ہر دور میں اصلاح کا عمل ہمیشہ’’ علم‘‘ ہی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ ظاہر و باطن، عقیدہ و عمل، معاملات و اخلاق الغرض ہر طرح کی اصلاح کے لیے بنیادی لائحہ عمل ’’ علمِ صحیح ‘‘ ہی فراہم کرتا ہے۔ خرابی جتنی کثیرالجہت ہوگی، اس کی اصلاح کے لیے اسی قدر علمی تنوع کی ضرورت ہوگی۔ قرآن مجید نے حضور نبی اکرمa کے فرائضِ منصبی بیان کرتے ہوئے اسی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ چہارگانہ فرائضِ نبوت (تلاوت آیات، تعلیمِ کتاب،تعلیمِ حکمت، تزکیہء نفس) میں سے تین کا تعلق علم سے ہے اورچوتھے کا تعلق اصلاح کے جملہ گوشوں سے ہے۔چہارگانہ فرائضِ نبوت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ اصول واضح فرمادیا کہ ان ابتدائی لوازمات کے بغیر کثیر الجہت اصلاح کا بیڑا کبھی نہیں اٹھایا جاسکتا۔ معاشرے کے جملہ پہلوؤں کی اصلاح کے لیے یہی نظم انبیاء علیہم السلام، صلحاء، ائمہ، مجتہدین اور مجددین نے بھی اپنایا۔
اصلاحِ امت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی اسی طریقہ کار کو اختیار فرمایا۔ تحریک منہاج القرآن کے گزشتہ چار دہائیوں کے کام کا جائزہ لیں تو شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا ہو جس میںقومی اور بین الاقوامی سطح پرقابلِ ذکر کردار ادا نہ کیا گیا ہو۔اس عالمگیر کام کا آغاز ہی علم، شعور، آگہی، حکمت، دانش اور تدبر سے عبارت ہے۔ اس عالمگیر کام کے لیے شیخ الاسلام نے ابتدائی طور پر علم کے فروغ کے لیے نہایت قابلِ ذکر کارنامے سرانجام دیئے۔ دعوت، تعلیم اور تربیت کا فروغ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا راستہ ہے، اس لیے تعلیم، کردار سازی اور اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر تنگ نظری اور متعصبانہ رویوں کو بدلنا ہو گا۔
فروغ علم و امن تحریک منہاج القرآن کی پہچان ہے۔ اسی انفرادیت کے پیشِ نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام آئندہ 5 سال میں ملک بھر میں 25 ہزار مراکزِ علم کے قیام کا اعلان فرمایا ہے۔ یہ مراکزِ علم ابتدائی درس گاہ کے طور پر عامۃ الناس کو دین کی بنیادی تعلیم سے روشناس کروائیں گے۔ ان مراکزِ علم پر لوگوں کی اخلاقی و روحانی تربیت اور کردار سازی پر فوکس کیا جائے گا۔ معاشرے میں دم توڑتی ہوئی مذہبی اور معاشرتی اقدار و روایات کو زندہ کرنے اور حسنِ اخلاق و معاملات کو فروغ دینے کے لیے مراکزِ علم اہم کردار ادا کریں گے۔ ان مراکزِ علم کا مقصد علم کے کلچر کو پروان چڑھانا ہے۔۔۔ لوگوں کو اپنی اصل اور شریعت کے بنیادی مآخذ کے ساتھ جوڑنا ہے اور انھیں ایک اچھا انسان اور معاشرے کا مفید و باشعور فرد بنانا ہے۔
تحریک منہاج القرآن دروسِ قرآن، حلقاتِ درود و فکر، قرآن، حدیث، فقہ اور بنیادی اسلامی تعلیمات پر مبنی تربیتی کورسز، شبِ بیداری، فہمِ دین پراجیکٹ اور اس طرح کی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے عرصہ 41 سال سے معاشرے میں تعلیمی، فکری اور شعوری انقلاب کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ مراکزِ علم کا قیام بھی تحریک منہاج القرآن کے مذکورہ عظیم امور میں سے ایک عظیم منفرد منصوبہ ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن: حصولِ انصاف کے لیے ملک گیر احتجاج
سانحہ ماڈل ٹاون کی 8ویں برسی کے موقع پر پاکستان بھر میں پریس کلبز کے سامنے احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے منعقد ہوئے۔ جن میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں قیامت ڈھائی گئی جس کا 8 سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف نہیں ہوا۔ انصاف دور کی بات اس طویل عرصہ کے دوران شہدا ء کے ورثا کو غیر جانبدار تفتیش کا حق بھی نہیں ملا اور مظلوم آج بھی انصاف کیلئے دربد ر ہیں۔ زیرالتواء اپیلوں پر فیصلوں میں تاخیر کا فائدہ ملزمان اٹھا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینج نے 3 سال قبل سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی غیرجانبدار تفتیش کا فیصلہ کیا مگر لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ کے ایک ملزم نے جے آئی ٹی کو چیلنج کیا اور جے آئی ٹی معطل ہوگئی۔ جے آئی ٹی پر فوری فیصلے کے لئے شہداء کے ورثا نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ نے 13 فروری 2020ء کو لاہور ہائیکورٹ کو ڈائریکشن دی کہ جے آئی ٹی کے حوالے سے فیصلہ 3 ماہ میں ترجیحاً کردیا جائے۔ سپریم کورٹ کی اس ڈائریکشن کو بھی دوسال سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر فیصلہ نہیں ہوا اور ہر تاریخ پر ایک نئی تاریخ مل جاتی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کیس پر اپیلوں کے التواء کا فائدہ ملزمان کو پہنچ رہا ہے۔ غریب اور مظلوم انصاف کے لئے 8 سال سے عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہیدہ تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد نے اپنی والدہ کی 8 ویں برسی کے موقع پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام حصولِ انصاف کے لیے لکھے گئے ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا آپ اپنی والدہ کا تعلیم حاصل کرنے والا خواب پورا کریں انصاف آپ کو ہم دیں گے۔ ان کے اس دست شفقت سے میری انصاف ملنے کی امید قائم ہو گئی تھی اور میں نے ساری توجہ تعلیم پر مرکوز کر لی تھی۔ 17جون 2014ء کے دن میں 9 ویں جماعت کی طالبہ تھی اب میں نے گریجوایشن کر لی ہے مگر انصاف کا دور دور تک نشان نہیں ہے۔ میاں ثاقب نثار نے غیر جانبدار تفتیش کے لئے جو جے آئی ٹی بنوائی تھی، ماتحت عدالت میں وہ فیصلہ بھی ریورس ہو گیا اور تین سال سے سٹے آرڈر چل رہا ہے۔ کسی بھی ادارے کے سربراہ کی کمٹمنٹ پورے ادارے کی کمٹمنٹ ہوتی ہے۔ جس طرح کسی جج کا دیا ہوا فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا اُسی طرح کمٹمنٹس بھی تبدیل نہیں ہوتیں۔
جے آئی ٹی کے اہم کیس پر لاہور ہائیکورٹ میں تین سال سے سٹے آرڈر چل رہا ہے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ملزم ایک ایک کر کے بری ہو رہے ہیں۔ کیا اِسے انصاف کہتے ہیں؟۔ مظلوموں کی درخواستیں سماعت کے لئے بھی مقرر نہیں ہوتیں اور ملزموں کی درخواستوں پر فیصلے ہو رہے ہیں؟ انصاف ہم مانگ رہے ہیں مگر ریلیف ملزموں کو مل رہے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے شہداء کے لواحقین کی اپیل ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے ساتھ ہونے والے قانونی کھلواڑ کا نوٹس لیں اور مظلوموں کے زخموں پر انصاف کی صورت میں مرہم رکھیں۔