اللہ رب العزت نے تخلیق انسان کے وقت فرشتوں کے سامنے انسان کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً.
(البقره، 2: 30)
’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔
یہاں انسان کے لئے ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ انسان کے صحیح مقام و مرتبہ کو جاننے کے لئے اس لفظ کے مفہوم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اردو زبان میں اس کا ترجمہ ’’جانشین‘‘ یا ’’نائب‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ سیاسی اصطلاح میں اسے Acting President یا Acting Prime Minister وغیرہ جیسے الفاظ کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ گویا جو کسی کا خلیفہ ہوتا ہے اُس میں اُس اصل کے اختیارات کی جھلک کسی نہ کسی درجے میں دکھائی دیتی ہے۔
قرآن مجید میں کئی مقامات پر انسان کی امتیازی حیثیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ تمام ذی روح اور غیر ذی روح مخلوقات میں سے انسان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو تعلق ہے وہ کائنات کی کسی اور چیز کے ساتھ نہیں۔ چنانچہ قرآن مجید کے اندر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی تخلیق کا شاہکار قرار دیتے ہوئے فرمایا:
وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ. وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ. وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ. لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.
’’انجیر کی قَسم اور زیتون کی قَسم۔ اور سینا کے (پہاڑ) طور کی قَسم۔ اور اس امن والے شہر (مکہ) کی قَسم۔ بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘
(التین، 95: 1 تا 4)
یہاں چار قسمیں کھانے کے بعد جو بات بتائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق بہترین اور منفرد انداز میں کی گئی ہے۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا گیا:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ.
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔‘‘
(بنی اسرائیل، 17: 70)
نیز ایک اور مقام پر فرمایا:
خَلَقْتُ بِیَدَیَّ.
’’میں نے خود اپنے دستِ (کرم) سے بنایا ہے۔‘‘
(ص، 38: 75)
یہ وہ اعزازات ہیں جو انسان کے علاوہ اور کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہیں۔ بات یہاں تک ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ اپنا خاص ظاہری و باطنی تعلق قائم کیا جو دوسری کسی بھی مخلوق سے نہیں ہے۔ چنانچہ انسان کے ساتھ اپنی خصوصی باطنی نسبت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ.
’’اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دی۔‘‘
(الحجر، 15: 29)
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو روح پھونکی اُس کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔ لیکن انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات کے اندر پھونکی جانے والی روح کی نسبت اپنی طرف نہیں فرمائی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیگر مخلوقات میں پھونکی جانے والی روح عام ہے مگر وہ روح جو انسان میں پھونکی گئی وہ عام نہیں ہے بلکہ اُس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی خاص تعلق ہے۔ اسی باطنی نسبت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک حدیثِ قدسی میں یوں فرمایا گیا:
اَلْاِنْسَانُ سِرِّی وَاَنَا سِرُّهٗ.
’’انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔‘‘
یہ تو باطنی نسبت تھی، اس کے علاوہ انسان کے ساتھ ظاہری نسبت بھی قائم فرمائی۔ چنانچہ حضورa نے انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ظاہری نسبت اور مشابہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ اللّٰهَ تَعَالیٰ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِهٖ.
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔‘‘
(فتح الباری، حافظ ابن حجر، 6: 366)
ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کی صورت انسان جیسی ہے یا انسان اللہ جیسا ہے کیونکہ لیس کمثلہ شیء (کوئی شے اُس کی مثل نہیں) کے مصداق اُس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے، تاہم اتنا تو واضح ہورہا ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان کوئی نہ کوئی ظاہری نسبت بھی موجود ہے۔ گو ہماری عقل اُس کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
ان حقائق پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ وجود جسے انسان کہا جاتا ہے وہ کوئی معمولی وجود نہیں ہے بلکہ اس کائنات کی انمول ترین چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خصوصی قدرو منزلت ہے اور جو اسرارِ الہٰیہ کا امین اور اُس کی صفات و کمالات کا مظہر ہے۔ انسان کی اسی حیثیت اور مقام و مرتبہ کے تناظر میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
صِبْغَةَ اﷲِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اﷲِ صِبْغَةً.
’’(کہہ دو ہم) اللہ کے رنگ (میں رنگے گئے ہیں) اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے۔‘‘
(البقره، 2: 138)
یہاں انسان کو اللہ کا رنگ اختیار کرنے کی جو تلقین کی گئی ہے تو اس رنگ کی وضاحت کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:
تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰه.
’’اللہ کے اخلاق سے اپنے آپ کو متصف کرو۔‘‘
گویا اللہ کے رنگ کو اپنانے سے مراد اپنے آپ پر اللہ کی صفات کا رنگ چڑھانا ہے اور اپنی سیرت و کردار میں اُن صفات کی جھلک اور عکس پیدا کرنا ہے۔ طبیعت کو اُن کا خوگر بنانا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کی صفات صرف جمالی ہی نہیں ہیں جلالی اور کمالی بھی ہیں۔ وہ جس طرح رحمن و رحیم اور لطیف و ودود ہے اُسی طرح قہار و جبار اور سمیع و علیم بھی ہے۔ شخصیت کا کمال یہ ہے کہ انسان صفاتِ الہٰیہ کے امتزاج کا خوبصورت گلدستہ بن جائے جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا:
قہاری و جباری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت اُس کا خالق ہونا ہے۔ کقولہِ تعالیٰ:
فَتَبٰـرَکَ ﷲُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ.
’’پھر (اس) اﷲ نے (اسے) بڑھا (کر محکم وجود بنا) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے۔‘‘
(المومنون، 23: 14)
آیت کا اسلوبِ کلام بتارہا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی مخلوق شانِ تخلیقیت کی حامل ہے اور وہ انسان ہی ہے جسے (محدود پیمانے پر) اس صفت کا اہل بنایا گیا ہے۔
اسی طرح اللہ کی ایک صفت غالب ہونا بھی ہے کہ وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ گویا وہ انسان کو بھی متصرف فی العالم کی حیثیت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے تصرف کا دائرہ لامحدود ہے جبکہ انسان کا دائرہ محدود ہے۔
انسان کو اپنی اس حیثیت کو رُوبعمل لانے کے لئے جو لوازمات درکار تھے وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی فراہم کردیئے ہیں۔ سب سے پہلے تو ساری کائنات کا مقصود انسان کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا.
’’وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لیے پیدا کیا۔‘‘
(البقره، 2: 29)
دوسرے مقام پر تمام اشیاء کو انسان کے لئے مسخر کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ.
’’اور اُس نے تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے۔‘‘
(الجاثیة، 45: 13)
تسخیر کا معنی ہے ’’کسی چیز کو تابع کرنا‘‘، ’’عاجز کرنا‘‘، ’’پست کرنا‘‘، ’’بلا اُجرت کسی کام پر لگادینا‘‘، ’’بغیر کسی معاوضہ کے خدمت لینا‘‘ وغیرہ۔ گویا انسان کو بتایا جارہا ہے کہ کائنات کی یہ ساری کی ساری بزم فقط تمہارے لئے سجائی گئی ہے اور اس لئے سجائی گئی ہے کہ تم اس میں تصرف کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق اسے استعمال میں لاؤ۔
قرآن مجید میں 23 مقامات پر کائنات کی مختلف اشیاء کو انسان کی خدمت میں مامور کئے جانے کا ذکر ہے۔ اُن میں 19 مقامات ایسے ہیں جن میں پوری بنی نوع انسان کے لئے تسخیر کائنات کا تذکرہ ہے۔ جبکہ چار مقامات ایسے ہیں جہاں خصوصی تسخیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً: حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے پہاڑ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ہوا کو تابع بنانے کی خوشخبری۔ 8 مقامات پر شمس و قمر کی تسخیر کا ذکر ہے۔ 3 مقامات پر کشتی کی تسخیر، ایک مقام پر النھار (دن)، دو مقام پر لیل و نھار (رات اور دن)، ایک مقام پرسمندر، ایک مقام پربادل، دو مقام پرنجوم (ستارے)، ایک مقام پرپرندوں، دو مقام پرمویشیوں، ایک مقام پرسواری اور تین مقام پرکائنات کی جمیع اشیاء کے مسخر کئے جانے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کائنات انسان کے حوصلوں کی جولانگاہ ہے۔ اب یہ انسان کا امتحان ہے کہ وہ کس حد تک ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسخیرِ کائنات کے منصوبہ کو عملی جامہ پہناتا ہے اور اس میں تصرف کرتے ہوئے اسے خالق کی منشاء کے مطابق استعمال میں لاتا ہے۔
یہ تو علمی استدلال تھا کہ انسان اس کائنات کا راکب ہے اور کائنات اُس کی مرکب۔ اُسے اس کائنات پر غالب آنا ہے اور اسے اپنے تابع بنانا ہے تاکہ اس سے کام لے کر اپنی اُن ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکے جو خالقِ کائنات نے اُسے تفویض کی ہیں۔ اب ہم مشاہداتی استدلال کی بات کرتے ہیں اور وہ یہ کہ انسانی فطرت کے حوالے سے ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ چیز سمائی ہوئی ہے کہ وہ جہاں بھی رہے غالب ہوکر رہے۔ غور کریں تو نظر آئے گا کہ مختلف جماعتوں اور گروہوں میں افراد کے درمیان جو جھگڑے اور تضادات ہوتے ہیں اُن کی ایک بڑی وجہ قیادت (Leadership) کا حصول ہوتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ لیڈر میں بنوں اور باقی سارے لوگ میرے تابع ہوں اور میری بات مانیں۔ اس کی تہہ میں وہی غلبہ کی جبلی خواہش ہوتی ہے جو انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے اور جس کے ودیعت کئے جانے کا مقصد کائنات کو مسخر کرنا ہے۔
یہاں دو باتوں کا سمجھ لینا انتہائی ضروری ہے:
- انسان کے اندر کائنات کو مسخر کرنے اور کائنات کے اندر مسخر ہونے کی صلاحیت بالقوۃ رکھ دی گئی ہے لیکن اُسے عملی واقعہ انسان نے بنانا ہے۔ بالکل اُس طرح جیسے ایک بیج کے اندر درخت بننے کی صلاحیت بالقوۃ موجود ہوتی ہے لیکن ہر بیج بالفعل درخت بن نہیں جاتا۔ صرف وہی بیج مکمل درخت کا روپ دھارتا ہے جس پر قاعدہ کے مطابق محنت کی جاتی ہے۔ یہی معاملہ یہاں ہے۔
- انسان نے اپنی طرف سے کچھ ایجاد نہیں کرنا ہے بلکہ صرف خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو جان کر اُنہیں استعمال میں لاتے ہوئے نئی نئی چیزیں معرضِ وجود میں لانی ہیں۔ جتنی بھی چیزیں آج تک ایجاد ہوئی ہیں، اُن سب کے اسباب اور لوازمات پہلے سے موجود تھے۔ جوں جوں انسان اُن پر غور وفکر کرتا گیا، اُن میں موجود قوانین اور اسرار و رموز آشکار ہونا شروع ہوئے۔ پھر اُنہی قوانین کو عمل میں لاتے ہوئے چیزیں ایجاد ہوتی چلی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں جگہ جگہ غوروفکر اور تفکر و تدبر پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ایسی آیات کی تعداد سات سو سے زیادہ ہے جن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ غوروفکر کی ترغیب دی گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس امکان کو واقعہ کیسے بنانا ہے؟ مختصراً اس کے دو ہی مرحلے ہیں:
- پہلا مرحلہ تسخیرِ ذات کا ہے۔
- دوسرا مرحلہ تسخیرِ کائنات کا ہے۔
جیسے کسی مکان کی پہلی منزل تعمیر کئے بغیر دوسری منزل تعمیر نہیں کی جاسکتی، اُسی طرح پہلے مرحلے کو حاصل کئے بغیر دوسرے مرحلے میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو مسخر کئے بغیر کائنات کو مسخر کرنے کے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ نتیجہ سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ جس شخص کا اپنی ذات پر کنٹرول نہیں ہے اُس کے اردگرد کا ماحول اور اُس میں رہنے والے افراد کس طرح اُس کے کنٹرول میں آسکتے ہیں۔ جو اپنے وجود کا آقا (Master) نہیں ہے وہ دوسروں پر حکم کیسے چلا سکتا ہے؟
کسی بھی معاملے میں کامیابی کے لئے صحیح نکتہ آغاز کو لینا بہت ضروری ہے۔ اگر انسان صحیح نکتہ آغاز کو پالے اور مستقل مزاجی سے چل پڑے تو جلد یا بدیر منزل پر پہنچنا یقینی ہوتا ہے۔ قدرت کے نظام میں ہر چیز کی ایک ترتیب مقرر ہے، جب تک اُس کی پیروی نہیں کی جائے گی، نتائج نہیں مل سکیں گے۔ چنانچہ اس معاملے میں پہلا مرحلہ تسخیرِ ذات ہے جس کے بعد ہی دوسرا مرحلہ تسخیرِ کائنات کا آئے گا۔ پھر ہر مرحلہ آگے دو مراحل پر مشتمل ہے۔ اس طرح یہ کل چار مراحل بنتے ہیں جو ترتیب وار درج ذیل ہیں:
- ضبطِ نفس
- ضبطِ تخیل
- ضبطِ افعال
- ضبطِ ماحول
1۔ ضبطِ نفس
ضبطِ نفس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور حیوانی خواہشات پر قابو پالے اور اُن کا غلام بننے کے بجائے اُن کا آقا بن جائے، اُن کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بجائے اُن کی لگام خود انسان کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ اُس کے جذبات عقل کے تابع ہوں اور عقل شرع کے تابع ہو۔ اسی کو قرآنِ مجید کی زبان میں تقویٰ کہتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسان کے اندر ایسی بصیرت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ عقلی حقائق کو اُن کی اصلی صورت میں دیکھ سکے اور حق و باطل میں تمیز کرسکے۔ قرآنِ مجید میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اﷲَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً.
’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا۔‘‘
(الانفال، 8: 29)
اسی ایمانی فراست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضورa نے فرمایا:
اتقوا فراسة المومن فانه ینظر بنور الله.
’’مومن کی فراست سے ڈرو۔ بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔
جس شخص کا اپنے نفس پر کنٹرول نہ ہو اور وہ نفسانی خواہشات اور جذبات کے سامنے مجبور و بے بس ہو اُس کی مثال اُس شہسوار کی ہے جو کسی اڑیل، ضدی اور سرکش گھوڑے پر سوار ہو اور اُس کی لگام بھی نہ ہو۔ تو نہ گھوڑے کی خیر ہے اور نہ سوار کی۔ یہ دونوں کسی نہ کسی کھائی میں گِر کر ہلاک ہوجائیں گے۔ یہی حال خواہشاتِ نفس کے بندے کا ہے۔ دنیا و آخرت کی تباہی، بربادی اور ذلت و رسوائی اُس کا مقدر بنتی ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنے نفس پر قابو پاچکا ہو، وہ اُس سوار کی طرح ہے جس کے نیچے ایک سدھایا ہوا گھوڑا ہو اور اُس کی لگام مالک کے ہاتھ میں ہو۔ جہاں چاہے رک جائے اور جب چاہے چل پڑے۔ جس طرف مڑنے کا حکم دے، مڑ جائے۔ یہی حال ضبطِ نفس کے حامل انسان کا ہوتا ہے۔ وہ خواہشاتِ نفس کا پابند نہیں ہوتا بلکہ اس کی خواہشات اس کی مرضی اور ارادے کی پابند ہوتی ہیں۔ بہر حال تسخیرِ کائنات کے سفر کا پہلا مرحلہ ضبطِ نفس ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے جذبات، خواہشات، عادات و اطوار، اعمال و افعال اور حرکات و سکنات اُس کے اخلاقی و روحانی وجود کے تابع ہوں۔
2۔ ضبطِ تخیّل
دوسرا مرحلہ قوتِ متخیّلہ پر قابو پانا ہے یعنی خیال کی آوارگی اور پراگندگی کو ختم کرکے اُسے یکسو کرنا ہے۔ قوتِ متخیلہ کی وجہ سے ہمارا دماغ ہرلمحہ ہماری توجہ ایک سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل کرتا رہتا ہے۔ یہ قوت بالعموم ہمارے اختیار میں نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ ہم خواہش اور کوشش کے باوجود اپنی توجہ زیادہ دیر تک کسی ایک نکتے پر مرکوز نہیں رکھ پاتے۔ حضور علیہ السلام نے اس کیفیت کے بارے میں بڑی دل آویز مثال دیتے ہوئے فرمایا:
’’دل کی مثال اُس پر کی طرح ہے جو بیاباں میں ایک درخت کی شاخ سے لٹکا ہوا ہے۔ جدھر کی ہوا آتی ہے وہ اسے ِادھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر حرکت دیتی رہتی ہے‘‘۔ (مفہوم حدیث)
مائنڈ سائنس (Mind Science) کی رو سے ایک دن یعنی چوبیس گھنٹوں میں تقریباً ساٹھ ہزار خیالات ہمارے ذہن سے گذرتے ہیں۔ خیالات کی اس یلغار کی وجہ سے ذہن ہر وقت منتشر رہتا ہے۔ ذہن کے خالق نے اس کے اندر جو بے پناہ طاقتیں اور قوتیں رکھی ہوتی ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ایٹم بم کی قوت بھی اُس کے مقابلے میں کمتر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ان قوتوں کے بھرپور استعمال کے لئے ذہن کا یکسو ہونا بہت ضروری ہے۔ جتنے بھی محیرالعقول کارنامے تاریخ کے اندر مختلف لوگوں نے سرانجام دیئے اور جتنی بھی ایجادات معرضِ وجود میں آئیں وہ سب کی سب ذہن کو کسی ایک نکتے پر مرکوز کرلینے کا نتیجہ تھیں۔ ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی اور مسمریزم وغیرہ کے اندر جتنے بھی کمالات ہیں وہ سب کے سب خیال کو ایک نکتے پر مرکوز کرلینے سے عبارت ہیں۔
اس بات کو ایک مادی مثال کے ذریعے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ نصف النہار پر چمکتے ہوئے سورج کے سامنے کاغذ کا ٹکڑا اگر کئی گھنٹے بھی رکھا جائے تو سوائے وقتی طور پر گرم ہوجانے کے اُس میں اور کوئی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن اسی ٹکرے اور سورج کے درمیان اگر ایک محدب عدسہ رکھ دیا جائے تو دس منٹ بعد اُسے آگ لگ جائے گی۔ وجہ یہی ہے کہ پہلے سورج کی شعاعیں بکھری ہوئی اور منتشر حالت میں تھیں۔ لہذا وہ کوئی خاص نتیجہ پیدا نہ کرسکیں۔ محدب عدسے نے انہیں متحد کرتے ہوئے یکجا کردیا تو اتنی حرارت پیدا ہوگئی جو اُس میں آگ لگانے کے لیے کافی تھی۔ یہی حال ذہن کا ہے۔ جب تک یہ منتشر رہے تو اوسط درجے سے اوپر کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتا لیکن یہ اگر یکسو ہوجائے تو ایسے حیرت انگیز کمالات دکھا سکتا ہے جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
علاوہ ازیں روح کو اللہ کی محبت سے آشنا کرنے اور اس کے قرب کی لذت کے قابل بنانے کے لیے بھی ذہن کا یکسو ہونا ضروری ہے۔ جب انسان اپنے خیال پر قابو پاکر ذہن کو یکسو کرلیتا ہے تو اُس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ روح جب اپنے حقیقی محبوب کی طرف پرواز کا ارادہ کرتی ہے تو قوتِ خیال اُس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ بقول ابو انیس صوفی برکت علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ:
’’خیالات جب متحد ہوجاتے ہیں تو پاک ہوجاتے ہیں اور جب پاک ہوجاتے ہیں تو بلند ہوجاتے ہیں اور خیالات کی بلندی انسانی معراج کا ابتدائی مقام ہے‘‘۔
3۔ ضبطِ افعال
تیسرے مرحلے میں روح اس قدر قوی ہوجاتی ہے اور انسان میں اتنی توانائی آجاتی ہے کہ وہ اعضاء و جوارح کو حرکت دیئے بغیر اور مادی وسائل کو بروئے کار نہ لاتے ہوئے بہت سے کام سرانجام دے سکتا ہے۔ یعنی بعض کاموں میں روح بدن سے کام لینے میں بے نیاز ہوجاتی ہے۔ مثلاً روح آنکھ کے بغیر دیکھ سکتی ہے اور جسمانی موجودگی اور مادی آلات کے بغیر سن سکتی ہے۔ یہ بے نیازی کبھی چند لمحوں کے لئے اور کبھی ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے تصوف کی اصطلاح میں ’’خلع بدن‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر کا مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے اسلامی لشکر کو دیکھ لینا اور حضرت ساریہ کو ہدایات دینا نیز حضرت آصف بن برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے ہزاروں میلوں کی مسافت پر پڑے ہوئے تخت کو لے آنا اسی کی مثالیں ہیں۔
دراصل اس مرحلے میں روح اتنی توانا ہوجاتی ہے کہ ایک طرف تو وہ جسم کی محتاج نہیں رہتی اور اس کی معاونت کے بغیر ہی جو کام چاہے کرسکتی ہے اور دوسری طرف اس کا جسم پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کا بدن ہر لحاظ سے روح کے فرمان اور ارادے کے تابع ہوجاتا ہے اور روح جب بھی چاہے، جسم خارق العادت کام سرانجام دے سکتا ہے۔ بقول امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ:
’’ارادہ جو کچھ کرنا چاہے، بدن اُسے انجام دینے میں ناتوانی کا اظہار نہیں کرتا‘‘۔
اولیائے کرام کا ہواؤں میں اڑتے پھرنا، آن کی آن میں فاصلے طے کرلینا اور بپھرے ہوئے طوفانوں کا رخ موڑ دینے جیسی چیزوں کا تعلق اسی مرحلے سے ہے۔
4۔ ضبطِ ماحول
ارتقاء کے آخری اور اعلیٰ ترین درجے میں انسان اتنی توانائی حاصل کرلیتا ہے کہ وہ اپنے وجود کے علاوہ پوری کائنات میں تصرف کرسکتا ہے اورجو چاہے انجام دے سکتا ہے۔ اس مرحلے پر کائنات بھی انسان کے تابع ہوجاتی ہے اور اس کے ارادے کے مطابق اس کے احکام مانتی ہے۔ بالفاظ دیگر انسان کو اپنی امکانی حدود میں تخلیقی ارادے (Will with greative assurance) کی صفت حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’بعض آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد منقول ہے: اے انسان! میں اللہ ہوں، جس چیز کا ارادہ کرتا ہوں اُسے ’’کن‘‘ کہتا ہوں تو وہ ہوجاتی ہے۔ تو ایک مرتبہ میرا بن جا۔ پھر تجھے بھی ایسا بنادوں گا کہ تو جس چیز کا ارادہ کرے گا تو اُسے ’’کن‘‘ کہے گا اور وہ ہوجائے گی‘‘۔
اسی کی طرف اشارہ ہمیں حدیث قدسی میں بھی ملتا ہے:
مَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی اُحِبَّهُ فَاِذَا اَحْبَبْتَهُ کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِی یَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِی یُبْصِرُ بِهِ وَیَدَهُ الَّتِی یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَهُ الَّتِی یَمْشِی بِھَا وَاِنْ سَاَلَنِی لَاُعْطِیَنَّهُ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِی لَاُعِیْذَنَّهُ.
(صحیح البخاری، 5: 2385، الرقم: 6137)
’’میرا بندہ مسلسل نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرلیتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس مجھے جب اس سے محبت ہوجاتی ہے تو میں اُس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے دیکھتا ہے، اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے پکڑتا ہے، اُس کے پاؤں بن جاتاہوں جن سے چلتا ہے اور اس حال میں اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو ضرور پورا کرتا ہوں اور اگر مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو ضرور اسے اپنی پناہ میں لیتا ہوں‘‘۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں بھی جابجا اس حوالے سے اشارات ملتے ہیں، مثلاً: ایک مقام پر فرماتے ہیں:
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ہفت کشور جس سے ہوں تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
یہ درست ہے کہ ہر شخص انسانیت کے اس بلند ترین مقام تک نہیں پہنچ سکتا لیکن یہ بھی تو کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم نے پست ترین حالت میں ہی مرنا ہے۔ انسان ہمت کرکے تو چوٹی پر نہ سہی کسی نہ کسی درجے پر تو پہنچ ہی سکتا ہے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ بیشتر لوگوں نے اس سفر کو شروع ہی نہیں کیا ہے۔ یہ ایک ہی مرتبہ ملنے والی اس قیمتی اور انمول ترین زندگی کے ساتھ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟