روح و بدن کے قالب میں ڈھلتے ہی ازل سے میری یہ خواہش رہی کہ روحِ رسولِ دوسرا سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا اور ابوتراب سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہما کے در پہ محبت کی زباں وا کروں اور اُن کی مدح نگاری کے شرف کے حصول کے ساتھ اس میں صرف ہونے والے خوش بخت لمحوں کو اپنی نجات کا ساماں بنائوں۔
اس بزم دل افروزمیں میری نگاہیں ان عظیم شخصیات کے قدموں کی دھول میں عقیدت کے پھول اور ارادت کی کلیاں نذر کرنے کو لائی ہیں جنہوں نے انسان کو شرفِ انسانیت سے ہی نہیں نوازا بلکہ پوری انسانیت کو ان پہ ناز ہے۔ میں اس امر سے بے خبر نہیں کہ اِن قدسی صفت ہستیوں کی الفت کے بازار میں مَیں بنت نیل کی طرح سُوت کی چند تاریں لے کر حاضر ہورہا ہوں۔ بلاشبہ
ہزار جان گرامی فدائے آلِ رسول
مگر میں کہاں اور ثنائے آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں! میرے قلم میں اتنی سکت اور زباں کو یارا ہی نہیں کہ میں اِن کی محبت کی سُندرتا کو الفاظ کا پیراہن پہناسکوں۔ پس عقیدت کے چند پھول، ارادت کی چند کلیاں، ذہنِ رسا کی چند تصویریں اور صالحینِ امت کے مانگے ہوئے خیالات، اِن ہستیوں کے نقشِ کفِ پا پہ نثار کرنے کے لئے اپنی سی کوشش کررہا ہوں۔
صفحہ قرطاس پہ مہکتے ہوئے یہی پھول میری متاع زیست، دردِ محبت کی یہ دولت اور سوزِ عشق کا یہی سرمایہ میرے دل کی کل کائنات ہے۔ ان اہلِ کرم کی کریمانہ ادائی سے کچھ بعید نہیں کہ آنسوئوں اور آہوں کا یہ نذرانہ بصد خلوص قبول کرلیں۔
رکھیئے کتابِ سیرتِ زہرا سلام اللہ علیہا نگاہ میں
میں اس حکایت لالہ و گل کا آغاز دنیائے عرب کے معروف ادیب اور مشہور مؤرخ الشیخ احمد خلیل جمعہ کے ان سدا بہار لفظوں سے کرتا ہوں۔۔۔
’’کاش میں اس شرف کی استطاعت رکھتا کہ سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی داستانِ حیات گلاب کی پتیوں پر مُشکبو سیاہی اور پرِ جبریل سلام اللہ علیہا کے قلم سے لکھ سکتا تاکہ اُن کی سیرت کی خوشبو ہر گھر کے آنگن کو مہکائے، ہر صحنِ چمن میں کھلے گلاب کی ہر پتی میں اُن کی سیرت کی جھلک نظر آئے جو اپنی مہکارسے فضا کو مُشکبار کردے بلکہ اس سے بھی فزوں تراُن کی سیرت امتِ مسلمہ کی ہر بہن، بیٹی، بیوی اور ماں کے لئے کامل نمونہ قرار پائے‘‘۔
تیری نگاہ کی اک جھلک دستِ نگارِ فاطمہ سلام اللہ علیہا
تیری معاشرت کی شان گردِ قبائے حیدری سلام اللہ علیہا
میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مولا محسنِ انسانیت رحمت عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کے تینوں روپ امر کردیئے۔ اپنی ماں کی محبت میں اس زمانے کی ہر عورت کو اتنی تعظیم و تکریم دی کہ چشمِ فلک حیران رہ گئی۔۔۔ اپنی محبوب بیوی سیدہ خدیجۃ الکبريٰ سلام اللہ علیہا کو ان الفاظ میں اپنی محبت کا خراج ادا کیا کہ ’’وہ میری محسنہ تھی‘‘۔ کون ہے جو اپنی بیوی کے لئے اتنی محبت و سرشاری سے یہ جملہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔۔۔ شفقتِ پدری اتنی کہ اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تکریم میں اپنی چادر اپنے کاندھوں سے اتارتے، زمیں پر بچھاتے اور پیار سے ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے، انہیں اس پر بٹھاتے۔ اس عزت و احترام سے اپنی بیٹی کو کس نے نوازا ہے جبکہ یہ عزت و احترام پھول میں خوشبو کی طرح ہر باپ کے دل میں بیٹی کے لئے لازم ہے۔ پس بیٹی ایک قابل احترام ہستی ہے جس کی توقیر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احتراماً کھڑے ہوکر پوری انسانیت پہ واجب کردی۔
یہ کیا سماں یہ کیا گھڑی ہے کہ سانس حلقوم بشر میں اڑی کھڑی
ہے
ہوئی ہے مسند نشین زہرا سلام اللہ علیہا مگر نبوت کھڑی ہوئی ہے
یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا اعجاز ہے کہ ساری دنیا اپنا حسب نسب، اپنی وراثت اپنی جانشینی اپنے بیٹے میں دیکھتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ نسب اپنی بیٹی کی معرفت سے چلا اور تاقیامت چلتا رہے گا۔ یہ حسبی نسبی سے زیادہ روحانی وراثت ہے۔ کربلا کے میدان میں قربانی کو امر کہانی بنانے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے لخت جگر ہی تھے، اسلام جن کے نام سے زندہ و پائندہ ہے۔
سیدہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی رفعتِ شان اور علو مقام کی بات کہاں سے شروع کی جائے، جن کے والد ماجد سیدالانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام محمود پر فائز ہوں گے اور والدہ محترمہ سیدہ خدیجۃ الکبريٰ سلام اللہ علیہا عالی نسب و مقام کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔۔۔ سیدہ کی گفتار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرزِ تکلّم کی کامل تشبیہ۔۔۔ آپ کا زُہدو عبادت و ریاضت سنت مطہرہ کی کامل اتباع۔۔۔ آپ کا کردار اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر۔۔۔آپ کا صبر و ایثار کردارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک۔۔۔ آپ کے جودو سخا میں عطائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ۔۔۔ غرض یہ کہ آپ کی حیات کا کونسا ایسا پہلو ہے جو تعلیمات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل عکاسی نہ کرتا ہو۔
احادیث مبارکہ ایسے بے شمار فرمودات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مزین ہیں جن سے سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی عظمت و فضیلت اور مقام و مرتبہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ ان کے محامد و محاسن اور فضائل و مناقب اتنے ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے۔ کسی بھی فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام قرآن کی زبان میں ماینطق عن الھويٰ کی تفسیر سے ہی سمجھ میں آسکتا ہے۔ عام انسان جگر گوشہ رسول سلام اللہ علیہا کی منقبت میں کتنی ہی گُہر ریزی کیوں نہ کرے وہ کسی ایک حدیث کی ہمسری بھی نہیں کرسکتا۔
سورہ طہ و يٰسین میں ہے مدح مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ھل اتيٰ میں صاف نازل ہے ثنائے فاطمہ سلام اللہ علیہا
سیدہ عائشہ صدیقہ علیہ السلام عالم نسواں میں سب سے بڑھ کر عالم و فاضل اپنا مشاہدہ بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں:
ما رأيت أفضل من فاطمة رضی اﷲ عن ه ا غير أبيها.
( طبرانی، المعجم الاوسط، ۳:۱۳۷ رقم: ۲۷۲۱)
’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا فاطمہ سلام اللہ علیہا سے کائنات میں کوئی اور بہتر و افضل انسان نہیں دیکھا‘‘۔
مزید ارشاد فرماتی ہیں کہ
ما رأيت أحدا أشبه سَمتا و دَلا و هَديا برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی قيامها و قعودها من فاطمة بنت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم.
( ترمذی، الجامع الصحيح، ۵:۷۰۰، رقم: ۳۸۷۲)
’’میں نے فاطمہ بنت رسول سلام اللہ علیہا سے بڑھ کر کسی کو اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، عادات و خصائل و منع قطع، حسن و خلق اور گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ نہیں دیکھا‘‘۔
سیدنا بریدہ فرماتے ہیں:
کان أحبَّ النساء إلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فاطمة و من الرجال علیّ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، ۵:۶۹۸، رقم: ۳۸۶۸)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواتین میں سب سے زیادہ محبت اور شفقت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے تھی اور مردوں میں سیدنا علی سلام اللہ علیہا کے ساتھ تھی‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباس علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَفْضَلُ نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ خَدِيْجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ.
(احمد بن حنبل فی المسند، ۱/۲۹۳، الرقم:۲۶۶۸)
’’جنت کی خواتین میں سب سے افضل خدیجہ علیہ السلام اور فاطمہ علیہ السلام ہیں‘‘۔
پس سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت ایک نہ خشک ہونے والا چشمہ ہے اور ایک نہ غروب ہونے والا آفتاب ہے ان سے بہتر کیا کسی کی زندگی ہوسکتی ہے۔
سیدہ طاہرہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن اﷲ يغضب لغضبک، و يرضٰی لرضاک.
(حاکم، المستدرک، ۳:۱۶۷، رقم: ۴۷۳۰)
’’بیشک اﷲتعاليٰ تیری ناراضگی پر ناراض اور تیری رضا پر راضی ہوتا ہے۔‘‘ اور پھر فرمایا:
انما فاطمة بضعة منی، يؤذينی ما آذاها.
(مسلم، الصحيح، ۴:۱۹۰۳، رقم:۲۴۴۹)
’’فاطمہ تو بس میرے جسم کا ٹکڑا ہے، اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے۔‘‘
فاطمہ وہ۔۔۔ جن کی حاضری پر سردارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر و قد کھڑے ہوجایا کرتے۔ چاند سی جبیں پہ شفقت سے بوسہ دیتے اور فداک امی وابی یافاطمہ سلام اللہ علیہا ’’تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں اے فاطمہ سلام اللہ علیہا !‘‘ کہہ کر اپنی نشست پر نہایت عزت و احترام سے بٹھاتے۔
(حاکم، المستدرک، ۳: ۱۷۰، رقم: ۴۷۴۰)
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی سرو قد کھڑی ہوجاتیں، آپ کے دست اقدس کو چومتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے محاسن و فضائل کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو مشام جاں کو معطر کرتی ہے اور دل میں فرحت و انبساط کا ایک خوشگوار سا احساس پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ان احادیث سے آپ کے محاسن کے بلند و بالا محلات جگمگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا بلاشبہ قرآنی تعلیمات کی عملی تفسیر تھیں، اس لئے قدرت نے بڑی فیاضی سے انہیں ذکاوت و ذہانت اور علم کی دولت سے مالا مال کیا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا انہوں نے دانش کدہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تربیت پائی اور بیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پروان چڑھیں۔
ہزار امت بمیرد تونہ میری
سیدہ زہرا بتول سلام اللہ علیہا کی سیرت پاک خواتین کے لئے روشن ستاروں کی طرح نشانِ راہ ہے۔ عورت اگر ماں کے روپ میں ہے تو جگر گوشہ رسول سلام اللہ علیہا کا اسوہ حسنہ اس ماں کی مکمل رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول سلام اللہ علیہا
مادراں را اسوہ کامل بتول سلام اللہ علیہا
عورت اگر شریک زندگی کے روپ میں ہے تو ملکہ فردوس بریں بانوئے حیدر کرار سلام اللہ علیہا سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کردار عورت کو عظیم بیوی بننے کا شعور عطا کرے گا اور آپ کی سیرت رہبرو رہنما ہوگی کہ شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کا حق کیسے ادا کیا جاسکتا ہے۔ سیدہ کائنات کی اطاعت و فرمانبرداری کے لئے حورو ملک دست بستہ کھڑے رہتے مگر انہوں نے اپنی خواہش ومرضی کو شوہر نامدارکی رضا و خواہش میں گم کردیا تھا۔
عورت اگر بیٹی کے روپ میں ہے تو تاجدار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی سے اطاعت والدین کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔ ماں باپ پہ محبت نچھاور کرنے، سادگی، محنت، دیانت اور عزم و استقلال سے زندگی بسر کرنے کا قرینہ معلوم کرنا ہوگا۔ باپ کے دکھ بانٹنے اور ماں سے والہانہ محبت کرنے کا سبق حاصل کرنا ہوگا۔ اقبال نے ان اوصاف کو عورت کے اندر پیدا ہوجانے کے بعد اُسے حیاتِ دائمی کا مژدہ سناتے ہوئے فرمایا:
اگر پندز درویشے پذیری
ہزار امت بمیرد تو نہ میری
بتولے باش و پنہاں شوا زیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری
’’(اے عورت) اگر ایک درویش کی نصیحت پر عمل کرے گی تو ہزار امتوں اور قوموں کے مرنے کے باوجود تو زندہ رہے گی۔ سیدہ کائنات کی طرح اس دنیا سے اپنے آپ کو چھپالے (اس کا اجر تجھے یہ ملے گا کہ)تیری آغوش میں بھی امام حسین جیسے فرزند پرورش پائیں گے‘‘۔
اگر عورت امارت یا غربت کے ماحول میں پرورش پاتی ہے تب بھی سیدہ کائنات کی سیرت و کردار اسے ہر دو ماحول میں جینے کا ڈھنگ اور زندگی کے طرزِ اسلوب سے آگاہ کرتا ہے۔
عورت اگر ناز و نعمت میں پلی ہے تو شہنشاہ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نور نظر سے زیادہ امیر نہیں ہوسکتی جن کے لئے جبریل امیں سلام اللہ علیہا جنت سے جوڑے لایا کرتے تھے۔۔۔ حُورو مَلَک آپ کی جُنبش لب کے منتظر رہا کرتے تھے۔۔۔ کائنات کا ذرہ ذرہ تعمیل ارشاد میں محو رہا کرتا تھا۔۔۔ سیدہ کائنات کے بابا دونوں جہاں کے تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور والدہ سرزمین عرب کی امیر ترین عورت مگر آپ فقرِ اختیاری کے مقام پر فائز ہیں۔ گھر کے تمام کام کاج اپنے ہاتھوں سے انجام دے رہی ہیں۔ ایک طرف چکی پیستے پیستے ہاتھوں پر نشاں ہیں اور دوسری طرف خود فاقہ برداشت کرلیا مگر سوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چل کر عورت کو ایک ایسی سکوں بخش زندگی ملے گی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
عورت اگر غربت کے سائے میں پل کر جواں ہوئی ہے تو تب بھی بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اس کی زندگی کی راہوں میں نشانِ منزل ہے۔ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چل کر غربت ہی میں وہ کیفیت و سرور حاصل ہوگا جو شاید کسی شہنشاہ ہفت اقلیم کو بھی میسر نہ ہو۔
سیدہ کی چادر عزت و ناموس کی نگہباں ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا کے اسلوب حیات کی روشنی ہمارے فانوس حیات کا سرمایہ اور دین کی شوکت و ملت کی بنیاد ہے۔ آپ صبرو رضا کا پیکر تھیں۔ آپ نے اپنی رِدائے پاک فروخت کرکے سائل کا سوال پورا کیا۔ آپ کے ہاتھوں میں چکی پیستے چھالے پڑجاتے لیکن صبر و رضا کے ساتھ لبوں پہ قرآن کی تلاوت جاری رہتی تھی۔ آپ رات کی تنہائیوں میں مصلّے کو اپنے سوزو گداز کے آنسوئوں کے موتیوں سے مُزّین کرتیں۔ سیدہ! آپ ہی وہ خاتونِ جنت ہیں جن کے بارے میں قُدسی مقال رطب اللساں ہے:
’’اگر میرے پائوں میں قانون خداوندی کی زنجیر نہ ہوتی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کا پاس نہ ہوتا تو میں سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مزار کا طواف کرتا اور آپ کی لحد اطہر کی خاک پر سجدوں کے پھول نچھاور کرکے اپنی جبیں کو منور کرتا‘‘۔
قُدسی مقال اقبال کا کہنا ہے کہ عورت ماں ہو، بہن ہو، بیوی ہو یا بیٹی، حسن و رعنائی کائنات ہے اور یہ حسن و رعنائی اسی وقت تک محفوظ ہے جب تک کہ پردے میں ہے۔ رونق بازار اور شمع محفل بن جانے کے بعد وہ سب کچھ ختم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے عورت واجب الاحترام ہے۔
وہی ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہیں عائشہ و فاطمہ کے نقش قدم
عزت و ناموس اور غیرت و حیا انعام خداوندی ہیں۔ عورت کے لئے سب سے عظیم نعمت اور سب سے اعليٰ زیور پردہ ہے۔۔۔ مائوں، بہنو، بیٹیو!۔۔ دورِ حاضر آپ کی متاعِ دین کے قافلہ کو لُوٹ لینا چاہتا ہے، اپنی تقدیس و عظمت کے لئے میدانِ عمل میں آجائو۔ زمانے کی بے باک نظریں تم پہ اٹھی ہوئی ہیں ان کے لئے چیلنج بن جائو۔۔۔ متاعِ تقدیس و حیا کی حفاظت کے لئے دامن زہرا سلام اللہ علیہا کو تھام کر محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے نقوش پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنالو۔۔ بقول اقبال دورِ حاضر تمہیں فروخت کردینا چاہتا ہے مگر اے مسلمان عورت! تو ہی سرمایہ ملت کی محافظ اور نخلِ جمیعت کی آبیاری کرنے والی ہے۔ تُو اپنے آبائو اجداد کی راہوں سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹ، اس زمانے کی دستبرد سے ہوشیار رہ۔ اپنے فرزندوں کو اپنی آغوش میں لے لے۔ انہوں نے ابھی اپنے پروبال بھی نہیں نکالے اور اپنے آشیاں سے دور گرے پڑے ہیں۔ پس تو شہزادی کونین سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت و کردار کو اپنی نگاہوں کا محور بنا بلکہ ان کے اسلوب حیات پر عمل کرنے کی کوشش کر تاکہ تیری شاخ کا ثمر حسین سلام اللہ علیہا ہو۔
تجھے مل جائے عفت ہاجرہ کی
تجھے مل جائے الفت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی
جہاں میں مثلِ گُل پھیلے تری خوشبو
خدا دے تجھ کو عزت عائشہ کی
مولائے کائنات سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ
ایک طرف سیدہ کائنات ہیں تو دوسری طرف مولائے کائنات۔ اگر سیدہ کائنات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فداک امی وابی یا فاطمہ کہا تو مولائے کائنات کے لئے من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ کے الفاظ بھی زبانِ نبوت سے ادا ہوئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو قدررت نے ایسے امتیازات اور اعزازات سے نوازا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک امتیاز اور اعزاز دنیا بھر کی ناموری اور آخرت کی سرخروئی کے لئے کافی ہے۔ آپ کا بچپن حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سے منور رہا۔۔۔ نوعمری ہی میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔۔۔ زمانہ جاہلیت میں بھی بت پرستی نہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔۔۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی آپ کے عقد میں آئیں، جن کے احترا م میں خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔۔۔ آپ علیہ السلام ہی کو خیبر کا مضبوط قلعہ فتح کرنے کا اعزاز اور زبان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیدر کرار کا لقب عطا ہوا۔ ہجرت کی رات بستر نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سونے کی عزت نصیب ہوئی۔۔۔ ہر اسلامی غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش بدوش رہے۔۔۔۔ آپ کا شمار عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر، مجاہدین احد، شرکائے خندق اور خلفائے راشدین میں ہوتا ہے۔۔۔ آپ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا داماد ہونے کی سعادت ملی۔۔۔ وہ آپ علیہ السلام ہی ہیں جن کے گھر کا دروازہ صحن مسجد میں کھلتا تھا۔۔۔ جن کی صبحیں اور شامیں سایہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بسر ہوتی تھیں۔۔۔ جن کے روزو شب قرب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزرتے تھے۔۔۔ جنہیں ایک سے زائد بار زبان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مومن اور جنتی ہونے کی بشارت ملی۔۔۔
آپ علیہ السلام ہی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُهَا.
(المستدرک للحاکم، ۳/۱۳۷، رقم:۴۶۳۷)
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہے‘‘
ایک اور موقع پر سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عَلِیٌّ مِنِّيْ وَاَنَا مِنْ عَلِیٍّ.
(جامع الترمذی فی السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علی بن ابی طالب، ۵/۶۳۶، رقم:۳۷۱۹)
’’میں علی علیہ السلام سے ہوں اور علی علیہ السلام مجھ سے ہے‘‘۔
آپ علیہ السلام کی محبت کو زبان نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان اور آپ علیہ السلام کے ساتھ عداوت کو نفاق قرار دیا۔ آپ علیہ السلام ہی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِیٌّ مَوْلاَهُ.
(النسائی فی خصائص اميرالمومنين علی بن ابی طالب، ۳۴،۸۸، رقم:۱،۸۰)
’’جس شخص کا میں دوست ہوں علی علیہ السلام اس کا دوست ہے‘‘۔
یہ لازوال شرف بھی حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انت اخی فی الدنيا والآخرة
’’تو دنیا اور آخرت میں میرا بھائی ہے‘‘۔
(جامع الترمذی فی السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علی بن ابی طالب، ۵/۶۳۶، رقم:۳۷۲۰)
المختصر یہ کہ ایک پورے کا پورا دفتر جناب علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل و مناقب پر تیار کیا جاسکتا ہے۔
سیدہ کائنات اور مولائے کائنات رضی اللہ عنہما کے مقام و مرتبہ سے آگاہی کا ایک خوبصورت پہلو ان کا حکم ربانی کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا بھی ہے۔
حضرت انس ص سے مروی ہے ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی ص سے فرمایا:
هذا جبريل يخبرنی أن اﷲ زوجک فاطمة، و أشهد علی تزويجک أربعين ألف ملک، و أوحی إلی شجرة طوبی أن انثری عليهم الدر والياقوت، فنثرت عليهم الدر و الياقوت، فابتدرت إليه الحور العين يلتقطن من أطباق الدر و الياقوت، فهم يتهادونه بينهم إلی يوم القيامة
(محب طبری، ذخائر العقبيٰ فی مناقب ذوی القربيٰ، ۷۲)
’’یہ جبرئیل ں مجھے بتا رہا ہے کہ اﷲ تعالی نے فاطمہ سے تمہاری شادی کر دی ہے۔ اور تمہارے نکاح پر چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیا، اور شجر ہائے طوبی سے فرمایا: ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کر پھردلکش آنکھوں والی حوریں اُن موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے) فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحائف دیں گے۔‘‘
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس ایک فرشتہ نے آ کر کہا:
يا محمد! إن اﷲ تعالٰی يقرأ عليک السلام، و يقول لک: إنی قد زوجتُ فاطمة ابنتک من علیّ بن أبی طالب فی الملأ الأعلی، فزَوِّجْها منه فی الأرض.
(محب طبری، ذخائر العقبيٰ فی مناقب ذوی القربيٰ، ۷۳)
’’ اے محمد! اﷲ تعاليٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے: میں نے آپ کی بیٹی فاطمہ کا نکاح ملاء اعليٰ میں علی بن ابی طالب سے کر دیا ہے، پس آپ زمین پر بھی فاطمہ کا نکاح علی سے کر دیں۔‘‘
گم رضائش در رضائے شوہرش
ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری نے اپنی مایہ ناز کاوش فکر ’’سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا‘‘ میں ان دونوں شخصیات کے اس تعلق کو بڑی خوبصورتی سے یوں سمویا:
’’سیدہ کائنات اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھیں کہ بیوی کا مزاج شوہر کے مزاج اور فکرو عمل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اسے سعادت مندی کی مسند پر بٹھادے اور چاہے تو بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دے۔ سیدنا علی المرتضيٰ سلام اللہ علیہا مرد میداں تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی میں جتنے معرکہ ہائے حق و باطل بپا ہوئے ان میں سیف ذوالفقار کی کاری ضربیں تاریخِ شجاعت کا تابناک باب ہیں۔ آپ فاتح خیبر، غازی احد و بدر اور حنین و خندق کے صف شکن مجاہد تھے۔ ایسے ہمہ جہت مرد مجاہد اور عظیم سپہ سالار کی خدمت کے لئے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسی خیر خواہ محب و مخلص اور بہادر زوجہ قدرت کا اپنا انتخاب تھا۔ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا نے شوہر نامدار کی جہادی زندگی میں بھرپور معاونت فرمائی۔ انہیں گھریلو ذمہ داریوں سے فراغت اور بے فکری مہیا کی۔ سارا دن جنگ و جدل اور تیغ و تفنگ سے تھکے ماندے علی سلام اللہ علیہا جب گھر واپس آتے تو سیدہ سو جان سے اُن کی خدمت بجا لاتیں۔ ان سے محاذِ جنگ کے واقعات سن کر ایمان تازہ کرتیں اور ان کی شجاعت کی داد بھی دیتیں۔ زخموں کی مرہم پٹی کرتیں، خون آلود تلوار اور لباس کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتیں۔ یوں یہ پیکرِ جرات و شجاعت تازہ دم ہوکر اگلے معرکے کے لئے کمربستہ ہوجاتے۔
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی یہی پاکیزہ ادائیں تھیں جن پر حضرت علی سلام اللہ علیہا دل و جان سے فدا تھے۔ آپ نے ان کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ چنانچہ سیدہ کے یہی اوصاف حمیدہ تھے جن کے سبب ان کے وصال کے بعد جب کسی نے حضرت علی سلام اللہ علیہا سے پوچھا فاطمہ سلام اللہ علیہا کیسی تھیں؟ آپ کے ساتھ سیدۃ النسائ سلام اللہ علیہا کا راہ و رسم اور نباہ کیسا تھا؟ حضرت علی سلام اللہ علیہا نے آبدیدہ ہوکر جواب دیا:
’’فاطمہ سلام اللہ علیہا دنیا کی بہترین عورت تھیں وہ جنت کا ایک ایسا مہکتا ہوا پھول تھیں جس کے مرجھانے کے باوجود اس کی خوشبو سے اب تک میرا مشام جاں معطر ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں مجھے کسی شکایت کا موقع نہیں دیا‘‘۔
بقول اقبال ان کا پیکر نوری ’’گم رضائش در رضائے شوہرش‘‘ کے خوبصورت اسلوب میں گُندھا ہوا تھا۔
نوری و ہم آتشی فرماں برش
گم رضائش در رضائے شوہرش
محترم قارئین! تسکینِ دلِ سرورِ کونین کا باعث یہ دو عظیم شخصیات اپنے اقوال، اعمال، احوال اور زندگی کے ہر رنگ و روپ میں بالعموم انسانیت اور بالخصوص امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے لئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے اعمال کی پیروی و اطاعت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب و روح کی تسکین کا باعث اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا حقدار ٹھہراتی ہے۔
آیئے! عہد کریں کہ ہمارے معاشرے کی ہر عورت، ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے سیدہ علیہ السلام کے درِ اقدس سے سیرت و کردار، عفت و حیا اور پاکدامنی و زہد کی خیرات پانے کے لئے مصروف عمل رہے اور ہمارے معاشرے کا ہر مرد سیدنا علی المرتضيٰ علیہ السلام کے افکارو کردار، شجاعت و عدالت اور علم و حکمت کے سمندر سے چند ایسے قطرے ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے جو اُسے دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کردے۔