سانحہ ماڈل ٹاؤن کی عدالتی تحقیقات کے لیے قائم جسٹس باقر نجفی کمیشن بالآخر چھپا ہوا سچ سامنے لے آیا جس پر موجودہ حکمرانوں نے ساڑھے 3سال تک پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ پبلک کرنے کا حکم پانامہ لیکس کے فیصلہ کی طرح دوسرا بڑا تاریخی فیصلہ ہے ۔ اس فیصلہ سے جہاں شہداء کے ورثا کی اشک شوئی ہوئی وہاں اس فیصلہ سے عدلیہ کا وقار بلند اور انصاف کا بول بالا ہوا۔ بلا شبہ یہ فیصلہ انصاف کی طرف ایک بڑی پیش رفت ہے اور ابھی مکمل انصاف ہونا باقی ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا اور انصاف پسند عوامی حلقے مکمل انصاف کے منتظر ہیں۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد سیاسی قیادت کا رسپانس انتہائی ہمدردانہ اور ذمہ دارانہ تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئر پرسن آصف علی زرداری، پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی قائدین چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، مجلس وحدت المسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ محمد ناصرعباس نے اپنے سینئر رہنماؤں کے وفود کے ہمراہ عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے ملاقات کی اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاسے اظہار یکجہتی اور حصول انصاف کے لیے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے بھی ٹیلیفون پر سربراہ عوامی تحریک سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے ضمن میں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا ۔ اس کے علاوہ ایم این اے جمشید دستی ، سول سوسائٹی، وکلاء تنظیموں کے عہدیداران اور مختلف شعبہ جاتی انجمنوں کے صدور اور مرکزی رہنماؤں نے بھی سربراہ عوامی تحریک کو بھرپور حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔ جماعت اسلامی کی قیادت بھی ہمیشہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حوالے سے ہر فورم پر پاکستان عوامی تحریک اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا کے شانہ بشانہ رہی ہے اور آج بھی ساتھ ہے۔
بلاشبہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ملکی تاریخ کاایک ایسا دردناک واقعہ ہے کہ کوئی بھی جماعت یا فرد اس سانحہ کی سنگینی اور انصاف کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد یہ دوسرا بڑا سانحہ ہے جس میں ریاستی فورسز نے اپنے ہی شہریوں کا قتل عام کیا مگر جلیانوالہ باغ کا سانحہ اس اعتبار سے مختلف ہے کہ اس میں غیر ملکی قابض اور غاصب حکومت نے فائر کھولا تھا اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں جنرل ڈائر کا کردار شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ نے انجام دیاجنہیں اپنے مسلمان ، پاکستانی اور جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ ہے۔
یہاں پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 2014ء کے دھرنے کے اختتام پر قاتل حکمرانوں کے ایماء پر ایک غلیظ پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی تھی جس میں یہ تاثر دیاجارہا تھا کہ جیسے کوئی درپردہ معاملہ طے پا گیا اور دھرنا ختم کر دیاگیا۔ حکومت کے کچھ ماؤتھ پیس اور آلہ کاروں نے اسے سکینڈل بنا کر اچھالنے کی ناکام کوشش کی، الحمداللہ آج اس غلیظ پروپیگنڈے کا حصہ بننے والے تمام عناصر کو جواب مل گیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری تو دور کی بات ان کے کسی ادنیٰ سے کارکن کو بھی کوئی خرید سکتا ہے اور نہ خوف زدہ کر سکتا ہے۔ قارون کا خزانہ اور فرعون کی طاقت رکھنے والے شریف برادران تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود شہدائے ماڈل ٹاؤن کے غریب ورثاء میں سے کسی ایک کو خرید سکے اور نہ ڈرا سکے۔ جس تحریک کے کارکن اتنے غیرت مند اور نڈر ہوں اس تحریک کے قائد کے بارے میں کوئی کیسے تصور کر سکتا ہے کہ وہ اپنے اصولوں پر کسی بھی حالت میں سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے قائدانقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پروپیگنڈا کرنے والوں کو پریس کانفرنس کے ذریعے یہ چیلنج کیا تھا کہ اگر سمجھوتہ کے حوالے سے کسی کے پاس کوئی چھوٹا سا بھی ثبوت ہے تو وہ لے آئے اور انعام میں 5 کروڑ روپے لے لے مگر الزام لگانے والے جرأت نہ کرسکے۔ اس اعلان کے بعد قاتل حکمرانوں اور ان کے حواریوں کو گویا سانپ سونگھ گیا اور کچھ سینئر اینکرز نے حکومتی منفی پروپیگنڈے کی رو میں بہہ کر غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا، ان صحافیوں کو ہتک عزت کے نوٹس بھجوائے گئے اور انہیں کہا گیا تھا کہ وہ فی الفور معافی مانگیں ورنہ قانونی کارروائی کیلئے تیار رہیں ، پھر انہوں نے آن ایئر معافی مانگی۔
اس موقع پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن کا جتنا کڑا احتساب کیا گیا اس کی دوسری مثال کبھی نہیں ملے گی۔ 2014ء کے دھرنے میں اشرافیہ کے کالے کرتوتوں کے خلاف جب ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے لاکھوں کارکنان اسلام آباد کے ڈی چوک میں سراپا احتجاج تھے اس دوران اشرافیہ نے ایف آئی اے، ایف بی آر، نیب ، سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، پولیس سمیت کوئی ایسا ادارہ اور ایجنسی نہیں تھی جسے احتساب کے نام پر انتقامی ایجنڈا نہیں دیا گیا تھا کہ جائیں ڈاکٹر طاہرالقادری یا ان کی تحریک منہاج القرآن کے بارے میں کچھ سچ ، جھوٹ گھڑ کر لائیں۔ ایک ایک اکاؤنٹ چیک کیا گیا ، سینکڑوں مقدمات قائم کیے گئے ، یہی نہیں دنیا بھر کے سفارتخانوں کو بھی حکم دئیے گئے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک جو دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں اپنا نیٹ ورک رکھتی ہے اس کے حوالے سے کسی ملک سے کوئی بے ضابطگی ڈھونڈ کر لائیں۔ الحمدللہ قاتلوں کو منہ کی کھانا پڑی اور وہ آج کے دن تک کوئی ایک روپے کی بے ضابطگی یا ملکی قانون کی خلاف ورزی کا کوئی ایک ثبوت بھی نہ لاسکے اور الزام لگانے والے آج خود کرپشن ثابت ہونے پر منہ چھپاتے پھررہے ہیں۔ پاکستان اور دنیا کی زمین ان پر تنگ ہو چکی ہے، وہ شاپنگ اور سیر سپاٹے کیلئے گھروں سے باہر نہیں نکلتے کیونکہ چوروں کے ٹبر کا کوئی فرد عوام کو نظر آتا ہے تو ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ہے ، گلی گلی میں شور ہے سارا ٹبر چور ہے۔ کوئی جرم ایسا نہیں جس پر ان کے خلاف عدالتوں میں ثبوت نہیں آرہے اور اشرافیہ کی کرپشن پر عدالتیں تصدیق کی مہریں ثبت کررہی ہیں۔ شریف برادران ماڈل ٹاؤن کے بےگناہوں کے خون اور اس قوم کی بیٹیوں تنزیلہ اور شازیہ کی زندگیاں چھیننے کے جرم میں اللہ کی پکڑ میں آچکے ہیں اور آج گلی گلی میں ان کی خاک اڑرہی ہے۔
جہاں تک جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے پبلک ہونے کا تعلق ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے چہروں سے نقاب ہٹنے کی بات ہے تو درحقیقت یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری ، ان کی پوری تحریک اور ان کا ویژن انمول ہے۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد سانحہ کے ذمہ داروں سے متعلق ہر قسم کا ابہام ختم ہوگیا اور رپورٹ کے نامکمل ہونے کا حکومتی پروپیگنڈا بھی اپنی موت آپ مرگیا۔ رپورٹ آنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجا ب میاں شہباز شریف کو فی الفور مستعفی ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے 17 جون 2014ء کے دن عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کرتے وقت خود کہا تھا کہ اگر کمیشن نے میری طرف اشارہ بھی کیا تو وہ مستعفی ہوکر قانون کا سامنا کریں گے۔ مگر عدالتی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے رپورٹ پبلک کرنے سے انکار کر دیا اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا کو رپورٹ کے حصول کے لیے 3سال تک طویل قانونی جدوجہد کرنا پڑی۔ رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دینے پر لاہور ہائیکورٹ مبارکباد کی مستحق ہے۔ رانا ثناء اللہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اس لیے کیاجارہا ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ لکھ دیا ہے کہ 16 جون 2014ء کی میٹنگ کا ایجنڈا بیریئر نہیں ڈاکٹر طاہر القادری کی وطن واپسی تھا اور اس میٹنگ کی صدارت رانا ثناء اللہ نے کی۔
بہرحال آل پاکستان وکلاء کنونشن میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے پانچ نکات منظور کیے گئے ہیں:
- شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ مستعفی ہوجائیں۔
- سانحہ میں ملوث پولیس افسران اور بیوروکریٹس کیس کے حتمی فیصلے تک عہدوں سے الگ ہو جائیں۔
- سانحہ کی غیر جانبدار تحقیقات کے لیے پانامہ طرز کی ایک آزاد اور خود مختار جے آئی ٹی بنائی جائے جس کی مانیٹرنگ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا جج کرے۔
- تمام ملزمان کو گرفتار کر کے جیل بھیجا جائے اور ان کے ساتھ عام قتل اور دہشتگردی کے ملزمان کی طرح برابری کی بنیاد پر سلوک کیا جائے۔
- زیر دفعہ 173 ضابطہ فوجداری کے تحت ملزمان سے آلات قتل برآمد کر کے ایک مفصل رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے اور ملزمان کوجیلوں میں بند کیا جائے۔
یہ سیاسی نہیں قانونی مطالبات ہیں اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا بنیادی حق ہے کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 10-A کی روشنی میں فیئر ٹرائل اور غیر جانبدار تفتیش کا حق ملے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکمرانوں کو مہلت دی ہے کہ وہ خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کر دیں۔ بصورت دیگر حصول انصاف کیلئے وہ فیصلہ کن دھرنا دے سکتے ہیں اور یہ دھرنا آخری ہو گا اور اس میں اب اپوزیشن کی تمام جماعتیں بھی شانہ بشانہ ہوں گی۔