الفقہ: زکوٰۃ کی اہمیت و مقاصد

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

آپ دنیا کی کسی تحریک کو دیکھ لیں۔ کسی مذہب کا مطالعہ کرلیں، روٹی کا مسئلہ کسی نے نہ نظر انداز کیا، نہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے غریبوں، بیوائوں، یتیموں اور معذوروں کی مدد کرنے کا حکم ہر جگہ ہر ایک نے دیا اور دے رہے ہیں مگر جس انداز سے اس مسئلہ کو اسلام نے لیا ہے اور جس حکمت سے اسے حل کیا ہے وہ اسی کا خاصہ ہے۔ عام طور پر دوسروں کی مدد، ایک اخلاقی ہدایت تک محدود رکھی گئی ہے کہ کرنا چاہئے اچھی بات ہے مگر یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے جو نظام حیات دیا اس میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کے بعد زکوۃ کی صورت میں اس مسئلہ کو حل کردیا۔

زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ ا س سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کی سب سے مقدم عبادت نماز کے بعد اس کا نمبر ہے۔ نماز شب معراج کو فرض ہوئی یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے۔

(الدرالمختار مع ردالمختار ص۳۵۲ ج۱)

جبکہ زکوۃ 2ھ کو فرض ہوئی

(الدرالمختار ص ۲۵۶ ج۲)

قرآن کریم میں نماز اور زکوۃ کو 82 مقامات پر ملاکر بیان کیا گیا ہے‘‘۔ جس کی نظیر کسی اور حکم میں نہیں ملتی۔

زکوٰۃ کے مقاصد

زکوٰۃ ادا کرنے کے چند مقاصد اور آداب ہیں جو ملحوظ خاطر رہنے چاہئیں اور اگر ان آداب کا خیال نہ رکھا جائے تو زکوٰۃ کی ادائیگی مشکوک بن جاتی ہے۔

  • تزکیہ نفس: زکوۃ کا حقیقی اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ دہندہ کا دل دنیا کی حرص و ہوا سے پاک ہوجائے اور تقويٰ کے کاموں کے لئے تیار رہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

وَسَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَی.الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهُ يَتَزَکّٰی.

’’اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیز گار شخص کو بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال (اﷲ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے‘‘۔

(اليل:۱۷.۱۸)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے بھی فرمایا:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِرُهُمْ وَتُزَکِّيْهِمْ بِهَا.

(التوبة:۱۰۳)

’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں ‘‘۔

ان آیات میں زکوٰۃ کا مقصد دل کی پاکی اور نفس کے تزکیہ کو کیا جارہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

حب الدنيا راس کل خطئية

(مشکوة کتاب الرقائق)

’’دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال کو امت کے حق میں سب سے بڑا فتنہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

فتنة امتی المال.

(ترمذی)

’’(دنیا) کا مال میری امت کا فتنہ ہے‘‘۔

  • رضائے الہی: زکوٰۃ کا دوسرا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے۔

اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اﷲِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًا.

(الدهر:۹)

’’ہم تم کو صرف اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواہاں ہیں، نہ شکریہ کے‘‘۔

زکوٰۃ ادا کرنے سے رب کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے لہذا کسی اور مقصد کو رضا الهٰی پر فوقیت نہیں ہونی چاہئے۔ لینے والا اپنا حق لے رہا ہے۔ دینے والا اپنا فرض ادا کررہا ہے۔ لینے والا سوائے پروردگار کے کسی کا احسان نہیں اٹھائے گا اور دینے والا سوائے رضائے موليٰ کے کسی صلہ و ستائش کا طالب نہیں ہوگا۔

اسلام کا نظام معاش

اسلام ایسا نظام معاش قائم کرتا ہے جس سے قومی سرمایہ اوپر اوپر ہی نہ گھومتا رہے۔ ارشاد رب العزت ہے کہ

کَيْ لَا يَکُوْنَ دُوْلَةًم بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْکُمْ.

’’تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) ‘‘۔

(الحشر، ۵۹:۷)

کیونکہ قومی سرمائے کی حیثیت تمام لوگوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے جسم کے لئے خون۔ اگر خون بعض حصوں کو پہنچے اور بعض محروم رہ جائیں تو وہ مفلوج ہوجائیں گے۔ یونہی قومی دولت اگر اوپر ہی اوپر چند طبقات میں گردش کرتی رہی تو قوم کی اکثریت عضوِ معطل ہوکر رہ جائے گی۔ جس طرح جسم کا مفلوج حصہ اچھا نہیں ہوتا اور جسم پر بوجھ بن جاتا ہے، اسی طرح جب عوام پر قومی سرمایہ خرچ نہ ہوگا تو یہ بے زبان اکثریت معاشرے کے لئے وبال جان بن جائے گی۔ لہذا معاشرے کی خیریت اسی میں ہے کہ قومی دولت کی تقسیم مساویانہ طور پر کی جائے تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کی ضروریات بہم پہنچتی رہیں اور یہ خوبصورت دنیا کسی کے لئے جنت اور کسی کے لئے جہنم زار نہ بن جائے۔

اسلام کے دور اول میں جب اسلام مکمل طور پر ملکی قانون کے طور پر متمکن تھا۔ نماز اور زکوۃ کا سسٹم بھی باقی قوانین و احکام کی طرح حکومت ہی قائم کرنے کی ضامن تھی۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ.

(الحج: ۴۱)

’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں‘‘۔

کسی مشین کے صحیح کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر پرزہ صحیح ہو، اس کی سیٹنگ صحیح ہو۔ اور ہر وقت اس پر نظر رکھی جائے اس کی دیکھ بھال سے غفلت نہ کی جائے۔ لیکن ناکارہ ہونے کے لئے تمام پرزوں کا ناکارہ ہونا ضروری نہیں۔ بظاہر معمولی خرابی بھی اسے فیل کرسکتی ہے۔ اسلامی نظام حیات کو سوچ سمجھ کر جرات مندی کے ساتھ مکمل طور پر نافذ کردیا جائے تو دنیا موجودہ ظالمانہ شکنجوں سے آزاد ہوکر رشک جنت بن سکتی ہے۔

یاد رہے کہ زکوۃ کے نظام کو منظم کیا جائے۔ اربوں روپیہ جو زکوۃ کی مد میں حکومت وصول کرتی ہے اسے صرف اس محکمہ کے افسران اور زکوۃ چیئرمینوں کی عیاشیوں پر خرچ نہ کیا جائے بلکہ فوری طو رپر کفالت عامہ کا اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔

حکومت ہر فرد کی بنیادی ضروریات، روٹی، لباس، رہائش، علاج اور تعلیم کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھائے، زکوۃ میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کو ختم کرے۔ اس فنڈ سے رفاہی ادارے قائم کرے، جن میں سرفہرست بیت المال کو منظم کرنا ہے۔ بھیک مانگنے کو حکماً بند کردیا جائے۔ اوقاف سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدنی اور زکوۃ کے نام پر جمع ہونے والی اربوں روپے کی دولت سے غربت کے خاتمے کی مفید و مستقل راہیں تلاش کرے۔ کمی وسائل کی نہیں بلکہ حسن تدبیر، خلوص اور ایمان و احساس کی کمی ہے۔ آمدنی کے ان ذرائع کو مزید ترقی دی جاسکتی ہے۔ جس بھوک و افلاس کو اس ملک کا مقدر بنالیا گیا ہے، جس پسماندگی کو ہماری لازمی صفت بنالیا گیا ہے، وہ بھوک وہ افلاس اور پسماندگی ہر گز ہمارا مقدر نہیں بلکہ ظالمانہ، سرمایہ داری و جاگیرداری کے شیطانی سامراجی نظام نے اپنی نحوست کا سیاہ داغ ہماری پیشانی پر چسپاں کررکھا ہے۔

ہم اس ملک میں اسلامی نظام عشر و زکوۃ صحیح و مکمل طور پر نافذ کرکے سود، جوا، شراب اور بے حیائی و فحاشی و منشیات کے خاتمہ سے حقیقی اسلامی انقلاب لاسکتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں کوئی کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرے۔ ہر شخص کو عزت و وقار کی پرسکون زندگی میسر آئے۔ محبت و اخوت کی فراوانی ہو نفرت و کدورت، بغض و حسد کا خاتمہ ہو، ہر شخص اپنے مفاد کے بجائے دوسروں کا بھلا چاہے۔ امن ہو، سکون ہو، محبت ہو۔

زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر قرآنی وعید

جو صاحب ثروت اور صاحب استطاعت لوگ زکوۃ کی ادائیگی کے احکامات کو پس پشت رکھتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں اللہ تعاليٰ نے ان لوگوں کے خلاف سخت عذاب کی وعید سنائی ہے:

يٰـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ اْلاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اﷲِ وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ.

(التوبة،۹:۳۴)

’’اے ایمان والو! بے شک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دین حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کیے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں‘‘۔

اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ تعاليٰ نے عدم ادائیگی زکوۃ پر لوگوں کو روز محشر ان کے اموال کے ساتھ سخت حشر کرنے کی وعید بھی بیان کی:

يَوْمَ يُحْمٰی عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ.

(التوبة،۹:۳۵)

’’جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لیے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے‘‘۔

جو لوگ مال و دولت اکٹھا کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرمایا:

اَلْهٰـکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.

’’تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے‘‘۔

(التکاثر:۱.۲)

انسان فطرتاً بڑا حریص اور مادیت پرست ہے۔ وہ مال و دولت اور جاہ و منصب سے محبت اور دنیا کی حرص و طمع اس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ ہابیل نے قابیل کا قتل بھی نفس خواہش کی تسکین کے لئے کیا تھا۔ کثرت مال کی وجہ سے یہی لوگ اپنا حقیقی مقصد بھول جاتے ہیں اور اس مال میں سے اپنا حصہ غریبوں اور یتیموں پر خرچ نہیں کرتے تو اس کثرت مال کی محبت نے انہیں قبروں تک جاپہنچایا جس پر وہ نازاں و خراماں تھے۔

ادائیگی زکوۃ، مال کی پاکیزگی کاسبب

حضرت جابرص روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اﷲ! اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ ادَّی زَکَاةَ مَالِهِ فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ شَرُّهُ.

(اخرجه ابن خزيمة فی الصحيح، ۴/۱۳، الرقم: ۲۲۵۸)

’’جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا ۔‘‘

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دی کہ اللہ تعاليٰ نے جن لوگوں کو دولت کی نعمت سے نوازا اور انہوں نے اس حصہ کو خوش دلی سے زکوۃ کیا تو گویا اس کے مال میں شر اور فساد جاتا رہا ہے۔

اوراق تاریخ میں ہجرت مدینہ کے موقع پر انصار مدینہ کا مہاجرین کے ساتھ ایثار نفس کا عدیم النظیر مظاہرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہ صرف محفوظ ہے بلکہ ہمیں بھی راہ عمل دکھاتا ہوا نظر آتا ہے۔

معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ دولت کے بہائو کا رخ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف ہو اور اس کا مستقل انتظام زکوٰۃ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ زکوۃ کی برکت سے امیروں کی دولت غریبوں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظام زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظام زکوۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

آج کے دور میں ضرورت اس امرکی ہے کہ نظام زکوۃ کو منظم و مربوط طریق سے فعال کیا جائے تاکہ اس کے فوائد و ثمرات سے حقدار لوگ صحیح معنوں میں مستفیدہوسکیں۔ کسی ایک فرد کو یا بہت سارے افرادمیں مال زکوۃ کی تقسیم سے زکوۃ کی ادائیگی تو ہوجاتی ہے مگر غربت اور مفلسی کا مرض اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ ایک سال میں چند ہزار روپے کسی کو دے کر یہ سمجھ لینا کہ اس کے لئے ضروریات زندگی کا سامان ہوگیا، آج کے دور میں یہ ناممکن ہے۔ وقتی طور پر اس کی حاجت ضرور پوری ہوجاتی ہے لیکن وہ مفلسی اور غربت سے ہمیشہ کے لئے تب نجات حاصل کرے گا جب تک اسے ایک مستقل ذریعہ معاش نہ مہیا کیا جائے۔

تحریک منہاج القرآن یہی عزم مصمم لئے ہوئے حقیقی طور پر رفاہی اور فلاحی منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ منہاج ویلفیئر فائونڈیشن تعلیم، علاج، فلاحِ عام کانعرہ لئے ہوئے آج حقیقی معنوں میں معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم عمل ہے۔ لہذا صاحب استطاعت لوگ اپنی زکوۃ، عطیات، صدقات اور خیرات MWF کو عطیہ کریں تاکہ معاشرے کے مستحق اور حاجت مند لوگ اس سے کماحقہ مستفید ہوسکیں۔