اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اس میں جہاں مومنین کے باہمی تعلقات پر جامع ہدایات ملتی ہیں، وہیں غیرمسلموں کے ساتھ رویوں کو بھی عدل و انصاف کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ خاندانی، سماجی، معاشرتی اور معاشی الغرض ہر نوع کے تعلق کے بارے رہنمائی میسر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام عالمگیر دین ہے۔ اس کا مخاطب کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ ساری انسانیت ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
قُلْ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللّٰهِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا.
’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘
(القرآن، 7: 158)
جس دین کا خطاب دنیا کے سارے انسانوں اور ان کے تمام طبقات سے ہو، جو اس حیثیت سے سامنے آئے کہ وہ سارے عالم کی فلاح و نجات کا نمائندہ بن کر آیا ہو، وہ کسی طبقے سے نفرت اور عداوت کا سبق نہیں دے سکتا، بصورتِ دیگر اس کا خطاب محدود ہو کر رہ جائے گا۔ جو نظریات اور افکار انسانوں کو طبقات میں تقسیم کرتے اور ان میں کشمکش پیدا کرتے ہیں، وہ دراصل ایک دوسرے کے استحصال کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ان کا تخاطب عمومی نہیں ہوتا، وہ ایک طبقے کے لیے کشش کا سامان ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کے لیے ناقابلِ قبول ہوتے ہیں۔
اسلام نے اپنے عقیدے اور فکر کو عام کرنے کے لیے جبر و اکراہ کے تمام طریقوں کو رد کیا ہے۔ ان میں سے ہر طریقہ اس کے نزدیک ناجائز اور ممنوع ہے۔ اس کے لیے اسلام نے صرف دعوت و تبلیغ کی راہ کھلی رکھی ہے۔ وہ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اسے قبول یا رد کرنے کی پوری آزادی دیتا ہے۔ اس نے صبر و ثبات کے ساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے اور مخالفت و مزاحمت کا سامنا عزم و حوصلہ اور ہمت و برداشت سے کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام نے تعلقات میں صداقت، تواضع، انکساری، نرمی، بردباری، تحمل و برداشت، عفو درگزر، برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کی ترغیب اور ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رہنے کی تاکید کی ہے جبکہ جھوٹ، مکرو فریب، درشت مزاجی، غیظ و غضب، انتقام میں حد سے آگے بڑھنے اور فتنہ و فساد سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ سماجی تعلقات کے متعلق اسلام کی یہ ہدایات محض ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کے ساتھ تعلقات کے متعلق وارد نہیں ہوئیں بلکہ مسلم و غیر مسلم ہر دو سے سماجی تعلقات میں ان اقدار کو ملحوظ رکھنے کا حکم ہے۔
غیرمسلموں سے تعلقات کے اساسی اصول
اسلام اپنے ماننے والوں کو غیر مسلموں کے ساتھ معاملات میں رواداری پر مبنی رویہ اپنانے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام کا نقطہ نظر ہے کہ ہر انسان بحیثیت انسان معزز ومکرم ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی دین اورکسی بھی رنگ ونسل سے ہو۔
اسلام کے نقطہ نظر کے مطابق دنیا انسانوں کے لیے امتحان گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو خدا کا پیغام قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا.
بے شک ہم نے اس (انسان کوحق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے۔‘‘
(القرآن، 3: 76)
کسی انسان کے مسلمان یا غیرمسلم ہونے میں اللہ کی حکمت ہے۔ اللہ چاہتا تو سبھی کومسلمان بنادیتا لیکن اللہ کی رضا اورحکمت یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ یَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ.
’’اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (مگر اس نے جبراً ایسا نہ کیا بلکہ سب کو مذہب کے اختیار کرنے میں آزادی دی) اور (اب) یہ لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔‘‘
(القرآن، 11: 118)
چونکہ ہر شخص کامسلم یاغیرمسلم ہونا اللہ کی حکمت سے ہے اس لیے اسلام کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کو جبراً مسلمان بنایاجائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ لَآمَنَ مَن فِی الْأَرْضِ کُلُّهُمْ جَمِیعًا أَفَأَنتَ تُکْرِهُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِینَ.
’’اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے، (جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا) تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں۔‘‘
(القرآن، 10: 90)
اسلام نے تمام انسانوں سے عدل وانصاف اور اخلاقِ حمیدہ کا حکم دیا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حالت میں بد اخلاقی اور ظلم وزیادتی کی تعلیم نہیں دیتا۔ خواہ معاملہ مسلم کے ساتھ ہو یا غیرمسلم کے ساتھ ہو، اسلام میں ظلم وزیادتی اور حق تلفی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رسالتمآب ﷺ کا ارشاد قابلِ غور ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ وَإِنْ کَانَ کَافِرًا فَإِنَّهُ لَیْسَ دُونَهَا حِجَابٌ.
’’مظلوم خواہ کافر ہو اس کی پکارکے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔(اس کی پکار فوراً خداتک پہنچتی ہے)۔‘‘
(حنبل، ابوعبدالله، احمد، المسند، ج: 5، ص: 411، الرقم: 23536)
غیر مسلموں سے تعلقات کی اقسام
غیر مسلموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات کے موضوع کو زیرِ بحث لاتے ہوئے فقہاء کرام نے تعلقات کی تین اقسام بیان کی ہیں:
1۔ موالات
اس سے مراد قلبی اور دلی محبت ہے۔ یہ صرف ہم عقیدہ یعنی مسلمانوں کے ساتھ جائز ہے، کفار و مشرکین سے رازدارانہ تعلق، قلبی محبت، ان کا حقیقی احترام کہ جس سے کفر کا احترام لازم آئے، جائز نہیں ہے۔ قرآنِ مجید کی ایسی آیات اور رسالتمآب ﷺ کی ایسی احادیث جن میں کفر و شرک اختیار کرنے والوں سے کسی طرح کی دوستی رکھنے اور ان سے کوئی سمجھوتہ کرنے سے منع کیا گیا ہے، ان سے مراد موالات ہیں۔
2۔ مواسات
اس کے معنی ہمدردی، خیر خواہی اور نفع رسانی کے ہیں، ایسے غیر مسلم جو برسرپیکار اور مسلمانوں سے جنگ کے درپے نہیں ہیں، وہ ہمدردی، خیر خواہی کے مستحق ہیں۔ ایسے لوگوں سے حسنِ سلوک، ہمدردی و غم خواری میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اسلام سے قریب ہوں گے، مسلمانوں کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوں گے اور باہمی فاصلہ کم ہوگا۔
3۔ مدارات
اس سے مراد خوش خلقی اور ادب و احترام ہے، یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ خاص طورپر جب اس کا مقصد دینی نفع رسانی، اسلام کی دعوت، اسلامی اخلاق و برتاؤ پیش کرنا ہو یا وہ مہمان ہوں اور مہمانوں کا احترام بہر حال لازم ہے یا ان کے شر و ضرر رسانی سے حفاظت مقصود ہو۔
قرآن مجید کی متعدد آیات، احادیثِ نبوی ﷺ، رسالتمآب ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو، اس کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں، ان کو زندہ رہنے، معاشی جدو جہد کرنے، اپنا مال اور جائیداد رکھنے اور اس میں تصرف کرنے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق سب سے نمایاں ہے۔ اسلام ان کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ انسانیت کے اعتبار سے ان کے حقوق کا مکمل احترام کیا جائے۔
سیرتِ نبویؐ اور غیرمسلموں سے تعلقات کی نوعیت
دینِ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری، حسنِ اخلاق، شیریں زبانی اور دیگر اخلاق کا نہ صرف حکم دیتا ہے بلکہ خوش اخلاقی کو مستحب اور باعثِ اجر گردانتاہے۔ سیرت نبوی ﷺ میں سفرِ طائف، غزوات اور فتح مکہ سمیت متعدد مواقع ایسے ہیں جہاں رواداری اور حسنِ اخلاق کے ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ تاریخ ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان واقعات پر حیرت اس لیے بھی ہے کہ یہ رواداری اس صورتِ حال میں تھی جب کہ آپ ﷺ ان کفار سے برسرِپیکار تھے اور ہر وقت ان سے ضرر رسانی کا خطرہ رہتا تھا، ایسے وقت لوگ جذبات میں حسنِ سلوک اور ظاہری خوش خلقی سے عموماً متصف نہیں رہ سکتے؛ بلکہ ایسے حالات میں انسانیت کا بھی احترام ختم ہوجاتا ہے۔ یہ اسلام کی تعلیم ہے کہ حسنِ اخلاق اور رواداری بہر حال پیش نظر رکھنی چاہیے، اس سے صرف ِنظر کرنا مسلمانوں کا وصف نہیں ہوسکتا۔
(أبو عبید، قاسم بن سلام، کتاب الأموال، بیروت، دار الفکر، ص: 57)
غیر مسلموں سے تعلقات کی سطح اور نوعیت کس طرح کی ہونی چاہیے؟ ذیل میں اس کا اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے:
1۔ غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک
اسلام اپنے متبعین کو بلند اخلاق اور اعلیٰ ظرفی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی شریعت یہ نہیں چاہتی کہ بد اخلاقی اور نامناسب زبان استعمال کی جائے، یا کسی بھی معاملے میں تنگ ذہنی برتی جائے۔ چنانچہ اسلام نے مسلمانوں کو باہمی اخلاقیات کی جو تعلیم اور ہدایات دی ہیں، ان کا راست مصداق تو مسلمان ہیں، تاہم غیر مسلم افراد بھی اس میں شامل ہیں۔ جیسے اسلام میں پڑوسیوں کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم دی ہے اور ان کو اپنے شر سے حفاظت کی ہدایت دی ہے، رسالتمآب ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من کان یومن بالله والیوم الآخر فلا یوذ جاره.
جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں پہنچانی چاہیے۔
(بخاری، الصحیح، ج: 5، ص: 2240، الرقم: 5670)
پڑوسیوں سے متعلق اس طرح کے جو بھی احکام ہیں، ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں، یعنی جس طرح مسلمان پڑوسی کو تکلیف سے محفوظ رکھا جائے گا اور اسے خوشی و راحت میں شامل کیا جائے گا، اسی طرح غیر مسلم پڑوسی کا بھی حق ہے کہ اسے امن فراہم کیا جائے اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک بار ایک بکری ذبح کرائی اور غلام کو ہدایت کی کہ وہ سب سے پہلے پڑوسی کو گوشت پہنچائے۔ ایک شخص نے کہا: حضور! وہ تو یہودی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہودی ہے تو کیا ہوا ؟ یہ کہہ کر رسالتمآب ﷺ کا حوالہ دیا کہ جبرئیل نے مجھے پڑوسیوں کے حق میں اس قدر اور مسلسل وصیت کی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار بنادیں گے۔
(بخاری، الصحیح، ج: 5، ص: 2239، الرقم: 5668)
علامہ قر طبی لکھتے ہیں:
فالوصاة بالجار مامور بها مندوب الیها مسلماً کان او کافراً.
پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم مندوب اور پسندیدہ ہے، پڑوسی مسلم ہو یا کافر۔
(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج: 5، ص: 481)
وہ مزید لکھتے ہیں:
قال العلماء الاحادیث فی اکرام الجار، جاءت مطلقة غیر مقیدة حتی الکافر.
علماء نے کہا ہے کہ پڑوسی کے اکرام و احترام میں جواحادیث آئی ہیں وہ مطلق ہیں، اس میں کوئی قید نہیں ہے، کافر کی بھی قید نہیں۔
(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج: 5، ص: 881)
2۔ غیر مسلموں سے تحائف کا تبادلہ
سماجی زندگی میں تحائف اور ہدایا کے لین دین کی بڑی اہمیت ہے، اس سے دوستی بڑھتی ہے، باہمی فاصلے کم ہوتے ہیں اور دلوں سے تکلیف و رنج کے آثار دور ہوتے ہیں، اس راز کو بیان کرتے ہوئے رسالتمآب ﷺ نے فرمایا:
تهادوا تحابوا.
تحائف کا لین دین کرو، محبت میں اضافہ ہوگا۔
(البیهقی، السنن الکبریٰ، ج: 6، ص: 169)
یہ حکم بھی عام ہے، اس سے غیر مسلم خارج نہیں ؛ بلکہ ان سے بھی ہدایا کا تبادلہ کیا جانا چاہیے۔ احادیث میں غیر مسلموں کو تحفے دینے اور ان کے تحفے قبول کرنے کا ثبوت موجود ہے۔ حضرت علیؒ فرماتے ہیں:
ان کسریٰ اهدی له فقبل وان المکوک اهدوا الیه فقبل منهم.
کسریٰ (شاہ ایران) نے آپ کو ہدیہ پیش کیا، آپ نے قبول کیا، دیگر بادشاہوں نے بھی آپ کو ہدیے دیئے، آپ ﷺ نے قبول فرمائے۔
(ترمذی، السنن، ج: 5، ص: 246)
3۔ غیر مسلموں کی دعوت قبول کرنا
سماج میں خوشگوار زندگی گذارنے کے لیے مہمانوں کی آمد و رفت اور دعوتِ طعام قبول کرنے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دعوت دے تو اسے قبول کرنا پسندیدہ ہے، بلا وجہ اسے رد کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم کے ساتھ بھی جائز مقاصد کے لیے کھانا پینا مباح ہے۔ وقتِ ضرورت اسے دعوت دی جاسکتی ہے اور اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے۔ رسالتمآب ﷺ نے غیر مسلموں کی دعوت قبول فرمائی ہے۔ غزوہ خیبر کے موقع پر ایک یہودیہ عورت نے آپ کی دعوت کی جسے آپ ﷺ نے قبول کیا۔
4۔ غیر مسلم کی عیادت
اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس سے ہمدردی کا اظہار اور مریض سے یگانگت ہوتی ہے۔ اس کے بڑے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم کی عیادت کا بھی یہی حکم ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسالتمآب ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار ہوا تو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اسی طرح آپ ﷺ بنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو غیر مسلم تھا۔
(احمد بن حنبل، المسند، ج: 3، ص: 152)
ان ہی روایات کی روشنی میں صاحب ہدایہ نے لکھا ہے:
ولا باس بعیادة الیهودی والنصرانی لانه نوع برفی حقهم وما نهینا عن ذلک.
’’یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسنِ سلوک ہے، اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
(مرغینانی، الهدایه شرح بدایة المبتدی، ج: 4، ص: 274)
5۔ غیر مسلم کی مالی اعانت
ضرورت مندوں اور محتاجوں پر خرچ کرنا اور ان کی ضرورت پوری کرنا بڑے اجر و ثواب کا موجب ہے۔ اس میں عقیدہ اور دین و مذہب کا فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ محتاج شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم، مشرک ہو یا اہلِ کتاب، رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار، ہر ایک پر خرچ کرنے کا جذبہ نیک اورباعثِ اجر ہے۔ ایک موقع پر رسالتمآب ﷺ نے فرمایا:
تصدقوا علیٰ اهل الا دیان.
تمام اہل مذاہب پر صدقہ و خیرات کرو۔
(ابن ابی شیبه، المصنف، ج: 3، ص: 395)
اس میں انسانیت کا احترام ہے، اس لیے کہ بھوک و پیاس ہر ایک کو لگتی ہے، غیر مسلم بھی اللہ کے بندے اور مخلوق ہیں، ان کے ساتھ ہمدردی کی جانی چاہیے۔ بحیثیتِ انسان وہ بھی حسنِ اخلاق اور رحم دلی کے مستحق ہیں۔
6۔ غیر مسلم قیدی کے ساتھ حسنِ سلوک
قیدیوں کے ساتھ ظلم و ستم کا عام رجحان ہے، وہ چونکہ کمزور اور ناتواں بن کر ماتحتی میں آتے ہیں، اس لیے ان کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جاتا ہے، اسلام نے اسے سختی سے منع کیا ہے۔قرآنِ مجید میں مسکینوں اور یتیموں کے ساتھ ساتھ قیدیوں سے بھی اچھا برتاؤ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ (القرآن، 76: 8)۔ عہدِ نبوی ﷺ میں قیدی صرف غیر مسلم ہوا کرتے تھے، اس لیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی خواہ غیر مسلم ہو، اس کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے گا۔
صحابہ کرامؓ نے اپنے قیدیوں کے ساتھ جو حسنِ سلوک کیا، تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ جنگ بدر میں جب ستر قیدی ہاتھ میں آئے اور آپ ﷺ نے مختلف صحابہ کرام کے درمیان ان کو دیکھ بھال کے لیے تقسیم کیا اور بہتر سلوک کی ہدایت دی تو صحابہ کرامؓ نے ان کے ساتھ حیرت انگیز حسنِ سلوک کا معاملہ کیا۔ خود بھوکے رہے یا روکھا سوکھا کھایا مگر انھیں اچھا کھلایا پلایا، ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھا، خود تکلیف اُٹھاکر اپنے قیدیوں کو راحت پہنچائی، حالانکہ وہ حالتِ جنگ تھی اور ان ہی کفار کے ہاتھوں یہ ستائے گئے تھے یہاں تک ان کے مظالم کے سبب صحابہ کرا م کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا، ان سب کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ یہ رواداری اور بہتر سلوک سارے مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ ہے، جس پر چلنا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔
7۔ غیر مسلم کو دُعا دینا
دوسروں کے لیے دُعا قلبی سخاوت اور وسعتِ ذہنی کی مثال اور آئینہ ہے، اس میں اظہارِ ہمدردی اور خیر خواہی بھی ہے کہ دوسروں کے لیے ایک شخص وہی چاہتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ دوسروں کی ترقی، راحت اور خوشحالی کی تمنا کرنا، اسلام کی ہدایت ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے بھی ہے اور غیر مسلم کے لیے بھی ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز طلب کی تو اس نے وہ پیش کی تو آپ ﷺ نے اسے دُعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حسین و جمیل رکھے ؛ چنانچہ مرتے وقت تک اس کے بال سیاہ رہے۔
(عبد الرزاق، المصنف، ج: 1، ص: 392)
8۔ غیر مسلم کے ساتھ عدل و انصاف
عدل و انصاف کی شریعت نے بہت سخت تاکید کی ہے ؛ بلکہ یہ اسلام کا امتیازی وصف ہے کہ انسان کسی بھی حال میں ہو وہ عدل و انصاف کو ترک نہ کرے۔ اسلام اپنے متبعین کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی فرد یا گروہ پر دستِ تعدی دراز کریں، چاہے اس سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں اور اس نے کتنے ہی زیادتی کیوں نہ کی ہو، ارشاد ربانی ہے:
یَا اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُونُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی اَلاَّ تَعْدِلُوْا.
’’اے ایمان والو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو، کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔‘‘
(القرآن، 5: 8)
عدل سے کام نہ لینا ظلم ہے اور ظلم کبھی اللہ تعالیٰ کو برداشت نہیں ہے، خواہ وہ کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ ﷺ نے مظلوم کی بددُعا سے بچنے کی تاکید کی ہے، جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں۔
9۔ غیر مسلم کو مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دینا
مسجد ایک مقدس جگہ ہے، اس کو پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہاں مسلمان عبادت کرتے ہیں، اس لیے ہر طرح کی آلودگی، بچوں کی آمد و رفت، شور و شرابہ اور ناپاک لوگوں کے داخلے سے حفاظت ایمان کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود غیر مسلم اقوام کے مسجد میں داخلہ اور قیام کا ثبوت ملتا ہے۔ ثقیف کا وفد جب رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے ان کے لیے مسجد میں خیمہ لگوایا تاکہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھیں۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ انھیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں، جبکہ وہ مشرک ہیں؟ آپ نے فرمایا: زمین نجس نہیں ہوتی، نجس تو ابن آدم ہوتا ہے۔
(الزیلعی، نصب الرایه لاحادیث الهدایه، ج: 4، ص: 270)
غیر مسلم کو عقیدے کے اعتبار سے قرآن نے ناپاک کہا ہے ؛ تاہم جسمانی اعتبار سے اگر وہ پاک صاف رہیں تو مسجد میں داخلے کی ممانعت نہیں ہوگی۔ بالخصوص اس نیت سے کہ مسلمانوں کے طریقہ عبادت، ان کی اجتماعیت اور سیرت و اخلاق کو دیکھ کر ان کے دل نرم پڑیں اور وہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ جیساکہ آپ ﷺ نے مختلف وفود اور اشخاص کو مسجد میں قیام کی اجازت اسی مقصد کے تحت دی تھی، علامہ خطابی لکھتے ہیں:
وفی هٰذا الحدیث من العلم ان الکافر یجوز له دخول المسجد لحاجة له فیه او للمسلم الیه.
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کو اگر مسجد میں کوئی حاجت ہو یا مسلمان کی اس سے کوئی حاجت ہو تو وہ وہاں جاسکتا ہے۔
(الخطابی، معالم السنن، ج: 2، ص: 35)
10۔ غیر مسلم کے جنازہ کا احترام
خوشی اور غم اگرچہ غیر مسلم کو ہی کیوں نہ ہو، ان کی خوشی اور غم میں شمولیت حدود میں رہتے ہوئے جائز ہے۔ جنازہ وہ شے ہے کہ جو تصور و خیال کو آخرت کی طرف لے جاتا ہے اور انسان کو چونکا دیتا ہے، اس لیے کہیں سے کوئی جنازہ گزرے تو انسان کو کھڑا ہوجانا چاہیے، اگر یہ جنازہ غیر مسلم کا بھی ہو تو بھی یہی حکم ہے۔ ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اکرم ﷺ کھڑے ہوگئے، صحابہ نے عرض کیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
ان فیه لنفساً.
آخر وہ بھی تو انسان تھا۔
(بخاری، الصحیح، ج: 1، ص: 441، الرقم: 1250)
یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں۔
11۔ غیر مسلم کی تعزیت
موت ایک خوفناک حادثہ ہے، یہ حادثہ مسلمانوں کو ہو تو وہ یقینا لمحہ فکر ہے لیکن غیر مسلم کے گھر میں بھی یہ حادثہ پیش آئے تو اس کی بھی تعزیت کی جانی چاہیے اور انسانی ہمدردی کا اظہار کیاجانا چاہیے۔ یہ ایک سماجی تقاضا ہے اور عین اسلام کی تعلیم پر عمل ہے۔ امام ابویوسفؒ کا بیان ہے کہ حضرت حسن بصری کے پاس ایک نصرانی آتا اور آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا، جب اس کا انتقال ہوا تو انھوں نے اس کے بھائی سے تعزیت کی اور فرمایا:
’’تم پر جو مصیبت آئی ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا وہ ثواب عطا کرے جو تمہارے ہم مذہب لوگوں کو عطا کرتا ہے۔ موت کو ہم سب کے لیے برکت کا باعث بنائے اور وہ ایک خیر ہو جس کا ہم انتظار کریں، جو مصیبت آئی ہے، اس پر صبر کا دامن نہ چھوڑو۔‘‘
خلاصۂ کلام
انسانی تعلقات کا مسئلہ سماج کا سب سے اہم اور نازک مسئلہ ہے۔ اس کی اہمیت اور نزاکت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے۔ جب سماج میں مختلف افکار و نظریات اور عقائد و مذاہب کے ماننے والے ساتھ رہتے ہوں، ان کا طرزِ حیات اور ان کی تہذیب و معاشرت ایک دوسرے سے الگ ہو۔ اس صورت حال میں ظلم و زیادتی، حق تلفی اور نا انصافی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور عدل و انصاف اور حقوق کی ادائیگی میں فکری تعصبات، ذاتی اور قومی رجحانات اور سماجی عوامل رکاوٹ بننے لگتے ہیں۔ اس پر قابو پانا ہر مہذب اور صالح سماج کی اولین ضرورت ہے۔
انسانی تعلقات کا رشتہ اخلاق اور قانون سے جڑا ہوا ہے۔ اخلاق کا ہدف ان تعلقات کو بہتر اور خوش گوار بنانا ہے۔ قانون اس لیے ہے کہ انہیں جائز حدودمیں رکھے اور کسی کو ان سے انحراف اور تجاوز کی اجازت نہ دے۔ اخلاق اور قانون اپنا فرض ادا کریں تو سماج کو امن و امان اور سکون کی دولت نصیب ہو گی، ورنہ جنگل کا راج ہو گا، حقوق پامال ہوں گے اور طاقت ور کے ظلم اور چیرہ دستی سے کم زور سسکتے اور بلبلاتے رہیں گے۔
اسلام عالمگیر مذہب ہے، اس لیے اسلام نے نہ صرف مسلمانوں کے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کے اصول و ضوابط طے کیے ہیں بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات کا بھی ایک جامع ضابطۂ اخلاق وضع کیا ہے۔ اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات کی اساس عظمتِ انسانی، شرفِ انسانیت، عدل و انصاف، امن و امدادِ باہمی، ایفائے عہد، حریتِ فکر، عدمِ اکراہ اورغیرجانبداری پر رکھی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان سماجی تعلقات کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات کو اپنائیں اورغیر مسلموں سے حسنِ سلوک کریں۔ اسی سے دشمنوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا جاسکتا ہے اور اسلامو فوبیا جیسی مہمات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔