’مصُطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خوشخبری ہے اس کیلئے جس نے مجھے دیکھا‘‘
وَالّذی یُبصرُ لمِن وَ جہی یَری
’’اور جو اُسکو دیکھے جس نے میرا چہرہ دیکھا‘‘
ہمچنیں تا صدچراغ را نقل شُد
’’اِسی طرح اگر وہ سو چراغوں میں منتقل ہوئی‘‘
دیدن آخر لَقائے اصل بُد
’’آخری کا دیکھنا، اصل کی ملاقات تھی‘‘
خواہ ازنورِلسپیں بستاں تو آں
’’خواہ آخری روشنی سے تو وہ لے‘‘
ہیچ فرقے نیست خواہ ازشمع داں
’’کوئی فرق نہیں خواہ شمع سے سمجھ لے‘‘
خواہ نوراز اوّلیں بستاں بجاں
’’خواہ پہلے والے سے تُو دل و جان سے روشنی لے‘‘
خواہ از نورِ لسپیں فرقے مداں
’’خواہ آخری روشنی سے، کوئی فرق نہ سمجھ‘‘
خواہ بیں نورازچراغِ آخریں
’’ خواہ روشنی آخری چراغ کی دیکھے‘‘
خواہ بیں نورش زشمعِ غابریں
’’خواہ اُس کی روشنی گذرے ہوؤں کی سمجھ‘‘
اللہ نے جس کے اندر کا چراغ روشن کیا ہوگا اُسے ابوبکر، عمر، عثمان و علی (رضی اللہ عنہم) کے چہروں میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی نظر آجائے گا، اُسے یہی نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے چہروں سے نکلتا نظر آجائے گا، یہی نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ذات کی شکل میں ظہور پذیر ہوگا تو کہیں یہ قدوۃ الاولیا حضور پیر سیدنا طاہر علاوالدین الگیلانی البغدادی بن کر برصغیر پاک و ہند میں تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھوائے گا۔۔۔۔ اور کہیں یہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام اور پاکستان پر حملہ آور ملکی اور بین الاقوامی طاغوتی طاقتوں پر ضربِ طاہری بن کر نازل ہو رہا ہوگا۔ ہر وہ شخص جو اپنے اپنے دور کے غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑ جائے گا، اپنی آخرت سنوارجائے گا اور اپنی آئندہ نسلوں پر اس نور کا سایہ بھی قائم کرجائے گا۔ غلامان ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ تعلق محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ایک شکل ہے۔
یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی توفیق حاصل ہو جائے تو اس کی شخصیت اور کردار سے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ بلکہ ایسے انسان سے عقیدت و محبت درحقیقت اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ انہی کے پیغام کی برکت تھی جس نے ایک عاجز انسان کو اس قابل بنا ڈالا کہ دنیا کے لاکھوں لوگ اس سے محبت وعقیدت کا دم بھرتے ہیں۔ یہ سُنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کی برکت ہوتی ہے کہ لوگ اسے قابل احترام و لائقِ محبت سمجھناشروع کر دیتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا.
( سوره مریم، 19: 96)
’’بے شک جولوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو (خدائے) رحمن ان کے لیے(لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا‘‘
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نیک عمل کرنے والے ایمان داروں سے خدا تعالیٰ خود محبت کرتا ہے اور زمین پر بھی ان کی محبت اور مقبولیت اتاری جاتی ہے۔ مومن ان سے محبت کرنے لگتے ہیں، ان کا ذکرِ خیر ہوتا ہے اور ان کی موت کے بعد بھی ان کی بہترین شہرت باقی رہتی ہے۔ ہرم بن حیان کہتے ہیں کہ جو بندہ سچے اور مخلص دل سے اللہ کی طرف جھکتاہے اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو اس کی طرف جھکا دیتا ہے اور وہ اس سے محبت اور پیار کرنے لگتے ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: بندہ جو بھلائی یا برائی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اوڑھا دیتا ہے‘‘
(تفسیر ابن کثیر، جلد3، ص35)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اِن محبوب بندوں کے وہ کون سے اعمالِ حسنہ ہیں جن کی بدولت دنیا میں اِن سے محبت و عقیدت کے مظاہر ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں یہ امر ذہن نشین رہے کہ ایسے لوگ مخلوقِ خدا کی بھلائی، حقوق کی بحالی اور امن و سلامتی کے فروغ کے لیے ہمیشہ مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ اِس کام کی انجام دہی کے لیے وہ کسی قسم کے لالچ، ریاء اور دکھلاوے کا شکار نہیں ہوتے بلکہ پیکر محبت و خلوص بن کر انسانیت کے درمیان محبت و امن کو فروغ دیتے اور نفرت و حقارت کے کانٹے ہٹانے کے لیے ہمہ وقت سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ایسی ہی شخصیات میں ہمیں فی زمانہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا نام سرفہرست نظر آتا ہے۔ انسانیت اور مسلمانوں کے لیے آپ کی خدمات کا دائرہ کار ہمہ جہتی ہے، جس کے بیان کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔ آیئے شیخ الاسلام کی 67 ویں سالگرہ کے موقع پر ہم ان کی بے پناہ خدمات میں سے اِن صفحات پر بین المذاہب رواداری و بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اُن کی علمی و فکری خدمات کے اسلوب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
بین المذاہب رواداری و بین المسالک ہم آہنگی
ہمارے پاکستانی معاشرے کے کئی علمی و فکری شعبوں میں زوال کی طرح مکالمہ بین المذاہب کا موضوع بھی اجتہادی تحقیق سے محروم رہا ہے۔ اس میدان میں اب اجتہاد کی جگہ اندھا دھند تقلید نے لے لی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب اکثر وبیشتر (الاماشاء اللہ) مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے علماء کی تحقیق غلط فہمیوں کے ازالہ کی بجائے بذاتِ خود غلط فہمیاں پیدا کر رہی ہے۔ روایتی مناظراتی سوچ رکھنے والے مبلغین اور طرزِ تبلیغ سامعین میں افہام و تفہیم پیدا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تعصب پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ بعض مخصوص حالات میں اسلام مخالف اور متعصبانہ رویوں کا خاتمہ کرنے کے لئے جارحانہ طرزِ تبلیغ درست مگر اسے قرآن و سنت کا پسندیدہ طرزِ تبلیغ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قرآن ہمیں اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَة وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَن کی تاکید کرتا ہے۔
بین المذاہب رواداری کے فروغ کے تناظر میں آج اگر بین المذاہب مکالمہ پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں دونوں اطراف میں شدت نظر آتی ہے۔ نتیجتاً اس طرز عمل سے انسانیت محبت و امن کے بجائے نفرت و تعصب کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔
مکالمہ بین المذاہب کی بات کریں تو آج ہمارا طرز تحریر، دلائل کی نوعیت اور موضوعات کا باربار تکرار واضح کر رہا ہے کہ ہم آج بھی ذہنی سطح پر دورِ مناظرات سے نہیں نکل سکے۔
اس ماحول میں قرآن و سنت کی روشنی میں عملی تبدیلی کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشوں کی بدولت ہی ہم بین المذاہب رواداری کو ممکن بناسکتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس سمت کیا تجدیدی کردار ادا کیا اور ان کا طرز اسلوب کن خصوصیات کا حامل ہے، آیئے اس پر روشنی ڈالتے ہیں:
پہلی خصوصیت: مسائل کا شرعی اسلوب
اسلام نے شرعی مسائل کی تحقیق کے لئے درج ذیل چار بنیادی دلائل تجویز کئے ہیں جنہیں مصادرِ شریعت اور ماخذِ قانون کہا جاتا ہے۔
- قرآن
- سنت
- اجماع
- قیاس
اثباِت احکام، استنباطِ مسائل اور ماخذ نتائج میں ان مصادر کی شرعی حجیت مذکورہ بالا ترتیب سے تسلیم کی گئی ہے۔تاکہ مسائل و احکام کے استنباط و استخراج میں ایک نظم اور ضابطہ قائم رہ سکے۔ (ڈاکٹر محمد طاہر القادری، تحقیق مسائل کا شرعی اسلوب ، صفحہ 5)
اگر ہم شیخ الا سلام مدظلہ کے تمام خطبات اور کتب کا جائزہ لیں تو ہمیں شریعت اسلامیہ کے دلائل میںشرعی ترتیب اور سائنسی نظم ملے گا۔ شیخ الا سلام نے تو اس تقریر و تحریر میں دلائل کی ترتیب کے شرعی اصول و ضوابط پر اُردو زبان میں ایک کتابچہ ’’تحقیق مسائل کاشرعی اسلوب‘‘ بھی تحریر فرمایا ہے۔
دوسری خصوصیت: اسلامی ماخذ و دلائل
شیخ الاسلام مدظلہ کی گفتگو، لیکچرز اور کتب میں اسلامی علوم و فنون کا سمندر ملتا ہے۔ قاری اور سامع عقائد و نظریات پر واقف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کے علمی ذخیرہ سے بھی واقف ہوتا چلا جاتا ہے۔ خطاب کا عنوان تو مخصوص ہوتا ہے مگر شیخ الاسلام مدظلہ کے وسعت مطالعہ کے باعث ایک ہی خطاب سے سامع کی زندگی کے کئی مسئلے حل ہو جاتے ہیں اور اسے کئی سوالات کے جواب مل جاتے ہیں۔
راقم الحروف کو بین الاقوامی سطح پر بے شمار مسلم و غیر مسلم اسکالرز کو سننے کا اتفاق ہوا ہے مگر سوالات و جوابات کے سیشن میں جواب اس طرز پر دینا کہ موضوع ِزیربحث پر مکمل تسلی و تشفی ہو جائے بلکہ موضوع سے متعلق خود ہی مزید سوالات کا تعارف کرواتے ہوئے جواب کے مختلف پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالتے جانا، یہ خصوصی شرف صرف شیخ الا سلام مدظلہ کے ہی حصے میں آیا ہے۔ سوال و جواب کے سیشن کی صورت میں اسلامی دلائل کا وسیع ذخیرۂ علم بھی تحریک منہاج القرآن کا خصوصی شرف ہے جس میں دُنیا کی کوئی اور تحریک (اسلامی و غیر اسلامی) شامل نہیں۔ یہ بات ہم محض جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ باقاعدہ تحقیق کی بنیاد پر عرض کر رہے ہیں۔
تیسری خصوصیت: سمندر کو کوزے میں بند کرنا
اللہ تعالی نے شیخ الا سلام مدظلہ کو قوتِ استنباط کی نعمت کے ساتھ ساتھ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا بھی فن عطا کیا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’گفتِ کوتہ بہتر ست ‘‘
مختصر بات بہتر ہوتی ہے۔(دفتر اول)
شیخ الا سلام مدظلہ ایک جملے میں سامعین کی برسوں سے الجھی ہوئی علمی گرہ کو کھول دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ مثالیں بھی ایسی بیان فرماتے ہیں جو نہ صرف نہایت سادہ اور روزمرہ کے مشاہدہ میں آنے والی ہوتی ہیں بلکہ اپنے علمی سرمائے کے طور پر محفوظ رکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔
شیخ الاسلام مدظلہ کا ہر جملہ اپنی جگہ ایک مکمل موضوع کی ترجمانی کرتا ہے اور وہ اپنے اگلے پچھلے جملوں سے بھی معنوی طور پر اس طرح جڑا ہوتا ہے کہ اُس جملے کی انفرادی و اجتماعی شانیں اکٹھی نمایاں ہو رہی ہوتی ہیں۔ مگر یہ بات وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا مطالعہ وسیع اور جاندار ہو اور جو مطالعہ کے سائنسی اصولوں سے بھی واقف ہو۔
اگر کسی شخص نے سطحی سوچ کی بجائے علم لدنی کی دولت سے مالا مال ہو کر مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ پڑھی ہے تو وہ یہ بات بھی جانتا ہے کہ جس طرح مولائے روم رحمۃ اللہ علیہ بڑے سے بڑا روحانی مسئلہ روزمرہ کے مشاہدے میں آنے والے واقعات کی مدد سے عقلی طرز استد لال پر حل کر جاتے ہیں، اُسی طرح یہ فیض ہمیں شیخ الاسلام مدظلہ کی شخصیت میںبھی بہت نظر آتا ہے۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں شیخ الا سلام مدظلہ کے بہت سارے خطابات پیش کیے جا سکتے ہیں۔
چوتھی خصوصیت: ضبط و تحمل کا مظاہرہ
غیر ضروری مناظرات ہمیشہ سے علمائے اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ رہے ہیں کیونکہ اس سے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء علوم الدین میں مناظرات کے فسادات پر مکمل ایک باب بھی تحریر کیاہے ۔ آپ فرماتے ہیں:
’’واضح ہونا چاہیے کہ جو مناظرہ اس غرض کیلئے ہو کہ خود جیتنا اور دوسرے کو شکست دینا، لوگوں میں اپنے فضل و شرف ، خوش تقریری اور فخر کو دکھلا کر اپنی طرف مائل کرنا ہو تو ایسا مناظرہ اُن تمام عادتوں کا منبع ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نا پسندیدہ اور شیطان کے نزدیک اچھی ہیں۔ باطن کی برائیوں ( یعنی کبر، حسد، مرض، شہرت و عہدہ کی محبت وغیرہ) کو اس مناظرے سے وہ نسبت ہے جو ظاہر کی خرابیوں مثلاــ زنا، گالی، قتل و چوری وغیرہ کوشراب پینے سے ہے۔ مثلاً:ـــــ جس طرح کوئی شخص شراب پینے کو چھوٹی بُرائی سمجھ کر پی جائے اور پھر نشہ کی حالت میں اس سے باقی خرابیاں بھی سر زد ہوں، بالکل اسی طرح جس شحص کے دل میں مناظروں کے ذریعے عوام الناس میں ایک فریق کی محبت کم کرنا اور اپنے فتح یاب ہونے سے شہرت اور عہدہ کی طلب حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ہر طرح کی خباثتیں اس کے دل میں چھپی ہوئی ہیں اور گندی عادتیں اس کی شخصیت میں جمع ہیں‘‘۔
(امام غزالی، احیاء علوم الدین، باب العلم ، ص 102)
جواب دینے کے لئے انسان کو علمی و فکری اعتبار سے مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ دعوت صرف وہی شخص دے سکتا ہے جس کی اپنے عقائد و نظریات پر گہری نظر ہو اور فکری و اضحیت کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کے حکیمانہ پہلوئوں سے بھی پوری طرح آگاہ ہو۔
مختلف احباب کی جانب سے دیگر مذاہب کے علماء کے ساتھ ہونے والی گفتگو اور طرز اسلوب کا موازنہ اگر ہم شیخ الاسلام کی تحریر و تقریر اور طرز اسلوب سے کریں تو ہم بآسانی یہ جان جائیں گے کہ شیخ الاسلام کی گفتگو میں دیگر احباب کی نسبت اخلاقی رواداری اور صبر و تحمل کا اظہار بہت زیادہ اور جابجا نظر آتا ہے اور اس طریق پر دعوت اسلام کا حق بخوبی ادا ہوتا ہے۔ دیگر احباب اپنی گفتگو میں دلائل جیتنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں مگر شیخ الاسلام کا طرز گفتگو دلائل کے ساتھ ساتھ دل جیتنے کی سعید کاوشوں کا مظہر ہے۔
پانچویں خصوصیت: مذہبی رویوں کی اصلاح
لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصبات سے نفرتوں اور دلوں کی بھڑک اٹھنے والی آگ کے ماحول میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جہاں ہر طبقہ زندگی کے لئے ہر شعبہ حیات میں بے مثال و لازوال خدمات سرانجام دیں وہاں مذاہب کے درمیان محبت، اخوت اور امن کو فروغ دینے کے لئے بھی ان کا کردار قابل صد ستائش ہے۔ مذہبی علماء کے بارے میں تنگ نظری اور دوسروں کو قبول و برداشت نہ کرنے کا جو تاثر پایا جاتا ہے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے اس سے یکسر مختلف اور قابلِ تحسین طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ جملہ کاوشیں بذاتِ خود جہاں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی ذہنی اور قلبی وسعت کا مظہر ہیں وہیں دوسرے مذاہب کے لئے تحفظ، مساوات اور رواداری کا پیغام بھی ہے۔ اس سے معاشرے میں مجموعی طور پر مثبت اقدار کو فروغ ملے گا۔
ہمارے آج کے مذہبی اور تبلیغی رویوں پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری مدظلہ لکھتے ہیں:
’’آج صورت حالات بعینہ یہی ہے کہ ہم اپنی بات ماننے والوں پر خوش ہوتے ہیں لیکن جو ہماری کسی بات سے اختلاف کرے اسے کافر بنا کر اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ ہم نے دین میں اپنی اجارہ داریاں بنا رکھی ہیں۔ جس کے پاس کچھ اختیارات ہوں وہ دوسروں کو مسلک سے نکال دیتا ہے۔ جو تھوڑا بڑا ہو وہ دوسرے کو دائرہ اسلام ہی سے نکال دینے کا اختیار رکھتا ہے ۔ ہم نے اسلام کو بازیچۂ اطفال بنا کر سکول کے ہیڈماسٹر کی طرح داخل خارج کااختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے امت تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے لیکن امت سے نکالنے کا اختیار ہر کس و ناکس کے پاس ہے۔ اسی طرح دین اسلام تو اللہ کا ہے۔ وہ بندوں کے حال کو خود بہتر جانتا ہے لیکن دین کے داخل خارج کے انچارج بھی آج کے علماء دین بن گئے ہیں (الاّماشاء اللہ)۔ یہ شرک فی التوحید اور شرک فی الرسالت نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ امر کس قدر افسوس ناک ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے مذہبی وارث ا لاّماشاء اللہ، ملت کی پاسبانی کی بجائے دین کی مسندوں پر بیٹھے ہی گویا کافر و مشرک اور ملحد و بے دین کے القابات سے نوازنے کے لیے ہیں۔ دین کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ٹکے ٹکے کے عوض بیچا جاتا ہے ۔ شریعت کو اپنی ذاتی استعمال کی چیز سمجھتے ہوئے اپنی پسند وناپسند کے مطابق گھمایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل اول تو علماء سے مانوس ہی بہت کم ہے اور اگر کوئی نوجوان اصلاحِ احوال کے لیے ان کے قریب چلا بھی جاتا ہے تو بجائے اصلاح احوال کے متنفر ہو کر اٹھتا ہے‘‘۔
(محمد طاهرالقادری، لااکراه فی الدین کا قرآنی فلسفه، ص 41)
شیخ الاسلام ہمارے مذہبی رویوں میں آجانے والے بگاڑ کا ذمہ دار اُن نام نہاد داعیینِ اسلام کو قرار دیتے ہیں جو حکمت و بصیرت سے عاری اور علمی و فکری اعتبار سے کمزور ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ:
اپنے آپ کو قائدکہلوانے والے اس طرح کے نالائق افراد کے ہاتھوں تحریکیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ نالائق افراد کے ذریعے دی گئی دعوت کبھی مؤثر نہیں ہوتی۔ بہت سی تنظیموں اور تحریکوں کی دعوت کے بہتر دماغوں تک نہ پہنچنے اور انجام کار ناکام ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ان کی باگ ڈور جن افراد کے ہاتھوں میں دی گئی وہ صلاحیت واستعداد کے اعتبار سے اس کے اہل نہیں تھے جس وجہ سے لائق و ذہین اور زیرک دماغوں تک ان کی دعوت نہ پہنچ سکی۔ قدرتی بات ہے کہ ایک نالائق آدمی کی دعوت پر لائق اور اچھا ذہن رکھنے والے لوگ کان نہیں دھریں گے۔ اس کی دعوت پر لبیک کہنے والے اس سے کمزور تر ذہن رکھنے والے افراد ہی ہوں گے۔ اب یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ایک تو داعی خود کمزور ہو، دوسرے اس کی دعوت مزید کمزور ہو اور نالائق افراد قبول کریں تو نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ مشن نالائق اور نااہل افراد کے ہاتھوں میں گردش کرتا رہے گا۔ بایں وجہ مستقبل میں بھی اچھے دماغ اس مشن کی طرف راغب نہیں ہوں گے اور یہی عمل بالآخر مشن کی ناکامی کا سبب بنے گا۔
(ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، سفر انقلاب،ص15، مطبوعہ منہاج القرآن پبلی کیشنز-لاہور،)
چھٹی خصوصیت: فکرِ اِسلامی کا تحفظ بذریعہ علم و اَمن
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اِسلام کے علم و دانش اور اَعلیٰ تصوراتی محاذوں کے خلاف حملوں کا مقابلہ مخاصمت یا غیض و غضب کی فضا میں نہیں بلکہ تعلیم و تعلم، علم دوستی اور منطق کو فروغ دے کر کیا ہے۔آپ وہ نابغۂ عصر ہیں کہ آپ کسی ایک محاذ پر نہیں بلکہ کثیر الجہات پہلوؤں سے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور عالمی سطح پر اسلامی تعلیمات کے دفاع میں مصروف ہیں۔
شیخ الاسلام اور ان کی قائم کردہ تحریک کیا تصورِ دین دیتی ہے؟ دین کی تمام تعلیمات کن بنیادی تصورات (basic concepts) پر قائم ہیں اور ان تعلیمات کی بنیادی روح کیا ہے؟ اس حوالے سے انہوں نے فرمایا:
’’ پانچ چیزوں سے ہمارے دین کا vision قائم ہوتا ہے اور یہ تحریک منہاج القرآن کی اِنفرادیت ہے:
- محبت و مؤدت
- اَمن و سلامتی
- اَدب و اِحترام
- علم و معرفت
- خدمت و فتوت
گویا ان پانچ اشیاء پر تحریک منہاج القرآن کا تصورِ دین قائم ہے اورجب یہ پانچ چیزیں ملتی ہیں تو حقیقی تصورِ دین بنتا ہے۔ اِن پانچ نکات میں انتہا پسندی یا دہشت گردی کا ہلکا سا شائبہ تک بھی نہیں ہے اور یہی تحریک منہاج القرآن اور اس کی قیادت کی اِنفرادیت ہے‘‘۔
مذاہب کے درمیان آئے روز بڑھتے ہوئے خلیج کو پُر کرنے، تہذیبوں کے مابین تصادم کو روکنے اور بین المذاہب رواداری و بین المسالک ہم آہنگی، تحمل اور برداشت کو فروغ دینے اور امن، سکون و محبت سے انسانیت کے دامن کومعمور کرنے کے لئے آج عالمی سطح پر ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی کی معتدل ومتوازن آواز گونجتی دکھائی دیتی ہے۔
آج عالمی حالات جس سمت میں جارہے ہیں، ان کا ادراک کرتے ہوئے اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لئے ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہم آواز بننا ہوگا تاکہ ہم ان کی قیادت میں عالمی سطح پر اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والے یا پیدا کئے جانے والے غلط نظریات کی اصلاح کے لئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔
اللہ رب العزت کا بے پناہ شکر ہے کہ جس نے نہ صرف تحریک منہاج القرآن کی شکل میں اُمت مسلمہ کو اسلام کی علمی و فکری واضحیت مہیا کی بلکہ ضربِ طاہری سے اس پر حملہ آوروں کا سدباب بھی کیا تاکہ دنیا پر غلامانِ مصطفیٰ کے وجود سے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور واضح ہو جائے۔