وہ سب شکوک و شبہات اور حقائق اب ایک ایک کرکے منظر نامے پر دکھائی دے رہے ہیں جن کا اظہار تحریک منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 23 دسمبر کے جلسہ عام اور لانگ مارچ کے دوران فرمایا تھا۔ اس بات کی گواہی گذشتہ روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے پہلے باقاعدہ اسمبلی اجلاس کے خطاب میں بھی دی۔ کمزور، بے حیثیت اور غیر آئینی الیکشن کمیشن کی نااہلی پر اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے، حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے کے باوجود بھی ملک کے کونے کونے سے دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کا شور سنائی دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سارے خوش کش وعدے اور وہ سارے سنہری خواب اب سراب ثابت ہوچکے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی پہلے ہفتے میں ہی عوام کے سامنے کھل کر سامنے آگئی جب اس حکومت کا پہلا سالانہ بجٹ قوم کے سامنے آیا۔ قوم کراچی سے خیبر تک سراپا احتجاج ہے۔ ملک میں شدید گرمی کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے کمر توڑ حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
نواز حکومت کو اگرچہ بیشتر مسائل ورثے میں ملے ہیں مگر انہوں نے الیکشن مہم میں بارہا یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم ہر مسئلے اور مشکل کو پیشہ وارانہ مہارت اور عملی تجربے کی روشنی میں حل کرکے پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سازی کے فوراً بعد کوئٹہ سے لے کر پشاور اور مردان سے کراچی تک ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کی نئی لہر نے معاملات کو مزید حساس بنادیا ہے۔ جو قوتیں اب خود طالبان سے مذاکرات کے میز پر آکر بات کررہی ہیں انہوں نے ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ قیام امن کے سلسلے میں بات چیت کرنے کا گرین سگنل نہیں دیا۔ ڈرون حملے بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ اب ان دہشت گردوں نے کھلے عام پورے ملک میں تباہی پھیلانے اور خودکش بم دھماکوں کی دھمکی دے دی ہے۔ حکومت اپنے تمام دعوئوں اور قیام امن کی کوششوں میں کامیابی حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ پاکستان اس وقت علاقائی اور عالمی جوڑ توڑ کا مرکز ہے اور ہماری نئی حکومت ابھی تک کسی کو وزیر خارجہ ہی نہیں بناسکی۔ بفرض محال اگر وزارت خارجہ کی ذمہ داریاں وزیراعظم نے خود نبھانی ہیں تو باقی حکومتی معاملات کس نے دیکھنے ہیں؟
ملک کو درپیش دوسرا اور بنیادی مسئلہ توانائی کے بحران کا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ بچا کھچا سرمایہ بیرون ملک منتقل ہورہا ہے۔ ہر روز گرمی کی شدت سے غریب لوگ مررہے ہیں، اگر ٹھوس اور بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی تو ملک مزید اندھیروں میں ڈوب جائے گا کیونکہ بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر بجلی کے شارٹ فال میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اہم ترین اور موزوں ترین نئے ڈیموں کے منصوبوں کو مکمل کرے، مگر سیاسی مصلحتیں اس کام میں بھی حکومت کے پائوں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں۔
وطن عزیز میں تیسرا بڑا چیلنج مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دبائو پر کنٹرول کا ہے۔ حکومت تمام تر دعوئوں کے باوجود اس سلسلے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ قومی بجٹ جسے نئے وزیرخزانہ اپنا بہت بڑا کارنامہ ثابت کررہے ہیں دراصل آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی میں بیوروکریسی نے پہلے سے تیار کر رکھا تھا جس میں اسحاق ڈار صاحب نے معمولی جمع تفریق کے بعد اسمبلی میں پیش کئے بغیر نافذالعمل کردیا۔ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کی بنیاد پر اشیائے خوردونوش اور گیس بجلی وغیرہ میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ جس پر عدلیہ نے بھی غیر آئینی الیکشن کمیشن اور دھاندلی پر مبنی انتخابات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بدنامی اور ن لیگ کی کھل کر حمایت و سرپرستی کے داغ دھونے کے لئے نوٹس بھی لے لیا ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا عدلیہ کے نوٹس لینے پر قیمتیں اسی طرح Stable رہیں گی یا اگلے مالی سال کے آغاز سے مہنگائی کے طوفان میں نئی طغیانی آئے گی؟ اس بجٹ نے تو بچوں کے منہ سے دودھ اور ڈبل روٹی بھی چھیننے کی کوشش کی ہے۔ مہارتوں اور تجربوں کا سارا زور غریب کشی پر نکال دیا گیا ہے، اشرافیہ اور خصوصاً جاگیردار طبقے پر زرعی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ بڑی بڑی تنخواہوں کو بھی ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے، مقصد صاف ظاہر ہے کہ بڑی مچھلیوں کی کرپشن اور مالی بددیانتیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ کاروباری حضرات اور جاگیردار طبقات جو ہر سیاسی پارٹی کی طرح ن لیگ میں بھی بھرپور نمائندگی رکھتے ہیں ان میں سے اکثریت کا سرمایہ ملک سے باہر ہے۔ کیا اس بات سے کوئی اختلاف کرسکتا ہے کہ ہمارے ملک کے ’’عوامی صدر‘‘ جناب آصف زرداری اور ’’مقبول ترین لیڈر‘‘ جناب میاں نواز شریف اور ان دونوں کے رفقائے کار سمیت بڑے بڑے عہدیداروں کی جائیدادیں اور اولادیں ملک سے باہر نہیں؟ ان کا غیر معمولی سرمایہ باہر پڑا ہوا ہے اور یہ خود اس غریب عوام کے ’’غم‘‘ میں گھلتے جارہے ہیں۔ ملک اور عوام سے محبت کی پہلی شرط یہ ہے کہ قیادت اپنے اثاثے اس ملک کے سپرد کرے جس پر وہ حکومت کررہی ہے۔ یہ لوگ اپنی دولت واپس لے آئیں تو ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے سجدہ ریز ہوکر ناپسندیدہ فیصلے برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اس مرتبہ رمضان شریف گرمی اور حبس کے باعث پہلے سے زیادہ شدید ہوگا۔ اشیائے خوردنی کی قیمتیں اگر اسی رفتار سے محوِ پرواز رہیں تو پوری قوم لوڈشیڈنگ میں روزے رکھ کر حکمرانوں کو اپنی ’’نیک دعائوں‘‘ سے نوازے گی۔ ایک خبر کے مطابق حکومت نے دو ارب روپے کی سبسٹڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ 19 کروڑ آبادی والے ملک کے ہر باشندے کے حصے میں 11 روپے آئیں گے، صاف ظاہر ہے یہ بھی رمضان اور عوام دونوں کے ساتھ مذاق ہے۔ ملازمین کی ملک بھر میں ہڑتالوں کے بعد حکومت نے بادلِ نخواستہ 10فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ وزیرخزانہ اور وزیراعظم ہر روز قوم کو یہ خبر دے رہے ہیں کہ خزانہ خالی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران اپنی اپنی تنخواہیں اس خالی خزانے میں جمع کروانے کا اعلان کرتے۔ قوم بھی خوش ہوتی کہ ہمارے نمائندے ہمارے غمخوار ہیں انہیں ہمارے مسائل اور دکھوں کا اندازہ ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ اس خالی خزانے والی حکومت نے آتے ہی ایم این ایز اور ایم پی ایز کی تنخواہیں اور سہولتیں 100 فیصد بڑھانے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے تو سابق خاتون اسپیکر کے اس خودغرضانہ اقدام پر تنقید کی تھی اور شور مچایا تھا مگر بات وہی ہے کہ ہر کہ درکانِ نمک می رفت، نمک می شدد۔
نواز حکومت کے حالیہ بجٹ نے اس لئے بھی مایوس کیا ہے کہ اس سے حکومت کے معاشی وژن کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ ان کی تمام مہارتیں اور منصوبہ بندیاں فی الحال توانائی کے بحران کی نذر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ملک حساس اندرونی معاملات کے ساتھ ساتھ بیرونی خطرات میں بھی گھرا ہوا ہے۔ فوج حتی المقدور اندرونی اور بیرونی خطرات کی حدت محسوس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہے مگر اصل فیصلے تو حکومت اور سیاسی قیادت نے کرنے ہوتے ہیں۔ ملک کی مشرقی سرحدوں سے زیادہ مغربی سرحدیں حساس ہوچکی ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں ’’گریٹ گیم‘‘ کھیلی جارہی ہے۔ امریکہ وہاںسے شکست کھانے کے بعد باعزت خروج چاہتا ہے مگر اپنے جانشین کے طور پر وہ اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کی بجائے بھارت کو بٹھانا چاہتا ہے جو افغانستان میں بیٹھ کر اس کے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے اور چین سمیت جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں پر بھی کنٹرول رکھ سکے۔ یہ صورت حال ہمارے معاشی، سماجی اور سیاسی مستقبل کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے لیکن اس کے لئے قوم کو جاگنا ہوگا اور اپنا مقدر بدلنے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ راہ نجات وہی ہے جس کی طرف شیخ الاسلام مسلسل قوم کو بلارہے ہیں۔