تجارتی نقطہ نظر سے ناپ تول میں کمی کرنے سے نہ صرف یہ کہ تاجر کا اعتماد و اعتبار (credibility) مجروح ہوتا ہے بلکہ اس گھناؤنے جرم کے سبب تجارت بذاتِ خود نفع کی بجائے نقصان اور خسارہ کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی نگاہ میں ناپ تول میں کمی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ اُممِ سابقہ میں سے بعض اُمتوں پر اسی گناہ کے سبب قہرِ الٰہی نازل ہوا تھا۔ آج بھی کچھ عاقبت نااندیش اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں۔ ذیل میں ناپ تول میں کمی کی کتاب وسنت سے مذمت اور اشیاء کے فطری اور صحت بخش معیار کو یقینی بنانے کے لئے کوالٹی کنٹرول (quality control) کے حوالے سے بحث کی جاتی ہے:
قرآن مجید میں ناپ تول میں کمی کی ممانعت
قرآن مجید میں متعدد مقامات پرپورا تولنے کی تاکید اور اس میں کمی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:
1۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں یہ بیماری عام تھی۔ قرآن نے اس عملِ شنیع کو فساد قرار دے کر تباہی کا سبب قرار دیا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے نزولِ عذاب سے قبل اپنی قوم کو اس عملِ قبیح سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلَا تَنقُصُواْ لْمِکْیَالَ وَلْمِیزَانَ إِنِّیٓ أَرَیٰکُم بِخَیْرٖ وَإِنِّیٓ أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٖ مُّحِیطٖ وَیَٰقَوْمِ أَوْفُواْ لْمِکْیَالَ وَلْمِیزَانَ بِلْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُواْ لنَّاسَ أَشْیَآئَهُمْ وَلَا تَعْثَوْاْ فِی لْأَرْضِ مُفْسِدِینَ.
(هود، 11: 84-85)
اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بے شک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہے۔ اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔
2۔ سورہ شعراء میں ناپ تول میں کمی کو فساد انگیزی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
أَوْفُواْ لْکَیْلَ وَلَا تَکُونُواْ مِنَ لْمُخْسِرِینَ. وَزِنُواْ بِلْقِسْطَاسِ لْمُسْتَقِیمِ. وَلَا تَبْخَسُواْ لنَّاسَ أَشْیَآئَهُمْ وَلَا تَعْثَوْاْ فِی لْأَرْضِ مُفْسِدِینَ.
(الشعراء، 26: 183۔181)
تم پیمانہ پورا بھرا کرو اور (لوگوں کے حقوق کو) نقصان پہنچانے والے نہ بنو۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو۔
3۔ قرآن مجید میں پورے ناپ تول کو عملِ خیر اور اُخروی فوزو فلاح کا سبب بتایا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَأَوْفُواْ لْکَیْلَ إِذَا کِلْتُمْ وَزِنُواْ بِلْقِسْطَاسِ لْمُسْتَقِیمِ ذَٰلِکَ خَیْر وَأَحْسَنُ تَأْوِیلا.
(الإسراء، 17: 35)
اور ناپ پورا رکھا کرو جب (بھی) تم (کوئی چیز) ناپو اور (جب تولنے لگو تو) سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ (دیانتداری) بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے (بھی) خوب تر ہے۔
4۔ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں ناپ تول میں کمی کے حوالے سے بعض لوگ مشہور تھے۔ علامہ ابو القاسم جار اللہ زمخشری لکھتے ہیں کہ ابو جُهَیْنہ نامی ایک شخص ناپ تول میں کمی کی وجہ سے پورے مدینہ منورہ میں مشہور تھا:
وَمَعَهُ صَاعَانِ یَکِیْلُ بِأَحَدِهِمَا وَیَکْتَالُ بِالْآخَرِ.
(زمخشری، التفسیر الکشاف، 1407، ج: 4، ص: 718)
اس کے پاس دو پیمانے تھے، ایک اپنے خریدنے کے لیے استعمال کرتا اور دوسرا لوگوں کو اپنی اشیاء فروخت کرنے کے لیے استعمال میں لاتا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ المطففین کی یہ آیات نازل فرمائیں جن میں ناپ تول اور میزان کو درست نہ رکھنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے پر ارشاد فرمایا:
وَیْل لِّلْمُطَفِّفِین لَّذِینَ إِذَا کْتَالُواْ عَلَی لنَّاسِ یَسْتَوْفُونَ وَإِذَا کَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ یُخْسِرُونَ.
(المطففین، 83: 1۔3)
بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے۔ یہ لوگ جب (دوسرے) لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو (ان سے) پورا لیتے ہیں۔ اور جب انہیں (خود)ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔
ان تمام آیاتِ مقدسہ سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام میں ناپ تول میں کمی کرنا نہایت برا اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔ یہ معاشرے میں فتنہ و فساد اور بربادی کا سبب ہے۔ اس سے نا صرف کاروباری ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ تاجروں کا اعتبار و استناد بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ گھناؤنا عمل عذابِ الہی کا باعث ہے اور اس میں ملوث لوگ کبھی حقیقی فوز و فلاح سے ہم کنار نہیں ہو سکتے۔
اَحادیث میں ناپ تول میں کمی اور بغیر ناپ تول دینے کی مذمت
ناپ تول میں کمی کرنا ایک ایسا عملِ قبیح ہے جو ہر عہد میں پایا گیا اور انبیاءfمسلسل اس سے منع کرتے رہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ تک تمام انبیاء اُلوہی ہدایات کے ذریعے لوگوں کو اس سے باز رہنے کی تلقین فرماتے رہے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں بھی ناپ تول میں کمی اور بغیر ناپ تول دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند احادیث درج کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم ﷺ نے تاجروں کو ناپ تول میں کمی کے عذاب اور انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
إِنَّکُمْ قَدْ وُلِّیتُمْ أَمْرَیْنِ هَلَکَتْ فِیهِ الْأُمَمُ السَّالِفَةُ قَبْلَکُمْ.
(ترمذی، السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء فی المکیال والمیزان، ج: 3، ص: 521، رقم: 1217)
تم ایسے دو کاموں (ناپ تول) کے نگران بنائے گئے ہو جن میں تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے۔
2۔ ناپ تول کے حوالے سے اسلام میں اس حد تک احتیاط کی گئی ہے کہ جس ڈھیر کی پیمائش یا وزن نہ کیا گیا ہو، اسے بیچنے سے منع کر دیا گیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نَهَی رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ بَیْعِ الصُّبْرَةِ مِنَ التَّمْرِ لَا یُعْلَمُ مَکِیلَتُهَا بِالْکَیْلِ الْمُسَمَّی مِنَ التَّمْرِ.
(مسلم، الصحیح، کتاب البیوع، باب تحریم بیع صبرة التمر المجهولة القدر بتمر، ج: 3، ص: 1162، رقم: 1530)
کھجوروں کے جس ڈھیر کی پیمائش معروف طریقے سے معلوم نہ ہو، اس کو معین کھجوروں کے عوض بیچنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے مال کو آگے فروخت کرنے سے قبل اس کو ماپنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا یَبِعْهُ حَتَّی یَکْتَالَهُ.
(مسلم، الصحیح، کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج: 3، ص: 1160، رقم: 1525)
جو شخص اناج خریدے تو وہ اس کو ناپنے سے پہلے فروخت نہ کرے۔
ان روایات سے ثابت ہوا کہ ناپ تول کے بغیر مال آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ اس سے طرفین میں سے کسی ایک کو نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے۔ لہذا فرمان رسول ﷺ لا ضرر ولا ضرار (ابن ماجہ، السنن، کتاب الأحکام، باب من بنی فی حقہ ما یضر بجارہ، ج: 2، ص: 784، رقم: 2340) کے تحت یہ درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ ابو الحسن مرغینانی511ھ۔593ھ) حنفی لکھتے ہیں:
بخلاف بیعه بجنسه مجازفة لما فیه من احتمال الربا.
(مرغینانی، أبو الحسن برهان الدین الفرغانی، الهدایة فی شرح بدایة المبتدی، ج: 3، ص: 82)
ایک جنس کی چیزوں کی بیع مجازفہ (ناپ تول کے بغیر تجارت اور خرید و فروخت کرنا مجازفہ کہلاتا ہے) جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں ربا کا احتمال ہوتا ہے (البتہ مختلف الاجناس چیزوں کی بیع مجازفۃ جائز ہے)۔)۔
ناپ تول کر فروخت کرنے میں برکت
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کِیلُوا طَعَامَکُمْ یُبَارَکْ لَکُمْ فِیهِ.
(ابن ماجه، السنن، ابواب التجارة، بَاب مَا یُرْجَی فِی کَیْلِ الطَّعَامِ، ج: 2، ص: 750)
غلہ ناپ کر بیچو، اس میں تمہارے لیے برکت ہو گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص نے گندم یا کھجور کا کوئی ڈھیر بیس من سمجھ کر سودا کیا اور پھر اسے تولے بغیر ہی بیس من ہی سمجھ کر آگے فروخت کر دیا تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟ یعنی شرعی حوالے سے اس میں کون سی قباحت ہے کہ اس ڈھیر کو ماپ تول کیے بغیر آگے فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے؟
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کسی نے آپ سے دھوکہ کیا ہو اور وہ ڈھیر بیس من نہ ہو۔ایسی صورت میں شریعت آپ سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ آپ اس دھوکے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو اپنے تک ہی محدودرکھیں اور اسے مزید آگے منتقل کرکے متعدی نہ کریں۔
ناپ تول میں کم کی بجائے کچھ زیادہ دینے کی ترغیب
اسلام ناپ تول میں عدل و قسط سے آگے بڑھ کر احسان کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ ایک دن بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا جوپیشہ ور تولاوا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
زِنْ وَ أَرْجِح.
(ترمذی، السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء فی الرجحان فی الوزن، ج: 3، ص: 598، رقم: 1305)
تول، اور جھکتا ہوا تول۔
دوسرے مقام پر اسی بات کو یوں فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
(ابن ماجه، السنن، کتاب البیوع، باب الرجحان فی الوزنِ، ج: 2، ص: 748، رقم: 2222)
جب تم وزن کرو تو زیادہ کرو۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ کسی غلہ یا جنس کے ڈھیر کا وزن یا پیمائش کیے بغیر سودا کرنا منع ہے۔ معاملہ طے کرنے سے قبل تول کر لینے والی چیز کو تولا جائے اور ماپنے کی چیز کا ماپ کر سودا کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کے نزاع (dispute) کا قبل از وقت انسداد ہوسکے۔ قرآن مجید میں اسی ماپنے کو شخصی استناد و اعتبار (personal credibility) کے طور پر یوں بیان کیا گیا ہے:
قَالَ ئْتُونِی بِأَخٖ لَّکُم مِّنْ أَبِیکُمْ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّیٓ أُوفِی لْکَیْلَ.
(یوسف، 12: 59)
فرمایا: اپنے پدری بھائی (بنیامین) کو میرے پاس لے آؤ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں (کس قدر) پورا ناپتا ہوں۔
اس آیت مقدسہ میں پوری پیمائش کو امانت و دیانت کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ اس سے ایک انسان کی ساکھ اور اعتماد بحال رہتا ہے اور کارو بارِ حیات میں کسی قسم کی بد گمانی پیدا نہیں ہوتی۔
کوالٹی کنٹرول کے لیے حکومت کی نگرانی
اگر عالمی اور مقامی سطح پر اموالِ تجارت کا حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق کوالٹی کنٹرول نہ کیا جائے تو کبھی صحت کے مسائل سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکتا۔ جب عوام الناس کو معیاری اشائے خورد و نوش ہی میسر نہیں ہوں گی تو صحت مند معاشرہ کیسے تشکیل پائے گا۔ مصنوعات پر کوالٹی کنٹرول کے ذریعے ہی ان مسائل سے نمٹا جا سکتا۔ اس سلسلہ میں ذیل میں چند تعلیماتِ اسلام ذکر کی جارہی ہیں:
1۔ اشیائے خورد و نوش کے معیار کی نگرانی
حضور نبی اکرم ﷺ اشیاء خورد و نوش کے معیار کی نگرانی کے لیے بنفسِ نفیس بازار میں تشریف لے جاتے اور تجارتی سرگرمیوں کی نگرانی فرماتے تھے۔ ایک دن جب آپ ﷺ مدینہ منورہ کے ایک بازار میں گئے تو وہاں ایک دوکان دار کو اَناج کے ڈھیر کے نچلے حصہ میں گیلا اناج بیچتے ہوئے دیکھا۔ آپ ﷺ نے اناج میں پانی کو ملاوٹ قرار دیا اور اسے خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی.
(مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب قول النبی ﷺ من غشنا فلیس منا، ج: 1، ص: 99، رقم: 102)
جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے منڈیوں اور بازاروں میں معیاری اشیاء کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے حضرت عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو باقاعدہ ایک محتسب متعین کر رکھا تھا جو مال کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے بازار کا گشت کرتے۔
(هندی، کنز العمال، ج: 5، ص: 325، الرقم: 14467)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات ان امور کی نگرانی خود انجام دیتے تھے۔ ایک بار اسی طرح بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک شخص کا پانی ملا دودھ دیکھ کر اس دودھ کو بہا دیا۔
(هندی، کنز العمال، ج: 5، ص: 325، الرقم: 14467)
2۔ احکامِ تجارت سے نابلد تاجروں کے خلاف کار روائی
اسلام تاجروں کو اس امر کا پابند کرتا ہے کہ وہ کاروبارِ تجارت کو بہ حسن و خوبی سر انجام دینے کے لیے احکامِ تجارت کو سیکھیں تاکہ کوئی معاملہ شریعت و قانون کے خلاف نہ ہو۔
علامہ ابن الحاج (م737ھ) المدخل میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس دوکاندار کو درّے سے مارتے جو بازار میں تو (تجارتی معاملات کے لیے) بیٹھتا مگر احکامِ تجارت نہ جانتا ہوتا۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے: وہ شخص ہمارے بازاروں میں نہ بیٹھا کرے جو سود کے مسائل نہیں جانتا۔
(ابن الحاج المالکی، المدخل، ج: 1، ص: 157)
علامہ ابن الحاج بازاروں میں باقاعدہ محتسب کا تقرر اور اس کی کڑی نگرانی کے حوالے سے مزید نقل کرتے ہیں کہ
محتسب بازاروں کے دورے کرتا اور ہر ایک دوکان میں جا کر دوکان دار سے وہ مسائل دریافت کرتا جن کا معلوم ہونا اپنا مالِ تجارت بیچنے کے لیے لازمی تھا۔ مثلاً خرید و فروخت میں سود کہاں کہاں سے داخل ہوتا ہے اور اس سے کیسے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے؟ اگر دوکان دار سوالات کے جوابات درست دے دیتا تو اسے دوکان میں بیٹھنے دیتا اور اگر وہ ان کے صحیح جواب نہ دے پاتا تو محتسب اس کو دوکان سے اٹھا دیتا۔
(ابن الحاج، ابو عبداللہ محمد بن محمد مالکی، المدخل، ج: 1، ص: 157)
علامہ شیخ عبدالحیی الکتانی تنبیہ المغترین کے حوالے سے امام مالک کا عمل نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت امام مالکؒ امراء کو حکم دیتے اور وہ تاجروں اور دوکان داروں کو اکٹھا کر کے آپ کے سامنے پیش کرتے۔ جب آپ ان میں سے کسی ایک کو تجارتی معاملات سے ناواقف پاتے تو اسے بازار سے اٹھا دیتے اور اس سے ارشاد فرماتے کہ پہلے خرید و فروخت کے احکام کا علم حاصل کرو، پھر بازار میں بیٹھنا۔
(الکتانی، نظام الحکومة النبویة المسمی التراتیب الاداریة، 2001ء، ج: 2، ص: 17)
شیخ الکتانی امام مالک کے حوالے سے مزیدلکھتے ہیں:
حضرت امام مالک اُس وقت تک کسی شے کے بارے میں تاجروں کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے جب تک وہ خرید و فروخت کے احکام سے متعلق علم نہ حاصل کر لیتے۔ (ایضاً)
شیخ الکتانی پہلے وقتوں کے تاجروں کی عقود و معاملات میں انتہا درجے کی حزم و احتیاط کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
پرانے زمانے کے تاجر جب تجارتی سفر پر نکلتے تو اپنے ساتھ ایک فقیہ کو چلنے کی بھی درخواست کرتے اور اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کرتے۔ (ایضاً)
3۔ دوکان کے لیے مناسب محلِ وقوع کا التزام
ریاستی اتھارٹی بازار کے معاملات کو اس حد تک عمیق بینی سے دیکھتی کہ اگر کوئی شخص ایسی جگہ پر دوکان بناتا جو سامان کی نوعیت یا صارفین کی نقل و حرکت کے اعتبار سے مناسب مقام پر نہ ہوتی تو اسے گرا دیا جاتا۔ امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں:
دَخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ السُّوْقَ وَهُوَ رَاکِبٌ فَرَأَی دُکَّانًا قَدْ أُحْدِثَ فِی السُّوْقِ فَکَسَرَهُ.
(ابن ابی شیبة، المصنف، ج: 4، ص: 488، رقم: 22400)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بازار میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ رضی اللہ عنہ (کسی جانور پر) سوار تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے ایک دوکان دیکھی جو بازار میں (غلط جگہ پر) نئی بنائی گئی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے منہدم کرا دیا۔
ابن سعد الہذلی روایت کرتے ہیں کہ:
میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو تاجروں کو اپنے درّے کیساتھ مارتے ہوئے دیکھا جب وہ بازار میں کسی کھانے پر جمع ہوئے تھے یہاں تک کہ وہ قبیلہ اسلم کی گلیوں میں داخل ہو گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ اس موقع پر فرما رہے تھے: ہمارے گزرنے والوں پر راستے بند نہ کرو۔
(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ج: 3، ص: 131)
ان تمام تفصیلات سے ثابت ہوا کہ اشیاء خورد و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کے معیار وغیرہ کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ عام صارفین کو تاجروں، سوداگروں اور دوکانداروں کی دھوکہ دہی سے محفوظ رکھا جا سکے۔
خلاصۂ کلام
1۔ تجارتی نقطہ نظر سے ناپ تول میں کمی سے نہ صرف تاجر کا اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ تجارت بذات خود نفع کی بجائے خسارہ کا سبب بن جاتی ہے۔ قرآن مجید نے نہ صرف متعدد مقامات پر ناپ تول میں کمی کرنے سے خبردارکیا ہے بلکہ اس عملِ شنیع کو فساد قرار دے کر تباہی اور عذابِ الہٰی کا سبب بھی قرار دیا ہے۔ ناپ تول میں کمی کا یہ عملِ قبیح ہر عہد میں پایا گیا اور حضرت شعیب علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ تک تمام انبیاء اس سے منع فرماتے رہے ہیں۔
اُمورِ تجارت میں طرفین کو نقصان سے بچانے کے لیے جس مال ِتجارت کی پیمائش، گنتی یا وزن نہ کیا گیا ہو اسے بیچنے سے منع کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں شریعت ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اگر کسی تاجر کے دھوکے کے نتیجے میں ہم تک کوئی چیز کم آجائے تو اس نقصان کو اپنے تک ہی محدودرکھیں، اسے مزید آگے منتقل کرکے متعدی نہ کریں۔
تاجروں کا شرعی حوالے سے معاملاتِ تجارت سے آگہی لازمی ہے۔ عہدِ فاروقی میں معاملاتِ تجارت سے نابلد تجار کو بازار میں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے منڈیوں اور بازاروں میں معیاری اشیاء کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدہ ایک محتسب متعین کر رکھا تھا جو مال کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے بازار کا گشت کرتا۔
مصنوعات پر کوالٹی کنٹرول کے چیک کے بغیر معیاری اشیاء کی دستیابی مشکل ہو جاتی ہے جس سے حفظانِ صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اشیاء خورد و نوش اور دیگر اشیاء کے معیار اور وزن کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ عام صارفین کو تاجروں کی دھوکہ دہی سے محفوظ رکھا جا سکے۔