16 شوال المکرم بتاریخ 18 مئی 2022ء بروز بدھ یکتائے روزگار، محسنِ امت، حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کا سالانہ عرس مبارک نہایت ادب و احترام اور تزک و احتشام کے ساتھ منعقد کیا گیا۔ اس سال عرس مبارک کی خاص بات ویڈیو لنک کے ذریعے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خصوصی شرکت اور خطاب تھا جس نے ایک عجیب روحانی اور وجدانی سماں پیدا کردیا۔ شیخ الاسلام نے کمال شفقت و محبت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے ایک میزبان کی حیثیت سے تمام مرکزی قائدین تحریک منہاج القرآن اور مختلف شہروں سے تشریف لائے ہوئے وابستگانِ تحریک منہاج القرآن اور عقیدتمندانِ حضرت فرید ملتؒ، عالمی شہرت یافتہ قراء، نقباء، نعت خوانان حضرات، مشائخ عظام، مذہبی سکالرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی مقتدر و معتمد شخصیات کو نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ مشن کے لیے ان کی عظیم خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کوئی بزرگ عالی مرتبت شخصیت اپنے فیملی ممبران پر کرم نوازیوں اور نوازشات کے خزانے لٹارہی ہو، سب کے خالی دامان کو عنایات کے موتیوں سے بھر رہی ہو، سب کو مسرور و شادماں کررہی ہو اور عجیب روحانی کیفیات سے سرشار کررہی ہو۔
عرس مبارک کی آخری نشست محفل ذکرو نعت اور خصوصی خطاب میں ہزاروں خواتین و حضرات نے خصوصی شرکت کی۔
عرس مبارک کی تقریبات میں ملک بھر کے مختلف شہروں سے سیکڑوں کی تعداد میں زائرین اور عشاقانِ فرید ملتؒ نے شرکت کی اور فیوض و برکات سے اپنے دامن بھر بھر کر واپس گئے۔ عالمی شہرت یافتہ قراء قاری نور محمد چشتی اور قاری محمد رفیق نقشبندی نے آیات ربانی کانور بکھیرا۔ صفدر علی محسن اور تسلیم احمد صابری نے اپنے خوبصورت کلام سے حاضرین اور پوری دنیا میں منہاج ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے دیکھنے اور سننے والوں کو خوب مسرور کیا۔ ان احباب کو شیخ الاسلام نے بھی خوب سراہا اور داد شفقت و محبت سے نوازا۔ منہاج نعت کونسل، شہزاد برادران، الحاج محمد افضل نوشاہی اور شہباز قمر فریدی نے اپنے مخصوص انداز میں بارگاہ سرور کونینa میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خصوصی خطاب میں ابتدائی طور پر ولی اور ولایت کے مفہوم کو بڑے مدبرانہ انداز میں واضح کیا اور پھر حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی حیاتِ طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس طرح عیاں فرمایا کہ جیسے کوئی جوہری ہیرے کو تراش کر عوام الناس کے سامنے اس طرح لاتا ہے کہ وہ اس کے حسن و زیبائی کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں ، اس لیے کہ وہ حسن و خوبی اس کے سامنے اس طرح پہلے ظاہر نہیں ہوتی۔ فریدِ ملتؒ کی زندگی کے بہت سے گوشے عوام الناس کی نظروں سے اوجھل ہیں اور انھیں شیخ الاسلام سے زیادہ کون دیکھ، جان اور سمجھ سکتا ہے۔ شیخ الاسلام نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
حضرت فریدِ ملتؒ ایک ولی کامل تھے یہی وجہ ہے کہ ولایت کی وہ خوبیاں جن سے ولایت کو نکھارملتا ہے آپ کی زندگی میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ سے باہمی دوستی، محافظت و معاونت جو ولایت کے حقیقی مدارج ہیں، آپ کی زندگی میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ولایت و تصوف کا سارا دارو مدار اخلاقِ حسنہ پر ہے اور یہ پہلوا ٓپ کی زندگی میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ آپ کی زبان کی طہارت کا عالم یہ تھا کہ آپ کی مجلس میں بھی کوئی کذب گوئی، چغلی اور دوسروں کی عیب جوئی کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ دوسروں کی عزت نفس کا حیاء کمال درجہ کا تھا۔ سیرت و کردار کی پاکیزگی، قول و فعل کی مطابقت اور حسنِ گویائی کا یہ عالم تھا کہ ایک ملاقات کے بعد ہر کوئی دوبارہ ملاقات کا متمنی نظر آتا تھا۔ بڑے بڑے اکابر علماء کرام اور پیران عظام آپ کے ہم مجلس ہونا اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھتے تھے اور جھنگ میں اپنی آمد کو فرید ملتؒ کی صحبت و سنگت کے ساتھ مشروط رکھتے تھے۔
آپ کے ہم عصر جید علماء کرام علامہ احمد سعید کاظمیؒ (غزالی دوراں)، علامہ فیض الحسن شاہؒ (آلو مہار شریف)، علامہ عبدالغفور ہزارویؒ، علامہ مولانا محمد عمر اچھرویؒ، مولانا عبدالستار نیازیؒ، مولانا عبدالرشید رضویؒ آپ کی سنگت و معیت میں وقت گزارنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھا کرتے تھے۔
- آپؒ کی شخصیت کا ایک اور گوشہ جو بہت نمایاں تھا وہ یہ کہ آپ کسی بھی پیر یا عالم کے بارے میں تنقیص و تنقید پسند نہیں فرماتے تھے۔ صفائے قلب و باطن کا عالم یہ تھا کہ طبیعت میں کبرو نخوت بالکل نہ تھی بلکہ عاجزی و انکساری کا عملی نمونہ تھے۔ انسان دوستی، خیر خواہی، صلہ رحمی اور جودو سخا آپ کی شخصیت کا خاصہ تھے۔ اسی لیے کثرت صدقہ و خیرات کا معمول آخری حصۂ عمر تک جاری رہا۔ حصولِ تعلیم و تربیت کے لیے نہایت محنت و مشقت کرتے۔ ریاضت و مجاہدہ میں حضور غوث پاکؓ کی سنت پر عمل پیرا دکھائی دیتے۔
- حرمین شریفین، شام، عراق، مصر اور ترکی کے اسفار میں جید علماء و مشائخ سے اکتسابِ علم کیا۔ فرنگی محل لکھنو جیسی عظیم درسگاہوں سے دینی و عصری علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ لکھنوفرنگی محل، حیدر آباد دکن اور دہلی میں قیام کے دوران حصولِ پاکستان کی تحریک میں بڑا فعال کردار اداکیا اور اس سلسلہ میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ سے بھی ملاقات رہی اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے ساتھ مل کر اس جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ حصولِ پاکستان کی عظیم تحریک کے سلسلہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
- یقین و توکل، صبر و رضا، شکر گزاری، غناء، تسلیم و رضا، عبادت گزار، شب زندہ دار، تہجد گزار، عشقِ الہٰی میں گریہ و زاری اور پھر روتے روتے ہچکی کا بندھ جانا، یہ تمام امور آپ کے روحانی احوال کے آئینہ دار ہیں۔ آپ کو حضور غوث پاکؓ، حضور ابراہیم سیف الدین القادری الگیلانیؒ، حضور سلطان العافین سلطان باہوؒ، بابا فریدالدین گنج شکرؒ، داتا علی ہجویریؒ کے علاوہ حضرت بایزید بسطامیؒ، مولانا رومؒ اور امام بوصیریؒ سے خصوصی روحانی نسبتیں تھیں۔ قصیدہ بردہ شریف آپ کے روزانہ کے معمولات کا حصہ تھا۔ عشقِ رسولa اور نسبتِ محمدی میں پختگی کے حامل اور فنا فی الرسول اور فنا فی الشیخ کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ شوق لقاء اللہ میں آنسوئوں کے دریا بہادینا بھی آپ کا خاصہ تھا۔ کشف و کرامات کا ظہور بہت کم تھا مگر استقامت میں درجۂ کمال پر فائز تھے۔ وقت کے قطب، ابدال اور حضرت خضرؑ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل رہا اور اکتسابِ فیض کیا۔
محترم قارئین! حضرت فریدِ ملتؒ کی ساری زندگی کا فوکس اور مقصد فقط شیخ الاسلام کی بہترین تعلیم و تربیت کا سامان کرنا تھا۔ یہ فریضہ آپ نے بحسن و خوبی نبھایا۔ آج شیخ الاسلام کی شخصیت میں جو نکھار نظر آتا ہے، یہ سب حضرت فرید ملتؒ کے مرہون منت ہے۔ آپؒ کی ساری نیکیاں اور کمالات ایک طرف بھی رکھ دیں تو پھر بھی شیخ الاسلام کی صورت میں آپ کا احسان دنیا جہاں پر بھاری نظر آتا ہے۔ شیخ الاسلام کی صورت میں نایاب تحفہ بھی حضرت فرید ملتؒ کی بارگاہ کی عطا ہے۔
عرس مبارک کی تقریب میں منہاج انسٹی ٹیوٹ آف قرأت اینڈ تحفیظ القرآن کے 54 حفاظ و حافظات کو اسناد حفظ القرآن سے نوازا گیا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام بہت زیادہ خوش ہوئے اور راقم سمیت جملہ منتظمین کو ڈھیروں دعائیں عطا فرمائیں۔ درودو سلام اور خصوصی دعا کے ساتھ عرس مبارک کی آخری نشست کا اختتام فجر کی اذان کے وقت ہوا۔ تمام حاضرین میخانہ فرید ملتؒ سے عشق الہٰی، عشقِ رسولa اورمحبتِ اولیاء بالخصوص عشقِ غوثیت مآبؓ کے جام پی کر اور اُن کے فیضان سے اپنے دامان کو بھر کر اپنی منزل کی طرف واپس لوٹ گئے اور یہ یادگار لمحات اپنی یادیں دل و دماغ پر ثبت کرتے ہوئے اختتام پذیر ہوئے۔