اس وقت ہمارے سامنے دو منظر نامے ہیں۔ پہلے منظر نامہ کا تعلق مملکتِ خدادادِ پاکستان کے عمومی سیاسی و معاشی حالات سے ہے جہاں پر اربوں ڈالر کا قرضہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دبائو پر یوٹیلٹی بلز پر عوام کو دی گئی رعایتوں کا خاتمہ، گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، ہر آئے روز بڑھتی مہنگائی، لوڈشیڈنگ، غربت، خودکشیوں، طبقاتی نظام تعلیم و صحت، عدمِ عدل و انصاف، ریاسی تشدد، بے روزگاری، جہالت، دہشت گردی، صاف پانی کی عدم دستیابی اور ملکی و قومی اداروں کی نجکاری جیسی بھیانک تصاویر نظر آتی ہیں۔ جبکہ دوسرے منظر نامہ میں حکمرانوں کی ذاتی دولت میں ہر آئے روز اضافہ، بزنس ایمپائر میں وسعت، ’’خسارہ‘‘ میں جانے والے ملکی و قومی اداروں کو ذاتی حیثیت سے خریدنا، دنیا کے درجنوں ممالک میں جائیدادیں جیسے مناظر اور داستانیں جابجا بکھری نظر آرہی ہیں۔ یہ دونوں منظر نامے پاکستان میں رائج جمہوریت اور اس کا دم بھرنے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں۔ یہ دونوں منظر نامے الزامات نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔ پہلے منظر نامہ کے مناظر ہم آئے روز اپنے معاشرے میں دیکھتے رہتے ہیں جبکہ دوسرے منظر نامہ پر متعدد حقائق محب وطن عناصر اور میڈیا منظر عام پر لاتے رہے ہیں مگر حال ہی میں پانامہ لیکس نے اس منظرنامہ کی حقیقی عکاسی کی اور ان حکمرانوں کے ’’پارس ہاتھوں‘‘، ’’محنتِ شاقہ‘‘ اور ’’کرامات‘‘ کو عیاں کردیا ہے۔br> ان حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان کا بیان _’’جیسا بھی لولا لنگڑا نظام ہے چلنا چاہئے‘‘_ دہشت گردی، غربت، مہنگائی اور ضروریات زندگی سے محروم عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اگر ملک کے ایک انتہائی اہم ادارے کا سربراہ ایسے بیانات دے گا تو ملکی آئین و قانون کے تقاضے مکمل کرنے اور ان پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کروانے کا محافظ و ضامن کون ہوگا؟ سوال ہے کہ انصاف، احتساب اور قومی سلامتی کے ادارے ان قومی لٹیروں، غداروں اور 19 کروڑ عوام کی خوشیوں کے قاتل حکمرانوں کو اس طرح حکمرانی کا موقع فراہم کرنے کے حوالے سے مجبور کیوں ہیں؟ حالانکہ موجودہ حکمرانوں کی منی لانڈرنگ، کمیشن خوری، بیرون ملک اثاثے اور قومی خزانے کی لوٹ مار کوئی راز نہیں ہے بلکہ اب تو لوٹ مار کی یہ کہانیاں بچے بچے کی زبان پر ہیں۔
احتساب، انصاف اور قومی سلامتی کے اداروں کی مسلسل خاموشی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ پانامہ لیکس کریمنل اور معاشی دہشتگردی ہے۔ حیرانی ہے کہ اس کیس کے متعلق احتساب، انصاف اور سلامتی کے کسی ادارے نے وزیراعظم سے کوئی سوال نہیں کیا۔ اس خاموشی کا کیا یہ مطلب ہے کہ شخصیات اداروں سے برتر ہیں اور احتساب کا قانون صرف کمزوروں کیلئے ہے؟ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر سے زیادہ کے اثاثے رکھنے والے وزیر اعظم کو یہ بتانا ہوگا کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں اور دولت کا ماخذ کیا ہے؟ اور یہ دولت بچوں کے اکاؤنٹس میں کیسے ٹرانسفر ہوئی؟ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں غربت میں 3گنا اضافہ ہوا، پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے مگر حکمران خاندان کا بچہ بچہ کھرب پتی بن گیا۔
لٹیروں، ڈیفالٹرز اور ٹیکس چوروں کو اسمبلیوں میں داخل کرنے کے جرم میں الیکشن کمیشن بھی براہِ راست ملوث ہے۔ اس لئے کہ اگر انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پاکستان عوامی تحریک اور قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تجاویز پر عملدرآمد کر لیا جاتا تو پاکستان مزید لُٹنے اور بِکنے سے بچ جاتا۔ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر سیاسی مافیا پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ کوئی ادارہ انکے خلاف کارروائی کرنا تو دور کی بات، ان سے سوال و جواب بھی نہیں کر سکتا۔ یہ حکمران خریدو فروخت کی سیاست کرتے ہیں۔ یہ اقتدار کو بہترین کاروبار سمجھتے ہیں۔ یہ اسمبلیاں اور الیکشن خرید لیتے ہیں اور پھر اقتدار میں آکر پورے پاکستان کو کاروباری منڈی بنا لیتے ہیں اور سرکاری حیثیت میں بین الاقوامی سطح پر نجی کاروبار چلاتے ہیں۔
نیب کی طرف سے یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان میں روزانہ 133 ملین اورسالانہ لگ بھگ 50 ہزار ملین ڈالر کرپشن ہورہی ہے۔ گویا ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، منشیات اور میگا منصوبوں سے حاصل ہونے والی کمیشن اور کک بیکس کے علاوہ ہر سال غیر ملکی قرضوں کا 40 فیصد کرپٹ حکمرانوں اور ان کے حواری بیوروکریٹس کی جیبوں میں جارہا ہے۔ یہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کا الزام نہیں بلکہ ایک قومی ادارے کے ذمہ دار شخص کا انکشاف ہے، اسکے باوجود کوئی نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ جن لٹیروں کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ہونا چاہیے تھا وہ 19کروڑ عوام کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ کرپٹ قیادت پاکستان کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔ موجودہ حکمرانوں کے ظلم کی داستانیں ماڈل ٹاؤن لاہور سے لے کر پانامہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ پانامہ لیکس پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان دھوکہ اور فراڈ کے سوا کچھ نہیں، اس لئے کہ جوڈیشل کمیشن کی بناء پر اگر پاکستان میں کچھ ہوسکتا تو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ فائلوں میں دفن نہ ہوتی۔ یہ حکمران اپنا دامن صاف قرار دلوانے کے لئے کمیشن تشکیل دیتے ہیں۔ اِنہوں نے ’’خرید لو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہر قومی ادارے میں اپنے زر خرید غلام رکھے ہوئے ہیں۔ سٹیٹ بنک ہو یا وزارت خزانہ یا ایوان وزیراعظم ہر جگہ منی لانڈرنگ کو تحفظ دینے والے کردار بیٹھے ہیں، لہذا ان حکمرانوں کے خلاف کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب تک ملکی اداروں میں بیٹھی ہوئی کالی بھیڑیں اپنے انجام کو نہیں پہنچیں گی اور ادارے اپنا آئینی و قانونی کردار ادانہیں کر یں گے، ملک اسی طرح لُٹتا رہے گا۔
لہذا اب وقت انکوائریوں کا نہیں بلکہ ایکشن کا ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف اتنے واضح ثبوت آجانے کے بعد پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر ذمہ دار قومی ادارے اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے انہیں برطرف کریں اور ان کو حراست میں لے کر ان کا مواخذہ کیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلام آباد دھرنے کے موقع پر ان حکمرانوں کی لوٹ مار کے جو حقائق قوم کے سامنے رکھے تھے، آج پانامہ لیکس کے ذریعے ان حقائق کی تصدیق پوری دنیا سے ہو رہی ہے۔ موجودہ حکمران قاتل اور کرپٹ ہیں اور ان قاتلوں اور کرپٹ حکمرانوں کو تحفظ دینے والے، ان کے اقتدار کو سہارا دینے والے اور ان کے جرائم سے چشم پوشی کرنے والے ادارے بھی ان کے جرائم میں برابر کے قصور وار ہیں۔ ان معاشی دہشتگردوں سے نجات کی صورت میں ہی مسلح دہشت گردوں کا صفایا ممکن ہوگا۔
پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں قانون کی بالا دستی، قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اس فرسودہ سیاسی نظام کے خلاف جدوجہد کررہی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے اس نظام کو بدلنے کیلئے جانیں دیں اور ہم اب بھی آخری سانس تک آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت و عوام پاکستان کے بنیادی حقوق کی بحالی اور اس لٹیرے نظام سے نجات کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔