ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
یہ بات ذہن نشین رہے کہ مدارسِ دینیہ کے قیام کا مقصدِ اولیں قرآن و سنت کی حقیقی فکر کے امین علماء تیار کرنا ہے، لیکن یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ عالم ایک مخصوص ہیئت رکھنے والے شخص کا نام نہیں ہے کہ جس نے سنت کے مطابق داڑھی رکھی ہو، جو ٹوپی پہنتا ہو، عمامہ پہنتا ہو، یا لمبا شلوار قمیص پہنتا ہو، یا جبہ پہنتا ہو، تسبیح ہاتھ میں رکھتا ہو، خطاب کرتا ہو، جمعہ پڑھاتا ہو، وعظ کرتا ہو تو وہی عالم ہے۔ یہ تمام چیزیں علماء کے شعائر و مراسم یا علامات ہیں۔ یہ تمام امور عالمِ دین کے وظائف، فرائض اور ذمہ داریوں کا حصہ ہیں مگر صرف ان ہی شعائر و علامات کے حامل شخص کو عالم نہیں کہتے۔
علماء کی صفات: قرآنِ مجید کی روشنی میں
ذیل میں قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں علماء کی صفات کو بیان کیا جارہا ہے کہ ایک عالمِ دین کو کن خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے:
(1) معاشرے میں امتیازی علمی حیثیت
علماء کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ امتیازی علمی شان کے حامل ہوں۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.
’’فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘
(الزمر، 39: 9)
قرآن مجید کی اس آیتِ کریمہ نے یہ اصول وضع کردیا کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے کبھی برابرنہیں ہوسکتے۔ اس اصول کی روشنی میں مذکورہ آیتِ کریمہ سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ عالم وہ ہے جو معاشرے میں دیگر طبقات سے اپنے علم کے باعث منفرد اور ممتاز نظر آئے۔ عالم اور جاہل میں برابری نہ ہونے کے بیان میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایک عالم معاشرے کے دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ شرف کا حامل ہو۔ لازمی بات ہے کہ یہ شرف اُسے دوسروں کو دھمکانے اور ڈرانے کے زور پر تو حاصل نہیں ہوگا بلکہ اُسے وہ شرف علم نے دینا ہے۔ یعنی اس کا علم اس قدر گہرا اور اتنا وسیع و ہمہ جہت ہونا چاہیے کہ وہ اپنے زمانے میں دوسروں سے ممیز اور مکرّم و مشرّف نظر آئے۔
(2) علماء علمی جمود کا شکار نہ ہوں
علماء کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ان کے علم میں ہر آن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ سورہ طہٰ میں ارشاد فرمایا:
وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا.
’’اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔‘‘
(طه: 114)
اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ عالم وہ ہے جس کی زندگی میں علم ہر وقت بڑھتا رہے۔ وہ شخص جس کا علم ہر وقت بڑھتا نہیں، وہ عالم نہیں ہے یا علم کا سچا حامل نہیں ہے یا علم اس کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔ یعنی علم اگر جمود کا شکار ہو جائے تو عالم تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے۔
وَ قُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کے مصداق حضور نبی اکرم ﷺ کا اللہ کی بارگاہ میں اپنے علم کے ہر لمحہ بڑھنے کی دعا فرمانا ہمیں بھی اپنے علم کو بڑھانے کا پیغام دیتا ہے۔ جب ہر آن علم میں اضافہ کا حکم ہے تو لازمی بات ہے کہ علم میں یہ اضافہ مطالعۂ کتب ہی کے ذریعے ممکن ہوگا اور انہی کتب کو نصاب کہتے ہیں۔ جب علم بڑھانا ہے تو نصاب میں بھی اضافہ اور تبدیلی ناگزیر ہے۔ نظامِ تعلیم میں نئی کتب، نئے منہج و اسلوب اور نئے طور طریقے شامل کرنا ہوں گے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ جب نئے اشکالات، سوالات، اعتراضات، اعتقادات، انتشار، کفرو الحاد، فتنے اور نئے معاشی، معاشرتی، دستوری اور آئینی مسائل پیدا ہوں گے تو نئے زمانے کے مطابق ان کا حل پیش کرنا ناگزیر ہوجائے گا۔ پیش آمدہ نئے مسائل کا صحیح اور قابلِ قبول حل دینے کے لیے علم کو بھی آگے بڑھانا لازمی ہوگا، تب جاکر ہم اس قابل ہوں گے کہ اس معاشرے میں امتیاز پائیں اور ممیز ہوں۔ ’’رب زدنی علما‘‘ کے اندر یہی پیغام کارفرما ہے۔
مدارسِ دینیہ کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت کیوں؟
اسی سے نصاب کی اہمیت پر بھی غور کریں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ یہ گوارانہیں فرماتے کہ علم ایک سطح پر رہے تو وہ نصاب جو علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، اگر وہ ہی دو سو سال پرانا ہو تو وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں پر کیسے پورا اترے گا۔۔۔؟ مدارسِ دینیہ میں رائج دینی نصاب مختلف علاقوں اور زمانوں میں مختلف تبدیلیوں کے مراحل سے گزرتا آیا ہے مگر آخری نصاب جو ہمارے پاس ہے، وہ ملاں نظام الدین فرنگی محلی کا 272 سال پہلے کا مرتب کردہ ہے۔ ہم نے اس میں بہت قلیل اضافہ جات کیے ہیں، اکثر وہی نصاب ہے جو 272 سال سے چلا آرہا ہے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ اس روئے زمین پر کیا کوئی مرکزِ علم، کوئی یونیورسٹی، کالج، سکول، تربیت گاہ، درس گاہ، الغرض کوئی بھی شعبۂ زندگی آج کل اس حال کے ساتھ چل رہا ہے جو 272 سال پہلے کا حال تھا۔۔۔؟ یقینا نہیں۔ ہمارے لباس، گھر، زبان، رہن سہن، تجارت، معیشت، معاش، سیاست، معاشرت ہر چیز بدلتی جارہی ہے، اس لیے کہ زندگی میں تحرّک آتا ہے تو ہر چیز بدلتی ہے۔ جس طرح زمانے کے تقاضے کے ساتھ ہر شے بدلتی جاتی ہے، اسی طرح نصاب کو بھی زمانے کے ساتھ آگے بڑھانا ناگزیر ہوتا ہے۔ اگر ہر چیز تو تبدیل ہورہی ہو مگر نصاب میں تحرّک اور ارتقاء کا عمل روک دیا جائے تو پھر اس نصاب کو پڑھ کر نکلنے والے علماء اور سکالرز پیچھے رہ جاتے ہیں اور زمانے کے لوگ آگے نکل جاتے ہیں۔ بالآخر دین کے ان نمائندوں اور دیگر معاشرتی طبقات میں ذہنی اور علمی و فکری فاصلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہ لوگ معاشرے میں اپنی عزت گنوا بیٹھتے ہیں۔ ان میں اور باقی لوگوں میں فہم و ادراک اور تکلّم کا ربط نہیں رہتا اور یہ مختلف زمانوں کے لوگ لگتے ہیں۔ جیسے سورۂ کہف میں اصحابِ کہف کا واقعہ مذکور ہے کہ وہ تین سو سال کے بعد بیدار ہوئے تو انہوں نے ایک ساتھی کو پرانا سکہ دے کر بازار بھیجا اور خاص ہدایت کی کہ اس طریقے کے ساتھ جائے کہ پتہ نہ چلے کہ ہم کون لوگ ہیں مگر وہ لوگ اپنے پرانے سکے کی وجہ سے پہچانے گئے کہ یہ بہت پہلے کے زمانے کے لوگ ہیں۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا ہے تو علم بھی آگے بڑھتا ہے، حتی کہ ہر شخص کے ذہنی و عقلی معیار میں بھی تبدیلی آتی چلی جاتی ہے۔
- علماء کو علمی جمود کا شکار نہیں ہونا چاہیے، اس کی دلیل قرآن مجید کی درج ذیل آیت بھی ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی.
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔‘‘
(الضحیٰ، 93: 4)
یہاں آخرت سے مراد ہر اگلا لمحہ ہے، یعنی ہر آنے والا لمحہ پچھلے لمحے سے بہتر ہو۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ عالم وہ ہے جس کے علم کی مقدار ہر روز پچھلے دن سے زیادہ ہو۔
اس موقع پر تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بیان کروں گا کہ مجھے کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے ساٹھ برس گزر گئے مگر ہر روز میں اس طرح پڑھتا ہوں کہ جیسے میں کچھ جانتا ہی نہیں ہوں۔ ہر فن کی کتب کا اس طرح مطالعہ کرتا ہوں کہ جیسے مجھے کچھ آتا ہی نہیں ہے اور خود کو پہلی جماعت کا طالب علم سمجھ کر پڑھتا ہوں۔ جب آدمی ہر روز علم کے حصول پر محنت کرتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کے باب میں اس کا اگلا دن اس کے پچھلے دن سے بہتر کردیتا ہے۔ میری زندگی میں کوئی ایسا دن نہیں آتا کہ جس دن میں جمود اور ٹھہرائو کی طرف جائوں کہ میں نے بہت پڑھ لیا ہے اور مجھے بہت کچھ آتا ہے حالانکہ اس وقت میری 600 سے زائد کتب چھپ چکی ہیں اور عنقریب کئی جلدوں پر مشتمل متعدد ضخیم کتب مختلف موضوعات پر منظر عام پر آنے والی ہیں۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ میں ہمہ وقت اسی کام میں رہتا ہوں اور اپنی زندگی میں ٹھہرائو نہیں آنے دیتا۔
پس یہ بنیادی اصول ذہن میں رہے کہ عالم وہی ہوگا جو خود کو ہر وقت متعلم سمجھے۔ اگر کسی نے اپنے آپ کو عالم سمجھ لیا تو سمجھ جائے کہ اس کا ارتقاء رک گیا۔ ہم نے دینی مدارس میں اہتمام کرنا ہے کہ طلبہ کو ایسا ماحول دیں کہ ہر وقت اور ہر سمت ان کا علم بڑھتا رہے۔ ہمیں نظام المدارس یا دیگر بورڈز کے تحت طلبہ کی تعلیم و تربیت کے اہتمام کے وقت اللہ اور اس کا رسول ﷺ کے حکم اور منشاء کے مطابق ان طلبہ کے علم میں ہر آن اضافہ کرنے کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔
(3) پیکرِ تقویٰ
علماء کی تیسری صفت اور خوبی کی طرف قرآن مجید کی درج ذیل آیت ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا.
’’بس الله کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔‘‘
(فاطر، 35: 28)
یعنی اصل خشیتِ الہٰیہ علماء کے دلوں میں ہوتی ہے۔ عالم وہ ہے جس کا دل خشیتِ الہٰیہ سے لبریز ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے مدارس کے طلبہ کے دلوں میں کتنی خشیت پیدا ہورہی ہے۔۔۔؟ ہم طلبہ کو کتنا خاشع، متواضع، عابد اور مطیع بنارہے ہیں۔۔۔؟ طلبہ میں خشیتِ الہٰی، زہد اور تقویٰ میں کس قدر رغبت پیدا ہورہی ہے۔۔۔؟ اس آیتِ کریمہ میں موجود ’’انما‘‘ کلمہ حصر کا اطلاق جہاں ’’خشیت‘‘ کے لیے ہوگا وہاں ’’العلماء‘‘ کے لیے بھی ہوگا۔
(4) صاحبِ حکمت
علماء کی ایک اور پہچان قرآن مجید میں یوں کروائی گئی:
یُّؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ ج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا.
’’وہجسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔‘‘
(البقره، 2: 269)
اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ عالم کو صاحبِ حکمت بھی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم و نصابِ تعلیم کے ذریعے طلبہ کے اندر ایسی صلاحیت اور استعداد پیدا کرنی چاہیے کہ وہ صاحبانِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ صاحبانِ حلم بھی ہوں، صاحبانِ حکمت بھی ہوں اور صاحبانِ تفکر بھی ہوں۔ وہ عالم جو فقیہ بھی ہو، اللہ کی بہت بڑی عطا اور خیرات ہوتا ہے۔ آقاe نے فرمایا:
من یرداللّٰه به خیراً یفقه فی الدین.
’’اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمالیتا ہے، اس کو دین میں تفقہ عطا کرتا ہے۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، 4: 93)
نظام المدارس کے قیام کے اغراض و مقاصد میں یہ امر سرِفہرست امور میں شامل ہے کہ ہم نے مدارسِ دینیہ سے حاملینِ تفقہ پیدا کرنے ہیں، یعنی جو دین کی حقیقی سمجھ بوجھ اور حکمت و بصیرت کو جاننے والے ہوں تاکہ صحیح معنوں میں تعلیماتِ اسلام کو معاشرے میں فروغ دے سکیں۔
علماء کی فضیلت: قرآن مجید کی روشنی میں
قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے علماء کی فضیلت کو مختلف انداز سے بیان فرمایا۔ ذیل میں چند ایک مقامات کو بیان کیا جارہا ہے:
(1) شہادتِ توحید: اللہ، ملائکہ اور علماء کی اکٹھی گواہی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی شہادت کے ذکر میں ملائکہ اور علماء کی شہادت کو ایک ساتھ بیان کرکے علماء کے مقام و مرتبہ کو واضح فرمایا۔ ارشاد فرمایا:
شَهِدَ اللهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَالْمَلٰٓئِکَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ.
’’الله نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی۔‘‘
(آل عمران، 3: 18)
اس آیت میں ’’ملائکہ‘‘ اور ’’اولی العلم‘‘ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے بیان میں وائو عاطفہ کے ساتھ اکٹھا بیان کیا اور اپنے ساتھ گواہ بنایا۔
- اس سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ علماء کو کم از کم ملکوتی صفت کا حامل ہونا چاہیے، یعنی علماء ناسوت سے کچھ نہ کچھ نکلے ہوئے ہوں۔ ناسوتی رشتہ ختم تو نہیں ہوسکتا مگر ان کے ناسوت میں ملکوت ہو۔ نظام المدارس کے نصاب میں الحمدللہ ایسی کتب بھی شامل ہیں جن کے ذریعے ان شاء اللہ طلبہ میں اس صفت کو پیدا کرنے کے لیے بھی کاوشیں بروئے کار لائی جائیں گی۔
(2) درجات کی بلندی
علماء کی فضیلت کو ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے یوں واضح فرمایا:
یَرْفَعِ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِیْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ.
’’اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا۔‘‘
(المجادلة، 58: 11)
درجات کی بلندی علم سے مشروط ہے اور علم نصاب اور مدرسہ کے ماحول کے ذریعے آتا ہے۔ جب ہم اولی العلم بنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ڈھیروں درجات بلند کردیتا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ جو فیضان اپنے انبیاء و رسل کو دیتا ہے، اس میں سے خیرات علماء کو بھی عطا کرتا ہے۔ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ کے مصداق اللہ تعالیٰ رسولوں میں سے بعض رسولوں کے درجات بلند کرتا ہے، اسی طرح اس افضلیت میں سے خیرات کا حصہ امت کے علماء کو بھی دیتا ہے، کیونکہ انھیں انبیاء کی نیابت نصیب ہوتی ہے۔ مدارس اور نصاب کا مقصد ان درجات کے لیے طلبہ میں ظرف، صلاحیت اور استعداد پیدا کرنا ہے۔
(3) شہادتِ رسالت: اللہ اور اہلِ علم کی اکٹھی گواہی
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی رسالت کی گواہی کے لیے اپنا اور اہلِ علم کا ذکر اکٹھا بیان کیا۔ ارشاد فرمایا: :
قُلْ کَفٰی بِاللهِ شَهِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ.
’’فرما دیجیے: (میری رسالت پر) میرے اور تمہارے درمیان الله بطورِ گواہ کافی ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس (صحیح طور پر آسمانی) کتاب کا علم ہے۔‘‘
(الرعد، 13: 43)
پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی شہادت میں ملائکہ اور علماء کو اپنے ساتھ اکٹھا بیان فرمایا اور اب اس مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ کی رسالت کی شہادت کے لیے اللہ کی گواہی اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے، یعنی جو عالمِ حقیقی ہے، اس کی گواہی کو کافی قرار دیا۔ اللہ رب العزت نے شہادت کے مرتبے پر علماء کو اتنا شرف عطا کیا ہے کہ اپنے ساتھ ملاکر ان کا ذکر کیا ہے۔
الحمدللہ نظام المدارس کے لیے جو نصاب مرتب کیا گیا ہے، اس کے ذریعے علماء میں مذکورہ جملہ صفات کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے حقیقی معنی میں عالم کہلاسکیں اور اپنے دامن کو قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات سے معمور کیے ہوئے ہوں۔
علم اور علماء کی فضیلت: اقوالِ صالحین کی روشنی میں
قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں علم اور علماء کی فضیلت اور صفات و خصائل کے مطالعہ کے بعد اب آیئے! سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں بھی اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ علم اور علماء کی فضیلت کیا ہے؟
1۔ حضرت سفیان بن عیینہؒ کا قول ہے جسے خطیب بغدادی نے الفقیہ والمتفقہ میں بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں:
ارفع الناس عنداللّٰه منزلةً من کان بین اللّٰه وبین عباده وهم الانبیاء والعلماء.
’’اپنے درجہ اور منزلت کے اعتبار سے سب لوگوں سے بلند ترین درجہ اس کا ہے جو اللہ اور اللہ کے بندوں کے درمیان واسطہ ہے اور وہ رسل عظام اور علماء ہیں۔‘‘
(الفقیه و المتفقه، خطیب بغدادی، 1: 149)
یعنی عالم بین اللہ وبین العباد واسطہ اور وسیلہ ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ العزیز نظام المدارس پاکستان اس مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ حضرت سفیان بن عیینہؒ کے اس قول نے واضح کردیا کہ مدارسِ دینیہ کا مقصد دنیا داری نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ایسے لوگ یہاں سے پیدا ہوں جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ بنیں۔
2۔ حضرت سہل بن عبداللہ تستریؒ فرمایا کرتے تھے:
من اراد ان ینظر الی مجالس الانبیاء فلینظروا الی مجالس العلماء فعرفوا لهم ذالک.
’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میں اپنی چشمِ تصور سے انبیاء کی مجلس کو دیکھ لوں (یعنی انبیاء کی مجالس کا مشاہدہ کروں کہ ان کا ماحول اور منظر کیسا ہوتا ہوگا) تو وہ علماء کی مجالس کو دیکھ لے۔ پس وہ اُن ہستیوں کو ان علماء کے ذریعے جان لے گا۔‘‘
(الفقیه و المتفقه، خطیب بغدادی، 1: 149)
گویا مجالس العلماء؛ مجالس الانبیاء نظر آنی چاہئیں اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب علماء؛ انبیاء والی گفتگو کریں گے۔ امام حسن بصریؒ ایک دن خطاب فرمارہے تھے، کسی صاحبِ نظر و حکمت نے سنا تو پوچھا کہ یہ کون کلام کررہا ہے؟ کہا گیا کہ حسن بصری ہیں۔ فرمایا: خدا کی قسم! یہ الفاظ کلامِ نبوت دکھائی دے رہے ہیں یعنی اللہ کے نبی جیسا کلام لگ رہا ہے۔
پس علماء کے کلام میں کلامِ انبیاء دکھائی دے۔ ان کی وضع قطع، اخلاق و معاملات، زہد و ورع، تقویٰ و استغناء، پرہیزگاری، لوگوں کے ساتھ صدق و اخلاص، ترکِ تکبر، ترکِ حرص الغرض جملہ اخلاقِ حسنہ ان کی ذات و کردار میں نظر آئیں اور دیکھنے اور سننے والے کو پتہ چلے کہ اس کے سیرت و کردار میں انبیاء کا نور اور ان کی سیرت و کردار کا فیض جھلک رہا ہے۔
یہ سب چیزیں علماء میں دورانِ تعلیم؛ نصاب، مدرسہ اور ماحول کے ذریعے ہی آسکتی ہیں، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ بارہ یا چودہ سال کی عمر میں جب بچہ مدرسہ میں آتا ہے تو اس کی شخصیت کا کچھ حصہ والدین، ابتدائی سکول، علاقے کے ماحول، دوستوں اور معاشرے نے بنادیا ہوتا ہے۔ بعد ازاں جب بچہ مدرسہ میں داخل ہوتا ہے تو آٹھ سال مدرسہ میں گزارنے اور علم کے حصول کے بعد جب وہ سند لیتا ہے اور لوگوں کی امامت اور رہنمائی کرنے کے لیے تیار ہوچکا ہوتا ہے مگر مدرسہ میں داخل ہونے سے پہلے اور بعد میں یعنی اس سارے عرصہ میں اُسے اسوۂ رسول ﷺ نہ ملا۔ اس کی سیرت، کردار، نگاہ، کلام، اخلاق، ادب اور طرزِ عمل میں کوئی نئی اور امتیازی بات نہیں ہوتی۔ اگر وہ بھی اسی طرح باتیں کرے جیسے باقی دنیا دار، سیاست دان اور دیگر شعبہ جات سے منسلک لوگ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مدارس نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ پس مدارس میں اسوۂ رسول ﷺ کے مطابق طلبہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہو تاکہ ایسے علماء وجود میں آئیں جن کو دیکھ اور سن کر مجالس انبیاء کی یادیں تازہ ہوجائیں۔
3۔ سیدنا امامِ اعظم ابو حنیفہؓ کا قول خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ امام اعظم نے فرمایا:
ان لم یکن اولیاء الله فی الدنیا والآخرة الفقهاء والعلماء فلیس للّٰه ولی.
’’اگر باعمل فقہاء؛ اولیاء اللہ نہیں ہیں تو روئے زمین پر کوئی ولی نہیں ہے۔‘‘
(الفقیه والمتفقه، 1: 150)
امام اعظم نے معیارِ ولایت باعمل فقہاء کو قرار دیا ہے۔ لازمی بات ہے کہ ایسے فقہاء جو زیورِ علم سے آراستہ ہونے کے بعد معیارِ ولایت پر پورا اتریں، تو ان کے شب و روز، وقار، زبان، علم، حلم، اخلاق، سیرت، کردار، تفہم، تدبر، تفکر، معاملہ اور حال؛ ان تمام پہلوئوں کو سنوارنا نصاب اور مدارس کے ماحول کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات درست ہے کہ 100 فیصد ایک سال میں ہی نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے لیے سالہا سال کا سفر طے کرنا پڑتا ہے، مگر اس سمت پر سفر کا آغاز تو کریں، اس حقیقت کو تسلیم تو کریں، ایک بار اس سمت قدم تو اٹھائیں۔
علومِ دینیہ کا نصاب سیرتِ مصطفی ﷺ کی روشنی میں
علم اور علماء کی فضیلت اور مقام و مرتبہ سے آگاہی کے بعد اب آیئے علومِ دینیہ کے نصاب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علومِ دینیہ کے نصاب کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑا پیمانہ اور معیار آقاe کی طرف سے عطا کردہ نصاب ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں نصاب کی شکل و صورت اور ہیئت بدلتی ہے مگر اصل اسوۂ رسول ﷺ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے جس نصاب کے ذریعے رجالِ علم و عمل پیدا کیے اس میں عہدِ رسالتمآب ﷺ ، عہدِ خلفائے راشدین، عہدِ صحابہ، عہدِ تابعین، عہدِ تبع تابعین کی شخصیات اور سلف صالحین شامل ہیں۔ عہدِ نبوی ﷺ سے لے کر سلف صالحین یعنی تقریباً تین صدیوں تک نصاب کا فوکس کتبِ معینہ کے بجائے معین علماء اور اساتذہ پر ہوتا تھا۔ پہلے زمانے میں ایسے بڑے مدارس نہیں تھے جہاں بیک وقت بہت سے طلبہ اکٹھے رہیں اور تعلیم حاصل کریں۔ ہر مضمون کے لیے طلبہ سفر کرکے اس مضمون کے ماہر اساتذہ کے پاس جاتے جو انھیں وہ خاص کتاب اور فن پڑھاتے تھے۔ ایک استاد سے کسی ایک مضمون کا علم حاصل کرنے کے بعد طلبہ دیگر مضامین دوسرے استاد کے پاس جاکر پڑھتے تھے۔ اس طرح ہر علم اور فن کے لیے انھیں مختلف اساتذہ کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کرنا پڑتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم ائمہ فقہ و ائمہ حدیث کے بارے میں سنتے ہیں کہ ان کے سیکڑوں شیوخ ہوتے تھے۔ امام بخاری ایک ہزار سے زیادہ شیوخ کے پاس گئے، امام اعظم چار ہزار سے زیادہ شیوخ کے پاس گئے۔ وجہ یہ تھی کہ نصاب میں معین کتب نہیں تھیں بلکہ کسی خاص علم و فن میں مہارت رکھنے والے اساتذہ تھے۔ جس کو جو کچھ پڑھنا ہوتا وہ چل کر ان کے پاس جاتے، ان سے پڑھ کر پھر دوسرے مضمون کے لیے دوسرے کے پاس جاتے اور اس طرح علم کے حصول کے لیے سفر کرتے۔
اس اسلوب کو حضور نبی اکرم ﷺ نے خود وضع فرمایا تھا۔ آپ ﷺ نے جو نصابِ تعلیم وضع فرمایا وہ معین کتب پر نہیں بلکہ معلمین پر مبنی تھا۔ اس دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق حضور ﷺ نے معلمین تیار کیے، جیسا کہ ہجرت سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بناکر مدینہ منورہ بھیجا، بعد از ہجرت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو اہلِ صفہ کے لیے معلم بنایا، حضرت ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو اہلِ مدینہ کے لیے معلم بنایا، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو یمن اور بعد ازاں شام کے لیے معلم بنایا، حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ اور بعد ازاں یمن کے لیے معلم بنایا، حضرت عمرو بن حزم الخزرجی رضی اللہ عنہ کو نجران کے لیے معلم بنایا، حضرت رافع بن مالک الانصاری رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں معلم بنایا، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کو اہلِ طائف اور دیگر قبائل کے لیے معلم بنایا۔
- حضور ﷺ کے زمانے میں نصاب قرآن مجید، سنت اور حدیثِ نبوی ﷺ پر مشتمل تھا۔ اسی سے ہی عقائد، اخلاق، سیرت اور معاملات کے بارے رہنمائی لی جاتی۔ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں صفہ کے علاوہ بھی دارالقراء کے نام سے ایک مرکزِ تعلیم بنا رکھا تھا۔ حضرت عبداللہ بن امِ مکتوم رضی اللہ عنہ غزوہ بدر کے فوری بعد مدینہ ہجرت کرکے آئے تو انہیں جس گھر میں ٹھہرایا گیا، اس کا نام دارالقرأ تھا، یہ حضرت مخرمہ بن نوفل کا گھر تھا۔
(طبقات ابن سعد، 4: 21) قراء اس وقت اساتذہ، معلمین اور علماء کو کہتے تھے۔ گویا وہاں کئی قرأ، معلمین، اساتذہ جمع ہوتے ہوں گے اور پڑھاتے ہوں گے۔ پس آقاe نے صفہ اور دارالقراء کی شکل میں مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
- آپ ﷺ نے جو مدرسہ قائم کیا اس میں مقیم اور غیر مقیم دونوں طرح کے طلبہ تھے۔ ایک وقت میں ان کی تعداد ستر تک ہوتی۔ صفہ سے کل فارغ التحصیل کی تعداد سات سو سے ایک ہزار تک ہے۔ یہاں آنے والوں کو حضور نبی اکرم ﷺ خود سکھاتے اور پڑھاتے۔ علاوہ ازیں دوسرے قبائل سے بھی وفود آتے تھے اور نصاب کے اسباق پڑھ کر چلے جاتے تھے۔ الغرض آپ ﷺ نے کثیر تعداد میں علماء و مدرسین تیار کرکے مختلف علاقوں میں تدریسی فرائض انجام دینے کے لیے بھیجے۔ معلمین کی کثیر تعداد میں تیاری اور قبائل کی طرف روانہ کیا جانا؛ اس بات کو ان واقعات سے بھی شہادت ملتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے مختلف قبائل کو بھجوائے گئے کثیر معلمین و قرأ کو بعض جگہوں پر دھوکے سے شہید بھی کیا گیا۔ حدیث اور سیرت کی کتب میں یہ واقعات مذکور ہیں کہ ایک جگہ ستر افراد شہید کیے گئے، ایک جگہ پچاس شہید کیے گئے، ایک جگہ دس شہید ہوئے۔
- مرکزی درس گاہ کے علاوہ شہر مدینہ کے اندر 9 مسجدیں تھیں، ہر مسجد میں درس ہوتا تھا اور صحابہ کو تعلیم دی جاتی تھی۔ گویا ان مساجد کی شکل میں چالیس مدارس اور درس گاہیں تھیں۔
اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اس قدر کثیر تعداد میں تیار ہونے والے معلمین اور ان مساجد و مراکز میں کیا پڑھایا جاتا تھا اور یہاں کا نصاب کیا تھا۔۔۔؟ اگر ہم اس نصاب اور علوم کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حضور ﷺ کا نصابِ تعلیم کس قدر جدت اور وسعت کا حامل تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس ان پڑھ معاشرے میں صرف دس سال کے عرصے کے اندر جس طریق سے لوگوں کو پڑھایا، اس کے چند نظائر درج ذیل ہیں:
- آپ ﷺ کے نصابِ تعلیم اور طریقۂ تعلیم کی بدولت قرأ، کاتبین اور معلمین کی کثیر تعداد تیار ہوگئی۔ آپ ﷺ کی مجلس میں بیٹھنے والے کاتب صحابہ کی تعداد 43 تھی۔ آپ ﷺ کے اڑھائی سو تحریری خطوط ملتے ہیں جو آپ ﷺ نے معاہدات، دستاویزات، (Documents) کی شکل میں تحریر کروائے اور مختلف سلاطین، قبائل اور اشخاص کو روانہ کیے۔
- تبع تابعین سے پہلے کے زمانے میں احادیثِ مبارکہ کے پونے تین سو تحریری ذخائر مرتب ہوچکے تھے۔ آج لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تدوینِ حدیث کا کام امام بخاری کے وقت میں یا ان سے تھوڑا پہلے ہوا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان سے پہلے پونے تین سو ذخائرِ حدیث مرتب ہوچکے تھے۔
- آپ ﷺ نے جو نصاب ترتیب دیا وہ کثیر زبانوں پر مشتمل تھا تاکہ تمام علوم پر دسترس ہو۔ ہم تو انگلش زبان سے دور رہے، جبکہ حضور ﷺ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو عبرانی زبان سکھائی جو یہودیوں کی زبان تھی۔ اسی طرح آپ ﷺ فارسی، حبشی، افریقی، یونانی، رومی اور سریانی تمام زبانیں جانتے تھے۔
آپ ﷺ نے حضرت زید بن ثابت کو حکم دیا کہ:
أن یتعلم کتاب الیهود حتی کتبت للنبیؐ کتبه وأقرأته کتبهم اذا کتبوا الیه.
(صحیح بخاری، 6: 2631)
یہودیوں کی زبان سیکھو تاکہ جب ان کا خط آیا ہو تو جواب دے سکو۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سترہ دن میں یہ زبان سیکھ لی۔ گویا مروجہ زبانیں اور دیگر مروجہ علوم سیکھنا سنتِ نبوی ہے۔
- حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کرامؓ کو جو مضامین پڑھاتے، ان میں قرآن و حدیث، احکام و مسائل، شریعت، تربیت اور سیرت و کردار سازی تو موجود تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ علوم جو شریعت میں سے نہیں ہیں، ان کی تعلیم بھی بطورِ مضمون شامل تھی۔ مثلاً: وراثت کے احکام کا تعلق علومِ عصریہ سے ہے۔ اسی طرح ضرورتِ معاشیہ اور ضروریاتِ معاشرتیہ کے علوم بھی شاملِ نصاب تھے۔ ریاضی طب، علم فلکیات (Astronomy)، علم نجوم، علم الانساب، Defense & Security، علم الہیت، تجارت، قانون (جس کو فقہ کا نام دیا)، سوشیالوجی، یہ تمام وہ علوم ہیں جن کا ذکر کتبِ حدیث اور کتبِ سیر میںدرج ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے ان علوم کو پڑھا اور ان میں تخصصات حاصل کیے۔ یہ سارے علوم علومِ شرعیہ نہیں تھے بلکہ علوم عصریہ تھے جو معاشروں، اقوام اور قبائل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے سکھائے جاتے ہیں۔
پس حضور نبی اکرم ﷺ نے جدت و وسعت کے حامل ایسے نصاب کے ذریعے اپنی امت کی تعلیم و تربیت کا آغاز فرمایا کہ جو نصاب تمام شرعی و عصری علوم اور کثیر زبانوں پر محیط تھا۔
مدارس کے قیام کا تاریخی پسِ منظر
حضور نبی اکرم ﷺ نے کتبِ معینہ کے بجائے خاص علوم و فنون کے حامل معلمین و اساتذہ کے ذریعے فروغِ تعلیم کے جس اسلوب کو رواج دیا، مختلف اساتذہ کے ذریعے فروغِ تعلیم کا یہ سلسلہ اڑھائی تین سو سال تک قائم رہا۔ بعد میں جامعات، دارالعلوم اور مدارس بنے جہاں مختلف اوقات میں ہزاروں طلبہ کا مل کر پڑھنے کا رواج شروع ہوا:
- سب سے پہلے 235 ہجری میں آج سے بارہ سو سال قبل جامعہ قرویین بنی جس میں تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ قرآن و حدیث اور اس سے متعلقہ علوم، صرف ونحو، منطق، فقہ کے علاوہ فزکس، کیمیا، ریاضی، طبیعیات، غیر ملکی زبانیں، ادویات، فلکیات، تاریخ اور جغرافیہ پڑھائی جاتیں۔
- جامعہ قرویین کے بعد 359 ہجری میں جامعۃ الازہر بنی۔ جامعۃ الازہر کا بھی یہی اصول تھا کہ علوم القرآن، علوم الحدیث، علوم الفقہ کے ساتھ ساتھ معاشیات، بنکاری، تجارت، عربی زبان و ادب، تصوف، تربیت، سیرت، جدید افکار، تقابلِ ادیان، ثقافت سب کچھ پڑھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے جامعہ الازہر پوری دنیائے اسلام میں اپنے نصابات میں کبھی پیچھے نہ رہا اور دونوں طرح کے علوم اس کے نصاب میں شامل رہے۔
- بغداد کا مدرسہ المستنصریہ 625 ہجری میں بنا۔ جسے بعد ازاں جامعہ نظامیہ کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔
- ہمارے مدارسِ نظامیہ کا نام ایک قول کے مطابق مولانا نظام الدین سہالوی لکھنوی (مرتب درس نظامی) کے نام سے منسوب ہے مگر اس سے پہلے سلجوقی سلطنت کے سلطان ملک شاہ کے وزیراعظم نظام الملک طوسی کے نام سے مدارس کا نام ’’مدرسہ نظامیہ‘‘ رکھا گیا اور درسِ نظامی کی اصطلاح شروع ہوئی۔ نظام الملک طوسی نے اپنے زمانے میں موصل، بغداد، اصفہان، نیشاپور، بلخ، بصرہ، ایران اور افغانستان میں مدارس قائم کیے۔ ان تمام مدارس کا نام سلجوقی وزیراعظم کے لقب ’’نظام الملک‘‘ کی وجہ سے ’’مدرسہ نظامیہ‘‘ ہوا۔
- مدارس کے قیام سے پہلے ائمہ نے الگ الگ مدارس اپنے گھروں میں بنا رکھے تھے۔ مثلاً: امام ابوالحفص البخاری، ابن حبان، ابوالولید حصان بن احمد نیشاپوری، محمد بن عبداللہ بن حماد، شجاع الدولہ، سعد بن عبداللہ، امام بیہقی الغرض بہت سے علماء اور ائمہ نے اپنے اپنے حلقہ جات قائم کر رکھے تھے۔ جب مدارسِ نظامیہ کی ابتداء ہوئی تو پھر مدارس کا ایک جال بچھ گیا۔
- ان مدارس کے الگ الگ نصابات ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق وضع کیے جاتے تھے۔ اس علاقے اور زمانے کو جو ضرورت ہوتی اور حکومتیں بین الاقوامی تقاضے کے مطابق جن علوم و فنون کے ماہرین کا مدارس سے تقاضا کرتیں، ان مدارس میں علماء ان خاص علوم و فنون کو نصاب میں شامل کرتے اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق تیار کرتے۔ یعنی نصابات updated رہتے۔ اس سے پہلے کوئی ایک سکول، کالج، یونیورسٹی نہیں تھی بلکہ صرف یہی مدرسے تھے۔ جہاں تمام علوم سکھائے اور پڑھائے جاتے تھے۔ مدرسہ ہی سکول، کالج اور یونیورسٹی ہوتا۔ اسی سے ایک خاص سطح تک پڑھنے کے بعد تخصصات شروع ہوتے اور مختلف میادین کے متخصص لوگ سامنے آتے۔ مگر انسٹی ٹیوشن ’’مدرسہ‘‘ ہی تھا۔
(جاری ہے)