ہر کام میں مقدور بھر خوبصورتی اور مضبوطی کا اہتمام، اسے پوری فنی مہارت سے سرانجام دینا اور اسے درست کرنا سنتِ الہٰی ہے۔ ارشاد الہٰی ہے:
صُنْعَ اللهِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ.
’’(یہ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت و تدبیر کے ساتھ) مضبوط و مستحکم بنا رکھا ہے۔‘‘
(النمل، 27: 88)
علامہ راغب اصفہانیؒ کے نزدیک ’’صُنْعَ‘‘ کا معنی کسی کام کو کمال مہارت سے اچھی طرح کرنے کے ہیں۔ اس لیے ہر صُنْعَ کو فعل تو کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صُنْعَ نہیں کہہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ حیوانات اور جمادات کی طرف صُنْعَ کے بجائے فعل کا لفظ منسوب کیا جاتا ہے۔
اسی طرح متعدد مفسرین نے ’’اَتْقَنَ‘‘ کا معنی ’’اَحْکَمَ‘‘ (اس نے مضبوط بنایا) اور ’’اَحْسَنَ‘‘ (اس نے خوبصورت بنایا) کیا ہے۔ علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ای احکمه و منه قول النبی ﷺ: رحم الله من عمل عملا فاتقنه و قال قتاده معناه احسن کل شئی والاتقان الاحکام.
’’یعنی اللہ نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ اس معنی میں نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ ’’اللہ اس آدمی پر رحم فرمائے جس نے کوئی کام کیا تو اسے پوری فنی مہارت سے سرانجام دیا۔‘‘ اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ اس کا معنی ہے: اس نے ہر چیز کو خوبصورت بنایا اور اتقان کا معنی ہے: احکام (مضبوطی سے بنانا یا کرنا۔)‘‘
(الجامع الاحکام القرآن، 13: 219)
حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’کسی چیز کو حکمت و مہارت سے مضبوط بنانے کو عربی میں ’’اتقن‘‘ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بنائی اسے ایسا مضبوط اور مستحکم بنایا کہ وقت سے پہلے بوسیدگی یا ٹوٹ پھوٹ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ آسمان ہزاروں صدیوں سے یونہی تنا ہوا ہے، اس کاکوئی گوشہ ڈھیلا نہیں ہوا۔ کوئی جگہ مرمت طلب نہیں۔ اس کی بنائی ہوئی کسی چیز کو دیکھو۔ پانی کی مقدار جو اس نے پہلے دن پیدا فرمائی ہے، ساری دنیا اسے استعمال کررہی ہے لیکن اس کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی اور نہ ہی مزید پانی بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہوگی۔ ہوا کا جو ذخیرہ روزِ اول سے فراہم کیا گیا، ساری چیزیں اس میں سانس لے رہی ہیں لیکن اس میں کمی نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ ہر چیز تمہیں بتارہی ہے کہ وہ ’’صُنْعَ اللهِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ‘‘ کی قدرت کا شاہکار ہے۔
(ضیاء القرآن، 3: 469، حاشیه نمبر 102)
مذکورہ صراحت اور تفصیل کے مطابق ہر کام میں خوبصورتی اور مضبوطی و پختگی کو مدنظر رکھنا جب سنتِ الہٰی ہے تو صوفیہ کے مشہور قول ’’تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ‘‘ کے مطابق ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ صنعت و حرفت، صنعتی پیداوار، ہر قسم کی چھوٹی بڑی مصنوعات کی تیاری اور روزمرہ کے دیگر کاموں میں ایسی کاریگری، فنی مہارت، نفاست، دیانت داری اور امانت داری کا ثبوت پہنچائے جس سے ملک و ملت کا نام روشن ہو اور اس کی تیار کردہ چیز میں کسی دور بین سے بھی کوئی ملاوٹ، خامی اور نقص نظر نہ آئے۔
عام مشاہدہ اور تجربہ یہی ہے کہ دنیا کے جس کام میں بھی ’’اتقان‘‘ (مضبوطی و خوبصورتی) کو ملحوظ نہ رکھا جائے، چاہے وہ تعلیم ہو، صنعت و حرفت ہو، تجارت ہو، نظامِ حکومت ہو، نظامِ معاشرت ہو تو اس عدمِ اتقان کا نتیجہ بالآخر اس کام کا انحطاط، خرابی، بگاڑ اور نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
خوبصورت اور معیاری زرہیں بنانے کا حکمِ الہٰی
اللہ کریم اپنی سنت اور طریقہ کے مطابق اپنے بندوں سے بھی اس بات کا تقاضا فرماتا ہے کہ جب وہ کوئی کام کریں یا کوئی چیز تیار کریں تو اس میں خوبصورتی، معیار، مضبوطی اور نفاست کو ملحوظ رکھیں۔ چنانچہ اللہ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت دائود علیہ السلام کے لیے معجزانہ طور پر جب لوہا آٹے کی طرح نرم کردیا اور انہیں زرہ سازی کا فن سکھایا تو اس فن کی باریکی اور فنی مہارت کے مظاہرہ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِی السَّرْدِ.
’’(اور ارشاد فرمایا) کہ کشادہ زرہیں بنائو اور (ان کے) حلقے جوڑنے میں اندازے کو ملحوظ رکھو ۔‘‘
(سبا، 34: 11)
امام راغب اصفہانی کے نزدیک قَدِّرْ فِی السَّرْدِ کے معنی یہ ہیں کہ مضبوط اور محکم زرہیں بنائو۔
(مفردات القرآن، اردو ترجمه از مولانا محمد عبده فیروز پوری، 2: 832۔ زیر ماده القدرة)
اس حکمِ الہٰی کی مزید وضاحت اور تشریح میں حضرت پیر کرم شاہ صاحب فرماتے ہیں:
ان آیات میں ہمارے لیے دو سبق ہیں:
- دستکاری میں قطعاً کوئی عیب نہیں، اپنے ہاتھ سے روزی کماکر کھانا، پیغمبروں کا شیوہ ہے۔
- جو کام کرو، اسے بڑے سلیقہ اور ہنر مندی سے کرو، جو چیز بنائو اس میں پختگی اور نفاست دونوںکا پورا پورا خیال رکھو۔ بے ادبی اور بے احتیاطی سے کوئی کام کرنا مسلمان کو زیبا نہیں۔ کاش ہم قرآن کی بتائی ہوئی ہدایات پر چلیں تو ہماری صنعت و حرفت کو چار چاند لگ جائیں۔ ہر منڈی میں ہماری مصنوعات کی مانگ بڑھ جائے۔ ہماری ہنر مندی اور فنی مہارت کی دھاک بیٹھ جائے اور ساتھ ہی ساتھ ہماری معاشی حالت بھی قابلِ رشک ہوجائے۔ آج ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے ان ہدایات پر عمل کرنے کی کبھی کوشش کی ہو۔
(ضیاء القرآن، 4: 114، حاشیه نمبر: 16)
ہر چیز میں حسن ونظم کا اہتمام اللہ کی طرف سے لازم
اللہ کے رسول ﷺ کو جملہ امور میں حسن و نظم اس لیے پسند تھا اور آپ ﷺ اس کا اس لیے اہتمام فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہر چیز حتی کہ بظاہر غیر ضروری اور عدمِ توجہ کے لائق کاموں میں بھی لازم ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد متعدد محدثین نے الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے کہ
ان الله کتب الاحسان علی کل شئی فاذا قتلتم فاحسنو القتلة واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح ولیحد احدکم شفرته ولیرح ذبیحته.
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (حسن کاری، اچھی طرح کام سرانجام دینا) کو واجب ٹھہرایا ہے پس جب تم (کسی دشمن کو) قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو (یعنی اسے کم سے کم تکلیف ہو، مثلہ نہ کرو۔ اعضاء نہ کاٹو، دشمن کو تکلیف پہنچانا مقصود نہیں بلکہ اس کی قوت کو توڑنا مطلوب ہے) اور جب تم (کسی جانور کو) ذبح کرو تو اس کو اچھے طریقے سے ذبح کرو (جس سے جانور کو اذیت نہ پہنچے بلکہ کم سے کم تکلیف ہو) اور ذبح کرنے والے کو چاہیے کہ اپنی چھری تیز کرلے اور چاہیے کہ وہ اپنے ذبیحہ کو یوں راحت پہنچائے۔‘‘
(مسلم: الجامع الصحیح، کتاب الصید و الذبائح، باب الامر باحسان الذبح والقتل، 2: 152)
اس کا مطلب بجز اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ حسن وجمال کے قالب میں ڈھالے بغیر اسلام نہیں چاہتا کہ کسی مسلمان سے کوئی فعل بھی صادر ہو۔ سب سے آخری کام جس میں حسن کاری کا آدمی خیال نہیں کرسکتا، وہ قتل اور ذبح کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے مگر جب ان افعال میں بھی پیغمبر اسلام ﷺ کا حکم ہے کہ حسن پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ صناعات اور کاری گریاں جن میں عموماً آدمی کی فطرت تناسب و جمال کو چاہتی ہے، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کا نقطہ نظر کیا ہوسکتا ہے۔ حسن پسندی حضور نبی اکرم ﷺ کا صرف ذاتی ذوق نہ تھا بلکہ ہر چیز میں حسن پیدا کرنے کو اللہ نے بندوں پر واجب کیا ہے۔
پختہ کاری۔ اللہ کو پسند
ہر کام میں حسن کاری، پختہ کاری اور فنی مہارت کا باہمی ثبوت پہنچانا (اتقان فی العمل) جہاں ازروئے قرآن اللہ جل شانہ کی صفت و سنت ہے وہاں یہ امر اللہ کو بندوں کی طرف سے مطلوب بھی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
ان العبد اذا عمل عملاً احب الله ان یتقنه.
’’بے شک بندہ جب کوئی کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ وہ اس کو پختہ طریقہ سے کرے (یعنی اسے ٹھیک اسی طرح سرانجام دے جیسا کہ اسے ہونا چاہیے)۔‘‘
(علی متقی هندی: کنزالعمال، کتاب الموت، قسم الاقوال فی الدفن، رقم: 42395)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی کام کو سر کا بوجھ اتارنے اور خانہ پُری کے طور پر سرانجام دینا اور اس کے لیے درکار تمام تقاضوں، آداب، شرائط اور لوازمات کو ملحوظ نہ رکھنا، اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ اب جو کام اللہ کی پسند کے مطابق نہ ہوگا اس میں برکت، پائیداری، استحکام اور نفع کہاں سے آئے گا۔
حسن کار لوگ۔ اللہ کو پسند
قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی اپنے دین اور دنیا کے ہر کام کو پوری دیانت، محنت، لگن، ذوق شوق، فنی مہارت اور حسن و خوبی سے سرانجام دیتا ہے تو وہ اس وصف اور خوبی کی وجہ سے اللہ کا محبوب اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ بن جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.
’’اور نیکی اختیار کرو، بے شک الله نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
(البقره، 2: 195)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ احسان کایہ وصف انفرادی طور پر جس آدمی میں ہو یا اجتماعی طور پر جس قوم میں پایا جائے، اللہ اس قوم یا ان لوگوںکو پسند فرماتا ہے۔ اس میں اسلام کی بھی قید نہیں، غیر مسلم لوگ بھی جب اس وصف سے متصف ہوں گے جیسا کہ غیر مسلم اقوام اور یورپین ممالک میں دیکھنے میں آرہا ہے تو اس اعتبار سے اللہ انہیں بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا۔ دنیا میں ان کا عروج اور ہر میدان میں ترقی شاید اسی پسندیدگیٔ خدا کا ثمر ہے۔ ایک آدمی بظاہر کلمہ گو اور مسلمان ہو مگر اس کے ہر کام اور صنعت و پیداوار میں دو نمبری ہو، ملاوٹ، ناقص میٹریل کا استعمال اور فنی مہارت سے عاری ہونا اس کی عادت ہو تو وہ اس بے ایمانی، دو نمبری، ہیرا پھیری، فراڈ اور دھوکہ کی موجودگی میں صرف اسلام کی بنیاد پر اللہ کی پسند کا سرٹیفیکیٹ حاصل نہیں کرسکتا۔ ایسے نام نہاد مسلمانوں کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ذلت و خواری، مجبوری و مقہوری، غلامی و کمزوری اور بدنامی کے سوا کیا حاصل ہوسکتا ہے۔
ترجو النجاة ولم تسلک مسالکها
ان السفینة لا تجری علی الیبس
’’تو نجات کی امید رکھتا ہے مگر اس کے متعین راستوں پر نہیں چلتا (یاد رکھو) بے شک کشتی خشکی پر نہیں چلا کرتی۔‘‘
روزمرہ کے کاموں میں خوبصورتی اور عمدگی کا لحاظ سیرتِ مصطفی ﷺ کی روشنی میں
حدیث و سیرت اور شمائل و اخلاق نبوی پر مشتمل کتابوں کے مطالعہ سے مترشح ہوتا ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ کی حسین عادات و خصائل میں سے ایک خوبصورت عادتِ کریمہ اور خصلتِ حسنہ یا طبعی ذوق یہ بھی تھا کہ آنجناب علیہ التحیۃ والثناء دین و دنیا کے ہر چھوٹے بڑے کام کو عملی جامہ پہنانے میں فنی مہارت، پختگی، عمدگی، نفاست، منصوبہ بندی، صفائی ستھرائی، حسنِ ترتیب، نظم و ضبط، تہذیب و شائستگی، بردباری، وقار، اذیت رسانی سے گریز، احتیاط اور خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے۔ اسی طرح کسی بھی چیز اور معاملہ میں ناپختگی، بدہیئتی، بدصورتی، بدنظمی، بے ڈھنگا پن اور بے ترتیبی کا مظاہرہ گوارا نہیں تھا۔ کام کو محض خانہ پُری، جان چھڑانے، صرف کارروائی ڈالنے اور سر کا بوجھ اتارنے کے انداز میں کرنا آپ ﷺ کو قطعاً ناپسند تھا۔
روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں مثلاً: رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، بولنے چالنے، کھانے پینے، سونے جاگنے، نہانے دھونے اور دیگر مشاغلِ زندگی کی ادائیگی میں عمدہ و مہذب قسم کے طریق کار، قواعد وضوابط، خوبصورتی اور عمدگی کو ملحوظ رکھنا محدثین کی اصطلاح میں حسنِ ادب کہلاتا ہے۔ ہمارے محدثین نے ان آداب کو عام طور پر کتاب الآداب، کتاب الاستیذان، کتاب اللباس، کتاب الزینۃ، کتاب الترجل، کتاب الاطعمۃ، کتاب الاشربۃ اور کتاب الطہارۃ وغیرہ کے عنوانات کی روشنی میں معلمِ انسانیت ﷺ کی تعلیمات اور عملی نمونہ کو بیان کیا ہے۔ ذیل میں آپ ﷺ کی سیرتِ مطہرہ سے حسن و نظم کے چند مظاہر نذرِ قارئین ہیں:
1۔ بات چیت میں حُسن پیدا کرنے کا حکم
اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کو ہر چیز اور ہر قول و فعل میں حسن پسند ہے۔ اسی عمومی مزاج کے تحت اسلام کا تاکیدی مطالبہ ہے کہ آدمی کی زبان سے جو بات نکلے یا اس کے نوک قلم پر جو الفاظ، جملے اور تراکیب آئیں، ان میں حسن دکھائی دینا چاہیے یعنی ان میں مٹھاس اور خلوص و محبت بھری ہونی چاہیے۔
اسی لیے اللہ نے حکم دیا:
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.
’’اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا ‘‘۔
(البقره، 2: 83)
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
’’اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں۔‘‘
(بنی اسرائیل، 17: 53)
نرم و ملائم گفتگو کرنا اور میٹھی اور شیریں زبان سے کام لینا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی اور رضا مندی کا موجب اور لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے اور موہ لینے کا بہترین ذریعہ، انتہائی لائقِ تحسین خصلت اور کلمۃ الطیبۃ صدقۃ کے مصداق اچھی بات/ کلمہ بھی ایک صدقہ ہے۔
2۔ معمولی کاموں میں بھی خوبصورتی کی تعلیم
نبی رحمت ﷺ کی حُسن کاری اور حسن پسندی کا ذوق ہمیں روزمرہ کے عام معمولات اور چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی نظر آتا ہے اور یہی ذوق اور یہی مزاج آپ ﷺ اپنی امت میں بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ آپ ﷺ کی شفقت ہے کہ آپ ﷺ اس چیز کو امت پر لازم و واجب بھی نہیں ٹھہراتے تاکہ لوگ مشقت اور حرج میں نہ پڑجائیں۔ بس ترغیب دے کر اپنی ذاتی پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہg سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جس نے (کھانے کے بعد) خلال کیا تو اسے چاہیے کہ (خلال کے ذریعے کھانے کے جو ذرات دانتوں کے درمیان سے نکلیں انہیں) پھینک دے اور جو ذرات زبان کی مدد سے دانتوں سے نکالے تو انہیں نگل لے۔ جس نے ایسا کیا تو (فَقَدْ اَحْسَنَ) اس نے بہت اچھا کیا اور جو اس طرح نہ کرسکا تو اس پر کوئی حرج (گناہ) نہیں۔ جو آدمی سرمہ ڈالے اسے چاہیے کہ طاق سلائیاں لگائے اور جس نے ایسا کیا تو (فَقَدْ اَحْسَنَ) اس نے بہت اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا اس پر کوئی حرج (گناہ) نہیں۔ (ابن ماجہ: السنن، ابواب الطہارۃ وسننہا، باب الارتیاد للغائط والبول، رقم 337، 338)
3۔ تحریر و کتابت میں حسن کاری کی تعلیم
ہر کام میں حسن کاری کی جھلک دیکھنے کی خواہش کے پیش نظر ہی نبی رحمت ﷺ نے امت کو تحریر و کتابت میں بہتری صفائی اور عمدگی پیدا کرنے کے لیے چند اصولوں کی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابتؓکی چشم دید گواہی ہے کہ میں نبی رحمت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ ﷺ کے سامنے ایک کاتب بیٹھا تھا تو میں نے آپ ﷺ کو اسے یہ ہدایت دیتے ہوئے سنا کہ:
ضع القلم علی اذنک فانه اذکر للمآل.
’’قلم اپنے کان پر رکھ لو کیونکہ یہ چیز انجام کار کو زیادہ یاد دلانے والی ہے۔‘‘
(ابو عبدالله الخطیب: مشکوٰة المصابیح، باب السلام، ص: 399)
مفسر علامہ قرطبی نے ’’بسم اللہ‘‘ کے احکام و مسائل بیان کرتے ہوئے دوسرے مسئلہ میں لکھا ہے:
قال سعید بن ابی سکینة بلغنی ان علی بن ابی طالب رضی الله عنه نظر الی رجل یکتب ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ فقال له جودها فان رجلا جودها فغفرله.
’’سعید بن ابی سکینہ کہتے ہیں کہ مجھے (ایک ذریعے سے) یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھ رہا تھا تو انہوں نے اس سے فرمایا: اسے عمدگی سے لکھو کیونکہ اگر کوئی آدمی اسے عمدگی سے لکھے گا تو اس کی مغفرت کردی جائے گی۔‘‘
(القرطبی: الجامع الاحکام القرآن، 1: 127)
نامور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے کتانی کے حوالے سے چند احادیث کا ذکر کرتے ہوئے یہ حیران کن صراحت کی ہے کہ:
’’آپ ﷺ کو خط کی صفائی اور وضاحت کا جس قدر لحاظ رہتا تھا، اس کا اندازہ ان چند احادیث سے ایک حد تک ہوسکتا ہے جن میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کاغذ کو موڑنے سے پہلے اس کی سیاہی کو ریگ ڈال کر خشک کرلو۔ یا یہ کہ حرف (س) کے تینوں شوشے برابر دیا کرو اور اس کو بغیر شوشوں کے نہ لکھا کرو۔ غالباً یہ حکم اس لیے تھا کہ شوشے نہ دینا احتیاط پسندی کے فقدان اور سستی پر دلالت کرتا ہے۔ یا یہ کہ لکھتے ہوئے اگر کچھ رکنا پڑے تو کاتب کو چاہیے کہ قلم اپنے کان پر رکھ لے کیونکہ اس سے لکھوانے والے کی زیادہ آسانی سے یاد دہانی ہوجاتی ہے۔‘‘
(عهد نبوی میں نظام حکمرانی، ص: 159)
4۔ کفن میں خوبصورتی کا لحاظ رکھنے کی تعلیم
حضور نبی اکرم ﷺ کے مزاج اور طبیعت میں حسن و نظم اس قدر غالب تھے کہ آپ ﷺ نے مُردوں کو پہنائے جانے والے کفن میں بھی خوبصورتی کو اختیار کرنے کا حکم دیا۔
چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ’’نبی اکرم ﷺ نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا تو اس میں اپنے صحابہ میں سے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو فوت ہوگیا تھا اور جسے ناکافی کفن میں کفن دیا گیا اور رات کو دفن کردیا گیا تھا۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے کسی آدمی کو رات میں دفنانے پر تنبیہہ فرمائی یہاں تک کہ اس پر نماز جنازہ پڑھ لی جائے الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔ علاوہ ازیں نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دے۔
(مسلم: الصحیح، کتاب الجنائز، فصل فی کفن المیت فی ثلثة اثواب، 1: 306)
نبی رحمت ﷺ نے مختلف اوقات میں مختلف رنگوں کا لباس استعمال کیا۔ اسی طرح بعض اوقات قیمتی لباس بھی۔ تاہم سفید لباس آپ ﷺ کا پسندیدہ لباس تھا کیونکہ اس میں جہاں خوبصورتی ہے، وہاں وقار کا پہلو بھی موجود ہے۔ اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں حتی کہ مُردوں کے کفن کے لیے بھی پسندیدہ قرار دیا۔ چنانچہ حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
البسوا من ثیابکم البیاض فانها اطهر واطیب وکفنوا فیها موتاکم.
’’تم اپنے کپڑوں میں سے سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ یہ زیادہ پاکیزہ اور زیادہ شفاف و صاف ہوتے ہیں۔ نیز ان ہی سفید کپڑوں میں اپنے مُردوں کو کفن دیا کرو۔‘‘
(نسائی: السنن، کتاب الجنائز، باب ای الکفن خیر، رقم: 1897)
کسی مردہ کو کفن پہنانے میں حُسن کاری یا خوبصورتی کا لحاظ رکھنا بظاہر کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ کفن کے اچھا یا برا ہونے، عمدہ یا ناقص ہونے، خوبصورت یا بدصورت ہونے کا میت کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں اور نہ اسے کسی قسم کے حسن و جمال کی ضرورت ہے، اس کے باوجود اہلِ اسلام میں حسن کاری کا عمومی ذوق اور عمومی عادت پیدا کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے خوبصورت کفن پہنانے کی ہدایت فرمائی۔
(جاری ہے)