حمد باری تعالیٰ جل جلالہ
(ریاض حسین چودھری)
مرے خدا، کبھی سوکھے نہ مرے نطق کی جھیل
زمینِ تشنہ پہ جاری ہو پانیوں کی سبیل
ازل سے پہلے بھی تُو ہے، ابد کے بعد بھی تُو
تری ہی ذاتِ مکرّم ہے ہر کسی کی کفیل
تُو لا شریک ہے، تنہا ہے اور یکتا ہے
نہ تیرا ہمسر و ثانی نہ کوئی تیری مثیل
کہیں سے بھیج دے میرے خدا، ابابیلیں
کہ بڑھ رہے ہیں نئے ابرہہ کے لاکھوں فیل
پگھل رہے ہیں حرارت سے قیدیوں کے دماغ
تُو دے گا وقت کے فرعون کو کہاں تک ڈھیل
قیامِ حشر تلک سانس کس طرح لیں ہم
زمیں پہ رہ گئی باقی جو وہ ہوا ہے قلیل
یہ میرے ہاتھ میں زنجیر عَدْل کی ہے، مگر
مرے خدا، مرا قاتل بنا ہوا ہے وکیل
ریاض، خود تو وہ میری ہے شاہ رگ سے قریب
خدا کا پہلا وہ گھر دور ہے ہزاروں میل
نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(شہزاد مجددی)
جو ہو صدقِ طلب سلطان بحر وبر سے ملتا ہے
سکونِ دل، قرار جاں نبی کے در سے ملتا ہے
مدینہ میں ہے جلوہ گر مدینہ علم و حکمت کا
نشانِ جادہءِ بخشش اسی رہبر سے ملتا ہے
خدا کی دوستی مشروط ہے ان کی اطاعت سے
پتا اللہ کا بس مصطفی کے گھر سے ملتا ہے
نوازا ہے خدا نے سب رسولوں کو فضائل سے
کسی کا مرتبہ بھی میرے پیغمبر سے ملتا ہے؟
شہادت سورہءِ احزاب میں ہے اس عقیدے کی
قرارِ زندگانی لُطفِ پیغمبر سے ملتا ہے
نہیں ہے کام توصیفِ نبی میں زورِ بازو کا
یہ توشہ بس عطائے خالقِ اکبر سے ملتا ہے
قلم سجدہ کناں رہتا ہے جو محراب مدحت میں
اسے فیضِ ثنا جبریل کے شہپر سے ملتا ہے
خذف ریزے ہوئے تسبیح خواں ان کی توجہ سے
جواب اس ڈھنگ سے سرکار کو کنکر سے ملتا ہے
تصور میں تیرے بھی ہم نشیں شاید ہیں وہ گلیاں
تری آنکھوں کا نقشہ میری چشمِ تر سے ملتا ہے
غم ہستی سے میں شہزاد جب بے تاب ہوتا ہوں
مجھے اک حوصلہ سا گنبدِ اخضر سے ملتا ہے