شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی ساتویں برسی پر جہاں ہمارے دل غم سے نڈھال ہیں وہاں ہمارے دلوں کو اطمینان بھی میسر ہے کہ شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حصولِ انصاف کی جدوجہد 7 سال کے بعد بھی پوری طاقت، عزم، استقامت کے ساتھ جاری ہے اور حصولِ انصاف کی اس جد و جہد میں شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد کا اظہار قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ 7 سالوں کا ہر دن حصولِ انصاف کی جدوجہد میں گزارا۔ الحمدللہ اس جدوجہد میں نہ قیادت کے عزم میں کوئی شکن آئی اور نہ ہی شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے عزم و ہمت اور حوصلے کو وقت کی نمرودی ،فرعونی اور قارونی قوت متزلزل کرسکی۔
17 جون 2014ء پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جس دن نواز، شہباز حکومت نے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر جس طرح ریاستی دہشتگردی کی، پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ اس سانحہ میں پاکستان عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے معصوم، نہتے اور بے گناہ کارکنوں سے ہولی کھیلی گئی۔ دہشگردی پر مبنی خونی مناظر پوری دنیا نے میڈیا چینلز کے ذریعے براہِ راست دیکھے۔ اس المناک واقعہ میں 14 افراد شہید جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں اور سو سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور شدید زخمی کیا گیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اس لیے سانحہ کے فوری بعد قتل و غارت گری میں ملوث افسران و اہلکاران کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی بلکہ سانحہ میں حصہ لینے والے تمام افسران و اہلکاران کو پرکشش عہدوں سے نوازا گیا، انہیں آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دینے کے ساتھ ان کی پسند کی تقرریاں بھی کی گئیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن: حالیہ پیش رفت کا ایک جائزہ
اس سانحہ کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کا اجمالی خاکہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
1۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے مورخہ 5 دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں سماعت کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی از سرِ نو تفتیش کیلئے نئی JIT بنانے کا فیصلہ ہوا اور مورخہ 3 جنوری 2019ء کو پنجاب حکومت نے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں JIT کا نوٹیفیکشن جاری کردیا اور نئی JIT نے مورخہ 14 جنوری 2019ء سے لیکر 20 مارچ 2019ء تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام ملزمان بشمول اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف، سابق وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف، سابق وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ، سابق PSO ٹو وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر توقیر شاہ، سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سے انوسٹی گیشن کی گئی۔ پہلی بار JIT کے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس سے متعلق متاثرین کی طرف سے زبانی و دستاویزی شہادتوں کے ثبوت پیش کئے گئے۔ JIT نے اپنی تفتیش مکمل کرکے ملزمان کاچالان انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کرنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایک ملزم کانسٹیبل خرم رفیق کی درخواست پر مورخہ 22 مارچ 2019ء کو لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے JIT کا نوٹیفیکشن معطل کرکے JIT کو مزید کام کرنے سے روک دیاگیا۔
2۔ JIT کے نوٹیفیکشن کی معطلی کے خلاف فل بینچ کے عبوری حکم مورخہ 22 مارچ 2019 ء کے خلاف سپریم کورٹ اسلام آباد میں CPLAS دائر کی تھیں جس کی سماعت مورخہ 13 فروری 2020 ء کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ میں نیا بینچ تشکیل دے کر ترجیحاً 3 ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دی ہے لیکن JIT کی تشکیل کے خلاف جو رٹ دائر ہوئی تھیں وہ لاہور ہائی کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ کے پاس ابھی تک زیرِ سماعت ہے جس کا لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ نئی JIT کی تشکیل صحیح ہوئی ہے یا نہیں؟
از سرِ نو تحقیقات کی ضرورت کیوں؟
سانحہ ماڈل ٹاون پاکستان کی تاریخ کا منفر د کیس ہے جس میں اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف، سابق وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف ، سابق وزیرِ قانون پنجاب رانا ثناء اللہ، پولیس کے اعلیٰ افسران اور بیورکریٹ ملوث ہیں۔ سانحہ کے تمام ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے اور اصل حقائق کو منظر عام پر لانے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی از سر نو انویسٹی گیشن ضروری ہے۔ کیونکہ:
1۔ پہلی JIT نے جو انویسٹی گیشن کی تھی وہ حقائق کے برعکس ، جانبدار اور یکطرفہ تھی۔ پہلی JIT نے حقائق کو منظرِ عام پر لانے کی بجائے اصل حقائق کو چھپایا تاکہ اصل ملزمان نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ آئی جی مشتاق سکھیرا اور دیگر ملزمان جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی منصوبہ بندی کی تھی ان کو بچایا جاسکے۔ علاوہ ازیں وہ تمام ریکارڈ جو گورنمنٹ کے اداروں اور ان بااثر ملزمان کے زیر قبضہ تھا اور جس تک مدعی پارٹی کی رسائی ممکن نہ تھی، جس ریکارڈ سے مقدمہ کی تفتیش کو تقویت ملتی، اس ریکارڈ کو بھی پہلے والی JIT نے اپنی تفتیش کاحصہ نہ بنایا۔
نئی JIT نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل و غارت گری کرنے والے تمام ملزمان بشمول سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ ساز میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف ، راناثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ و دیگر ملزمان سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش کی تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا ہے؟ اس کے پیچھے کیا سازش کارفرما تھی؟ اس وقوعہ کے پیچھے کون کون سے سازشی عناصر موجود ہیں؟ اور یہ سازش کہاں سے چلی اور کس طرح اس سازش پر عملدرآمد ہوا؟
2۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن JIT کی بحالی اس سانحہ کے انصاف کیلئے اشد ضروری ہے، کیونکہ اصل ملزمان نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ اور دیگر ملزمان جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی ان کو استغاثہ کیس میں ناکافی شہادت کی بنیاد پر انسدادِ دہشت گردی عدالت اور لاہور ہائیکورٹ نے بحیثیت ملزم طلب نہیں کیا تھا کیونکہ استغاثہ کی دائر گی کے وقت جو شہادتیں اس وقت دستیاب تھیں وہ استغاثہ میں دے دی گئی تھیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کیلئے بننے والی نئی JIT میں وہ تمام شہادتیں اور ثبوت فراہم کئے گئے ہیں جو ہمیں نواز ،شہباز حکومت کے جانے کے بعد ہی مل سکتے تھے۔
3۔ پولیس نے مقدمہ نمبر510/14 (پولیس مدعی) میں پہلی JIT کے مطابق پولیس نے ریکارڈ میں تبدیلی اور اسلحہ کی درست تفصیلات نہ دی تھیں جبکہ پہلے والی JIT جس میں دو ممبران جن کا تعلق MIاور ISIکے ساتھ تھا، ان کے علاوہ تمام ممبران پولیس افسران تھے ۔ JIT نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جب پولیس سے آرمز اینڈ ایمونیشن کی تفصیلات مانگی گئی کہ کتنا اسلحہ ایشوکیاگیا؟کتنا استعمال کیا گیا؟ اور کتنا واپس جمع کروایا گیا؟ تو پولیس نے فہرستیں دینے سے انکار کردیا جبکہ مذکورہ بالا دو ممبران (MI,ISI) نے یہاں تک کہہ دیا کہ مقدمہ نمبر510/14 قابلِ منسوخی ہے۔
4۔ عبدالروف SIانچارج ایلیٹ فورس کوپہلے والی JIT نے دوران تفتیش متعددبار طلب کیا۔ دوران تفتیش اس نے تسلیم کیا کہ ایلیٹ فورس کی جانب 469SMG کے اور 59 راونڈ G3 رائفل کے فائر کیے گئے۔ بعد میں اگلی پیشی پر اس نے بتایا کہ ایس پی عبدالرحیم شیرازی نے اسے کہا تھا کہ ریکارڈ تبدیل کر دیا جائے۔
5۔ پہلے والی JIT کی جانب سے CCPO لاہور کو لیٹر نمبری 449/PSSBمورخہ 30/06/14کو بھیجا گیاجس میں تمام افسران اور جوانوں کی پوسٹنگ اور ٹیلی فون نمبرز، ایشوکردہ ہتھیار اور ان کے سیریل نمبرز اور استعمال ہونے والے ایمونیشن کی تفصیل بمطابق روزنامچہ ہائے، ٹیرگیس گنز اور ان کا مصرف اور آپریشن کے دوران کتنے ٹیرگیس شیل استعمال ہوئے، دیگر سامان کوئی بھی جو اس اپریشن کے دوران کم یا ناکارہ ہوا، اس کی تفصیل JIT کو بہم پہنچائی جائے جسکی مکمل تفصیل آج تک نہ پہنچائی گئی ہے ۔
6۔ نواز، شہباز حکومت نے پہلے والی JIT سے اپنی مرضی کے مطابق غیر منصفانہ اور بے بنیاد رپورٹ تیار کروائی کیونکہ مقدمہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ، رانا ثناء اللہ و سابق وفاقی وزراء ، پولیس افسران بطور ملزمان ایف آئی آر میں نامزد تھے۔ اس لیے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے والی JIT نے ان نامزد ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی اور ان تمام پولیس افسران اورسابق نواز، شہباز حکومت کے بااثر افراد کو اس مقدمہ سے نکال دیا گیا اور پاکستان عوامی تحریک کے42 کارکنان جن کو مورخہ17 جون2014ء کو ہی مقدمہ نمبر 510/14 (پولیس مدعی) میں گرفتار کیا گیا تھا، ان 42 کارکنان کو اپنے ہی مقدمہ نمبر696/14 میں بھی ملزم قرار دے کر انسدادِ دہشت گردی عدالت میں چالان پیش کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان 42 کارکنان کی اپنے ہی مقدمہ نمبر696/14 میں ضمانتیں کروائی گئیں۔
7۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کا ناحق چالان کرنے سے نواز، شہباز حکومت کی مکمل بدیانتی سامنے آگئی تو استغاثہ دائر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ لہذا فوری طور پر انسدادِ دہشتگردی عدلات لاہور میں استغاثہ دائر کر دیا گیا۔ استغاثہ کیس میں 56 زخمی و چشم دید گواہان کے بیانات مکمل ہونے کے بعد مورخہ7 فروری 2017ء کو انسداد دہشتگردی عدالت لاہور نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں کانسٹیبل سے لے کر آئی جی پنجاب تک، DCO کیپٹن ریٹائرڈ عثمان، TMO نشتر ٹاؤن علی عباس بخاری، ACماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیو کو بطور ملزم طلب کر لیا تھا لیکن گورنمنٹ اور بیوروکریسی کے 12 افراد جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی ان کو طلب نہ کیا گیا تو ان 12 افراد کی حد تک لاہور ہائی کورٹ میں criminal revision دائر کی جوکہ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے 26 ستمبر2018 ء کو خارج کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم مورخہ 26ستمبر2018 ء کے خلاف سپریم کورٹ میں Crl.P.L.Aدائر کی ہوئی ہے جو کہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
8۔ اس طرح آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کی طلبی بھی انسدادِ دہشت گردی عدالت لاہور میں ہوئی تھی لیکن مشتاق احمد سکھیرا نے بھی اپنی طلبی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ مورخہ 26 ستمبر 2018ء کو اس کی بھیcriminal revision خارج ہوگئی تھی جس کی وجہ سے آئی جی مشتاق احمد سکھیرا criminal revision خارج ہونے کے بعد انسدادِ دہشت گردی عدالت لاہور میں پیش ہوگیا جسکی وجہ سے استغاثہ کیس میں جتنا بھی ٹرائل ہواتھا اس نئے ملزم مشتاق احمد سکھیر اکے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش ہونے کے بعد ٹرائل DE NOVOہوگیا۔ اسی طرح نئے ملزم مشتاق احمد سکھیر ا کے ATC میں پیش ہونے کے بعد مورخہ 15 اکتوبر 2018ء کو تمام ملز مان پر دوبارہ فرد جرم عائد ہوئی۔
9۔ ٹرائل DENOVO ہونے کی وجہ سے مستغیث کا بیان انسدادِ دہشت گردی کورٹ میں دوبارہ قلمبند ہوا ہے اور ملزمان کے وکلاء نے مستغیث پر دوبارہ جرح کرنی ہے لیکن جرح کرنے سے پہلے ملزمان کے وکیل نے سیکشن 23 انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کے تحت درخواست گزاری ہے کہ ان مقدمات میں 7ATAکا اطلاق نہیں ہوتا ہے، اس لیے ان مقدما ت میں7ATAکو ختم کرکے ان کیسز کوسیشن کورٹ میں ٹرائل کے لیے بھیج دیا جائے۔ لیکن ملزمان کے وکلاء اس وقت مقدمہ میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں کیونکہ پولیس اس کیس میں ملزمان میں شامل ہے۔ پولیس کو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح کسی کیس کو Linger Onکرنا ہے وہ تمام تاخیری حربے جو کسی مقدمہ میں استعمال ہو سکتے ہیں وہ اس کیس میں استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے ان مقدمات میں مزید کاروائی نہیں ہو رہی ہے۔
10۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو مل گئی تھی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل و غارت گری کرنے کا ذمہ دار پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کو ٹھہرایا ہواہے لیکن باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی، ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس و دیگر دستاویزات شامل ہیں۔ وہ تمام دستاویزات جو جسٹس علی باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ تھیں، افسوس کہ وہ تمام دستاویزات سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئیں ہیں۔ ان تمام منسلکہ دستاویزا ت کے حصول کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی ہوئی ہے جو کہ ابھی تک زیرِ سماعت ہے۔
11۔ مورخہ 14 جون 2014ء کو شہباز شریف حکومت نے آئی جی پنجاب کو تبدیل کرکے پولیس کو کور کیا اسی طرح مورخہ 14 جون 2014 ء کو DCOکو بھی تبدیل کرکے سول ایڈمنسٹریشن کو کنٹرول کیا گیا اور اسی طرح کیس کو کنٹرول کرنے کے لیے پراسیکیوشن کو بھی کو ر کیا اور وقوعہ کے دن ہی مورخہ 17 جون 2014 ء کو سید احتشام قادر شاہ کی بطور پراسیکیوٹر جنرل تقرری کی گئی اور خصوصی مراعات سے بھی نواز گیا۔ اسی طرح خصوصی طور پر تعینات پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر شاہ کی 3 سال کیلئے خصوصی تقرری کی گئی۔ مورخہ 17 جون 2017ء کو 3 سال مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر کو مزید توسیع نہ مل سکی تھی۔ مورخہ 22 جون 2017ء کو حکومت پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے گورنر پنجاب سے آرڈینینس جاری کروایا۔ آرڈینینس کے سیکشن6 کے تحت حکومتِ پنجاب اور وزیرِ اعلیٰ کو Amendment کا اختیار دے دیا گیا جس کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمتِ میں مزید 2 سال کی توسیع کردی گئی۔
حرفِ آخر!
نواز ، شہباز حکومت کا قتل و غارت گری کروانا اور بعد ازاں اپنے آپ کو تحفظ دینے کیلئے قانونی منصوبہ بندی کرنے پر تمام اقدامات، نئی تقرریاں، برطرفیاں، تبادلے، خصوصی مراعات، توسیع ملازمت، آرڈینینس اور ترمیمات یہ سب واضح کرتے ہیں کہ شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اس پورے سانحہ کے ذمہ دار ہیں۔ وقوعہ سے پہلے تیاری اور اس کے بعد تحفظ دینے کے اقدامات ان کے جرم کو ثابت کرتے ہیں۔ اس وقوعہ کی پولیس ہی صر ف ذمہ دار نہیں ہے بلکہ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جس کی ایما پر یہ وقوعہ پیش آیا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حصول کی جدوجہد کو 7 سال کا عرصہ گزر گیاہے۔ شہداء سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین 7 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انصاف سے محروم ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا ٹرائل زیرِ سماعت ہے جبکہ سپریم کورٹ کے فلور پر تشکیل پانے والے JIT کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں سماعت کررہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ مورخہ 3 جنوری 2019ء کے نوٹیفیکشن کے مطابق گورنمنٹ آف پنجاب کی طرف سے نئی JIT کی تشکیل صحیح ہوئی ہے یا نہیں؟
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین حصولِ انصاف کے لئے مسلسل قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔ ہمیں قوی امید ہے کہ بے گناہوں کو قتل کرنے والے ایک نہ ایک دن اپنے عبرت ناک انجام سے ضرور دو چار ہوں گے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف ملے گا۔