رپورٹ ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ: محمد اقبال چشتی
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کا بنیادی مقصد اِنسانی حیات میں ہمہ گیر انقلاب بپا کرنا تھا اور انقلاب کی ہمہ گیری درحقیقت زندگی کے انفرادی، ذہنی، ایمانی، اَخلاقی، اجتماعی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی الغرض ہر پہلو کو محیط ہے۔ ذیل میں اس ہمہ گیر انقلاب کے مختلف پہلوئوں کو واضح کیا جارہا ہے:
فکری انقلاب
جب ہم ذہنی یا فکری انقلاب کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد انسانی فکر وشعور میں اُس مقصد کا اُجاگر ہونا ہے جس مقصد کی خاطر اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا۔ گویا ذہنی انقلاب یہ ہے کہ انسان کو اپنے ہونے کا مقصد سمجھ آجائے اور اپنے وجود کی وجہ سمجھ میں آجائے، زندگی سے بے مقصدیت کا خاتمہ ہوجائے اور زندگی کو مقصدیت کی خوشبو نصیب ہوجائے۔ مقصدیت سے آشنائی ہی دراصل ذہنی سطح پر انقلاب بپا ہونے کا اظہار ہے۔
ایمانی انقلاب
انقلاب کا دوسرا پہلو ایمان ہے۔کسی شخص کے ایمان کو انقلاب کی خوشبو تب نصیب ہوتی ہے جب اُس کا ایمان اُس کو راسخ یقین عطا کر دے۔ یہ یقین اُسے نصیب ہوجائے اور وہ یقین اِس کمال درجہ کا ہو کہ بعد ازاں اگر حجابات رفع ہوجائیں اور نگاہ کے سامنے وہ اُمور واضح ہوجائیں جن کے بارے میں وہ یقین رکھا کرتا تھا تو اُس کو اپنے یقین اور حقیقت میں کوئی فرق محسوس نہ ہو۔یہ ایمان کی سطح پر انقلاب بپا ہونے اور ایمان کو یقین کی عظمت نصیب ہونے کی دلیل ہے۔یہی وہ یقین ہے جس کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اعلیٰ اور کمال یقین یہ ہے کہ پردہ ہٹ بھی جائے تو بھی یقین اتنا ہی رہے جتنا پہلے تھا۔‘‘
جب یہ چیز پائی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فلاں شخص کے ایمان اور یقین کو انقلاب کی دولت سے نوازا ہے۔ ہر انسان اپنے ایمان کی سطح پر اپنے یقین کی حالت اور کیفیت کو پرکھ سکتا ہے؟ کسی کے کمال یقین پر شہادت یہ ہے کہ اس کا اللہ کی ذات پر ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر اور آخرت پر یقین کا عالم یہ ہوکہ جو کچھ وہ کرتا ہے یا جو کچھ اسے نصیب ہوگا وہ اس کے مکافاتِ عمل کے طریقے سے ہوگا۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،بزرگانِ دین کی تعلیمات پر اُس کے ایمان کے یقین کا عالم یہ ہو کہ یہی راستہ درست ہے۔ وہ دنیا کے مختلف افکار سے مغلوب ہو کر نہ پھرتا رہے بلکہ اُس پر یہی ایک بات غالب رہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت حاصل کرنے کا یہی ایک راستہ ہے۔ اُس کے یقین وایمان پر صبح و شام یہ کیفیت طاری رہے کہ میں نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے تو اس کا صلہ یقینا آخرت میں نصیب ہوگا اور اگر دینِ اسلام سے کسی بھی صورت عداوت کی تو اللہ کی بارگاہ سے یقینا اس کی گرفت ہوگی۔ اگر اس کا ایمان اس سطح تک پہنچ جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُس کے یقین نے اُس کے ایمان کو انقلاب آشنا کردیا۔
اخلاقی انقلاب
اِسی طرح تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ایک اور مقصد اَخلاقی انقلاب بپا کرنا بھی ہے۔ اَخلاقی انقلاب یہ ہے کہ انسان کی زندگی رضائے الہی کے حصول کی خاطر اَخلاق وفضائل سے مزین ہو جائے۔اُس کی زندگی کا مقصداور محور یہ بن جائے کہ اُس نے رضائے الہی حاصل کرنی ہے اور رضائے الہی کے حصول کے لیے وہ صبح وشام اپنے اَخلاق، اَعمال اور اَفکار سنوارنے کے لیے کمر بستہ ہو جائے۔جب اُس کی زندگی کا کل مقصد فقط رضائے الہی ہو تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی زندگی میں اَخلاقی سطح پر بھی انقلاب بپا ہو گیا ہے ۔
معاشرتی انقلاب
اسی طرح تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ایک اور مقصداجتماعی زندگی میں بھی انقلاب بپا کرنا ہے۔ اجتماعی زندگی در حقیقت اطاعت اور اِنحراف کے تضاد پر مشتمل ہے ۔یعنی اجتماعی زندگی میں کچھ لوگ اطاعت سے مزین ہوتے ہیں اور کچھ لوگ انحراف برتتے ہیں۔جب اطاعت اور انحراف کو ایک جگہ جمع کر دیں تو جو کچھ نظر آتا ہے اُسے اجتماعی زندگی کہتے ہیں۔ اجتماعی زندگی معاشی، معاشرتی،سیاسی پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ ہر پہلو میں اطاعت بھی ہے اور انحراف بھی ہے۔ہر انحراف کو جب اجتماعی زندگی میں اطاعت سے بدل دیا جائے تو اُسے کسی بھی اجتماعی زندگی میں انقلاب کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان اپنی انفرادی یا معاشرتی زندگی میں تکبر کا شکار ہو تو اُسے انحراف کہیں گے اور اگر وہ تفاخر وخودپسندی کو ترک کر کے اپنے آپ کو دیگر مسلمانوں کے لیے اُخوت کے رشتے میں تبدیل کردے، ہر ایک کو اپنے جیسا جاننے لگ جائے، چاہے کوئی کسی بھی مذہب، مسلک یا برادری کا ہو، ہر فرق کو مٹا دے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ اس کی اجتماعی زندگی میں بھی انقلاب بپا ہوگیا۔
انسان کا اپنی معاشرتی زندگی میں کسی کو پرکھنے کا مداربھی اَحکامِ الہیہ پر مبنی ہونا چاہیے۔کسی کو بہتر جاننا ہے تو وہ بھی احکام الہیہ کی روشنی میں ہو، کسی کو بُرا جاننا ہے تو وہ بھی اَحکام الہیہ کی روشنی میں ہو۔اُس کے اندر اپنی فکر،سوچ کا عمل دخل نہ ہو تو معاشرتی زندگی میں انقلاب بپا ہوتا ہے۔ معاشرتی زندگی انسان کے مابین بعض رشتوں کا نام ہے، ان رشتوں سے اپنی ذاتی سوچ نکال کر اللہ کے حکم کی اطاعت اور تعمیل آجائے تو معاشرتی زندگی میں انقلاب بپا ہو جاتا ہے۔
معاشی انقلاب
سیاسی زندگی سے پہلے درحقیقت معاشی زندگی آتی ہے۔ اگر معاشی زندگی میں انقلاب بپا ہو جائے تو خود بخود سیاسی زندگی پر انقلاب کا اثر رونما ہوتا ہے۔ معاشی زندگی میں انقلاب بپا ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان جب اپنی ذات میں ہوتا ہے تو وہ لالچ،بخل،حرص جیسی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔ جب وہ ان عادات کا شکار ہوتا ہے تو اُسے کہا جائے گا کہ یہ انحراف میں ہے۔ جب وہ اِن بُری عادات اور امراض کو بدل دے، یعنی بخل کو وُسعتِ قلبی سے بدل دے،بخل کو سخاوت اور ایثار وقربانی سے بدل دے اور اُس کی نگاہ میں نیکی کا معیار پھر یہی رہ جائے جس کے متعلق اللہ رب العزت نے فرمایا:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ:
’’(تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو)۔‘‘
جب معاشی زندگی کا مطمع نظر اِس آیت کو اور حکم خداوندی کو بنا لیں گے تو پھر وہ انحراف سے نکل کر اطاعت میں چلا جائے گا۔ اس مقام پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس شخص نے اپنی معاشی زندگی میں بھی انقلاب بپا کر دیا ہے۔
سیاسی انقلاب
اسی طرح اجتماعی زندگی کا ایک اور پہلو سیاسی زندگی ہے۔انسانی زندگی کا یہ پہلو بھی اُس وقت تک انقلاب آشنا نہیں ہو سکتا جب تک اِسے بعثتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو نصیب نہ ہو۔ آج کے دور میں معاشرے میں رسہ کشی، فسادات اور تکالیف سیاسی زندگی کی پہچان بن گئے ہیں۔ سیاسی زندگی کے اندر بنیادی طور پر دو Element ہوا کرتے ہیں:
- حاکم
- محکوم
یعنی حکمران اور عوام۔ حق دینے والا اور حق لینے والا۔ جب سیاسی زندگی کی بنیاد، معاشرتی رسم ورواج اور اپنی ذاتی خواہشات پر رکھ دی جائے تو سیاسی زندگی فتنے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال آج ہم پاکستان کی سیاست میں دیکھتے ہیں۔ اگر سیاسی زندگی کے پہلو کو انقلاب آشنا کر دیا جائے اور اُسے انحراف سے بدل کر اطاعت کی راہ پر گامزن کر دیا جائے تو یہی سیاسی زندگی خوشبو دار ہو جاتی ہے۔اس لیے کہ فرض اور حق کے درمیان باہم ایک رشتہ پایا جاتا ہے۔ یہ دونوں الگ الگ شے نہیں ہیں۔ کسی کا کچھ فرض ہے تو وہ دوسرے کا حق ہے۔کسی کا کچھ حق ہے تو یقینا وہ کسی کا فرض ہے جو اُس نے دینا ہے۔اگرہر کوئی اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری اوراَحکامات کی روشنی میں اپنے فرائض اور حقوق کو سمجھ لے تو جھگڑا ختم ہوجائے۔
ہم اپنے فرائض و حقوق کی بنیاد اپنی ذاتی خواہشات یعنی معاشرتی کلچر، رواج، ضرورتوں اور نفسانی خواہشات پر رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو سیاسی نظام وجود میں آتا ہے، اس کی بنیاد فقط لوٹ، کھسوٹ، قتل وغارت اور دہشتگردی پر رکھی جاتی ہے۔ پھر ایسے نظام میں عدالتیں انصاف کی آماجگاہ کے بجائے قربان گاہیں بن جاتی ہیں کیونکہ اُس سیاسی نظام کی شکل وصورت اور بنیاد درحقیقت ذاتی خواہشات پر رکھی گئی ہے۔
یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے انحراف اور شریعت محمدی سے انحراف ہے۔ جب یہی نظام قرآن کی تعلیمات، اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیمات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکر میں ڈھل جائے تو انسانیت کے لیے خوبصورت بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم حکمرانوں اور عوام میں ایک رسہ کشی کی صورت دیکھتے ہیں۔عوام الناس کو جب اُن کا حق نہیں ملتا تو وہ حکمرانوں کو غاصب کہتے ہیں اور جب وہ حق مانگنے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو کہا جاتا ہے یہ فسادی ہیں۔ گویا ہر کوئی اپنے آپ کو درست سمجھتا ہے اور دوسرے کو غلط سمجھتا ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ میرے حقوق ہیں، فرائض نہیں ہیں۔جب تک یہ دونوں طبقات اپنے حقوق اور فرائض نہیں سمجھیں گے اُس وقت تک کسی بھی ملک میں فلاحی نظامِ سیاست وجود میں نہیں آسکتا۔فلاحی نظامِ سیاست کی بنیاد تب ممکن ہوتی ہے جب اُس کی بنیاد اطاعت پر رکھ دی جائے۔
بین الاقوامی انقلاب
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظام زندگی کے ہر پہلو کو انقلاب آشنا فرمایا۔ اُسی کے نتیجے میں ہم کہتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائناتِ اِنسانی میں ہمہ گیری انقلاب کے قائد ہیں۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر ہر انسانی پہلو کو انقلاب آشنا فرمادیا۔ انسانی پہلوئوں میں بین الاقوامی زندگی بھی ہے۔آج جب ہم بین الاقوامی زندگی کو دیکھتے ہیں کہ وہاں پر کیا مشکلات ہیں؟ اور اس سطح پر کون سے اُمور ہیں جن کو انقلاب آشنا کرنے کی ضرورت ہے؟ اس کرئہ ارض پر مختلف ممالک اپنا وجود رکھتے ہیں، اُن کے درمیان جو کچھ پایا جاتا ہے اُس کو عناد، بغض اور ذاتی مفاد کہا جاتا ہے۔ ہر قوم اور ہر ملک اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دوسرے کو کچلنا چاہتا ہے۔اپنے ذاتی عناد کی خاطر دوسری قوم کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ اپنے آپ کو طاقتور کرنا چاہتا ہے اور دوسرے کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔اُس کے نتیجے میں پھر کرئہ ارض پر بے پناہ جنگیں لڑی جاتی ہیں،فتنہ وفساد بپا ہوتے ہیں، قتل وغارت گری ہوتی ہے،ملکی سطح پر سازشیں ہوتی ہیں تاکہ دوسری قوم کو نیچا دکھایا جائے۔ اس جنگ میں ہر ملک شریک ہوتا ہے۔ گویا ان اقوام کی بین الاقوامی زندگی انحراف کا شکار ہے۔
جب یہ بین الاقوامی زندگی اطاعت کے سانچے میں ڈھل جائے اور اس کو اطاعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہو جائے،اطاعت تعلیماتِ قرآن نصیب ہو جائے تو پھر یہ بین الاقوامی معاشرے بھی مہذب بن جائیں۔جب تک وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہیں، ان کو مہذب نہیں کہا جاسکتا۔ وہ اپنی زبان میں خواہ خود کو مہذب سمجھتے ہوں لیکن در حقیقت انسانی تعریف میں اُن کی زندگی تہذیب کے دائرے سے خارج ہے۔وہ معاشرہ جس کو امن نصیب نہ ہوخواہ وہ سائنسی تحقیقات میں آگے بڑھ جائے، وہ مہذب نہیں ہے۔جس معاشرے میں رواداری، اخوت، بھائی چارہ نہ ہو تو اُس معاشرے میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ خود بھی جیئے اور دوسروں کو بھی جینے دے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم تاریخِ اسلام پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں امتِ مسلمہ کی قیادت مختلف طبقات کے ہاتھوں میں رہی۔ کہیں بنو امیہ بر سر اقتدارآگئی، کہیں بنو عباس آگئی، کہیں فاطمی آگئے، ہر کوئی اپنے نسب ونسل پر فخر کرتا آیا اور اس نے دوسری قوم کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ جب تک اتفاق رہا تو وہ معاشرہ اطاعت والا معاشرہ تھا۔ اطاعت سے نکل کر اپنی ذاتی طاقت، تفاخر، اہلیت، اپنے ملک کی طاقت بڑھانے اور اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہوئے تو معاشرہ اطاعت سے نکل کر انحراف میں داخل ہوگیا اور اس کے بعد زوال کا شکار ہوگیا۔
آج یہی عالم مغربی (Western) اور مشرقی (Eastern) ممالک کا ہے۔ گو وہ اپنے آپ کو مہذب ممالک کہتے ہیں، لیکن دیکھا جائے تو وہ کمزور ممالک کو اور کمزور کرنا چاہتے ہیں، اُن کی حکومت و سیاست کو مزید توڑنا چاہتے ہیں، اُن پر اپنی پالیسیز کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا طرزِ عمل درحقیقت کسی مہذب قوم کی علامت نہیں ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ مذہبی، ذہنی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی میں انقلاب بپا کرنے کے لیے تھی۔ اِسی طرح تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ بین الاقوامی انقلاب بپا کرنے کے لیے ہوئی۔ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے ہر پہلو سے روشنی اخذ کریں گے تب انفرادی و اجتماعی سطح کی ہر جہت سے ہماری زندگیاں انقلاب آشنا ہوں گی۔ اس ہمہ گیر انقلاب سے اپنے آپ کو مستفید کرنے کے لیے ’’قوتِ یقین‘‘ کا حامل ہونا ایک لازمی تقاضا ہے۔ بقول اقبال:
یقین محکم، عملِ پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں