پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 16 دسمبر کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثائ، اسیران انقلاب مارچ اور زخمیوں سے تفصیلی ملاقات کی۔ انہوں نے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ظالم بالآخر انجام تک پہنچیں گے، اللہ کی مدد اور نصرت ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ رہی ہے۔ اللہ کے فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر تو ہوسکتی ہے مگر وہ ٹل نہیں سکتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب امت کی اصلاح کا ہر آپشن استعمال کر چکے، اللہ کے احکامات پہنچا چکے مگر فرعون کے ظلم و بربریت میں کوئی کمی نہ آئی، فرعون بچے ذبح کرتا تھا، اللہ کے احکامات کو علی الاعلان توڑتا تھا، ہر ظلم کرتا تھا مگر قوم کی اکثریت فرعون کے مظالم کے ساتھ سمجھوتا کر چکی تھی، فرعون کے مظالم میں رچ بس گئی تھی، ان کے اندر سے مزاحمت دم توڑ چکی تھی، سچ اور جھوٹ کا فرق بھول گئی تھی، جب فرعون کے مظالم اور قوم کے غالب طبقہ کی بے حسی حد سے بڑھی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی تباہی کی دعا کی جو بالاخر 40 سال کے بعد قبول ہوئی۔ اگر فرعون کے زیر اثر عوام ظلم سے مفاہمت نہ کر لیتے تو یقینا اللہ کی مدد ونصرت بلا تاخیر پہنچتی۔
شاید آج ہمارے حالات بھی اس سے جدا نہیں ہیں۔ اشرافیہ ملکی دولت لوٹتی رہی اور لوٹ رہی ہے، کروڑوں بچے تعلیم، صحت سے محروم ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار سے محروم ہیں، اشرافیہ کے حاشیہ بردار نالائق اور کم تعلیم یافتہ برسر روزگار ہیں، انصاف ناپید ہے، شریف النفس شہریوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا تصور ایک نظام بن کر عملی شکل میں نافذ ہوچکا ہے اور جب بھی الیکشن ہوتے ہیں یہی ظلم کرنیوالا ٹولہ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آجاتا ہے، اگرچہ ان کی جیت کے اور بھی بہت سارے عوامل ہیں مگر اس میں قوت محرکہ عوام ہیں۔ جب عوام ظلم کے خلاف مزاحمت نہیں کریں گے توظلم پنپتا اور پروان چڑھتا رہے گا۔
جب مظلوم ظلم کو قبول کر لے، خوف، مصلحت اور لالچ کا شکار ہو جائے تو اس سے ظالم طاقتورہوتا ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء نے وقت کے فرعونوں اور نمرودوں سے ٹکر لے کر ڈٹے رہنے کے حوالے سے جرأت وبہادری اور استقامت کی نئی تاریخ رقم کی۔ یہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی استقامت ہے کہ آج طاقتور قاتلوں کے گرد قانون کا شکنجہ سخت ہو رہا ہے اور وہ نشان عبرت بن رہے ہیں۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ ان کی استقامت کا نتیجہ ہے۔
بلا شبہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء نے انصاف اور عدل کی جنگ میں اپنے پیاروں کو کھو دینے کے علاوہ بھی بہت قربانیاں دیں۔ انہوں نے کروڑوں روپے کی پیشکشوں کو ٹھوکر ماری، ہر قسم کے خوف و لالچ کو مسترد کیا۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کی قربانیاں اس ظالم نظام کے خلاف تھیں، اس ظلم پر مبنی نظام کے خلاف تھیں اور یہ قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائینگی۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کا پبلک ہونا انصاف کی طرف ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ رپورٹ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے پر عزم رہنے کا نتیجہ ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ انہی پرعزم ورثاء سے مل کر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
اس موقع پر ورثاء کا کہنا تھا کہ ہمیں حکمرانوں کی طرف سے ڈرایا اور دھمکایا بھی گیا، کروڑوں روپے کی پیشکشیں بھی کی گئیں، ہمارے دروازوں پر پولیس افسران اور سیاسی ٹاؤٹوں کو بھی بھیجا گیا۔ بیرون ملک بھجوانے اور پرکشش نوکریوں کے وعدے بھی کیے گئے مگر ہم جس قائد، تحریک اور مشن سے وابستہ ہیں وہ انمول ہے۔ ہمیں اپنے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کے مشن پر فخر ہے۔ اسی مشن کی برکت سے اللہ نے ہمیں حوصلہ دیا اور ہم وقت کے یزیدوں سے بلاخوف و خطر ٹکرائے اور ان کے ظلم پر مبنی بیانیہ کوشکست دی۔ ابھی مکمل انصاف ہونا باقی ہے۔
ہمارے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ہمیشہ ایک شفیق باپ کی طرح ہمارا خیال رکھا، انقلاب کے عظیم مقصد کیلئے ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی جانیں بھی حاضر ہیں۔
اس موقع پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سانحہ APS کے شہداء کے لیے بھی اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کب تک ہم اپنے شہید گنتے رہیں گے؟ جب تک یہ ظالم نظام اور اس کے محافظ مسلط ہیں ہمارے بچے شہید ہوتے رہیں گے، ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گی۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد پوری قوم نے اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ایک قومی ڈاکو مینٹ تیار کیا تھا جس کا نام قومی ایکشن پلان رکھا گیا۔ اس قومی ایکشن پلان کو ناکام بنا کر حکمرانوں نے معصوم شہید بچوں کے خون سے غداری کی اور ہر دن اس پلان کو ناکام بنانے میں گزارا۔
نیشنل ایکشن پلان کے خلاف کام کرنے کے حوالے سے حکمرانوں کے اصل چہرے کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ غیر ملکی فنڈنگ بند نہ کر کے، پنجاب میں آپریشن کا راستہ روک کر، فوجی عدالتوں کے خلاف منفی مہم چلا کر اور پولیس سمیت لاء انفورسمنٹ ایجنسیز کے اندر اصلاحات نہ لا کر دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ حکمرانوں نے ہر دن ایکشن پلان کو ناکام کرنے میں گزارا اور نااہل وزیراعظم نے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والی واحد فورس آرمی کے خلاف لڑتے ہوئے چار سال گزارے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے مزید کہا کہ آج قوم دوہرے، تہرے دکھوں اور غموں کا شکار ہے۔ جہاں ہمیں دہشتگردی کی جنگ میں73 ہزار سے زائد جانی قربانیاں کا غم ہے وہاں پاکستان کے دولخت ہونے کا بھی دکھ ہے۔ قومیں سانحات سے سیکھتی ہیں اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتی ہیں مگرنااہل، کرپٹ اور ابن الوقت حکمرانوں نے سانحہ اے پی ایس اور سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا واحد سبق یہ تھا کہ پاکستان کو معاشی اور دفاعی اعتبار سے پاؤں پر کھڑا کیا جاتا اور غیروں پر انحصار ختم کر دیا جاتا، مگر آج پاکستان تاریخ کے بدترین قرضوں کے بوجھ تلے ہے اور حکمران ٹولہ فوج کے خلاف جنگ کرنے اور اسے بدنام کرنے میں مصروف ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کا ایک پہلو گڈگورننس، وسائل کی منصفانہ تقسیم، قیادت کا صادق وامین ہونا بھی ہے۔ انسانی حقوق کا احترام، بیروزگاری کا خاتمہ بھی ہے۔ مگر یہ وہ سارے عوامل ہیں جنہیں بہتر بنانے کی بجائے حکمرانوں نے مزید تباہ کرنے میں حصہ ڈالا۔ یہ ظالم نظام جب تک موجود رہے گا بہتری ناممکن ہے۔ اب تو اداروں کے سربراہان بھی نظام کی اصلاح کی بات کررہے ہیں اور یہی بات ہم 3دہائیوں سے کررہے ہیں۔
جیلیں کاٹنے والے اسیران کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے استقامت پر زین العابدین میڈلز بھی دئیے اور شہداء کے بچوں کو بھی پیار کیا۔ سربراہ عوامی تحریک نے ملاقات کے بعد شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے ہمراہ شہداء کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور ان کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کی۔
اس موقع پر سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور، نائب ناظم اعلیٰ کوآرڈینیشن رفیق نجم، ڈائریکٹر منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن سید امجد علی شاہ، امیر لاہور حافظ غلام فرید، ناظم لاہور اشتیاق حنیف مغل، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ اور طیب ضیاء بھی موجود تھے۔