سولہ اور سترہ جون 2014ء کی درمیانی شب رات گئے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ واقع ماڈل ٹاؤن اور ملحقہ شریعہ کالج کے ہاسٹلز میں سوئے ہوئے نہتے طلبہ پر اس وقت کی حکومت کے پروردہ غنڈہ گرد عناصر نے شب خون مارا اور مرکزی سیکرٹریٹ کی عمارت میں واقع گوشہ درود اور مینارۃ السلام میں محوِ درود و سلام ذاکرینِ مصطفیa پر سرکاری گماشتے بھیڑیوں کی مانند ٹوٹ پڑے اور جوتوں سمیت داخل ہوکر مسجد، گوشہ درود اور مینارۃ السلام کا تقدس پامال کیا۔ نہتے محوِ عبادت، شب بیدار عبادالصالحین پر بندوقوں کے بٹوں اور لاٹھیوں سے ایسے یلغار کردی جیسے سرحد پر ازلی دشمن پر دھاوا بولتے ہیں۔
یاد رہے کہ جب عابدین و ساجدین پر ظالمین لاٹھیوں، بوٹوں اور گھونسوں کی بارش برسا رہے تھے تو ساتھ ساتھ اسلحہ نکالنے کا مطالبہ بھی دہرا رہے تھے۔ بڑی حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ اگر ایسے حالات اور ایسی صورت حال میں اسلحہ ہوتا تو بھی مدافعانہ اور دفاعی لحاظ سے ایسے سرکش، گستاخ، بے ادب، بے دین حملہ آوروں کو مسجد اور گوشہ درود میں بوٹوں کے ساتھ گھس کر حملہ کرنے کی پاداش میں ضرور عبرت کا نشان بنادینا چاہیے تھا لیکن گوشہ درود اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں حفاظت پر مامور گارڈز کے علاوہ کسی کو کسی قسم کا اسلحہ لانے اور رکھنے کی قطعی اجازت نہ ہے تو پھر ان کے ناجائز اور غلط مطالبہ پر اسلحہ کہاں سے مہیا کیا جاتا۔۔۔؟
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب مسلسل کئی گھنٹے مرکزی سیکرٹریٹ کے اندر اور باہر اور گوشہ درود و سلام کے اطراف میں پولیس نے بلا جواز گھمسان کی جنگ کا ماحول بنا رکھا تھا تو بزرگ وابستگان جو حملے کا سن کر قریبی گھروں سے باہر آگئے تھے اس موقع پر ان پر اور طلبہ پر لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹوں سے حملہ کیا گیا تو بھرپور حملہ کے باوجود طلبہ نے اپنی دینی اور اخلاقی تربیت اور حکمِ قائد کی بجا آوری میں حملہ آوروں کی بربریت کے باوجود قانون ہاتھ میں نہیں لیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی طرف سے وابستگان تحریک اور خصوصاً طلبہ کے لیے بہر صورت Defnesive (دفاعی) رہنے اور قانون کو قطعی ہاتھ میں نہ لینے کی سخت ترین ہدایات دی جارہی تھیں۔
شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کے پیکر امن و سلامتی ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ حکومتی گماشتوں کی اتنی بڑی دریدہ دہنی، شریدہ سری، قانون شکنی، عبادت گاہ اور گوشہ درود کی بے حرمتی پر بھی عظیم قائد کا فرمان تحریکی قائدین لاؤڈ سپیکر پر اناؤنس کررہے تھے کہ کوئی لائسنس اسلحہ ہولڈر گارڈ بھی منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے اندر یا باہر کسی صورت میں Defensive (دفاعی) طور پر بھی فائرنگ نہیں کرے گا۔
قارئین مکرم! میں اپنے جواں سال بیٹے کے ہمراہ القادریہ میں صاحبزادگانِ قائد اور اہلِ خانہ کے ساتھ حالات کی سنگینی ملاحظہ کررہا تھا جو حیرت زدہ مگر انتہائی پُرسکون اور مطمئن نظر آرہے تھے۔ تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور چند دیگر قائدینِ تحریک کے ہمراہ حالات معمول پر لانے اور طلبہ اور تحریکی Defensive وابستگان کو نظم و ضبط میں رہنے، اپنا اخلاقی اور لازم دفاع قوتِ ارادی اور قوتِ ایمانی سے سرانجام دینے اور حوصلے میں رہنے سے متعلق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہدایات مسلسل پہنچا رہے تھے اور باہر کی صورت حال سے بھی صاحبزادگان کو آگاہ کررہے تھے۔ قائد محترم کو لمحہ بہ لمحہ تازہ صورت حال سے آگاہ کیا جارہا تھا اور وہ حوصلہ میں رہنے اور فقط بغیر اسلحہ کے Defencive رہنے کی ہدایت دے رہے تھے۔
پولیس یونیفارم میں ملوث حکومتی غنڈے دو طرفہ کھیل کھیل رہے تھے، ایک طرف وہ تحریکی قائدین کو دھوکہ سے ایک قریبی گراؤنڈ میں مذاکرات میں مصروف رکھے ہوئے تھے اور دوسری طرف ہائی کمان نئے حملے اور خاص ٹارگٹ حاصل کرنے کی تیاری میں مصروف کار تھی اور حکومتی ایجنسیوں کی جانب سے رات بھر پورے لاہور ڈویژن کی پولیس فورسز کے مسلح اجتماعات اور پوری ڈویژن سے تازہ دم دستے طلب کرنے، اسلحہ اکٹھا کرنے، بکتر بند گاڑیوں کی آمد، غیر متناہی آنسو گیس سکواڈ اور دیگر گولہ بارود اور سامانِ حرب اکٹھا کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔
پاکستان کے تمام TV چینلز براہ راست رپورٹنگ اور اس حملہ کی لمحہ با لمحہ صورتحال سے آگاہ کررہے تھے جس سے حکومتی کارندوں اور گلوبٹوں کے بلند حوصلے اور ان کی پشت پناہی کے ہاتھ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گردونواح میں ملحقہ مارکیٹوں میں لوٹ مار، خون ریزی اور سیکڑوں گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کے مناظر اپنے TV سکرینوں پر پوری پاکستانی عوام براہِ راست دیکھ رہی تھی۔
رات بھر منہاج القرآن کے معدودے طلبہ اور ورکرز فقط دفاعی پوزیشن میں رہے اور تمام رات پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسر اپنی طاقت اور تعداد بڑھانے میں مصروف رہے۔ وفاق اور پنجاب حکومت کے تمام بڑے اپنے فرائض پوری دل جمعی سے سرانجام دینے کے لیے صبح کی انتظار میں تھے۔ القادریہ پر پولیس یونیفارم میں ملبوس حکومتی غنڈے حملے کے لیے پوزیشنز سنبھال چکے تھے۔ پوری دنیا میں منہاج القرآن پر حملے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ جب رات گئے منہاج القرآن کے چند ورکرز نے سیکرٹریٹ جانے کی کوشش کی تو انہیں شدید زدو کوب کیا گیا اور گرفتار کرکے نامعلوم جگہوں پر منتقل کردیا گیا۔ بالآخر سترہ جون کی صبح ہوئی تو پنجاب پولیس نے مذاکرات ناکام قرار دیتے ہوئے منہاج القرآن سیکرٹریٹ کی جانب جانے والے راستے بند کردیئے جبکہ نزدیکی علاقوں سے ورکز اپنے قائد کے گھر اور سیکرٹریٹ پر حملے کے باعث القادریہ اور مرکزی سیکرٹریٹ پہنچنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔
صبح تقریباً 11بجے وفاق اور پنجاب حکومت کے بڑوں کی ہدایات کے تحت پنجاب پولیس اپنی تازہ فورسز کے ساتھ پوری تیاری کے ساتھ القادریہ پر حملہ آور ہوئی۔ اس صورت حال میں جب نہتے جانثار قائد ہاؤس کے دفاع کے لیے آگے بڑھے تو Straight Fire کھول دیا گیا۔ شہادتوں کا آغاز گوشہ درود میں ذاکرین پر اندھا دھند فائرنگ سے کیا گیا۔ مگر مصطفوی مشن کے یہ عظیم کارکنان گولیوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔
میں اپنے بیٹے عمر مصطفی قادری کے ہمراہ القادریہ سے تھوڑے فاصلے پر واقع ٹیلی فون آفس تک گیا جہاں ایک نہتا معصوم 16,17 سال کا بچہ ذاتی دفاع میں بازو پر گولی کھاکر کھڑا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس بچے کی ماں موجود تھی، اس ماں نے جذبات اور محبتِ قائد میں جو کہا، اسے سن کر اور اس مصطفوی مشن اور عظیم قائد کے ساتھ کارکنان کی وابستگی اور محبت دیکھ کر میرے ایمان اور یقین میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ خاتون نے بچے کے بازو پر اپنا دوپٹہ زور سے باندھا اور کہنے لگی: یہ لوگ ظلم کررہے ہیں ظلم پر خاموش رہنا بھی ظلم ہے۔ بیٹے صرف زخمی ہوئے ہو، قائد اور منہاج القرآن کی خاطر بازو پر نہیں بلکہ سینے پر گولی کھانا اور پھر گولیوں والی جگہ پر بیٹے کو دوبارہ بھیج دیا۔
میں باہر کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد واپس القادریہ میں داخل ہوا تو گیٹ پر دو بیٹیاں بازو پھیلائے جانثاری کے جذبات اور ولولے میں نعرے لگارہی تھیں کہ ’’قائد تیرا اک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا۔‘‘ ’’تیری بیٹیاں تیری حرمت اور تیرے گھر کی توقیر پر اپنی جان تو دے دیں گی لیکن تیری حرمت پر حرف نہیں آنے دیں گی۔‘‘
مسجد، گوشہ درود اور مرکزی سیکرٹریٹ کے گردو نواح میں لاشیں گرنے اور خون کی ندیاں بہانے کے بعد پنجاب حکومت کی اندھی اور مسلح طاقت کا رخ اب مکمل طور پر القادریہ رہائش گاہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جانب تھا۔ کئی ڈویژن کی پولیس کُمک پوری طاقت اور تیاری کے ساتھ القادریہ کی طرف پیش قدمی کرچکی تھی۔ تحریک کے سیکرٹریٹ کے دفاع اور قائد ہاؤس کی طرف پیش قدمی کو روکتے ہوئے کئی تحریکی جوان جام شہادت نوش کرچکے تھے۔
القادریہ کے باہر گھمسان کی جنگ تھی۔ قائد کے شائستہ اور مہذب کارکن ظالم کی کمین گاہ سے آنے والے گولہ بارود کو بڑی جرأت سے برداشت کررہے تھے۔
میرا دل گواہی دیتا ہے کہ جب محو درود و سلام اور محو عبادت الہٰی معصوم بے گناہوں کے لہو ناحق کے چھینٹے چرخِ کہن تک پھیل گئے ہوں گے تو کیا قتل گری کا شور و غوغا بارگاہِ رسالت مآبa تک شرفِ سماعت نہ پاسکا ہوگا؟ یقینا اس بارگاہ میں یہ شہادتیں قبول ہوئیں اور جلد یا بادیر ظالم اپنے انجام کو پہنچے گا۔
میری نظر میں سانحہ ماڈل ٹاؤن در حقیقت حق و باطل کا ایک عملی معرکہ ہے۔ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں؟ اس لیے کہ:
1۔ القادریہ پر اطراف میں 1400 کمانڈوز کی اعلیٰ کمان کی نگرانی میں جدید ترین آتشیں سرکاری اسلحہ، Tear Gas (آنسو گیس) سکواڈ اور ان گنت بکتر بند گاڑیوں اور دیگر سامان حرب کے ساتھ یلغار کرنا اور تجدید و احیاء دین کی ایک عالمگیر تحریک کے سربراہ اور عالم اسلام میں سفیر امن کے لقب سے یاد کیے جانے والی شخصیت اور دہشت گردی کے خلاف علم و عمل کی آہنی چٹان کے گھر اور گھر والوں پر کئی گھنٹوں بلا جواز سیدھی فائرنگ، آنسو گیس کے سیکڑوں شیل پھینکنا اور بلا تعطل موت کا کھیل جاری رکھنا۔ تاریخ میں ایسی مثالیں کم ہی پیش کی جاسکتی ہیں۔
2۔ القادریہ کے اندر گھسنے کی کوشش میں قائد کی دو مجاہدات بیٹیوں (محترمہ تنزیلہ شہید صاحبہ اور محترمہ شازیہ مرتضیٰ شہید) کو قائد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اور یاحسین کا نعرہ لگانے پر سفاکی اور درندگی سے برسٹ مار کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کرانے کا وطیرہ باطل قوتوں ہی کا رہا ہے۔
3۔ صرف یہی نہیں بلکہ القادریہ کے گیٹ پر سفاکی سے قتل کی جانے والی بیٹی کے بطن میں موجود بچے کو بھی کوکھ مادر میں ہی گولیاں مار کر قتل کرنا اور زخمی تڑپتے لاشے ہسپتال منتقل نہ کرنے دینا، یہ سب ہتھکنڈے حق سے خوف زدہ ہوکر باطل قوتیں ہی اختیار کیا کرتی ہیں۔
4۔ ایمبولینس میں تڑپتے موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا خواتین و حضرات کو ہسپتال کے بجائے وادیٔ موت میں بھیجنا اور القادریہ پر گولہ بارود اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال ہونا کیا یہ صرف بیریئر لگانے کی وجہ سے ہوا۔۔۔؟ کیا یہ Law and Order نقص امن کا مسئلہ کہلائے گا۔۔۔؟ کیا محض بیریئر لگانے کی وجہ سے خون کی ندیاں بہادی جاتی ہیں یا مسئلہ اس خاص ذہنیت کا تھا جو اپنے مفادات اور اپنی لوٹ مار کے تحفظ کے لیے حق کی قوت کو ہر قیمت پر خاموش کرانے پر بضد تھی۔
اسے میں معرکہ حق و باطل ہی گردانوں گا کیونکہ حق محو حیرت تھا، معصوم ورکرز کے لاشے گرنے اور ظلم و ستم پر پورا عالم کرب میں مبتلا تھا۔ باطل حق کو مٹانے میں کوشاں تھا۔ باطل غیر قانونی بلا جواز تسلط بے جا (Unlawful Command) کے ذریعہ دہشت پھیلائے ہوئے تھا۔
درحقیقت سترہ جون معرکہ ماڈل ٹاؤن کے بعد باطل طاغوتی، استعماری و استبدادی طاقت نہ صرف منظر عام پر آگئی بلکہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے پسِ پردہ حقائق
محترم قارئین! اس موقع پر میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے چند خصوصی محرکات اور مختصر حقائق پر روشنی ڈالنا چاہوں گا جس سے موجودہ حملے کی وجوہات سے آگاہی ہوسکے گی اور پسِ پردہ مقاصد عیاں ہوسکیں گے:
سانحہ ماڈل ٹاؤن درحقیقت بیس اکیس اپریل 1990ء کی درمیانی شب القادریہ 299-M ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر جاں لیوا حملے کا تسلسل تھا۔ 1990ء میں حملے کے سیاہ دھبے اور سترہ جون 2014ء کے شہداء کے خونِ ناحق کے چھینٹے جن چہروں پر ثبت ہیں، وہ ایک ہی ہیں۔ دونوں حملوں کا ماسٹر مائنڈ ایک ہی گھناؤنا چہرہ ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اپریل 1990ء کے القادریہ رہائش گاہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر حملے کے تانے بانے مکمل طور پر 2014ء سانحہ ماڈل ٹاؤن سے ملتے ہیں۔ ان محرکات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں شریف برادران کی ذہنی پستی، ریشہ دوانیاں، حسد، مفاد پرستی اور مذہبی اور سیاسی بغض و حسد شامل ہے۔
جو محرکات 1990ء کے حملہ میں کارفرما تھے، وہی محرکات اور سلگتی ہوئی سازشیں تحریک منہاج القرآن اور قائد تحریک شیخ الاسلام کے خلاف 2014ء میں بھی کارفرما تھیں۔
اپریل 1990ء میں شیخ الاسلام پر ہونے والے حملے کے محرکات درج ذیل تھے:
1۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے نام نہاد دینی اور روحانی بُکل میں چھپے ہوئے پنجاب حکومت کے فرمانروا اور اس کے خاندان کے استبداد، ظلم و بربریت اور استعماری ہتھکنڈوں اور اسلام دشمن ریشہ دوانیوں کا پول کھلنے پر 25 مئی 1989ء کو موچی دروازہ لاہور میں منعقدہ تاسیس انقلاب کانفرنس میں اپنی باقاعدہ سیاسی پارٹی پاکستان عوامی تحریک کا اعلان فرمایا جس سے سلطنت شریفیہ میں بھونچال بپا ہوگیا۔
2۔ 1988ء کے عام انتخابات میں چھانگا مانگا پلان اور ہارس ٹریڈنگ جیسے گھناؤنے کاروبارکے باعث ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ببانگ دہل عملاً و نظریاتی طور پر اسی پلان کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرنا اور اسے شرعاً اور اخلاقاً ناجائز قرار دینا، ان باطل قوتوں کو برداشت نہ ہوا۔
3۔ تاسیس انقلاب کانفرنس میں پاکستان عوامی تحریک کے اعلان سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے انقلابی اورمصطفوی نظریات اور بھرپور جدوجہد کے اعلان میں بظاہر سلطنت شریفیہ کی سیاسی بساط لپٹتی نظر آنے لگی اور سلطنت شریفیہ سے وابستہ خاندانوں اور خوشامدی ٹٹوؤں کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین حرام ہوگیا۔
4۔ پاکستان عوامی تحریک کے باقاعدہ اعلان سے یزیدی اور قارونی سوچوں کی قلعی کھل گئی۔ جھوٹی عقیدت و ارادت کا پول کھل گیا۔ شیخ الاسلام کی عقیدت و ارادت میں ہاتھ چومنا، عقیدت کے باعث اترے کپڑے پہننا، اترے جوتے پہننا، کندھوں پر اٹھا کر غار حرا پر تن تنہا لے جانا، پھولوں کے گلدستے پیش کرنا اور والد کا مقام و مرتبہ دینا، یہ اور ان جیسے نظریات پسِ پشت چلے گئے اور یزیدی سوچ و نظریہ اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے حسینی سوچ و نظریہ کا حقیقی قلع قمع کرنے کے لیے کمربستہ ہوگیا۔
محترم قارئین! یہی محرکات اور نظریات 2014ء میں بھی کارفرما تھے کہ جب شیخ الاسلام نے مطلق العنانی کے شریفی بت کو پاش پاش کرنے کی سعی کی اور ملک میں ایسے بددیانت لادین نظریات کے خاتمے کا اعلان کیا تو سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا ہوا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی 1990ء کا تسلسل تھا اُس وقت بھی دھن، دھونس اور دھاندلی کی پیداوار اِن قوتوں کو شیخ الاسلام کے فکرو نظریہ کا چیلنج درپیش تھا اور آج بھی یہ شیخ الاسلام کے مشن اور فکر کی حقانیت و صداقت سے خائف ہیں۔
خوں چکاں سانحہ ماڈل ٹاؤن کو سات برس بیت گئے ہیں۔ 2014ء تا حال مقتدر حکومتی و ریاستی قوتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مظلومین ماتم کناں ہیںجبکہ جملہ حکومتی و ریاستی طاقتیں عدل و انصاف سے روگردانی کی عملی تصویر بن کر رہ گئی ہیں۔غیر جانب دار عوام الناس اس بے حسی و بے اعتنائی کو سمجھنے سے کلیتاً قاصر ہے۔ اس نابینائی، عدم گویائی اور عدم سماعت پر فقط انا للہ وانا الیہ راجعون کہا جاسکتا ہے۔