حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ پانچویں پشت میں عبد مناف پر حضور نبی اکرم ﷺ سے مل جاتا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی بیضاء ام الحکیم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی تھیں اس لیے وہ ماں کی طرف سے حضرت سرور کائنات ﷺ کے قریشی رشتہ دار ہیں۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ عام الفیل کے چھ برس بعد پیدا ہوئے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عمر کا چونیتسواں سال تھا کہ مکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنی رسالت کا اعلان فرمادیا۔ ایک روز وہ حسبِ معمول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے، ابھی دونوں جانے کا خیال ہی کررہے تھے کہ خود سرور کائنات ﷺ تشریف لے آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا: ’’عثمان رضی اللہ عنہ ! خدا کی جنت قبول کر‘‘ میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ زبانِ نبوت کے ان سادہ جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور آپ ﷺ کے دستِ مبارک میں ہاتھ دے کر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ (الاصابہ ج: 8، ص: 151)
آپ رضی اللہ عنہ نے نہایت آزادی کے ساتھ اپنے خاندان کے خلاف اس زمانہ میں حق کی آواز پر لبیک کہا، جبکہ اس وقت صرف پینتیس یا چھتیس خواتین و حضرات اس شرف سے مشرف ہوئے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپ کو پکڑ کر ایک کمرے میں بند کردیا اور کہا کہ تم نے آبائی مذہب ترک کرکے ایک نیا مذہب اختیار کرلیا ہے، جب تک تم اس نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے، میں تمہیں آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چچا! خدا کی قسم میں مذہبِ اسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا اور اس دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ (ایضاً)
آپ کی شادی قبل از اعلانِ نبوت، رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی، جن کا غزوہ بدر کے موقع پر انتقال ہوگیا اور ان کی تیمار داری کے باعث آپ غزوہ میں شرکت نہیں فرماسکے تھے کیونکہ آپ سے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کرو، مگر رسول اللہ ﷺ نے چونکہ آپ کو بدر کے مالِ غنیمت سے حصہ عطا فرمایا تھا، اس لیے آپ کا شمار اہلِ بدر میں کیا جاتا ہے۔ جس وقت مدینہ میں قاصد جنگِ بدر کی فتح کی خوشخبری لے کر داخل ہوا تھا، اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کیاجارہا تھا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ کی شادی حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی دوسری بہن حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے فرمادی۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال مدینہ منورہ میں نوہجری میں ہوا۔
سوائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اور کسی شخص کو یہ فخر حاصل نہیں ہے کہ یکے بعد دیگرے کسی نبی کی دو بیٹیاں عقد میں آئی ہوں، اسی مناسبت سے آپ کا لقب ذوالنورین تھا۔ آپ اول مہاجرین اور عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں۔
عہدِ خلافت
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اہل شوریٰ کی مشاورت سے بالآخر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کا فیصلہ سنایا گیا۔ تمام احباب نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو اتفاق رائے سے منظورکرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے حمدو ثناء اور صلوۃ و سلام کے بعد یوں خطبہ دیا:
’’تم قلعہ بند گھر میں (اپنے آپ کو سمجھتے) ہو اور عمر کے بقیہ حصے میں ہو، اس لئے تم اپنی (باقی ماندہ) زندگی میں بہت جلد نیک کام سرانجام دو اور جو نیک کام تم کرسکتے ہو اس سے دریغ نہ کرو۔ کیونکہ تمہیں صبح یا شام کوچ کرنا ہوگا۔ آگاہ ہوجائو کہ دنیا مکرو فریب میں لپٹی ہوئی ہے، اس لئے تمہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا نہ کردے۔ تم گزری ہوئی باتوں سے عبرت حاصل کرو اور سرگرمی کے ساتھ (نیک) کام کرو اور غافل نہ رہو کیونکہ وہ (خدا) تم سے غافل نہیں ہے۔
وہ دنیا دار اور ان کے فرزند کہاں ہیں جنہوں نے دنیا میں عمارتیں تعمیر کیں اور عرصہ دراز تک دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کیا دنیا نے انہیں چھوڑا ہے؟ تم بھی دنیا کو وہیں پھینک دو، جہاں اللہ تعالیٰ نے اسے پھینکا ہوا ہے، (اس کے بجائے) آخرت کے طلبگار رہو۔ کیونکہ اللہ نے دنیا کی کیا ہی اچھی مثال دی ہے اور فرمایا: وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنَاهٗ مِنَ السَّمَآءِ. ’’اے پیغمبر ﷺ تم انہیں دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو کہ وہ پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا‘‘۔ (طبری، التاریخ الامم والملوک، 2: 275)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نظامِ حکومت کو چلانے کے لیے درج ذیل اقدامات فرمائے:
1۔ مجلسِ شوریٰ کی تشکیل
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس شوریٰ ترتیب دی تھی۔ اس مجلس کے ارکان سے عموماً تحریری آراء طلب کی جاتی تھیں۔ کوفہ میں پہلے پہل جب فتنہ و فساد کی ابتداء ہوئی تو اس کی بیخ کنی کے متعلق تحریر ہی کے ذریعہ سے آراء طلب کی گئی تھیں۔ کبھی کبھی دارالخلافہ میں باقاعدہ اجلاس بھی ہوتے تھے۔ چنانچہ 34ھ میں اصلاحاتِ ملک پر غور کرنے کے لئے جو اجلاس ہوا تھا اس میں تمام اصحاب الرائے اور اکثر عمال و حکام شریک تھے۔ (ابن اثیر، 3: 117)
جب کبھی آپ رضی اللہ عنہ کو کسی معاملہ کی طرف توجہ دلائی جاتی تو آپ فوراً اس کے تدارک کی سعی ضرور کرتے۔ نیک مشوروں کو قبول کرنے میں تامل نہ فرماتے۔
2۔ حکام کی نگرانی
خلیفہ وقت کا سب سے اہم فریضہ حکام اور عمال کی نگرانی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اگرچہ طبعاً نہایت نرم تھے، بات بات پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ذاتی حیثیت سے تحمل، بردباری اور چشم پوشی آپ کا شیوہ تھا، لیکن ملکی معاملات میں انہوں نے احتساب اور نکتہ چینی کو اپنا طرز عمل بنایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے ایک بیش قدر رقم ادھار لی جس کو ادا نہ کرسکے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سختی سے بازپرس کی اور معزول کردیا۔۔۔ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے بادہ نوشی کی، انہیں معزول کرکے اعلانیہ حد جاری کی۔۔۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیرانہ زندگی اختیار کی تو انہیں بھی عہدہ سے سبکدوش کردیا۔۔۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مصر کے خراج میں اضافہ نہ کرسکے تو ان کو علیحدہ کردیا۔
نگرانی کا عام طریقہ یہ تھا کہ دریافت< حال کے لئے دربارِ خلافت سے تحقیقاتی وفود روانہ کئے جاتے تھے جو تمام ممالک کا دورہ کرکے عمال کے طرزِ عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے۔ ملکی حالات سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے آپ کا یہ معمول تھا کہ جمعہ کے دن منبر پر تشریف لاتے تو خطبہ شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے اطراف ملک کی خبریں پوچھتے اور ان کی بات نہایت غور سے سنتے۔ آپ کی طرف سے اعلان عام تھا کہ جس کسی کو کسی والی سے شکایت ہو وہ حج کے موقع پر بیان کرے۔ اس موقع پر تمام عمال لازمی طور پر طلب کئے جاتے تھے، اس لئے بالمشافہ شکایتوں کی تحقیقات کرکے تدارک فرماتے۔
3۔ ملکی نظم و نسق
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ملکی نظم و نسق کا جو دستور العمل مرتب کیا تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو بعینہ باقی رکھا اور مختلف شعبوں کے جس قدر محکمے قائم ہوچکے تھے، ان کو منظم کرکے ترقی دی۔ یہ اسی نظم و نسق کا اثر تھا کہ ملکی محاصل میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ حضرت عمر کے عہد میں مصر کا خراج 20 لاکھ دینار تھا لیکن عہد عثمانی میں اس کی مقدار 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔ (فتوح البلدان، بلاذری، ص: 223)
ملکی انتظام اور رعایا کی آسائش دونوں لحاظ سے اس امر کی ضرورت تھی کہ دارالخلافہ کے تمام راستوں کو سہل اور آرام دہ بنایا جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے راستہ میں موقع بموقع چوکیاں، سرائیں اور چشمے بنوائے۔ نجد کی راہ میں مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلہ پر ایک نہایت نفیس سرائے تعمیر کی گئی، اس کے ساتھ ساتھ ایک مختصر بازار بھی بسایا گیا، نیز شیریں پانی کا ایک کنواں بنایا گیا جو بیئرالسائب کے نام سے مشہور ہے۔ (ایضاً، ج: 2، ص: 217)
خیبر کی سمت سے کبھی کبھی مدینہ میں نہایت ہی خطرناک سیلاب آیا کرتا تھا جس سے شہر کی آبادی اور مسجد نبوی ﷺ کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا تھا۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے تھوڑے فاصلہ پر مدری کے قریب ایک بند بندھوایا اور نہر کھدوا کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔ اس بند کا نام بند مہزور ہے۔ رفاہِ عامہ کی تعمیرات میں یہ خلیفہ ثالث کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ (خلاصۃ الوفاء: 124)
4۔ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر و توسیع
مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر میں حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا کردار نمایاں ہے۔ عہد نبوی ﷺ میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تھی تو اس کی توسیع کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہ< نبوت میں پیش کیا تھا۔ بعد ازاں اپنے عہد میں بڑے اہتمام سے اس کی وسیع اور شاندار عمارت تعمیر کرائی۔ سب سے اول 24ھ میں اس کا ارادہ کیا لیکن مسجد کے گرد و پیش میں لوگوں کے مکانات تھے، وہ کافی معاوضہ دینے پر بھی مسجد نبوی ﷺ کی قربت کے شرف سے دست کش ہونے کے لیے راضی نہ ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو راضی کرنے کے لیے مختلف تدبیریں کیں لیکن وہ کسی طرح راضی نہیں ہوئے، یہاں تک کہ پانچ سال اس کشمکش میں گزر گئے، بالآخر 2۹ ھ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز ایک نہایت ہی مؤثر تقریر فرمائی اور نمازیوں کی کثرت اورمسجد کی تنگی کی طرف توجہ دلائی۔ اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے خوشی سے اپنے مکانات دے دیئے اور آپ نے نہایت اہتمام کے ساتھ تعمیر کا کام شروع کیا۔ نگرانی کے لیے تمام عمال طلب کیے اور آپ رضی اللہ عنہ خود بھی شب و روز مصروف کار رہتے تھے۔ دس مہینوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد اینٹ، چونا اور پتھر کی ایک نہایت خوشنما اور مستحکم عمارت تیار ہوگئی، وسعت میں بھی کافی اضافہ ہوگیا۔ طول میں پچاس گز کا اضافہ ہوا، البتہ عرض میں کوئی تغیر نہیں کیا گیا۔ (ایضاً، ص: 124)
5۔ فوجی انتظامات اور فتوحات
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں شام، مصر اور ایران کو فتح کرلیا تھا، نیز ملکی نظم و نسق اور طریقۂ حکمرانی کا ایک مستقل دستور العمل بنادیا تھا۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے میدان صاف تھا، انہوں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی نرمی و ملاطفت اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سیاست کو اپنا شعار بنایا اور ایک سال تک قدیم طریق نظم و نسق میں کسی قسم کا تغیر نہیں کیا۔ البتہ خلیفۂ سابق کی وصیت کے مطابق حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی جگہ کوفہ کا والی بناکر بھیجا۔ یہ پہلی تقرری تھی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے عمل میں آئی۔ (ابن اثیر، 3: 61)
عہد عثمانی رضی اللہ عنہ میں فتوحات کا سلسلہ نہایت وسیع ہوا۔ افریقہ میں طرابلس، الجزائز، رقہ، مراکش، سپین 27 ہجری میں مفتوح ہوئے۔۔۔ ایران کی فتح تکمیل کوپہنچی۔۔۔ ایران کے متصلہ ملکوں میں افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیر نگین ہوا۔۔۔ دوسری سمت 31 ہجری میں آرمینیہ اور آذربائیجان کی فتح کے بعد اسلامی سرحد کوہ قاف تک پھیل گئی۔۔۔ اسی طرح ایشیائے کوچک کا ایک وسیع خطہ فتح ہوا۔
بحری فتوحات کا آغاز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی احتیاط نے مسلمانوں کو سمندری خطرات میں ڈالنا پسند نہ کیا۔ ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی نے خطرات سے بے پرواہ ہوکر ایک عظیم الشان بیڑا تیار کرکے جزیرہ قبرص (سائپرس) پر 28 ہجری میں اسلامی علَم بلند کیا۔۔۔ اور بحری جنگ میں 31 ھ میں قیصر روم کے بیڑے کو جس میں پانچ سو جنگی جہاز شامل تھے، ایسی شکست دی کہ پھر رومیوں کو کبھی بحری حملہ کی ہمت نہ ہوئی۔
6۔ مذہبی خدمات
1۔ نائب رسول ﷺ کا سب سے اہم فرض مذہب کی خدمت اور اس کی اشاعت و تبلیغ تھا، اس لیے حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو اس فرض کے انجام دینے کا ہر لحظہ خیال رہتا تھا، چنانچہ جہاد میں جو قیدی گرفتار ہوکر آتے تھے ان کے سامنے خود اسلام کے محاسن بیان کرکے ان کو دینِ متین کی طرف دعوت دیتے تھے۔
2۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بالمشافہ مسائل فقہیہ بیان کرتے تھے اور عملاً اس کی تعلیم دیتے تھے۔ جس مسئلہ میں شبہ ہوتا اور اس کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہ کرسکتے تو دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے استفسار فرماتے اور عوام کو بھی ان کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتے تھے۔ ایک دفعہ سفر حج کے دوران میں ایک شخص نے پرندہ کا گوشت پیش کیا جو شکار کیا گیا تھا، جب آپ کھانے کے لیے بیٹھے تو شبہ ہوا کہ حالتِ احرام میں اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہمسفر تھے، ان سے استفسار کیا۔(مستدرک ابن حنبل، ج: 1، ص: 100)
3۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سب سے زیادہ روشن کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف و تحریف سے محفوظ کرنا اور اس کی عام اشاعت ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے اسباب
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سالہ دور خلافت میں ابتدائی چھ سال کامل امن و امان سے گذرے۔ فتوحات کی وسعت، مالِ غنیمت کی فراوانی، وظائف کی زیادتی، زراعت کی ترقی اور حکومت کے عمدہ نظم و نسق نے تمام ملک میں تمول، فارغ البالی اور عیش و تنعم کو عام کردیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے آخری زمانہ میں جو فتنہ و فساد برپا ہوا، اس کی حقیقت یہی ہے کہ دولت مندی اور تمول کی کثرت نے مسلمانوں میں بھی اس کے وہ لوازم پیدا کردیئے جو قوموں میں ایسی حالت میں پید اہوجاتے ہیں اور بالآخر ان کے ضعف اور انحطاط کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس فتنہ و فساد کی پیدائش کے بعض اور اسباب بھی تھے جو کہ حسب ذیل ہیں:
1۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وہ نسل جو فیضِ نبوت سے براہ راست مستفیض ہوئی تھی، تقریباً ختم ہوچکی تھی، جو لوگ موجود تھے وہ اپنی کبرسنی کے سبب گوشہ نشین ہورہے تھے اور ان کی اولاد ان کی جگہ لے رہی تھی۔ یہ نوجوان زہدو اتقاء، عدل وانصاف، حق پسندی و راست بازی میں اپنے بزرگوں کے برابر نہ تھے۔
2۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مشورہ اور مسلمانوں کی پسندیدگی سے امامت و خلافت کے لئے خاندان قریش مخصوص ہوگیا تھا اور بڑے بڑے عہدے بھی زیادہ تر ان ہی کو ملتے تھے، نوجوان قریشی اس کو اپنا حق سمجھ کر دوسرے عرب قبیلوں کو اپنا محکوم سمجھنے لگے تھے۔
3۔ اس وقت کابل سے لے کر مراکش تک تمام علاقہ اسلام کے زیر نگین تھا جس میں سیکڑوں قومیں آباد تھیں، ان محکوم قوموں کے دلوں میں فطرتاً مسلمانوں کے خلاف انتقام کا جذبہ موجود تھا لیکن ان کی قوت کے مقابلہ میں بے بس تھے، اس لئے انہوں نے سازشوں کا جال بچھایا جن میں سب سے آگے مجوسی اور یہودی تھے۔
4۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فطرتاً نیک، ذی مروت اور نرم خو تھے، لوگوں سے سختی کا برتائو نہیں کرتے تھے، اکثر چھوٹے جرائم کو بردباری اور حلم سے ٹال دیا کرتے تھے۔ اس سے شریروں کے حوصلے بڑھ گئے۔
5۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اموی تھے، اس لیے فطرتاً ان کے جذبات اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ خیر خواہانہ تھے اور آپ اپنے ذاتی مال سے ان کی امداد فرمایا کرتے تھے۔ شریر لوگوں نے اس کو یوں ملک میں پھیلایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سرکاری بیت المال سے ان کو نوازتے ہیں۔
6۔ غیر قوموں کے جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے یا مسلمانوں نے جن غیر قوموں کی عورتوں کو بیویاں یا باندیاں بنایا، ان کی اولادیں بھی فتنہ کا باعث بنیں۔
الغرض ہر جماعت اپنی غرض کے لئے کوشش میں مصروف تھی اس لئے خفیہ ریشہ دوانیاں شروع ہوگئیں۔ عمال کے خلاف سازشیں ہونے لگیں اور خود امیرالمومنین کو بدنام کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان فتنوں کو جاننا چاہا لیکن یہ آگ ایسی لگی تھی کہ جس کا بجھانا آسان نہ تھا۔ نتیجتاً:
1۔ فتنہ پردازوں کا دائرہ عمل روز بروز وسیع ہوتا گیا یہاں تک کہ تمام ملک میں ایک خفیہ جماعت پیدا ہوگئی تھی جس کا مقصد فتنہ و فساد برپا کرنا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے معلوم ہونے پر ان لوگوں کو شام کی طرف جلاوطن کردیا لیکن فتنہ کی آگ اس حد تک بھڑک چکی تھی کہ یہ معمولی چھینٹے اس کو بجھا نہ سکے بلکہ یہ انتقالِ مکانی مزید ان خیالات کے فروغ کا سبب بن گئی۔ (ابن اثیر، 3: 113)
2۔ مصر سازش کا سب سے بڑ امرکز تھا، مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے، ایک یہودی النسل نو مسلم عبداللہ بن سبا نے اپنی حیرت انگیز سازشانہ قوت سے مختلف الخیال مفسدوں کو ایک مرکز پر متحد کردیا۔
3۔ مفسدین کی جماعت تمام ملک میں پھیلی ہوئی تھی اور ان میں سے ہر ایک کا مطمع نظر مختلف تھا اور آئندہ خلیفہ کے انتخاب کے بارے میں بھی ہر ایک کی نظر الگ الگ شخصیتوں پر تھی۔ اہلِ مصر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عقیدت مند تھے۔۔۔ اہلِ بصرہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے طرف دار تھے۔۔۔ اہلِ کوفہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو پسند کرتے تھے۔۔۔ اہلِ عراق کی جماعت تمام قریش سے عداوت رکھتی تھی... اور ایک جماعت سرے سے عربوں ہی کے خلاف تھی لیکن امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی معزولی اور بنو امیہ کی بیخ کنی پر سب باہم متفق تھے۔
عبداللہ بن سبا نے بڑی حکمت عملی سے ان اختلافات سے قطع نظر کرکے سب کو ایک مقصد یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت پر متحد کردیا اور تمام ملک میں اپنے داعی اور سفیر پھیلادیئے تاکہ ہر جگہ فتنہ کی آگ بھڑکا کر بدامنی پیدا کردی جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے داعیوں کو حسب ذیل طریقوں پر عمل کی ہدایت کی:
1۔ بظاہر متقی و پرہیزگار بننا اور لوگوں کو وعظ و نصیحت سے اپنا معتقد بنانا۔
2۔ عمال کو تنگ کرنا اور ہر ممکن طریقہ سے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔
3۔ ہر جگہ امیرالمومنین کی کنبہ پروری اور ناانصافی کی داستانیں مشتہر کرنا۔
ان طریقوں پر نہایت مستعدی کے ساتھ عمل کیا گیا۔ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ والی کوفہ پر شراب نوشی کا الزام لگایا اور حد بھی جاری کی گئی جو درحقیقت ایک بڑی سازش کا نتیجہ تھا۔۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ والی بصرہ کی معزولی بھی ان ہی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھی۔
ان حالات میں کبار صحابہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اس لئے اعلانیہ اس جماعت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیر عہد یعنی 35ھ میں مفسدین مدینہ اس قدر بے باک ہوگئے کہ بیرونی مفسد کی مدد سے ان کو خود امیرالمومنین پر بھی دستِ ستم دراز کرنے کی جرات ہوگئی۔ (ابن اثیر، 3: 127)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت
مذکورہ بالا فتنہ انگیز لوگ اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر دبائو ڈالتے مگر آپ رضی اللہ عنہ کمال جرأت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے ان کو تسلیم کرنے سے انکار فرمادیتے۔ مصر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی نظامِ مملکت میں بے جا دخل اندازی کی کوشش کی، آپ رضی اللہ عنہ کے انکار پر انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ ابتداء میں یہ محاصرہ نرم تھا، آپ رضی اللہ عنہ مسجد میں آتے جاتے اور نماز کی امامت فرماتے اور یہ فتنہ پرور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز بھی ادا فرماتے لیکن بعد ازاں انہوں نے اس محاصرہ کو مزید سخت کردیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے گھر سے نکلنے پر بھی پابندی لگادی اور ان کا اپنا امیر غافقی امامت کرنے لگا۔ (تاریخ طبری، 3:354)
باغیوں سے خطاب
ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مکان کی چھت پر چڑھ کر باغیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو مسجد کی جگہ تنگ تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون اس زمین کو خرید کر وقف کرے گا؟ تو میں نے آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کی۔ اب تم مجھے اس مسجد میں نماز پڑھانے سے روکتے ہو۔۔۔؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ میں بیئرِ رومہ کے سوا اور کوئی میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا اور یہ کنواں یہودی کی ملکیت تھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کون اس کنویں کو خرید کر عام مسلمانوں کے لئے وقف کرے گا اور اس کو اس سے بہتر جنت میں صلہ ملے گا تو میں نے آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور آج تم نے مجھے اسی کے پانی پینے سے محروم کردیا۔۔۔ جب رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کے لئے امداد کی اپیل کی تو میں نے سب سے زیادہ اس میں امداد کی۔ آپ ﷺ نے مجھے جنت کی بشارت دی۔ باغیوں نے بیک زبان ہوکر کہا: آپ سچ فرمارہے ہیں۔۔۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کوہِ احد پر تشریف لے گئے، آپ ﷺ کے ہمراہ ابوبکر، عمر رضی اللہ عنہ اور میں تھا۔ کوہِ احد لرزنے لگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: احد ٹھہر جا! اس وقت تیری پشت پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔۔۔ کیا تمہیں یاد ہے کہ آپ ﷺ نے حدیبیہ میں مجھے سفیر بناکر مکہ بھیجا تھا اور بیعتِ رضوان میں اپنے ایک ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دیا تھا اور میری طرف سے خود ہی بیعت کی تھی۔ سب نے کہا: آپ سچ فرمارہے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد: 1، الرقم: 420)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس تقریر کا مقصد صرف باغیوں کے ضمیر کو جگانا تھا اور انہیں یہ سوچنے پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ کس کے ساتھ یہ معاملہ کررہے ہیں لیکن ان کا ضمیر مردہ ہوچکا تھا۔ اس لئے وہ ہر سوال کا جواب اثبات میں دینے کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم رہے اور ان کا یہی مطالبہ تھا کہ امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہوجائیں لیکن امیرالمومنین نے ان کا یہ مطالبہ سختی سے مسترد کردیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور عام مسلمانوں کی خاصی جمعیت موجود تھی۔ انہوں نے آپ سے ان باغیوں سے لڑائی کی اجازت طلب کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں ان کا مقابلہ نہیں کروں گا کیونکہ میں رسول اللہ ﷺ کا وہ پہلا خلیفہ بننا گوارا نہیں کرسکتا جس کے ہاتھوں امت میں خونریزی کا آغاز ہو۔
باغیوں کے محاصرہ کو چالیس دن گزر گئے تھے۔ آپ تک سامان خوردونوش پہنچانا مشکل تھا۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کچھ کھانے پینے کی اشیاء لے کر آئیں مگر باغیوں نے انہیں بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پانی لے کر آئے تو باغیوں نے نیزوں سے پانی کی مشکیں پھاڑ ڈالیں۔ پچاس دن تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اسی مکان میں قید رہے، اس عرصہ میں برابر روزہ رکھتے رہے۔ ایک رات آپ رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ رسالت مآب ﷺ حضرت ابوبکر وعمرk کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا:
’’اے عثمان! کیا تمہیں بہت بھوک لگی ہے؟ تم نے چالیس دن تک روزہ رکھا، اے عثمان! کل روزہ تم ہمارے پاس آکر افطار کرو گے۔‘‘
اس خواب کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں موجود بیس غلام آزاد کردیئے اور تلاوتِ قرآن میں مصروف ہوگئے۔ مصنف ’’البدایہ‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ اور کئی دوسرے حضرات پہرہ دے رہے تھے۔ باغیوں نے حملہ کیا۔ ان لوگوں نے مدافعت کی لیکن یہ حضرات زخمی ہوگئے اور باغیوں کے چار آدمی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوگئے۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا گیا تو آپ کی پیشانی سے خون نکل آیا اور آپ زمین پر گرپڑے اور زبان سے بے ساختہ نکلا ’’بسم اللہ توکلت علی اللہ‘‘ اور اس کے ساتھ ہی پیشانی سے خون داڑھی سے ٹپک کر قرآن مجید پر بہنے لگا۔ یہاں تک کہ آیت: فسیکفیکهم الله وهو السمیع العلیم. (پس اب اللہ تعالیٰ آپ کو اُن کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہوگا اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے)۔ پر پہنچ کر رک گیا۔
آپ کی اہلیہ محترمہ نے تلوار کے وار کو روکنا چاہا تو ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ گئیں۔ اسی حالت میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ یہ عظیم حادثہ جمعہ کے دن عصرو مغرب کے درمیان 18 ذی الحجہ 35ھ کو پیش آیا۔