پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف بشکل قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قانونی حلقے قصاص کی اہمیت ،افادیت اور اس کے مذہبی پس منظر سے آگاہ ہیں تاہم تمام قارئین کیلئے تحریر کیا جارہا ہے کہ قصاص کیا ہے اور اس کا قرآنی فلسفہ کیا ہے؟
قانونِ قصاص ایک حکیمانہ قانون ہے جو کسی اور کا نہیں بلکہ خالق فطرت کا بنایا ہوا ہے۔ قصاص اسلام کے احکام سزا میں سے ہے جس کو قرآن مجید نے سماج کیلئے حیات جانا ہے۔ قصاص کے حکم کی قانون سازی، بے مقصد اور بے انصاف انتقاموں کو روکنے کیلئے نیز مجرموں کو عام شہریوں کے قتل کی جرات کرنے یا انہیں مجروح کرنے سے روکنے کے لئے کی گئی ہے جوسالم اور صحت مند سماج کی حیات، حفاظت اور عمومی راحت و آرام، ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور متقابل ذمہ داریوں پر مشتمل ہے۔ نیز یہ بات سماجی حیات کے ارکان اور اصول کی حفاظت سے وابستہ ہے۔ قصاص کا حکم مجرموں کے مقابلے میں سماج کے اہم رکن یعنی افراد کی جان کی حفاظت کیلئے وضع کیا ہے۔
اللہ تعالی کے قانون میں انسانی جان کو بے پناہ حرمت دی گئی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہa نے اپنے آخری خطبے میں جو تعلیمات ارشاد فرمائیں اس میں انسانی جان، مال اور آبرو کی حرمت کو بیت اللہ کی حرمت کے برابر قرار دیا۔
قتل دو طرح کا ہوا کرتا ہے:
- قتل عمد
- قتل خطا
قتلِ عمد جس میں قاتل پورے ارادے اور منصوبے سے قتل کرتا ہے جبکہ قتل خطا میں غلطی سے بغیر ارادے کے کوئی شخص ہلاک ہو جائے۔ پہلی صورت میں قانون یہ ہے کہ ایسا کرنے والے قاتل کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا۔ انسانوں کی غالب اکثریت نے اس معاملے میں اسی قانون پر عمل کیا۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ جس معاشرے میں اس قانون پر عمل کیا گیا، وہاں انسانی جان کی حرمت برقرار رہی۔ جس معاشرے نے بھی اس قانون سے منہ موڑا، اس کے نتیجے میں اس معاشرے میں انسانی خون پانی سے بھی سستا ہوا جس کے نتیجے میں پورا معاشرہ انتشار کا شکار ہو گیا۔اسی انتشار سے بچنے کے لیے قتل کے قصاص کو اللہ کی طرف سے بطور قانون حیات نازل کیا گیا جواسلام کے احکام سزا میں سے ایک حکم ہے۔
لغت میں قصاص کے معنی کسی چیز کے اثر کے تلاش کرنے کے ہیں اور اصطلاح میں جرم کے اثر کو ایسے تلاش کرنا کہ قصاص لینے والا ویسی ہی سزا مجرم کو دے جس طرح مجرم نے جرم انجام دیا ہے۔
قصاص ایک قدیم انسانی قانون ہے جو اس کے زمان ابلاغ سے لیکر ہمارے زمانے تک موجود ہے۔جاہل عربوں کی رسم یہ تھی کہ اگر ان کے قبیلے کا کوئی فرد مارا جاتا تھا تو وہ یہ فیصلہ کرتے تھے کہ جہاں تک ہوسکے وہ قاتل کے قبیلے کے افراد کو مارڈالیں اور یہ فکر اتنی وسعت پاچکی تھی کہ وہ ایک فرد کے مرنے کے ساتھ قاتل کے پورے قبیلے کو ختم کردیتے تھے، تب یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی جس کے ذریعے قصاص کا باانصاف حکم بیان ہوا ہے کیونکہ یہ حالت وسیع طور پر انتقامی کیفیت اور طولانی لڑائیوں کا سبب بنتی تھی۔
لیکن اسلام نے قانون قصاص کو انتقامی قتل کا جانشین بنایا۔ اسلام ایک طرف اسے گلی کوچوں کی انتقامی کاروائیوں سے نکال کر عدالت اور قاضی کے دائرہ میں لایا اور اس طرح قصاص کو ایک غیر قانونی کام سے ایک ایسے عمل میں تبدیل کیا کہ جرم کی پہچان، مجرم اور جرم کے حدود کیلئے ایک عدالت قائم ہوجائے تاکہ ہر طرح کی سزا اسی کی نظارت میں عدل و انصاف کے ساتھ دی جائے۔ اسے انتقامی صورت حال سے نکال کر قصاص کا نام دیا، اوراس زمانے میں جن غلط قوانین نے سماج کو گھیررکھا تھا انہیں ختم کردیا۔ ایک شخص کے مقابلے میں کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا انتقام لینا تھا اور ایسا اندھا انتقام کہ جو مجرم اور قاتل کے گھرانے تک ہی محدود نہیں رہتا تھا، جبکہ قرآن مجید (المائدہ: 45) بیان کرتا ہے:
’’ اور ہم نے توریت میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔ اب اگر کوئی شخص معاف کردے تو یہ اس کے گناہوں کا بھی کفارہ ہوجائے گا اور جو بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے گا وہ ظالموں میں سے شمار ہوگا۔‘‘
اگر تمہارا ایک شخص مار ڈالا گیا، تو تمہیں بھی اس کے مقابلے میں ایک ہی آدمی سے جو مجرم اور قصور وار ہے قصاص لینا چاہیئے۔ آج تک قصاص کے اس حکم کے بدلے کوئی بہتر حکم نہیں ہے کہ جس میں مقتولین کے پسماندگان راضی نظر آتے ہوں اور مجرم بھی مساوی طور پرویسی ہی سزا دیکھے تاکہ دوسروں کے لئے عبرت کا سبق بن جائے اور لوگ آسانی سے قتل اور خون نہ بہائیں، یا دوسرے لوگوں کو مارنے کے بعد چند سال جیل کاٹ کر اور دوبارہ آزاد ہو کر لوگوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔
اسلام ہر موضوع میں مسائل کو حقیقت کے ساتھ دیکھتا ہے اور اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو جانچ لیتا ہے۔ بے گناہوں کے خون کے مسئلے میں بھی لواحقین کے حق کو بغیر کسی شدت یا سہل انگاری کے بیان کرتا ہے۔
قصاص کے قانون کی سب سے اہم دلیل جس کے ذریعے سماج کی حفاظت کو جانا گیا ہے، خداوند تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں قصاص کے فلسفے کے بارے میں فرمایا ہے:
’’صاحبانِ عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے کہ شاید تم اس طرح متقی بن جاؤ۔‘‘
(البقرة: 179)
یعنی قصاص کا مقصد موت کے گھاٹ اتارنا نہیں ہے بلکہ مقصد حیات ہے، اس کا مقصد صرف امور کی ترمیم اور فرد یا سماج کو اپنی پہلی حالت پر لوٹا دینا ہے۔ اگر کوئی بغیر دلیل کے سماج کے قانونی ارکان کے بغیر قتل کا اقدام کرے تو سماجی حیات خطرے میں پڑتی ہے جبکہ قصاص سماج اور فرد کی حیات کی ضمانت ہے۔
بعض افراد حکم قصاص پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قصاص اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ایک اور آدمی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ انسانی رحمت اور رافت اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی جان کا نقصان نہ ہو۔اس کے جواب میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہاں، لیکن ہر طرح کی رافت اور رحمت پسندیدہ اور با مصلحت نہیں ہے اور ہر طرح کا رحم کرنا بھی فضیلت نہیں جانا جائے گا، کیونکہ کسی مجرم اورسخت دل انسان (جس کیلئے لوگوں کو قتل کردینا آسان کام ہے) پر رحم کرنا اور ایسے فرد پر جو نافرمان ہے اور جو دوسروں کے جان، مال اورعزت پر حملہ کرتا ہے، اس پر رحم کرنا نیک، شریف اورصالح افراد پر ستم کرنے کے برابر ہے۔ اگر ہم مطلق طور پر اور بغیر کسی قید و شرط کے رحم پرعمل کریں تو نظام میں فساد پیدا ہوگا اور انسانیت ہلاکت میں پڑ جائے گی اور انسانی فضائل تباہ ہوجائیں گے۔
اس طرح کے مارنے کو مارنا،مرنا اور مار ڈالنا نہ کہیں بلکہ اس کو حیات اور زندگی سمجھیں، نہ صرف اس فرد کی حیات بلکہ سماج کی حیات، یعنی ایک مجرم کے قصاص سے، آپ نے سماج کے افراد کی حیات کو محفوظ کردیا، اگر آپ قاتل کو نہیں روکیں گے تو کل وہ ایک اور آدمی کو مار ڈالے گا، کل ایسے کئی آدمی نکلیں گے جو متعدد آدمیوں کو مار ڈالیں گے، اس کو آپ سماج کے افراد کا کم ہونا مت جانیں، یعنی قصاص کے معنی انسان کے ساتھ دشمنی کا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے ساتھ دوستی کرنے کا نام ہے۔
پس اگر انسان اخلاقی کمال کو پہنچ جائے تو وہ سمجھ جائے گا کہ قصاص انفرادی اور اجتماعی حیات کی فراہمی ہے اور دوسرے اعتبار سے بھی ایک انسان کا کم ہونا کئی انسانوں کے کم ہونے پر ترجیح رکھتا ہے، کیونکہ مقصد موت کے گھات اتارنا نہیں ہے بلکہ مقصد حیات ہے اور خداوند تعالیٰ اپنے سارے بندوں کی نسبت زیادہ رحم کرنے والا ہے، اسی لئے آیۃ کریمہ متفکر افراد اور انسانوں کے ذہنوں کو خطاب کرتی ہے نہ کہ احساسات اور عواطف کے ساتھ۔ ارشاد فرمایا:
’’قصاص تمہارے لئے حیات اور زندگی ہے اے صاحبان عقل!‘‘
پاکیزہ اور صحت مند و سالم سماجی حیات عمومی آرام، محفوظ حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور عمومی آرام اور حفاظت، سماجی حیات کے اصول اور بنیاری ارکان کی حفاظت سے جڑے ہوئے ہیں۔ سماجی حیات دین، جان، مال، احترام، انسانی عزت اورانسانی عقل پر مشتمل ہے، یہ اصول جو امام غزالی کے بعد ہمارے علماء اور فقہاء کی توجہ کا مرکز بنے، واقعی طور پر ایک صحت مند سماج کی بنیادوں کو تشکیل دیتے ہیں اور جو اجزاء اور مجموعے اس کے ذیل میں موجود ہیں وہ سماج کی سبھی معتبر اور اہم مصلحتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔
مندرجہ بالا مطالب کو مد نظر رکھ کر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسلام کے احکامِ سزا کا مقصد یا اس کا اہم ترین ہدف دینی اور سماجی نظام کی حفاظت ہے اور یہ بلند مقصد صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اصلاح اور تربیت کے ذریعے یا سزاؤں کے ڈر سے ایسے اعمال کا مرتکب نہ ہو جن سے اجتماعی نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔
بعض قلم نگاروں کے قلم یہ بھی یاد دلاتے رہتے ہیں کہ قصاص میں قاتل کا تعین بھی ضروری ہے۔بالکل درست، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل بھی متعین ہے اور وہ اس طرح کہ کیمرے کی آنکھ نے یہ سارا واقعہ محفوظ کر لیا تھا اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ پوری دنیا عینی شاہد ہے کہ گولیاں کون چلا رہا تھا۔ فرعون نما حکمرانوں کا لواحقین کی ایف آئی ار درج نہ ہونے دینا اورتین وفاقی وزراء کا سیشن کورٹ کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قاتل حکمران ہیں۔
دوسری دلیل جو قاتل کا تعین کرتی ہے کہ اس واقعے کے فورا بعد وزیر اعلی پنجاب نے انکواری کے لیے ایک جودیشل کمیشن بنایا اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ اگر یہ کمیشن ہمیں ذمہ دار ٹھہرائے گا تو میں فوری مستعفی ہو جاؤں گا۔وقت نے ثابت کیا کہ پاکستان عوامی تحریک کے عدم تعاون کے باوجود اس کمیشن نے پنچاب حکومت کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے کہ اس قتلِ عام کے پیچھے وہ لوگ ہیں جن کے اقتدار کو ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے چلائی گئی تحریک سے خطرہ تھا اور صاف ظاہر ہے وہ کون تھے۔ رپورٹ میں واضح مجرم ٹھہرائے جانے کے باوجود مکار حکمران طرح طرح کی چالیں چل کر عوام الناس کی توجہ اس رپورٹ کے مضمرات سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یاد رکھیں کبوتر بلی کو سامنے دیکھ کر اگر آنکھیں بند کر لے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُسے موت نہیں آئے گی۔
تیسری دلیل کہ اگر اس واقعے کی ذمہ دار پولیس تھی تو اس وقت تک کتنے پولیس والوں کو سزا ملی۔پولیس والوں کو سزا نہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ حکمران پولیس کو سزا سے بچا رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پولیس والے اپنی جان بچانے کے لیے سچ اگل دیں، لہذا بتائیں پھر قاتل کون ہوا؟
چوتھی دلیل یہ ہے کہ اس واقعے کے دوران گاڑیاں توڑنے والے ایک شخص(گلو بٹ) کو تو کورٹ نے نو سال کی سزا سنا کر فوری جیل بھیج دیا مگر واقعے کے اصل قاتلوں کی خبر تک نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قاتل وقت کا فرعون ہے جس سے انصاف دینے والے ادارے بھی ڈرتے ہیں۔
لہذا تحریک قصاص کے ذریعہ ہم انصاف لینے کے لیے نکل چکے ہیں اور انشاء اللہ مرحلہ وار یہ تحریک زور پکڑے گی اور اس سانحے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔