انسانیت سوز دہشت گردی... 132 معصوم بچوں کی شہادت کا سانحہ عظیم
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پرزور مذمت
16 دسمبر 2014ء۔۔۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا المناک دن جس نے ہر پاکستانی کو خون کے آنسو رلادیا۔ آرمی پبلک سکول کے معصوم بچے زیور علم سے مزین ہونے کے لئے اپنے ننھے ہاتھوں میں سکول بیگز تھامے ہنسی خوشی سکول پہنچے مگر چند ہی لمحات کے بعد ان 132 معصوم بچوں کے قہقہے آگ اور خون کے دریا میں کہیں کھوگئے۔ آرمی پبلک سکول پرہونے والایہ حملہ جانی نقصانات اوراپنی ہولناکی کے لحاظ سے سب سے سنگین اور المناک ہے۔ اس المناک واقعہ کی تفصیلات سامنے آنے پرپوراملک دہل گیایہ محض اتفاق نہیںہوسکتاکہ صوبائی دارالحکومت پشاورمیںورسک روڈپرواقع آرمی پبلک سکول کونشانہ بنانے اوریہاںمعصوم بچوںکوخاک وخون میںنہلانے کیلئے 16دسمبرکے اس سیاہ دن کاانتخاب کیاگیاجب آج سے43سال قبل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میںپاکستان کے وجودکے دوٹکڑے ہوئے تھے اورجس کادرد آج بھی ہرپاکستانی کادل اسی شدت اورغم کے ساتھ محسوس کرتاہے، اسی روز پاکستان کوایک اورحملہ کانشانہ بنایاگیا۔ یہ ایک ایساسانحہ تھاجس نے خیبرسے کراچی تک ہردل کوغمگین اورہرآنکھ کوآشک بارکردیا۔ پھول سے بچوںکی لاشیں اور درجنوں زخمی دیکھ کر والدین نے تو غمزدہ ہونا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک پاکستان کے ہرگھرمیں صف ماتم بچھ گئی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سانحہ پشاور کے فوراً بعد شدید الفاظ میں اس بہیمانہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ
’’دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں بلکہ انہیں ختم کیا جائے۔ آپریشن ضرب عضب ایک سال پہلے شروع ہو جاتا تو آج ہمارے ہاتھوں میں ہمارے بچوں کی لاشیں نہ ہوتیں۔ دہشت گردی کے ایشو پر حکومت اور فوج کے نقطہ نظر میں 180 ڈگری کا فرق ہے۔ دہشت گردی کی جنگ لڑنا تنہا فوج کا کام نہیں، پوری قوم کو دہشت گردوں کے خلاف لڑنا ہوگا۔ سانحہ پشاور کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ سیاسی جماعتیں اس سوچ سے باہر نکل آئیں کہ یہ ہماری نہیں کسی اور کی جنگ ہے۔ یہ ہماری جنگ ہے، قوم اسے اپنی جنگ سمجھتے ہوئے ایک ہو جائے۔ دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کیلئے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں، کیونکہ یہ ملک، قوم اور آنے والی نسلوں کے تحفظ کا سوال ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارا موقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔ میں نے 2009ء میں دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے میں نے 600 صفحات پر مشتمل فتویٰ دیا ہے۔ ماضی کے حکمران یا موجود ہ حکمران سنجیدہ ہوتے تو اس سے استفادہ کرتے۔ سکول پر حملہ فوج، پاکستان اور پاکستان کے ہر شہری پر حملہ ہے۔ دہشت گردوں نے ہماری روحوں کو زخمی کیا، اب وقت آ گیا ہے کہ بچے کھچے دہشت گردوں اور انکے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ سر پرستوں کو چن چن کر ختم کر دیا جائے۔ آپریشن ضرب عضب کی اہمیت اور ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے‘‘۔
٭ پاکستان عوامی تحریک نے 17 دسمبر کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 6 ماہ مکمل ہونے اور حکومتی بے حسی کے خلاف اپنے پہلے سے اعلان کردہ ملک گیر احتجاج کو بھی سانحہ پشاور کے سوگ میں مؤخر کر دیا اور 3دن کے سوگ کا اعلان کیا۔ دریں اثناء منہاج یونیورسٹی، ویمن کالج اور MES کے تمام سکولز بھی اس سانحہ کی وجہ سے سوگ میں ایک دن کیلئے بند رہے۔ سانحہ پشاور کے شہداء کے ایصال ثواب کے لئے شیخ الاسلام کی ہدایات پر منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی اندرون و بیرون ملک کی جملہ تنظیموں کے مراکز پر تین دن تک قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔ محترم خرم نواز گنڈا پور (سیکرٹری جنرلPAT) کی سربراہی میں پاکستان عوامی تحریک کا ایک وفد شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور زخمیوں کی عیادت کے لئے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے نمائندوں کے ہمراہ فوراً پشاور روانہ ہوگیا۔
پاکستان عوامی تحریک شعبہ خواتین کی طرف سے ملک بھر کے تمام شہروں میں 17 دسمبر کو سانحہ پشاور کے شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں اور شہداء کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ خواتین نے پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے اور کہا کہ فوج تحفظ کی علامت ہے اور حکمران شرمندگی کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے خواتین مقررین نے کہا کہ ’’دہشت گرد اور پاکستان اب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ حکمران جرات مندی کا مظاہرہ کریں اور دوہرے معیار ترک کر دیں۔ حکمرانوں کے منافقانہ طرز عمل کی وجہ سے دہشت گرد گلیوں، بازاروں سے ہوتے ہوئے بچوں کے سکولوں تک آن پہنچے ہیں۔ حکمران دہشت گردی ختم نہیں کر سکتے تو چوڑیاں اور دوپٹے لے کر گھر بیٹھ جائیں۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسی نڈر قیادت کی ضرورت ہے‘‘۔
محترم قارئین! اس سانحہ کے فوراً بعد حکومت کی طرف سے پارلیمانی جماعتوں کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ قوم کو امید تھی کہ اب ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور اب اس اجلاس میں وہ کوئی واضح اور دو ٹوک فیصلہ کرکے ہی اٹھیں گے مگر افسوس کہ حکمت و دانش مندی اور بصیرت سے بے بہرہ یہ حکمران اجلاس میں ایک کمیٹی کے قیام کے سواء کوئی قدم نہ اٹھاسکے اور یہ کمیٹی بھی ایک ہفتہ میں لائحہ عمل/ تجاویز دے گی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے اس حکومتی نااہلی پر ردعمل دیتے ہوئے فرمایا:
’’حکومت کے پاس دہشت گردی کے خاتمے کا کوئی پلان ہے اور نہ ہی کوئی وژن۔ ہماری یہ نام نہاد قیادت دہشت گردوں سے مذاکرات کی حامی اور آپریشن ضرب عضب کو 9 ماہ تک موخر کروانے اور ہزاروں بے گناہ شہادتوں کی ذمہ دار ہے۔ 2008ء میں کہہ دیا تھا اچھے برے طالبان کی تمیز ختم کی جائے اور دہشت گردی کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھا جائے۔ موجودہ نام نہاد سیاسی قیادت نے اس نتیجے پر پہنچنے میں بھی 6 سال لگادئیے۔ ان کے پاس کوئی پلان ہوتا تو قوم اتنا عرصہ دہشت گردی کی آگ میں نہ جلتی۔ اس سانحہ کے بعد انہوں نے پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس طلب کیا، امید تھی کہ شاید اب یہ کوئی دو ٹوک فیصلہ کریں گے اور اس دہشتگردوں کی مالی، اخلاقی، سیاسی مدد کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کریں گے مگر انہوں نے ایک کمیٹی بنادی جس نے 7 دنوں میں دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل دینا تھا اور پھر اگلے 7 دنوں میں اس لائحہ عمل پر عمل د رآمد کا آغاز ہونا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے دہشت گردی کے اس ناسور کو کبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد دہشتگردی کی جنگ لڑنے والے اداروں اور فورسز کا بجٹ کم کر دیا گیا۔ ایوان وزیراعظم کا بجٹ دہشتگردی کے بجٹ سے 7 گنا زیادہ ہو گا تو دہشتگردی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ اگست کے مہینے میں پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا، اس اجلاس میں شریک تمام پارلیمانی جماعتیں دہشتگردی کے مسئلے کو زیر بحث لاتیں تو ہم مزید لاشیں اٹھانے سے بچ جاتے، مگر افسوس وہ تو عوام کے حقوق کی بحالی کی آواز کو دبانے کے لئے سرگرم عمل رہے۔ 10 سال میں 50 ہزار سے زائد شہادتوں کے بعد بھی اگر لائحہ عمل بنانے اور غور کرنے کے لئے کمیٹیاں بنائی جانی ہیں تو اس سے زیادہ شرمناک رویہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ان بے حمیت حکمرانوں نے شہیدوں کے خون کا مذاق اڑایا ہے۔ اس نا اہل قیادت نے ریاست پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔
اتنے بڑے سانحہ کے بعد اب خطرناک مجرموں کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ کرنے والے بتائیں کہ کیا وہ بچوں کی شہادتوں کا انتظار کر رہے تھے؟ اس سے قبل یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ سینکڑوں دہشت گرد جن کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے، انکی پھانسی پر عملدرآمد کس نے رکوایا اور اس کے کیا فوائد حاصل ہوئے‘‘؟
٭ سانحہ پشاور کے بعد PAT کی سنٹرل ورکنگ کونسل کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں صدر فیڈرل کونسل ڈاکٹر حسین محی الدین، مرکزی صدر پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر رحیق عباسی، سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور، محترم سردار آصف احمد علی، محترم غلام مصطفی کھر، محترم ساجد پرویز، محترم جی ایم ملک، محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، محترم احمد نواز انجم، محترم ساجد محمود بھٹی، محترم رفیق نجم اور دیگر احباب نے شرکت کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے محترم ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ
’’گذشتہ 12 سال میں پہلی بار قوم نے دہشت گردوں اور انکے سر پرستوں کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شیخ الاسلام کے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے بیان کردہ 14 نکات اکسیر نسخہ ہے۔ عوام اب دہشت گردوں کو جہنم واصل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت نے کوئی بزدلی اور کمزوری دکھائی تو اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بے گناہوں کی جانیں لینے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، ان دونوں کے کوئی حقوق نہیں۔ ہماری وکلاء برادری سے بھی درخواست ہے کہ وہ ان وحشی درندوں کو قانونی سپورٹ نہ دیں۔ یہ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں، اس پاک سرزمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرنا ہر شہری کا قومی فرض ہے۔ سانحہ پشاور سے پوری قوم کو دہشت گردوں کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ ملا ہے، اس وقت پاک فوج اپنی تاریخ کا اہم ترین آپریشن کر رہی ہے۔ آپریشن ضرب عضب پاکستان کی بقا کا آپریشن ہے، پوری قوم کو پاک فوج کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہو گا‘‘۔
مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ ’’پوری قوم نے دہشت گردی کے خلاف اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، اب بال حکومت کے کورٹ میں ہے۔ وزیر اعظم کو اپنی کابینہ کے ان مشیروں کا محاسبہ بھی کرنا چاہیے جو ملا فضل اللہ کی زندگی کے روشن پہلوؤں پر کالم لکھتے رہے ہیں اور طالبان سے نام نہاد مذاکراتی عمل میں بھی پیش پیش تھے۔ موجودہ حکمران دہشت گردی کے خلاف اس سے پہلے 9 قراردادیں پاس کر چکے ہیں، دہشت گردی قرار دادوں سے نہیں بلکہ قرار واقعی سزا دینے سے ختم ہو گی۔ موجودہ حکومت کے پہلے 18 ماہ میں 8 ہزار افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے جو اس حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے لئے ایک ایسی نڈر قیادت کی ضرورت ہے جو بلا خوف و خطر اسلام اور ملک و قوم کے مفادات کے پیش نظر مضبوط اور جرات مندانہ فیصلہ کرسکے۔
اجلاس میں دہشت گردی کی جنگ کے خلاف تاریخی قربانیاں دینے والے افواج پاکستان کے افسران اور جوانوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ سنٹرل ورکنگ کونسل نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد جاری رکھتے ہوئے آگاہی مہم چلائی جائے گی اور پاکستان کے ہر شہری کو دہشت گردی کے خلاف فکری سطح پر مضبوط اور متحرک کیا جائے گا۔ اجلاس میں ملکی موجودہ صورت حال اور دہشت گردی کے سد باب کے لئے PAT کی آئندہ سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔
٭ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل محترم خرم نواز گنڈاپور نے سانحہ پشاور کے حوالے سے اپنے ہنگامی دورہِ پشاور کے دوران سپیکر خیبر پختونخواہ اسمبلی اسد قیصر سے پشاور میں ملاقات کی اور سربراہ عوامی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے سانحہ پشاور کے حوالے سے افسوس کا اظہار کیا اور معصوم بچوں کی شہادتوں کو انسانیت کے خلاف کرہ ارض کا بدترین جرم قرار دیا۔ خرم نواز گنڈاپور کی قیادت میں عوامی تحریک کے رہنماؤں کے وفد نے پشاور میں شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی، لواحقین سے اظہار تعزیت اور ہسپتالوں میں زیر علاج زخمیوں کی عیادت کی اور انکی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی۔ محترم ساجد محمود بھٹی، محترم سید امجد علی شاہ، محترم سہیل احمد رضا، محترم خالد درانی، محترم راجہ وقار احمد، محترم ضیاء الرحمن خان اورمحترم شاہ صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔
PAT کے اعلیٰ سطحی وفد نے سانحہ پشاور کے زخمی بچوں کی ہسپتال میں جاکر عیادت کی۔ شہداء بچوں کے والدین سے ملاقات کی گئی اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا گیا۔ بعد ازاں میڈیکل آفیسر سے ملاقات کے دوران زخمی بچوں کی صورتحال معلوم کرتے ہوئے منہاج القرآن ویلفیئر فاؤنڈیشن کی جانب سے مکمل تعاون کی پیشکش اور یقین دہانی کروائی گئی۔ مرکزی وفد نے پریس کلب میں شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور پریس کلب میں ہی ہونے والی تقریب میں شرکت کی جس میں شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔
اگلے روز وفد نے آرمی پبلک سکول کی شہیدہ پرنسپل طاہرہ قاضی کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور ان کے فیملی ممبران کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ اسی روز وفد نے محترم خالد محمود درانی کے کزن کی شہیدہ بیوی (جو کہ APS میں ٹیچر تھیں) کی تعزیت، فاتحہ خوانی کی اور بلندی درجات کی دعا کی۔ وفد نے محترم سید شاہ (مسلم لیگ ن کے مقامی راہنما) سے ملاقات کی اور ان کے بھتیجوں کی شہادت پر اظہار افسوس کیا اور شہداء کے درجات کی بلندی کے لئے فاتحہ خوانی کی۔ اس دورہ کے دوران وفد نے حضرت علامہ پیر محمد چشتی سرپرست تحریک منہاج القرآن خیبرپختونخواہ کی عیادت کی اور ان کی صحت یابی کے لئے دعا کی۔
محترم خرم نواز گنڈاپور نے وفد کے ہمراہ تین دن پشاور میں گزارے۔ اس دوران انہوں نے وہاں مختلف افراد اور مختلف مواقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’دہشت گرد کو دہشت گرد نہ کہنے والا بھی دہشت گرد ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عدالتوں اور پولیس کا خوف اور سیاست سے پاک ہونا ناگزیر ہے۔ دینی مدارس کے نصاب کو معاشرتی اور عصری تقاضوں کے مطابق ترتیب نہ دیا گیا تو انتہا پسندی ختم نہیں ہو گی۔ مدارس کی اکثریت اسلام اور پاکستان کی خدمت کر رہی ہے مگر کچھ گندی مچھلیاں بدنامی اور دہشت گردی کا باعث ہیں۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے جب سوسائٹی کے اندر اپنے لئے باعزت روزگار کے مواقع نہیں پاتے تو پھر وہ اپنی گزر بسر اور بقا کیلئے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اندر سے سیاسی، سماجی مظالم اور استحصال کو ختم کئے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہو گی۔ آج وقت آ گیا ہے کہ اگر مگر کی سیاست چھوڑ کر قومی ایشوز پر دو ٹوک موقف اختیار کیا جائے۔
دہشتگردی کے سدِّباب کیلئے شیخ الاسلام کا ٹھوس لائحہ عمل
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 20 دسمبر 2014ء کو پریس کانفرنس کے ذریعے دہشت گردی کے سدِّباب کے لئے ایک ٹھوس لائحہ عمل دیتے ہوئے کہا کہ
’’دہشتگرد اسلام کو بدنام اور پاکستان کو ناکام ریاست میں بدلنا چاہتے ہیں، ان کے عزائم خاک میں ملانے کیلئے پاکستان کے ہر شہری کو اپنے ملک اور نظریے کی حفاظت کیلئے یکجان اورافواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا۔ قومی یکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان دہشتگردی اور ہر طرح کے ظلم اور استحصال کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کو تیز تر کر دیں، اب وقت آگیا ہے کہ امن اور انسانیت کے دشمنوں پر پاکستان کی زمین تنگ کر دی جائے۔ دہشت گردی کے اس قدر فروغ کی ذمہ داری براہ راست ہمارے حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے، اس لئے کہ یہ بروقت دو ٹوک فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہیں۔ دہشتگردی کی 55 عدالتوں میں 5 سال سے 2025 وہ کیسز زیر التواء ہیں جن کے فیصلے 7 دن کے اندر ہونا قانونی تقاضا تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ دہشتگردی کے کیسز التواء کا شکار ہیں۔ تاحال سانحہ پشاور کے بعد صرف آرمی چیف دردمندی کے ساتھ بھاگ دوڑ کرتے اور ٹھوس فیصلے کرتے نظرآرہے ہیں۔ سانحہ پشاور کے دل دہلا دینے والے واقعہ کے بعد ابھی تک پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟ دھرنے کے دنوں میں طویل ترین اجلاس منعقد ہو سکتا ہے تو اب کیوں نہیں؟ یہ اجلاس تو 16 دسمبر کی شام کو ہی لائحہ عمل طے کرنے کیلئے بیٹھ جانا چاہیے تھا، رسماً ہی سہی اس ربڑ سٹمپ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر دہشتگردی کی مذمت کی جاتی تو دنیا کو اس بارے ہمارے سنجیدہ ہونے کا کچھ نہ کچھ ضرور تاثر ملتا۔ آج بھی اگر ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو سانحہ پشاور اور سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے اور عوام میں اشتعال اور نفرت بڑھتی رہے گی، جس کا فائدہ دہشتگرد اٹھاتے رہیں گے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 10 سال میں 50 ہزار سے زائد اموات ہوئیں مگر پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں۔ یہ موقع سیاست کرنے کا نہیں ہے مگر سچ بولنا اور حقائق پر بات کرنا سیاست نہیں۔ جب 18 اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر حملہ ہو اور 139 لوگ شہید ہوئے تب آنکھیں کیوں نہیں کھلیں۔۔۔؟ 21 اگست 2008ء کے دن واہ فیکٹری میں 2 دھماکوں میں 64لوگ شہید ہوئے۔۔۔ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا۔۔۔ ہماری حساس فوجی تنصیاب پر حملے ہوئے۔۔۔ واہگہ بارڈر پر حال ہی میں حملہ ہوا۔۔۔ سیاسی لیڈر شپ کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں۔۔۔؟یکم جنوری 2010ء کو کوئٹہ کے ایک دھماکے میں 101 شہید ہو گئے۔۔۔ اسی سال 12مارچ کو لاہور کے دو دھماکوں میں 57 بے گناہ شہید ہوئے۔۔۔ سیاسی لیڈر شپ کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں۔۔۔؟ 10 جنوری 2013ء کے دن کوئٹہ شیعہ کمیونٹی کے علاقہ میں 2 خودکش دھماکوں میں 92 افراد شہید ہوئے، ذمہ داروں کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں۔۔۔؟ 16 فروری 2013 کے دن ہزارہ ٹاؤن مارکیٹ میں دھماکہ ہوا، 89 افراد شہید ہوئے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
دہشتگردوں کے ان دھماکوں میں کوئی طبقہ، کوئی مسلک، کوئی سرکاری، غیر سرکاری تنظیم، جماعت ایسی نہیں جس کے لوگ دہشتگردی کا نشانہ نہ بنے ہوں، اس لیے اب اس سوچ سے باہر نکل آیا جائے کہ یہ جنگ ہماری نہیں، غیروں کی جنگ ہے۔ دہشتگردی کی جنگ کے خلاف لڑنا صرف فوج کی تنہا ذمہ داری نہیں ہے، اس جنگ کو جیتنے کیلئے پاکستان کے ہر شہری کو، ہر ادارے کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا۔ دنیا کے بہت سارے ملکوں نے حال ہی میں دہشتگردوں کو شکست دی ہے اور یہ جنگ جیتی ہے۔
قومی اتحاد اور یکجہتی کی اس فضا کو اگر حکومت کی طرف سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو قوم ان کے ساتھ بھی دہشتگردوں والا سلوک کرے گی۔ یہ ہماری جنگ ہے اور یہ ہی وقت ہے تمام فیصلے کرنے کا، اگر اب دیر ہوئی تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔ دہشتگرد آئین، قانون، اخلاقیات، انسانیت کو روندتے ہوئے آتے ہیں، خون کی ہولی کھیل کر چلے جاتے ہیں اور جو پکڑے جاتے ہیں ہم قانون، انسانی حقوق، عدالتی نظام اور قانونِ شہادت کے گھیرے میں آ جاتے ہیں۔ وکلاء اور سول سوسائٹی سے گزارش ہے کہ وہ دہشتگردی کے مسئلے پر قوم کو قانون موشگافیوں میں مت الجھائیں، دہشتگردوں کو سزائیں دینے کیلئے جہاں قانون رکاوٹ ہے فوراً آرڈیننس جاری کر کے رکاوٹیں دور کی جائیں اور دہشتگردوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
دہشتگردی کے خلاف جو واضح اور دو ٹوک موقف پاکستان عوامی تحریک کا رہا ہے کسی اور کا نہیں رہا۔ ہمارے کارکنوں نے قومی مفادات کیلئے قربانیاں دیں، آئندہ کیلئے بھی تیار ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک دہشتگردی کیخلاف نظریاتی، فکری اور عملی سطح پر عوامی جدوجہد جاری رکھے گی، ملک بھر میں سیمینارز، کانفرنسز کے ذریعے دہشتگردی کے خلاف آگہی مہم چلائی جائے گی اور پوری قوم کو دہشتگردی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل کیا جائیگا۔
دہشتگرد اور ان کے سرپرست پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک ہیں۔ دہشتگرد گروپس اور ان کے حمایتی افراد کے مکمل خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ ٹھوس بنیادوں پر سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس کے لئے ہم اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے مقتدر طاقتوں اور حکمرانوں کو چند اقدامات تجویز کررہے ہیں۔ ان اقدامات پر فوری عمل درآمد میں ملک و قوم کی بہتری پنہاں ہے۔ ذیل میں موجود اقدامات پر عمل کی صورت میں ہم دہشت گردی کے عفریت سے نجات پا سکتے ہیں:
14 نکاتی لائحہ عمل
- دہشت گردی کیخلاف جنگ کو ہماری اپنی جنگ قرار دیا جائے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ایک قرارداد کے ذریعے باقاعدہ طور پر National war against terrorism کا اعلان کیا جائے۔
- حکومت فوری طور پر گذشتہ 12 سال میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں ملوث افراد کے نام، شناخت، ان کا پس منظر، علاقائی تعلق اور دیگر تفصیلات منظرعام پر لائے۔ تاکہ قوم نقابوں کے پیچھے چھپے اپنے دشمنوں کو پہچان سکے۔ یہ کیسی انسداد دہشت گردی ہے کہ جہاں دہشت گردوں کے چہرے تک چھپا دیے جاتے ہیں۔
- دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوری طور پر ابہام سے پاک قانون سازی کی جائے اور دہشت گردوں کی حمایت میں بیان دینے، ان کو رہائش فراہم کرنے اور ان کو سہولت فراہم کرنے کو جرم قرار دیا جائے اور اس کی سزا عمر قید سے کم نہ ہو۔
- دہشت گردی کی جڑیں فرقہ واریت، انتہاپسندی اور تکفیریت میں ہیں۔ کفر کے فتووں کے اجرا پر قانونا پابندی عائد کی جائے اور اس پر کڑی سزا رکھی جائے۔
- دہشت گردی کی عدالتوں کے ججز کو دہشت گردوں کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی جرات اور بے باکی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لانی چاہئیے جس بے خوفی کا مظاہرہ وہ ہمارے خلاف کررہے ہیں۔ دہشت گردی کی موجودہ عدالتیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہورہی ہیں، ان کی بجائے فوجی عدالتیں قائم کی جائیں۔ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات، خصوصی فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں۔ ایک ہفتہ میں سزا اور ایک ہفتہ اپیل کے لئے رکھا جائے۔ پندرہ دنوں میں دہشت گردوں کو سزائیں دی جائیں اور ان پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔
- مدارس کے نظام اور نصاب میں اصلاحات کو یقینی بنایا جائے۔ نصاب یکساں ہونا چاہئے تاکہ مدارس پر دہشت گردی کی نرسریاں ہونے کے تاثر کو زائل کیا جا سکے۔ معتدل علماء پر مشتمل بورڈ بنایا جائے جو نصاب سازی کا کام کرے۔ مدارس کے لئے قومی نصاب کے علاوہ کسی بھی دوسرے نصاب کے پڑھانے پر پابندی عائد کی جائے۔
- دینی مدارس، جماعتوں، تنظیموں اور شخصیات کو ملنے والی بیرونی فنڈنگ کو فورا بند کیا جائے۔
- پیس ایجوکیشن سنٹر قائم کئے جائیں اور ان کے ذریعہ آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ دہشت گرد سادہ لوح لوگوں کو بلیک میل نہ کر سکیں۔
- نفرت، فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے فروغ کا سبب بننے والے لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے۔
- دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کام کرنے والی خصوصی عدالتیں، ادارے، نیم عسکری فورسز اور ایجنسیاں براہ راست فوج کے ماتحت ہونی چاہئیں۔
- دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فوج کو سہولیات دی جائیں اور اس کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔
- قبائلی علاقوں، خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں ہونے والے یتیم اور بے سہارا بچوں اور نوجوانوں کیلئے حکومت فوری طور پر خصوصی ادارے قائم کرے جہاں ان کی کفالت، تعلیم، تربیت کا اہتمام ہو اور انہیں خصوصی وظائف دئیے جائیں تاکہ حصول تعلیم کے بعد برسر روزگار ہوں اور امن پسند شہری بنیں۔ بصورت دیگر وہ عسکریت پسندوں کے ہتھے چڑھ کر خود کش بم بار اور فرقہ پرست اداروں میں جا کر انتہا پسند بن جائیں گے۔
- غربت، معاشی نا ہمواری، بے روزگاری، اور ظلم و استحصال ایسے عناصر ہیں جو دہشت گردی، انتہا پسندی کے لئے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ پورے پاکستان بالخصوص شمالی علاقہ جات، قبائلی علاقہ جات اور جنوبی پنجاب کی معاشی ترقی کے لئے مؤثر اور فوری اقدامات کیے جائیں۔
- ہمارے ہاں کالعدم تنظیموں کے نام پر پابندی لگائی جاتی ہے، ان کے کام پر نہیں۔ انتہا پسندانہ نظریات و افکار رکھنے والی تنظیموں اور جماعتوں پر مکمل پابندی لگائی جائے اور ان کو نام بدل کر بھی کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس سلسلہ میں الگ سے خصوصی قانون سازی کی جائے۔ کسی کالعدم تنظیم کے عہدیدار کو کسی اور نام سے تنظیم یا جماعت قائم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہونا چاہئیے۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کی ملک گیر ریلیز
سانحہ پشاور کے حوالے سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان عوامی تحریک نے لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی، لاڑکانہ، حیدرآباد، ملتان، میرپور، گوجرانوالہ، سرگودھا، بھکر، میانوالی، ڈی جی خان، بہاولپور، ڈی آئی خان، مظفر آباد سمیت پاکستان کے 60 شہروں میں احتجاجی ریلیز کا انعقاد کیا۔ لاہور میں ریلی کی قیادت ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، اسلام آباد میں محترم خرم نواز گنڈا پور نے کی جبکہ دیگر اضلاع میں مختلف مرکزی اور مقامی قائدین نے ریلیوں کی قیادت کی۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہدائے پشاور کے ساتھ اظہار یکجہتی اور دہشت گردی کے خلاف نکالی جانیوالی ریلی کے شرکاء سے آڈیو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
’’دہشت گردوں کی فکری حمایت کرنے والے فیصلہ کریں کہ وہ کن کے ساتھ ہیں یا وہ کھل کر دہشت گردوں کا ساتھ دیں یا پھر دہشت گردی کیخلاف اپنا فیصلہ سنانے والے 18 کروڑ عوام کے ساتھ کھڑے ہوں، اب دوہرے معیار نہیں چلیں گے۔ دہشت گرد اسلام، پاکستان اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان سانپوں کا سر کچلنے کا وقت آ گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف 6 سو صفحات پر مشتمل دستاویز دی جس سے دنیا کے بیشتر ممالک نے استفادہ کیا۔ مگر افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے اس سے کوئی رہنمائی نہ لی۔ دہشت گردوں کے حق میں بیان دینے والوں کا قوم بائیکاٹ کرے۔ پالیسی ساز سنجیدہ ہیں تو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہمارے 14 نکات پر عمل کریں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کو قومی سطح پر جنگ قرار دیا جائے۔ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان سے ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کو بھی سزا دی جائے۔
شہدائے پشاور کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے شہر شہر ریلیاں نکالنے پر پاکستان عوامی تحریک کی تمام تنظیموں کے عہدیداران و کارکنا ن مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرکے جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا‘‘۔
لاہور میں ریلی مرکزی صدر PAT محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی اور لاہور کے قائدین کی قیادت میں مسجد شہداء سے چیئرنگ کراس تک نکالی گئی۔۔۔ وفاقی دارالحکومت میں زیرو پوائنٹ سے آبپارہ چوک تک ریلی سیکرٹری جنرل PAT محترم خرم نواز گنڈا پور اور اسلام آباد کی مقامی قیادت کی سربراہی میں نکالی گئی۔۔۔ ان تمام ریلیز کے شرکاء نے شہید بچوں سے اظہار عقیدت اور شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لئے ہاتھوں میں بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جس پر پاک فوج کے حق میں اور دہشت گردی کی مذمت کے حوالے سے نعرے درج تھے۔ شدید سردی کے باوجود خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ریلیز میں شریک ہوئی۔ ان ریلیز کے شرکاء ’’پاک فوج زندہ باد‘‘، ’’دہشت گرد مردہ باد‘‘ اور ’’جرات و بہادری طاہرالقادری‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ ریلیز سے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد مسیحی رہنماؤں، سکھ رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
ان ریلیز سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سیکرٹری جنرل محترم خرم نواز گنڈا پور اور PAT کے مرکزی و 60 شہروں کے مقامی قائدین نے کہاکہ فوج نے ظالمان کو ختم کرنے کی جنگ ادھوری چھوڑی تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ پہلی بار دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کسی حکومت نے نہیں پاکستان کے 18 کروڑ عوام نے کیا۔ یہ جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے پر ہی ختم ہو گی۔ آج پاکستان کے 60 شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں جن میں لاکھوں کارکنان، سول سوسائٹی اور سیاسی سماجی حلقوں نے بھی بھر پور شرکت کی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا 6 سو صفحات پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف ڈاکومنٹ انتہا پسندی کے خاتمے کا ضامن ہے۔ حکمران سربراہ عوامی تحریک کے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے دیئے گئے 14 نکات پر عمل کریں۔ پاکستان عوامی تحریک دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے، ہم نے شہدائے پشاور کے احترام میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے احتجاج کو موخر کیا لیکن ہم بھولے نہیں، قاتل حکمرانوں سے خون کے قطرے قطرے کا حساب لیں گے‘‘۔
ملک گیر ریلیز میں مجموعی طور پر لاکھوں افراد نے خصوصی شرکت کی اور سانحہ پشاور کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے افواج پاکستان کے اقدامات کو سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے شیخ الاسلام کا آرمی چیف و دیگر ریاستی عہدیداروں کے نام خط
گزشتہ ماہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے چیف آف آرمی سٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، صدر مملکت، وزیراعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ، چاروں گورنرز، وزارت خارجہ، وزارت داخلہ کو دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ٹھوس تجاویز پر مبنی خط لکھا۔ شیخ الاسلام نے خط میں دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے پوری قوم کو متحد کرنے اور ملکی سالمیت کا ہر صورت تحفظ کرنے کے لئے ممکنہ اقدامات کا ذکر کیا۔ اس خط میں آپ نے دہشت گردی کے سد باب کے لئے 14 نکات پر مبنی نہ صرف ٹھوس لائحہ عمل بیان کیا بلکہ اس پر عملدرآمد کے باقاعدہ میکنزم سے بھی ان مقتدر طاقتوں کو آگاہ کیا۔
شیخ الاسلام نے اپنے اس خط میں یکساں نصاب کی تیاری کیلئے روشن خیال علماء پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دینے اور دہشت گردی اور ڈرون حملوں کے متاثرین کی معاشی، سماجی بحالی اور مکمل علاج کیلئے ایک قومی ادارہ بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔ خط میں پیس ایجوکیشن سنٹر کے قیام کی فوری ضرورت کو بھی واضح کیا گیا تاکہ یہ سنٹر انتہا پسندی کے خلاف آگاہی مہم چلائیں اور دہشت گرد مجبور نوجوانوں کو گمراہ نہ کر سکیں اور انکی مجبوریوں سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
اپنے اس خط میں شیخ الاسلام نے بطور خاص اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ غربت، معاشی عدم مساوات، بے روزگاری اور ہر طرح کی محرومی اور استحصال، دہشت گردی کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ ان سماجی، معاشی مسائل کے تدارک پر خصوصی طور پر توجہ دی جائے۔ دہشت گردی کی ہر شکل کے خاتمے کیلئے موثر قانون سازی کی جائے، اب اس حوالے سے مزید سستی مجرمانہ غفلت سمجھی جائے گی اور قوم اسے کسی صورت قبول نہیں کرے گی‘‘۔
محترم قارئین! سانحہ پشاورسے قبل بھی اور بعد بھی آج تک اور آئندہ بھی منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کا موقف دہشت گردی کے خلاف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔ شیخ الاسلام کے سابقہ خطابات، فتویٰ اور کتابیں اس موقف پر شاہد و عادل ہیں۔ افسوس! دوسری طرف مسندِ اقتدار پر قابض لوگ دہشت گردی کے خلاف ابھی تک ’’اگر مگر، چونکہ، لیکن‘‘ کے الفاظ کے ذریعے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے تحفظ کی خاطر دہشت گردوں سے خائف ہیں۔ آرمی چیف کی موجودگی میں حکمرانوں اور پارلیمانی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام، مدارس اور ان کے نصاب میں اصلاحات، بیرونی فنڈنگ کی روک تھام اور اس جیسے دیگر نکات اور قومی ایکشن پلان کا اعلان تو کیا مگر اجلاس کے ختم ہونے کے بعد سے ہی اس ’’ایکشن پلان‘‘ کے مختلف نکات پر اپنے تحفظات کا اظہار شروع کردیا اور وہ لائحہ عمل جسے انہوں نے ’’قومی ایکشن پلان‘‘ کا نام دیا اور اس پر تمام جماعتوں کے اتفاق ہوجانے پر خوشی کے شادیانے بجائے، افسوس کہ یہ ’’اتفاق‘‘ دو/ چار دن بھی قائم نہ رہ سکا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اس مفاد پرستانہ رویہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:
’’عسکری قیادت کو پیشگی مطلع کررہے ہیں کہ فوجی عدالتوں پر پارلیمانی اے پی سی میں اتفاق رائے کرنے والی جماعتیں اب اس پر سیاسی تماشا کریں گی، موجودہ ملکی قانون، دہشتگردی کی سیاسی عدالتیں اور پولیس سے دہشت گردوں کو تحفظ ملتا رہا ہے، موجودہ ملکی قانون کے تحت دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ دہشت گردی کی عدالتوں کے سیاسی استعمال کا ہی نتیجہ ہے کہ آج فوجی عدالتوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ فوجی عدالتوں کے مسئلہ پر حکومت کی اپنی نیت بھی صاف نہیں اس لئے اپنے اتحادیوں سے مخالفانہ بیان دلوارہی ہے۔ حکومت جو بات خود کرنے کی جرات نہیں رکھتی وہ اپنے اعلانیہ، غیر اعلانیہ اتحادیوں کے منہ سے نکلواتی ہے۔ اس وقت ملکی باگ دوڑ کنویں کے مینڈکوں اور گھڑے کی مچھلیوں کے پاس ہے جن میں ناک سے آگے دیکھنے کی سکت نہیں۔ آئینی گنجائش کی بات کرنے والے بتائیں کیا آئین بے گناہوں کے گلے کاٹنے اور ملکی خزانہ لوٹنے کی اجازت دیتا ہے؟ فوجی عدالتوں کی مخالفت کی وجہ محض آئین میں ان کی گنجائش نہ ہونا ہی ہے تو پھر بلا تاخیرآئین میں ترامیم لانے میں کون سا امر مانع ہے؟ ہماری آئینی تاریخ ایسی ترامیم سے بھری پڑی ہے کہ لمحوں کے اندر ترامیم ہوئیں اور کسی نے اُف تک نہیں کی، اب تماشا کیوں ہورہا ہے‘‘؟
محترم قارئین! ایک طرف اس پوری قومی قیادت کا وژن جس نے سانحہ پشاور کے 10 دن کے بعد 25 دسمبر کو اپنے لائحہ عمل کا اعلان کیا اور دوسری طرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا وژن، بصیرت اور دور اندیشی کہ آپ نے سانحہ پشاور کے صرف 3 دن کے بعد ہی موجودہ نام نہاد قومی قیادت کے وژن سے کئی گنا بڑھ کر مضبوط، منطقی اور قابل عمل حل قوم کے سامنے پیش کردیا۔ قومی قیادت کا پیش کردہ متفقہ لائحہ عمل خود اُن کے اپنی طرف سے افتراق کا شکار ہوچکا اور قومی قیادت پر افسوس کہ ابھی تک دہشت گردی کے سدباب کے لئے متفق نہ ہوسکی۔ جبکہ دوسری طرف شیخ الاسلام جرات و بہادری کے پیکر بنے ہوئے بدستور اپنے موقف پر قائم ہیں کہ دہشت گردی کے اس ناسور کے خاتمہ کے لئے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا سبب بننے والے عناصر اور ان کی تعلیمات و وسائل کی بیخ کنی ناگزیر ہے۔