17 جون کے واقعات پاکستان کی تاریخ کا ایک دلخراش باب ہیں ۔جب تک شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور مظلوموں کو مکمل انصاف نہیں مل جاتا تب تک نظامِ عدل و انصاف کے اوپر ایک سوالیہ نشان برقراررہے گا۔جون کا مہینہ بالخصوص 17 جون کا دن تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین، کارکنان، قانون پسند شہریوں کو غمزدہ کر دیتا ہے کہ اس دن بغیر کسی قصور کے ریاستِ پاکستان کے شہریوں کا بے دردی کے ساتھ خون بہایا گیا اور اس سے بڑھ کر یہ ظلم کہ انہیں انصاف سے محروم رکھا گیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول زبان زد عام ہے کہ ’’کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ بے گناہوں کا قتلِ عام کرکے ظلم کا نظام قائم کرنے والی ظالم اشرافیہ آج مکافاتِ عمل کا شکار ہے۔ صبح، دوپہر، شام ان کی لوٹ مار، ٹی ٹیز، منی لانڈرنگ اور ناجائز اثاثے بنانے کی کہانیاں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں اور سرکاری تفتیشی ادارے آئے روز ان کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں قانونی فورمز کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ اللہ کی بے آواز لاٹھی ہے جو اس ظالم خاندان پر صبح شام برس رہی ہے۔ اشرافیہ کو عوام نے انصاف کے بول بالا، انسانیت کی مدد اور پاکستان کی اقتصادی مضبوطی اور خوشحالی کے لئے اقتدار اور اختیار دیا تھا مگر ان ظالموں نے اقتدار پر نسل در نسل خاندانی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے ظلم و بربریت کا سہارا لیا۔ ریاستی مہروں کو استعمال کرنے کے لئے انہیں لوٹ مار کی دولت کا حصہ دار بنایا، اندرون، بیرون ملک محلات تعمیر کئے، وہ خاندان جو اقتدار کے نشے میں خود کو ’’ان ٹچ ایبل‘‘ سمجھتا تھا بالآخر قانون کی گرفت میں آیا اور نشانِ عبرت بن گیا مگر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء قاتل اور کرپٹ اشرافیہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتلِ عام کے جرم پر پھانسی کے پھندے پر جھولتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جو خاندان اقتدار کے نشے میں خود کو سب سے طاقتور اور باعزت سمجھتا تھا آج اس خاندان کی ہر قانونی، سیاسی اور سماجی فورم پر خاک اڑ رہی ہے اور وہ نشانِ عبرت بنا ہوا ہے۔جو لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر پاکستان کی سرزمین کو تنگ کرنے کے لئے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے رہے آج اس خاندان پر پاکستان کی زمین تنگ ہو چکی ہے۔ اشرافیہ کے خاندان کا ’’علی بابا‘‘ اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ماسٹر مائنڈجوکرپشن پر کوچہ اقتدار سے نکال کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا گیا وہ آج بیماری کا بہانہ بنا کر بیرون ملک چھپا ہوا ہے ،اس مفروری کا ’’کریڈٹ‘‘ بھی اس نظام کو جاتا ہے کیونکہ یہ نظام قاتلوں، لٹیروں، رسہ گیروں کا سہولت کار ہے اور اسی ظالم اور کرپٹ نظام کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے تعلیم یافتہ محب وطن کارکنان نے کلمہ حق بلند کیا تھا جس کی پاداش میں کرپٹ اور قاتل اشرافیہ نے کارکنوں کا بے دردی سے خون بہایا۔ قاتلوں، لٹیروں کو جو سہولتیں یہ نظام مہیا کرتا ہے کسی اور ملک میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری آج بھی پرعزم ہیں، انہوں نے حصولِ انصاف کے لئے پاکستان کے چوٹی کے وکلاء اور ان کے چیمبرز کی قانونی خدمات حاصل کررکھی ہیں، انسدادِ دہشت گردی عدالت لاہور سے لے کر لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا کیس لڑا جارہا ہے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا آج بھی یہ عزم مصمم ہے کہ جب تک دم میں دم ہے اور یہ سانس چل رہی ہے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دلوانے کے لئے قانونی جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ شہداء کاانصاف پوری تحریک پر ایک قرض ہے ،تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کا کوئی کارکن حصولِ انصاف کی جدوجہد سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری انصاف کے حصول کے حوالے سے پرعزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بے گناہ انسانی خون بہا ہے، یہ رائیگاں نہیں جاسکتا۔ اس کا حساب اس دنیا میں بھی ہو گا اور آخرت میں بھی ہو گا۔ قاتل اور ان کے سہولت کار جتنے بھی طاقتور، چالاک اور مکار کیوں نہ سہی بالآخر وہ قانون کی گرفت میں آئیں گے۔شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اس وقت اعلیٰ عدلیہ کے سامنے جو قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں وہ غیر جانبدار تفتیش سے متعلق ہے۔ 7سال گزر جانے کے بعد بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کے لئے غیر جانبدار جے آئی ٹی کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ انصاف کی عمارت کی پہلی اینٹ غیر جانبدار تفتیش ہوتی ہے اورآئین کے آرٹیکل 10-Aکے تحت غیر جانبدار تفتیش بنیادی حق تصور کیا گیا ہے مگر افسوس 7سال سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ دوسری طرف سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ انسانی خون بہانے والے وہ افسران جن کی شناخت اور نشاندہی ہو چکی ہے انہیں آج کے دن تک نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ان کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ، تمام کے تمام پولیس افسران جو انسدادِ دہشت گردی عدالت کی طرف سے بطور ملزم طلب کئے گئے ہیں وہ سارے لوگ آج بھی پرکشش پوزیشنز پر براجمان ہیں اور بھاری مراعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ جب تک قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا ملنے کا قانونی کلچر جڑ نہیں پکڑے گا تب تک عام آدمی کا جان و مال غیر محفوظ رہے گا اور ظلم جاری رہے گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کا خون بہانے والے پولیس افسروں نے ترقیوں، من پسند پوسٹنگز اور منہ موتیوں سے بھرنے کے لئے اشرافیہ کے غیر قانونی احکامات مانے اور قتل عام کیا۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈز کو اس سانحہ کے فوری بعد ترقیاں ملیں، کسی کو سفیر بنا کر جنیوا بھجوا دیا گیا، کسی کو وفاقی ٹیکس محتسب بنا دیا گیا، جو انسپکٹر تھا وہ ڈی ایس پی بن گیا، ایس پی ،ایس ایس پی بنا دئیے گئے اور ترقیوں کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
حکومت تو بدل گئی مگر انصاف کے حوالے سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے دن نہیں بدلے، آج بھی تاریخیں ہیں اور بےحسی ہے۔ پیسہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے مگر انصاف کا عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ آج بھی مظلوموں کی بجائے قاتلوں کی آواز سنی جاتی ہے۔ سارے ریلیف قاتلوں اور لٹیروں کیلئے ہیں ۔ انصاف کے عمل کو اتنا سست بنا دیا گیا ہے کہ اگر اسی رفتار سے انصاف کا یہ عمل چلتا رہا تو کئی دہائیاں گزر جائیں گی اور انصاف نہیں ہو گا۔ فوری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت جو حکم بھی جاری کرتی ہے اس پر عمل نہیں ہوتا۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نے تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد کے سر پر ہاتھ رکھ کر پورے ادارے کی طرف سے یہ کمٹمنٹ دی تھی کہ انصاف ضرور ہو گا مگر انصاف کا عمل الٹا ریورس ہو گیا ۔سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم جس بنچ نے غیر جانبدار تفتیش کے لئے جے آئی ٹی بنوائی تھی اس جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ ہماری معزز عدلیہ سے یہ استدعا ہے کہ وہ 14بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کرنے والے ملزمان اور اس سانحہ کے ماسٹرمائنڈز کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ کرے ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش ہو گی تو قاتلوں کے چہروں سے نقاب اٹھیں گے۔ غیر جانبدار جے آئی ٹی کا کیس لاہورہائیکورٹ کے فلور پر ہے اور شہدائے ماڈ ل ٹاؤن کے ورثاء انصاف کے طالب ہیں۔