اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اُس سے نہ ہٹے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
(ابن منظور، لسان العرب، ۹: ۲۵۵)
جبکہ اصطلاح شرع میں اس سے مراد ہے کہ انسان کا علائقِ دنیا سے کٹ کر خاص مدت کے لئے عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرنا تاکہ خلوت گزیں ہو کر اﷲ کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کر سکے۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس ص سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘
(ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب فی ثواب الاعتکاف، ۲: ۳۷۶، رقم: ۱۷۸۱)
حضرت عبد اﷲ بن عباس ص سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ اﷲ، جَعَلَ اﷲُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَـلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ اَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ.
(بيهقی، شعب الإيمان، ۳: ۴۲۵، رقم: ۳۹۶۵)
’’جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘
حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین ص سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ.
(بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، ۳: ۴۲۵، رقم: ۳۹۶۶)
’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘
اِنفرادی اور اجتماعی نوعیت کے امور کا فرق
معتکف کے لئے نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اَذکار جیسی انفرادی عبادات تو متفقہ طور پر جائز ہیں اور ان میں کسی نوع کا اختلاف نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کرام نے دوسروں سے میل ملاپ والی متعدی یا اجتماعی نوعیت کی عبادات کو بھی انفرادی عبادات کی طرح مشروع اور بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے۔ ان اجتماعی عبادات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، سلام کا جواب دینا، اِفتاء و اِرشاد اور اس طرح کے دیگر امور شامل ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان اُمور میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔
جہاں تک ایسے امور کا تعلق ہے جن میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے - مثلاً درس و تدریس، علماء کا دینی امور میں مناظرہ و مباحثہ اور درسِ قرآن و حدیث وغیرہ - تو ان امور کی مشروعیت میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، مگر فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں معتکف کے لیے اِن اُمور کو شرعاً جائز قرار دیا گیا ہے۔
(شافعی، الام، ۲: ۱۰۵)
نام وَر فقیہ علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ اعتکاف میں اجتماعی نوعیت کے معاملات کے جواز اور عدمِ جواز میں اختلاف کی بنیادی وجہ اعتکاف کے معنی کی تعیین میں اختلاف ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
فمن فهم من الإعتکاف حبس النفس علی الافعال المختصة بالمساجد، قال:لا يجوز للمعتکف إلا الصلاة والقراءة، ومن فهم منه حبس النفس علی القرب الاخروية کلها اجاز له غير ذلک.
(ابن رشد ،بداية المجتهد، ۱: ۳۱۲)
’’جس نے اعتکاف کا معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا، اس نے معتکف کے لیے صرف نماز اور قراء تِ قرآن کو مشروع قرار دیا؛ اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا اس نے لوگوں سے میل جول کے علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔‘‘
اعتکاف میں اجتماعی سطح پر تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کا استدلال علماء حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا کی اس روایت سے کرتے ہیں کہ
وَکَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ، فَاَغْسِلُهُ وَاَنَا حَائِضٌ.
( بخاری، الصحيح، کتاب الحيض، باب مباشر. الحائض، ۱: ۱۱۵، الرقم: ۲۹۵)
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ اعتکاف میں اپنا سر میری طرف نکال دیتے تو میں حالتِ حیض میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراقدس دھو دیتی۔‘‘
علامہ خطابی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإن الاشتغال بالعلم وکتابته هم من تسريح الشعر.
(زين الدين عراقی، طرح التثريب فی شرح التقريب، ۴: ۱۷۵)
’’بلا شبہ علم میں مصروفیت اور اس کی کتابت بالوں کے سنوارنے سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
لہٰذا دورانِ اِعتکاف تعلیم و تعلم اور درس و تدریس جیسے اُمور بجا لانا بہتر ہے تاکہ اِسلام کے اُس آفاقی حکم پر بھی عمل ہو جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی وحی میں دیا گیا تھا اور جس کی بے پناہ تاکید قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں وارِد ہوئی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں:
ولا باس ان یشتري ويبيع ويخيط ويجالس العلماء ويتحدث بما احب ما لم يکن إثما.
(شافعی، الام، ۲: ۱۰۵)
’’معتکف کے لئے خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سلائی کرلینے، علماء کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
لہٰذا جب معتکف کاروبار کرسکتا ہے، حسبِ ضرورت کپڑے سی سکتا ہے تو اس کے لیے حصولِ علم تو بدرجہ اَولیٰ بہتر ہوگا۔ اور حصول علم وہ کارِ خیر ہے جس میں شرکت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ترجیح دی ہے۔ ایک مرتبہ جب مسجد نبوی میں محفلِ ذکر اور محفلِ علم برپا تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محفلِ علم کو ترجیح دیتے ہوئے اس میں شرکت فرمائی۔
کلی بگاڑ کی اصلاح کیلئے اجتماعی کاوشیں
اس میں شک نہیں کہ اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے۔ مگر یہ بھی ایک قابلِ لحاظ امر ہے کہ کوئی بھی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمرآور اور دیرپا نہیںہو سکتا اور علم ہی کسی عمل کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے دوران اعتکاف تعلیم وتعلم کو ایک اجتماعی عمل ہونے کے باوجود تمام ائمہ فقہ نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فَقِيْهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.
’’ایک فقیہ شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
(ابو داود، السنن، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، ۱: ۸۱، رقم: ۲۲۲)
دور حاضر میں ہمیں اِسلام وراثت میں ملا ہے، ہم نے اس کے لئے کوئی کاوِش اور محنت نہیں کی، والدین مسلمان تھے تو ہم بھی مسلمان کہلائے۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد کو کلمہ تک یاد نہیں، اور اگر کلمہ آتا ہے تو اس کے معنی کا علم نہیں، اور اگر بالفرض معنی معلوم ہے تو اس کے تقاضوں کا علم نہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کو افضل العبادات قرار دیا گیا ہے اور تلاوت قرآن اعتکاف کے بنیادی معمولات میں سے ہے، لیکن ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد صحت لفظی کے ساتھ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ ان حالات میں انفرادی عبادات پر حد سے زیادہ زور دینا اور گنے چنے چند وظائف کرنے میں دس دن گزار دینا اعتکاف کا منشاء ہے نہ اس سے اعتکاف کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔
ہماری اجتماعی صورتِ اَحوال اور دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والی اجتماعی اُمور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں اَحکام بدل جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ص بیان کرتے ہیں:
إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتعَالَی لاَ يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ وَلٰـکِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ کُلُّهُمْ.
(مالک، الموطا، ۲: ۹۹۱، رقم: ۲۳)
’’بے شک اﷲ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کے سبب عامۃ الناس کو عذاب نہیں دیتا۔ لیکن جب اِعلانیہ برائی کی جانے لگے تو (خاص و عام) سب لوگ بلا امتیاز عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔‘‘
حضرت جابر ص بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اﷲ ل نے جبریل ں کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت پلٹ دو (تباہ و برباد کر کے رکھ دو)۔ جبریل ں نے عرض کیا: اے میرے رب! ان میںتیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اِس پر رب تعالیٰ نے فرمایا:
اَقْلِبْهَا عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَعَّرْ فِيَّ سَاعَةً قَطُّ.
( بيهقي، شعب الإيمان، ۶: ۹۷، رقم: ۷۵۹۵)
’’اس شہر کو ان پر پلٹ دے کیونکہ اس شخص کا چہرہ کبھی ایک گھڑی بھی میری خاطر (برائی کو دیکھ کر) متغیر نہیں ہوا۔‘‘
اس حدیث مباکہ میں مجرد ذکر و عبادت میں مشغولیت کی وجہ سے مخلوقِ خدا کے اَحوال کی درستگی سے عدم دلچسپی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ اور دعوت وتبلیغ کا یہ فریضہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انفرادی ذکر و اَذکار کو ہی کُل نہ سمجھے بلکہ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ اَحوالِ اُمت کے نبوی فریضہ کو بھی عبادت جانتے ہوئے اپنے معمولات میں سے اسے خصوصی وقت دے۔ اس لئے تعلیم و تعلم، قرآن سیکھنے سکھانے اور اصلاح نفس جیسے دیگر امور جن کا تعلق دیگر افراد سے ہو، اعتکاف میں جائز اور مستحسن ہیں؛ اور یہی راجح قول ہے۔
اِعتکاف میں طویل خاموشی اختیار کرنا
خاموشی حکمت کا پیش خیمہ اور زبان کی حفاظت کا سب سے قوی اور آزمودہ ہتھیار ہے اور قرآن و حدیث میں اس کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں مگر خاموشی کو اس طرح افضل جاننا کہ واجب کلام بھی ترک کر دیا جائے، حرام کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے خاموشی سے بہتر ہونے پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جس میں ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میں جمعہ کا روزہ رکھوں اور اس دن کسی سے بھی کلام نہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا:
لا تصم يوم الجمعة إلا في ايام هو احدها او في شهر، واما ان لا تکلم احداً فلعمري! لان تکلم بمعروف وتنهی عن منکر خير من ان تسکت.
( احمد بن حنبل، المسند، ۵: ۲۲۴، رقم: ۲۲۰۰۴)
’’صرف جمعہ کا روزہ نہ رکھو بلکہ اس طرح ایام کا انتخاب کرو کہ جمعہ کا دن ان میں آجائے یا پھر یہ کہ مہینے کے روزے ہوں تو جمعہ بھی ان میں آجائے۔ جہاں تک کلام نہ کرنے کی بات ہے تو مجھے میری عمر کی قسم! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے خاموش رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
اِجتماعی اِعتکاف کی مثالیں
گزشتہ سطور میں بیان کردہ تفصیل اور امت مسلمہ کے موجودہ حالات کے پیش نظر جہاں اجتماعی اعتکاف کے جواز اور عدمِ جواز پر بحث جاری ہے وہیں اِجتماعی اعتکاف کی کئی مثالیں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔ وہ لوگ جو کچھ عرصہ قبل تک اسے بدعت قرار دیتے تھے اب خود اِس پر عمل پیرا ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بندہ مومن کو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا شدہ فراست کے پیش نظر آنے والے حالات کو قبل اَز وقت بھانپ لیتا ہے، جب کہ کچھ لوگوں کو یہ شعور بعد میں نصیب ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصل حقیقت سب پر آشکار ہو جاتی ہے۔
حرمین شریفین میں اِعتکاف
فی زمانہ حرمین شریفین میں دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے۔ ان مقاماتِ مقدسہ پر ہزارہا اہل اِسلام رمضان المبارک میں اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ اعتکاف کے لئے جگہ مخصوص کی جاتی ہے مگر خیمے وغیرہ نصب نہیں کیے جاتے اور نہ ہی چادریں وغیرہ تانی جاتی ہیں۔ اِس اِجتماعی اِعتکاف میں ہر وقت اِجتماعی درسِ قرآن اور درسِ حدیث بھی ہوتے ہیں، ہمہ وقت پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور تجویدِ قرآن کے حلقات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ نیز دروسِ فقہ بھی ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حرمِ کعبہ میں معتکفین طواف بھی کرتے ہیں جو کہ بھیڑ کے ماحول میں ہی ہوتا ہے۔ گویا جلوت میں خلوت کا ماحول ہوتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے زیر اِہتمام منعقدہ اعتکاف
تحریک منہاج القرآن اُمت مسلمہ کی ایک ایسی تجدیدی و احیائی تحریک ہے جس نے آنے والے مسائل کا قبل اَز وقت اِدراک کرکے اُمت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اِس کی بانی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُمت کو روایتی اُصولوں سے ہٹ پر ایک نئی سوچ و فکر اور بیدار مغز دیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کے قلب پر دستک دی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہارگانہ فرائض نبوت تلاوتِ قرآن؛ تزکیہ نفوس؛ تعلیم کتاب و حکمت کی پیروی کرتے ہوئے ہر محاذ پر جد و جہد کی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے روحوں کا زنگ اتار کر دلوں کا میل اتارنے کے لئے کوشاں ہے۔ اِسی مقصد کے لئے جامع المنہاج میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف کا غیر روایتی تصور بھی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف اور اعتکاف برائے تربیت کی سوچ قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذہن رسا میں بہت پہلے سما چکی تھی جس کا اظہار اِبتدائً تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں بھی ہوتا رہا۔
اعتکاف تو وہ ہر سال ہی بیٹھتے تھے۔ 1990ء میں جب وہ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو ان کے ساتھ 50 افراد بھی گوشہ نشیں ہوئے۔ اِس سے ان کے ذہن میں موجود اجتماعی اعتکاف کے تصور نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ 1991ء میں یہ تعداد مزید بڑھی تو اس مسجد کی وسعت تنگ محسوس ہونے لگی۔ 1992ء میں جب بغداد ٹاون میں موجود جامع المنہاج باقاعدہ اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی مستقل جگہ قرار پائی تب معتکفین کی تعداد 5001 تھی۔ لیکن آج بفضلہ تعالی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں معتکف ہونے فرزندانِ اِسلام کی تعداد پچیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اِس میں خواتین و حضرات ذوق و شوق سے شریک ہوکر اپنی باطنی طہارت اور علمی حلاوت کا سامان کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے منہاج کالج برائے خواتین میں اجتماعی اعتکاف کا الگ انتظام کیا جاتا ہے۔
اِس شہرِ اِعتکاف میں حلقہ ہائے ذکر و درود بھی منعقد ہوتے ہیں۔۔۔ درسِ فقہ کی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور دروسِ قرآن و حدیث بھی ہوتے ہیں۔۔۔ سب سے بڑھ کر مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی و فکری اور روحانی موضوعات پر مشتمل خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیہ قلوب و نفوس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی کہ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہونے کے ناطے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اِعتکاف کا صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
اجتماعی اعتکاف کے فضائل و ثمرات
- اجتماعی اعتکاف میں باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت نماز پنجگانہ، تہجد، چاشت، اوّابین، اوراد و وظائف، حمد و نعت خوانی، دروس ہائے قرآن و حدیث، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، تربیتی لیکچرز، خوفِ خدا، فکرِ آخرت، اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شمع دلوں میں فروزاں کرنا، جدید ترین علمی و روحانی پیچیدگیوں کا قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں تسلی بخش حل بتایا جاتا ہے۔ انفرادی اعتکاف میں اِن تمام فوائد کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
- علماء، اولیاء، صوفیاء اور ائمہ دین کی سنگت و زیارت، ان سے مسلسل فیوض و برکات کا حصول، قرآن و سنت اور فقہ (قانون) کی بیش بہا معلومات اجتماعی اعتکاف کی منفرد خصوصیات میں سے ہیں۔
- اجتماعی اعتکاف میں اوراد و اذکار، درود و سلام، گریہ و زاری، توبہ و استغفار اور عبادت کی زبانی ہی نہیں بلکہ عملی مشق کروائی جاتی ہے۔
- اجتماعی اعتکاف میں چند دن کے فیوض و برکات کی رحمت و برکت، تعلیم و تربیت اور ذوق و شوق کے وہ نقوش قلب و ذہن پر منقش ہو جاتے ہیں جن سے قلب و ذہن کے آئینے ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے جبکہ تنہا اعتکاف میں یہ سب کچھ میسر نہیں آسکتا۔
لیلۃ القدر
اعتکاف کی حیثیت اور مقصد کے مطالعہ کے بعد اب آیئے اسی اعتکاف کے دوران اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ملنے والے خاص انعام لیلۃ القدر پر بات کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اعتکاف کا ایک مقصد اس باعظمت رات کی تلاش بھی ہے۔
لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے۔ یہ رات بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل ہے جسے قرآن کریم نے ہزار راتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ جمہور علماء امت کا مؤقف یہ ہے کہ لیلۃ القدر امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لئے خاص انعام ہے جو اس سے قبل کسی اور امت کو عطا نہیں کی گئی۔ حدیثِ مبارکہ سے بھی اس موقف کی تائیدہوتی ہے۔
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اﷲَ وَهَبَ لِأُمَّتِيْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَلَمْ يُعْطِهَا مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ.
(ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، ۱: ۱۷۳، رقم: ۶۴۷)
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میری امت ہی کو عطا کی اور تم سے پہلے لوگوں کو اس سے سرفراز نہیں کیا۔‘‘
کیونکہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ہے، لہٰذا اِسے رمضان کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہئے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کی فضیلت کے بیان میںپوری سورت نازل فرمائی۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِخَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ هِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ.
(القدر، ۹۷: ۱-۵)
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے‘‘۔
لیلۃ القدر کی فضیلت میں کتبِ حدیث بہت سی روایات مذکور ہیں۔ ذیل میں چند ایک احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
(بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، ۲: ۷۰۹، رقم: ۱۹۱۰)
’’جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا ارشاد نبوی میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر اور طاعت و عبادت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، دکھاوا اور ریا کاری نہ ہو پھر یہ کہ آئندہ برائی نہ کرنے کا عہد کرے۔ اس شان سے عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژدہ مغفرت بن کر آتی ہے لیکن وہ شخص محروم رہ جاتا ہے جو اس رات کو پائے مگر عبادت نہ کرسکے۔
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ ماہ جو تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، ۲: ۳۰۹، رقم: ۱۶۴۴)
ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو اَسّی (80) سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگنا کوئی زیادہ مشکل کام تو نہیں!
٭ حضرت انس ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں۔ وہ ہر اُس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔‘‘
(بيهقی، شعب الإيمان، ۳: ۳۴۳، رقم: ۳۷۱۷)
٭ حضرت عبادہ بن صامت ص بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فِی رَمَضَانَ، فَالْتَمِسُوْهَا فِی الْعَشِرا لْأَوَاخِرِ فَإِنَّهَا فِی وَتْرٍ، فِی إِحْدَی وَ عِشْرِيْنَ، أَوْ ثَـلَاثٍ وَعِشْرِيْنَ، اَوْ خَمْسٍ وَعِشْرِيْنَ، اوَ سَبْعٍ وَّ عِشْرِيْنَ، اَوْ تِسْعِ وَ عِشْرِيْنَ، اَوْ فِی اٰخِرِ لَيْلَةِ، فَمَنْ قَامَهَا ابْتِغَاءَ هَا إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، ثُمَّ وُفِّقَتْ لَهُ، غُفِرَلَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ.
(احمد بن حنبل، المسند، ۵: ۳۱۹، رقم: ۲۲۷۱۳)
’’وہ (لیلۃ القدر) رمضان میں ہے سو تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ لیلۃ القدر اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں طاق راتوں میں ہے یا رمضان کی آخری رات ہے۔ جس شخص نے لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور طلبِ ثواب کے ساتھ قیام کیا، پھر اسے ساری رات کی توفیق دی گئی تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
شبِ قدر کو مخفی رکھنے میں حکمت
دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم، جمعہ کے روز قبولیتِ دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو مخفی رکھنے کی بھی متعدد حکمتیں ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
- اگر لیلۃ القدر کو مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہوجاتی اور اسی رات کی عبادت پر اکتفا کر لیا جاتا۔ ذوقِ عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔
- اگر بامرِمجبوری کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔
- اللہ تعالیٰ کو بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا بے حدمحبوب ہے۔ لیلۃ القدر کا تعین اس لئے نہیں فرمایا تاکہ بندے اس ایک رات کی تلاش میں پانچوں طاق راتوں میں جاگ کر اپنے رب کو مناسکیں۔
- عدم تعیین کی ایک وجہ سے گناہگاروں پر شفقت بھی ہے، کیونکہ اگر علم کے باوجود اس میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لازم آتا۔
شب قدر کا وظیفہ
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میںنے (ایک دفعہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں لیلۃ القدر کو پالوں تو اس میں کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یوں کہو:
اَللَّهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّيْ.
(ترمذی، السنن، ابواب الدعوات، باب ما جاء فی عقد التسبيح باليد، ۵: ۴۹۰، رقم: ۳۵۱۳)
’’اے اللہ! تو بہت معاف فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھ کو معاف فرما۔‘‘