ہمارے داخلی مسائل اگرچہ بے شمار ہیں جن میں توانائی کا بحران ہے بے روزگاری ہے لاقانونیت ہے، جہالت و غربت ہے، صوبائیت اور قوم پرستوں کی مخالفت ہے مگر ان سب میں ’’دہشت گردی‘‘ بہت نمایاں اور خطرناک ہے۔ طالبان اس دہشت گردی کا بدترین مہرہ بن کر سامنے آ چکے ہیں جس نے پاک آرمی سمیت پاکستان کے دیگر اداروں کے ساتھ کھلی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس جنگ کا بدترین منظر نامہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بڑے بڑے مذہبی ’’رہنما‘‘ فکری انتشار کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایک بڑا اور منظم مذہبی طبقہ پاک آرمی کی طالبان مخالف کاروائیوں کو غلط سمجھ رہا ہے۔ نتیجتاً قاتلوں کو شہید اور شہیدوں کو قاتل ڈکلیئر کیا جارہا ہے۔ ایسے میں سیاسی، حکومتی اور عسکری قیادت کی حکمت، تحمل اور دانشمندی کے امتحان قدم قدم پر ہوں گے۔ لہو لہو جسد وطن کی صحت یابی ان کے فیصلوں سے مشروط ہوگی۔ انہیں اندرونی خلفشار اور بیرونی یلغار دونوں محاذوں پر لڑنا ہوگا۔
جس طریقے سے دہشت گردوں نے بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جانیں لینے کا ایک طویل سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کے جو مطالبات اور عزائم ہیں وہ بادی النظر میں تو ’’اسلامی شریعت‘‘ کی خوبصورت اصطلاح میں لپٹے ہوئے ہیں مگر ان کا ٹریک ریکارڈ اور ہونے والے نقصانات کی نوعیت بتا رہی ہے کہ ان لوگوں کے ارادے ہرگز درست نہیں۔ اگر وہ اسلام اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ شریعت عورتوں، بچوں اور معمولی نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو جینے کا حق دے رہی ہے؟ بچوں کے سکول، تجارتی مراکز، سیکیورٹی ادارے اور ہزاروں ہنستے بستے گھروں کی بربادی پر ان کے پاس کیا شرعی دلیل ہے؟ کیا جہاد صرف کلمہ گو مسلمانوں کو مارنے کا نام ہے؟دہشت گرد اپنی کاروائیوں کو اسلام کے فلسفہ جہاد کا لبادہ پہناتے ہیں جبکہ جہاد تو انسانی معاشرے میں فتنہ انگیزی اور فساد کے دروازے بند کرنے کا نام ہے۔
مرض کو ابتداء میں نہ پکڑا جائے تو اس کے اثرات اسی طرح پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں اور پھر جان بچانے کے لئے عمل جراحت ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے اس مہلک مرض میں مبتلا کرنے والی ملک دشمن قوتوں کو ضرب عضب پسند ہے اور نہ اس کے نتیجے میں قیام امن کی کاوشیں۔ سیاستدانوں کے برعکس یہ سہرا پاک آرمی کی موجودہ قیادت کے سر سجتا ہے جس نے شرح صدر کے ساتھ تخریب کاروں پر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا۔ یقینا یہ قومی جنگ ہے جسمیں پاک فوج کے جسور و غیور نوجوان ایک طرف قربانیاں بھی پیش کررہے ہیں اور دوسری طرف لاکھوں متاثرین کی ضروریات زندگی کا خیال بھی رکھ رہے ہیں۔ بے تدبیر، ہوس پرست اور اقتدار پسند سیاستدانوں کے ہاتھوں زخم زخم وطن عزیز کا چپہ چپہ خون آلود ہے۔ کراچی سے لے کر بلوچستان کی وادیوں میں پھیلی بغاوت تک اور وزیرستان سے لے کر افغانستان اور بھارت کی سرحدی چوکیوں تک پاک فوج کے افسر اور جوان ہی سینہ سپر ہوکر تحفظ وطن کا فریضہ نبھا رہے ہیں۔
دہشت گردی سے ریاست شدید متاثر ہورہی ہے جبکہ حکومت ہمیشہ سیاست کرتی رہی ہے اور اب بھی سیاست کررہی ہے۔ مفاد پرستی اور اقتدار پرستی کی سیاست۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ ان واقعات کی عدالتی کاروائیاں ہوتی رہی ہیں، قصوروار لوگ میڈیا پر دکھائے بھی گئے مگر آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں کہاں رکھا ہوا ہے اور ہزاروں بے گناہوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچنے دیا جاتا۔ بلاشبہ اس قومی جرم میں عدلیہ بھی حکومت کا حصہ ہے۔ اب جبکہ فوجی عدالتوں کے قیام اور دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا پاک فوج نے فیصلہ کیا اس پر بھی سیاسی اور نام نہاد مذہبی قیادت نے سب سے زیادہ چوں وچراں کیا۔
اس شدت پسندی اور ہلاکت کی ذمہ داری ان مذہبی قائدین اور مدرسین پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے کئی عشروں سے اپنی اپنی دکانداریاں چمکانے اور اپنے اپنے گروہوں میں اضافہ کی غرض سے دوسروں کو اسلام سے نکال باہر کرنے کا دھندا شروع کیا ہوا ہے۔ اسلام کی خدمت اور وطن کی تعمیر میں اگرچہ بہت سے علماء پیش پیش رہے ہیں لیکن نادانی اور تعصب میں حد سے گزرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں رہی اور یہ معاملہ کسی ایک مسلک تک محدود نہیں بلکہ سب لوگ ’’آزادی‘‘ سے پورا فائدہ اٹھاکر تکفیر سازی کے جھنڈے گاڑھتے رہے ہیں۔
ان حالات کی ذمہ داری حکومتی بیوروکریسی اور انتظامیہ بھی ہے جن کی ناک کے نیچے مسجدوں میں اسلحہ اور مدارس میں بارود کے ڈھیر لگتے رہے۔ جن کی نوازشات سے فضل اللہ اور منگل بار جیسے عام اور نیم خواندہ لوگوں کو اسلحہ کے زور پر ایک بڑے علاقے میں سیاہ و سفید کا مالک بنایا گیا اور اب وہی لوگ طالبان سے مل کر اسی ریاست کے لئے خطرے کی علامت بن چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اچانک نہیں ہوا۔ ملک دشمن قوتیں بھی متحرک ہیں مگر ان قوتوں کو ہمارے اندر سے سپورٹ نہ ملے تو ان کی سازشیں خود دم توڑ دیتی ہیں۔ بیماری یہ ہے کہ نہ تو ان واقعات سے سبق سیکھ کر ہم قومی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور نہ ہم پوری دنیا سمیت اپنی عوام سے سچ بولنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک طرف کراچی سے لے کر فاٹا اور اسلام آباد سے لے کر بلوچستان کی آخری سرحد تک اگر دہشت گرد آزادی کے ساتھ اپنی من مانی کاروائیاں کرکے ریاست کو کمزور بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں اور دوسری طرف اب سانحہ پشاور کے بعد ہماری حکومت کو ہوش آیا نہیں بلکہ ہوش دلایا گیا ہے۔ نتیجتاً فوج کے زبردست آپریشن کے پیش نظر ہی آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم ممکن ہوئی۔
پاکستان آرمی کے خلاف نبرد آزما طالبان گروپ ہوں یا دیگر کالعدم مذہبی جہادی اور قوم پرست تنظیمیں ان سے ہمارا یہی رونا ہے کہ یہ لوگ بوجوہ ہتھیار اٹھاکر ایک ایسی مسلمان ریاست کو کمزور کررہے ہیں جو کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آئی تھی۔ جس کا دستور اور آئین متفقہ طور پر تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے منظور کیا۔ اس میں کوئی جز بھی اسلامی نظام کی روح کے خلاف نہیں۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ اس آئین کو نافذ کرنے میں مصلحت بیں حکومتوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ یہ لوگ ریاست کے وجود اور اس کے تمام اداروں کو غیر اسلامی کہہ کر اس پر حملہ آور ہوجائیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 2009ء میں دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات پر مبنی ایک مبسوط تاریخی فتویٰ جاری کیا تھا جس میں قرآنی آیات، احادیث مبارکہ، آثار صحابہ اور اسلامی تاریخ کے تناظر میں دہشت گردی کے سد باب کے لئے فکری، علمی اور عملی بنیادوں کا ذکر کیا مگر افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے اس سے کماحقہ استفادہ نہ کیا۔آج بھی شیخ الاسلام کا دہشت گردی کے خلاف موقف موجودہ تمام سیاسی و مذہبی ’’قیادت‘‘ سے زیادہ دو ٹوک اور واضح ہے جس میں کسی ’’اگر،مگر‘ ‘ کے الفاظ کا سہارا نہیں لیا گیا۔ سانحہ پشاور کے بعد شیخ الاسلام نے 14 نکات پر مبنی ایک لائحہ عمل مقتدر طاقتوں کے سامنے رکھا ہے جو دہشت گردی کے سدباب کے لئے حقیقی معنوں میں ایک ٹھوس میکانزم بھی ہے۔ اب وہ اپنی نگرانی میں ایک ایسا قومی نصاب ترتیب دے رہے ہیں جس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ استفادہ کرسکیں گے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جس طرح اپنی ذات کے حصار میں قید ہیں اور ملکی اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں نتیجتاً کرپشن اور لوٹ مار اب عام ہو چکی ہے۔ بالکل اسی طرح ہماری مذہبی قیادتیں اور ادارے بھی (الا ماشاء اللہ) اپنی ذات، اپنے مسلک اور اپنے اپنے حلقہ ہائے عقیدت کے حصار میں مقید ہیں۔ انہیں دین کی عزت حرمت اور وقار کا خیال اپنے ذاتی وقار اور عزت سے زیادہ عزیز ہوتا تو وہ خود کو دوسروں سے اعلیٰ و ارفع نہ سمجھتے اور ان کے خلاف بلاوجہ تکفیر کے فتوے نہ دیتے۔ اپنے مراکز اور مدارس میں نفرتوں کو پروان نہ چڑھاتے۔ دین تو غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن خلق کی تعلیم دیتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو سب کو گلے لگایا تھا، چہ جائیکہ اپنوں کو بھی گولی اور گالی کے نشانے پر رکھ لیا جائے اور اس نفرت و کدورت اور عصبیت نفس کو جہاد کا لبادہ پہنا کر معصوم ذہنوں کو پراگندہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ تعصبات پر استوار کی گئی عمارت جتنی بھی بلند و بالا ہو ایک دن اسے مسمار ہونا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام پر ان فرقوں اور مسلکوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ حقیقی اسلام اپنی تعلیمات کی کشش کے باوجود اپنی شناخت کو ترس رہا ہے۔ اس دور فتن میں احیائے اسلام اور تجدید دین کا سہرا اسی کے سر سجے گا جو اسلام کو اس کی اصل شناخت دے کر اقوام عالم کے سامنے رکھے گا۔