حج کا معنی ارادہ کرنا ہے۔ اصطلاح میں حج کا معنی ہے:
هُوَ عِبَارَةٌ عَنِ الْاَفْعَالِ الْمَخْصُوْصَةِ مِنَ الطَّوَافِ وَالْوُقُوْفِ فِي وَقْتِهِ، مُحْرَماً بِنِیَّةِ الْحَجِّ سَابِقاً.
حج افعال مخصوصہ مثلاً طواف اور وقوف اپنے وقت میں بحالت احرام پہلے سے ہی حج کی نیت سے ادا کرنے سے عبارت ہے۔
(الفتاوی الهندیة، 1: 216)
حج اسلام کا بنیادی رکن ہے اور یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحبِ استطاعت ہو۔ حج، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے۔ قرآن کریم میں حج کی فضیلت واہمیت کا اندازہ درج ذیل آیتِ مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً.
اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
(آل عمران: 97)
حج کرنے والے کے لئے جنت ہے۔ حجاج کرام خدا کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ یہ نفوس ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ ربِ کائنات کی رحمتوں سے نہ صرف محروم ہوجاتا ہے بلکہ ہدایت کے راستے بھی اس کے لئے مسدود ہوجاتے ہیں۔
کتب احادیث میں ایسی کثیر روایات ہیں جن میں حج کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ذیل میں چند احادیث درج کی جارہی ہیں:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ عرض کی گئی: پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
قِیلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ.
عرض کی گئی کہ پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ حج جو برائیوں سے پاک ہو۔
(بخاري، الصحیح، 1: 18 ، رقم: 27)
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب۔ وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔
(بخاري، الصحیح، 2: 553، رقم: 1449)
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَھُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَائٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ.
ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے۔
(بخاري، الصحیح، 2: 929، رقم: 1683)
4۔ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ کرم سے نکال دیتا ہے۔حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ لَمْ یَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَآءَ یَهُوْدِیًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا.
جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)۔
(ترمذي، السنن، 3: 176، رقم: 812)
5۔ اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے والے کو بخشش کی نوید سناتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللهِ. إِنْ دَعَوْیُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَ لَهُمْ.
حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔ (ایک روایت میں) جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا (کے الفاظ بھی ہیں)۔
(ابن ماجه، السنن، 2: 9، رقم: 2892)
6۔ ایک اور مقام پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ دَخَلَ الْبَیْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةٍ وَ خَرَجَ مِنْ سَیِّئَةٍ مَغْفُوْرًا لَهُ.
جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پا گیا۔
(ابن خزیمة، الصحیح، 4: 332، رقم: 3013)
اقسامِ حج
ادائیگی کے طریقہ کے لحاظ سے حج کی تین اقسام ہیں:
1۔ افراد: اس طریقے کو کہتے ہیں جس میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ حج کرنے والا اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کرسکتا ہے اور احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی ضروری ہے۔
2۔ قِران: حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا جاتا ہے۔ مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کرتا ہے پھر اسی احرام میں حج ادا کرنا ہوتا ہے۔
3۔ تمتع: وہ طریقہ حج ہے جس میں حج اور عمرہ کو ساتھ ساتھ اس طرح ادا کیا جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کی حالت سے باہر آسکتا ہے اور پھر حج کے لئے 8 ذی الحجہ کو حج کے ارادے سے احرام باندھتا ہے اور یہ سب سے آسان حج ہے۔
فرائضِ حج
فرائض حج درج ذیل ہیں:
1۔ احرام باندھنا
2۔وقوفِ عرفات
3۔طوافِ زیارت کرنا
4۔ ان تینوں فرائض کو مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات میں ترتیب سے ادا کرنا۔
واجباتِ حج
سات چیزیں حج کے واجبات میں شامل ہیں:
1۔مزدلفہ میں ٹھہرنا
2۔جمرات کو کنکریاں مارنا
3۔اگر حج قِران یا حج تمتع کی نیت کی ہے تو قربانی کرنا
4۔سر کے بال منڈاونا یا کترانا
5۔صفا اور مروہ کے درمیان طواف سعی کرنا
6۔طواف و داع کرنا
7۔طواف زیارت کے سات چکر پورے کرنا
ان واجبات میں سے کوئی واجب بھی ترک ہوجائے تو ایک قربانی دینا ضروری ہے۔
حالتِ احرام میں جو چیزیں منع ہیں
حالت احرام میں بعض ایسی چیزیں منع ہیں جو عام حالات میں جائز ہوتی ہیں مثلاً :
1۔شکار کرنا، شکاری کی مدد کرنا، شکار کی طرف اشارہ کرنا
2۔حدود حرم میں درخت، گھاس پودے وغیرہ کاٹنا یا مکھی، مچھر، جوں وغیرہ مارنا
3۔جسم سے کوئی بال توڑنا یا کاٹنا یا ناخن وغیرہ ترشوانا
4۔سلے ہوئے کپڑے پہننا
5۔خوشبو لگانا
6۔مرد کے لئے سر اور چہرے کا چھپانا اور عورت کے لئے صرف چہرے کا ڈھانپنا (خواتین کے لئے سر ڈھانپنا ضروری ہے)
ایامِ حج اور ارکان حج کی ادائیگی
8 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ کے پانچ دن ایامِ حج کہلاتے ہیں۔ انہی ایام میں حج کے جملہ مناسک ادا کرنا ہوتے ہیں:
1۔ 8 ذالحجہ: منیٰ کو روانگی
حجاج 8 ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں نماز فجر ادا کرکے سورج نکلتے ہی منیٰ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ سفر میں تلبیہ کی کثرت کی جاتی ہے۔ منی پہنچ کر ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کے بعد رات یہیں قیام کرتے ہیں اور 9 ذی الحجہ کی نماز فجر بھی منیٰ میں ادا کرتے ہیں۔
2۔ 9 ذی الحجہ: وقوفِ عرفات
نماز فجر منیٰ میں ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے پر عرفات کی طرف روانگی ہوتی ہے اور عرفات میں ظہر و عصر کی نمازیں ظہر کے وقت ملاکر پڑھی جاتی ہیں۔ میدان عرفات میں اسی قیام کو وقوفِ عرفات کہتے ہیں جو حج کا سب سے اہم رکن ہے۔ اگر کسی وجہ سے 9 ذی الحجہ کے دن یا اس رات بھی کوئی یہاں پہنچنے سے رہ جائے تو اسکا حج نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی تلافی کی کوئی گنجائش ہے۔
مزدلفہ میں قیام: اس دن غروب آفتاب کے وقت عازمین مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں۔ مزدلفہ میں نماز عشاء کے وقت میں مغرب و عشاء کی نماز جمع کرکے پڑھی جاتی ہیں۔ رات مزدلفہ میں ہی قیام ہوتا ہے۔
3۔ 10 ذی الحجہ: منٰی روانگی
فجر کی نماز کے بعد مزدلفہ میں توقف کرنا واجب ہے۔ بعد ازاں عازمین منیٰ کو روانہ ہوتے ہیں۔ منیٰ پہنچ کر حجاج کرام کو تین واجبات بالترتیب اداکرنے ہوں گے:
1۔ بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا۔
2۔ رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کرنا۔
3۔ قربانی کے بعد سرمنڈاوانا یا کتروانا
اس کے بعد احرام کھول کر عام لباس پہن لیا جاتا ہے اور حجاج سے احرام کی سب پابندیاں (سوائے مباشرت کے) ختم ہوجاتی ہیں۔
4۔ طوافِ زیارت
حجاج احرام کھولنے کے بعد مکہ مکرمہ میں چوتھا رکن طواف زیارت ادا کرتے ہیں۔ یہ حج کے فرائض میں شامل ہے اور 12 ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہونے تک جائز ہے اس کے بعد دم (قربانی) واجب ہوگا اور فرض بھی ذمہ رہے گا۔
5۔سعی اور منیٰ سے واپسی
طوافِ زیارت کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرنا واجب ہے۔ طوافِ زیارت و سعی کے بعد دو رات اور دو دن منیٰ میں قیام کرنا سنتِ موکدہ ہے۔ مکہ میں یا کسی اور جگہ رات گزارنا ممنوع ہے۔ گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو ایام رمی، کہتے ہیں، ان تینوں تاریخوں میں تینوں جمرات کی رمی کی جاتی ہے۔ رمی کا وقت زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔ پہلے جمرہ اولیٰ پر پھر جمرہ وسطیٰ اور بعد ازاں جمرہ عقبہ پر۔ پھر مکہ واپسی ہوتی ہے۔
6۔ طوافِ وداع
یہ حج کا آخری واجب ہے جو صرف میقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ جب وہ مکہ سے رخصت ہونے لگیں تو آخری طواف کرلیں۔
7۔ مدینہ منورہ روانگی
مکہ میں مناسک حج کی تکمیل کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ کی حاضری کے لئے عشاق مدینہ منورہ روانہ ہوجاتے ہیں۔
بچوں کا حج و عمرہ
بچوں کا بھی حج و عمرہ ہوتا ہے اور ان کو بھی حج و عمرہ کا ثواب ملتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سفر حج میں مقام روحاء (مدینہ منورہ سے تین مراحل پر ایک گاؤں) پر کچھ سواروں سے ملاقات ہوئی۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا:
مَنْ الْقَوْمُ قَالُوا الْمُسْلِمُونَ فَقَالُوا مَنْ أَنْتَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَرَفَعَتْ إِلَیْهِ امْرَأَةٌ صَبِیًّا فَقَالَتْ أَلِهَذَا حَجٌّ قَالَ نَعَمْ وَلَکِ أَجْرٌ.
یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا مسلمان ہیں، پھر انہوں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ! ان میں سے ایک عورت نے بچے کو اوپر اٹھا کر پوچھا کیا اس کا بھی حج ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اور تم کو بھی اس کا اجر ملے گا۔
(مسلم، الصحیح، 2: 974، رقم: 1336)
یعنی اس کا حج نفلی ہو گا اور ثواب پائے گا اور تم چونکہ اس نیک کام میں سبب ہو، لہٰذا تمہیں بھی ثواب ملے گا۔
بوڑھوں کی طرف سے حج
ایسے بوڑھے افراد جو سفر کی طاقت نہ رکھتے ہوں، اُن کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ خثعم قبیلہ کی ایک بی بی نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ!
إِنَّ فَرِیضَةَ اللهِ عَلَی عِبَادِهِ أَدْرَکَتْ أَبِي شَیْخًا کَبِیرًا لَایَسْتَطِیعُ أَنْ یَسْتَوِيَ عَلَی الرَّاحِلَةِ فَهَلْ یَقْضِي أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ.
یہ (حج) اللہ تعالیٰ نے تو اپنے بندوں پر فرض فرمایا ہے لیکن میرے والد محترم اتنے بوڑھے ہوگئے ہیں کہ وہ سواری پر اچھی طرح بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ دریں حالات کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں۔ آپ (ﷺ) نے جواباً فرمایا، ہاں کرسکتی ہو۔
(بخاري، الصحیح، 4: 1598، رقم: 4138)
حج کی نذر پوری کرنا
اگر کسی نے حج کی نذر مانی ہو اور فوت ہو جائے تو اسکی طرف سے اسکی نذر کو پورا کرنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صاحب نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کی:
إِنَّ أُخْتِي قَدْ نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ وَإِنَّهَا مَاتَتْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَوْ کَانَ عَلَیْهَا دَیْنٌ أَکُنْتَ قَاضِیَهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَاقْضِ اللهَ فَهُوَ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ.
میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ وفات پا گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کے اوپر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ عرض کی، ہاں۔ فرمایا تو اسے بھی ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔
(بخاري، الصحیح، 6: 2464، رقم: 2163)
حجاج کرام کی فضیلت
حجاج کرام کی فضیلت میں کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا لَقِیتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ وَصَافِحْهُ وَمُرْهُ أَنْ یَسْتَغْفِرَ لَکَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بَیْتَهُ فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ.
جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام اور مصافحہ کرو اور اسے گھر داخل ہونے سے پہلے اپنے بخشش کی دعا کی درخواست کرو کہ وہ بخشا ہوا ہے۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 69، رقم: 5371)
2۔حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ خَرَجَ حَاجّاً أَوْ مُعتَمِراً أوْ غَازِیاً ثمَّ مَاتَ فِی طریقِه کَتَبَ اللہُ لَهٗ أجْرَ الغازِی وَالْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِرِ.
جو مسلمان حج یا عمرہ یا جہاد کی نیت سے نکلا اور راستہ میں مرگیا، اللہ اس کے لئے حج ، عمرہ یا جہاد کا اجر و ثواب لکھ دیتا ہے۔
(بیهقی، شعب الایمان، 3: 474، رقم: 4100)
3۔حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُلَبِّي إِلَّا لَبَّی مَنْ عَنْ یَمِینِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ حَتَّی تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا.
جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت ڈھیلے تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اِدھر اُدھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے۔
(ترمذي، السنن، 3: 189، رقم: 828)
قربانی کی اہمیت و فضیلت
اَلْقُرْبَانُ مَایَتَقَرَّبُ بِهِ اِلَی اللهِ وَصَارَ فِی التَّعَارُفِ اِسْماً لِلنّسِیْکَةِ الَّتِیْ هِیَ الذَّبِیْحَة.
قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے،اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔
(أصفهانی، المفردات، 399)
قرآن پاک میں قربانی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْ اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَارَزَقَهُمُ اللّٰهُ مِنْ م بٰهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ. (الحج ، 22:34)
اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے زبان چوپائیوں پر۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللهِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَارَزَقَهُمْ مِّنْ م بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَo (الحج، 22: 27)
(قربانی کے) مقررہ دنوں کے اندر اللہ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں ان پر (ذبح کے وقت) اللہ کے نام کا ذکر بھی کریں، پس تم اس میں سے خود (بھی) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو (بھی) کھلاؤ۔
احادیث مبارکہ میں بھی قربانی کے حوالے سے ذکر ملتا ہے:
1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ منی اِھْرَاقِ الدَّمِ واِنَّهٗ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِیْبُوْابِهَا نَفْسًا.
ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
(ابن ماجه، السنن،2: 1045، رقم: 3126)
2۔ حضور ﷺ قربانی کرتے وقت دعا فرماتے:
بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ.
الٰہی! محمد ﷺ ، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما۔
(مسلم، الصحیح، 3: 1557، رقم: 1967)
دوسری روایت میں ان الفاظ کا مزید اضافہ ہے:
اَللّٰهُمَّ هٰذَا عَنِّیْ وَعَمَّنْ لَّمْ یُضَحِّ مِن اُمَّتِیْ.
الٰہی یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کرسکے۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 3 :356، رقم: 14880)
سبحان اللہ! اغنیائے امت کو ان کی قربانیاں مبارک ہوں۔ خدا کرے وہ حلال کمائی سے ہوں۔ خلوص سے ہوں عمدہ ہوں اور قبول ہوں۔ فقرائے امت کی خوش نصیبی دیکھئے کہ ان کے احساسِ محرومی کا آقا ﷺ نے اپنی طرف سے قربانی دے کر ہمیشہ کے لئے ازالہ فرمادیا۔ تاکہ کوئی غریب مسلمان یہ سوچ کر احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو کہ اہلِ ثروت نے قربانی کا سارا ثواب حاصل کرلیا اور ہم محروم رہے۔
جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضا
ذکر اس کا اپنی عادت کیجئے
3۔ آقائے کریم ﷺ نے قربانی کے جانوروں کو لٹا کر یہ دعا پڑھی:
اِنِّی وجَّهْتُ وَجَھْیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوْاتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّةِ اِبْرَاهِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَهٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّاُمّتِهٖ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ.
’بے شک میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ملت ابراہیم پر یکسو ہوکر اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ بے شک میری نماز اور قربانی میری زندگی اور موت اللہ پروردگار عالمیاں کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ الہی تجھ سے اور تیرے لئے محمد ﷺ اور ان کی امت کی طرف سے اللہ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑا ہے۔‘ پھر ذبح فرمایا۔
(أحمد بن حنبل، المسند،3 :375 ، رقم: 15064)
4۔ حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا: یہ کیا؟ فرمایا:
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ ﷺ اَوْصَانِیْ اَنْ اُضَحِّی عَنْهُ. فَاَنَا اُضَحِّ عَنْهُ.
رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔
(أبی داود، السنن، 3: 94 ، رقم: 2790)
سبحان اللہ، کیسے سعادت مند ہیں وہ اہلِ خیر جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رسول محترم ﷺ کی طرف سے آج بھی عمدہ قربانی دیتے ہیں۔ یقینا آقا ﷺ کی روح خوش ہوگی اور یقینا اس کے طفیل ان کی اپنی قربانی بھی شرف قبول پائے گی۔ اللہ توفیق دے۔
5۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ، یَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَاهٰذِهِ الْاَضَاحِیْ قَالَ سُنَّةُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاهِیْمَ علیه السَّلاَمُ قَالُوْا فَمَالَنَا فِیْهَا یَارَسُوْلَ اللّٰهِ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مِّنَ الصُّوْفِ حَسَنَةٌ.
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا: ہر بال کے بدلے نیکی۔ عرض کی: یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: اون کے بدلے نیکی ہے۔
(احمد بن حنبل، المسند، 4: 368 ، رقم: 19302)
6۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اُمِرْتُ بِیَوْمِ الْاَضْحٰی عِیْداً حَوَلَهُ اللّه لِهٰذِهِ الْاُمَّة، قَالَ لَهٗ رَجُلٌ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ، اَرَاَیْتَ اِنْ لَّمْ اَجِدْ اِلاَّ مَنْیِحَةَ اُنْثٰی اَفَاضَحِیّ بِهَا قَالَ لاَ وَلٰکِنْ خُدْ مِنْ شَعْرِکَ وَاَظْفَارِکَ وَتَقُصَّ شَارِبَکَ وَتَحَلْقَ عَانَنَکَ فَذٰلِکَ تَمَامُ اُضْحِبْتُکَ عِنْدَاللّٰهِ۔
مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے مقرر کی ہے۔ ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! یہ بتائیں کہ اگر میرے پاس منیحہ مؤنث (وہ جانور جو کوئی شخص دوسرے کو دودھ، اون وغیرہ کا فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے دے، بعد میں واپس کرلے) کے سوا کچھ نہ ہو، کیا اسی کی قربانی کردوں؟ فرمایا: نہیں، تم اپنے بال اور ناخن تراشوائو، مونچھیں ترشوائو (نہ کہ مونڈھوائو) زیر ناف بال مونڈھو۔ اللہ کے ہاں تمہاری یہی مکمل قربانی ہے۔
(أبي داود، السنن، 3: 93، رقم: 2789)
سبحان اللہ! قربانی کا مفہوم کتنا عام فرمادیا کہ اہلِ ثروت بھی عمل کرسکیں اور عام مفلس مسلمان بھی۔ خیروبرکت کا دریا بہہ رہا ہے کہ ہر پیاسا سیراب ہو۔
7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من وجد سعة فلم یضح فلا یقربن مصلنا.
’’جو طاقت رکھتا ہو اور قربانی نہ دے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے‘‘۔ (مسند احمد، ابن ماجہ)
قربانی کے گوشت کی درست تقسیم
1۔ قربانی کے گوشت کے لئے بہتر ہے کہ تین حصے کیے جائیں۔ ایک اپنے لئے، دوسرا رشتہ داروں کے لئے، تیسرا عام لوگوں کے لئے ہو۔ یہاں تک کہ ضروریات کے پیش نظر تمام گوشت بھی کسی ایک قسم میں صرف کرسکتا ہے۔ البتہ ایثار کا یہی تو سنہرا موقع و ذریعہ ہے۔ لطف کن لطف، کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش۔
2۔ ہم قربانی دیتے وقت جس کی نیت کریں گے، اسی کی طرف سے ہوجائے گی۔ اپنی طرف سے، کسی اور کی طرف سے۔ زندہ کی طرف سے۔ مرحوم کی طرف سے۔
اگر ہم صاحب نصاب ہیں تو پہلے اپنی قربانی دیں پھر کسی اور کی طرف سے۔ صاحب نصاب نہیں تو جس کی طرف سے چاہیں دے سکتے ہیں۔ قربانی خواہ زندہ کی طرف سے ہو، خواہ مرحوم کی طرف سے، اس کے گوشت وغیرہ کے وہی احکام ہیں جو مذکور ہوئے۔