ہم اظہارِ حق کے نام پر فتنہ پروری اورغلبہ دین کے نام پر شرانگیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں
اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ تفرقہ، نزاع، فتنہ، فساد، منافرت اور عداوت کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ اسلام الفتوں اور محبتوں کو فروغ دینے والا دین ہے۔ مسلمان کی سب سے بہترین صفت رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ ہے۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا اور خوبیوں کو تسلیم کرنا بقائے باہمی کا بہترین اصول ہے۔ اگر کہیں اصلاح کی ضرورت ہو تو اس کا یہ طریقہ ہرگز نہیں کہ آدمی هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ کی صدائیں لگانا شروع کردے، شیر کی طرح دھاڑنے لگے، بھیڑیئے کی طرح غرائے، چیتے کی طرح چیر پھاڑ کرنے لگے اور مگر مچھ کی طرح نگلنے کی کوشش کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اظہار حق کے نام پر فتنہ پروری اور غلبہ دین کے نام پر شر انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے ہاتھوں میں سوئیوں کے بجائے قینچیاں اور چرخوں کے بجائے ہتھوڑے اٹھا رکھے ہیں، ہم معمار نہیں، تخریب کار بن چکے ہیں، لوگوں کے چاک رفو کرنے کے بجائے انہیں ادھیڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ ہم نشتر چبھونا تو جانتے ہیں، مگر مرہم لگانے کے فن سے ناواقف ہیں۔ ہم محبتوں کے بجائے عداوتوں، چاہتوں کے بجائے نفرتوں، دوستیوں کے بجائے دشمنیوں، الفتوں کے بجائے کدورتوں کو فروغ دینے والے بن چکے ہیں۔
جب ہمارے قلم لکھتے ہیں تو دوسروں کے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہوجاتے ہیں، جب ہماری زبانیں چلتی ہیں تو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتی ہیں، جب ہمارے ہاتھ حرکت میں آتے ہیں تو دوسروں کی عزت و آبرو کو نشانہ بناتے ہیں، جب ہمارے قدم اٹھتے ہیں تو شرارتوں اور خرابیوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں، جب ہمارے دماغ سوچتے ہیں تو سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ دندان شکن اور منہ توڑ جواب دینے میں ہم اپنی مثل آپ ہیں۔ ہماری الزام تراشیوں، عیب جوئیوں، قیاس آرائیوں، ہاتھا پائیوں، لعن طعن، سب و شتم، ضرب و حرب، اشارہ و کنایہ اور تعریض و تقبیح کی داستانیں چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔
حالانکہ ہمارے ان رویوں کے برعکس اسلام یہ کہتا ہے کہ ہر معاملے میں شائستگی اور عمدگی کو ملحوظ خاطر رکھنا از حد ضروری ہے حتی کہ اگر قتال بھی کیا جارہا ہو تو اسلام نے اس کے لئے بھی سخت قسم کی ہدایات اور بہترین قسم کے آداب ارشاد فرمائے ہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل حدیث ہمیں آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’کچھ لوگ خیر کی چابیاں ہوتے ہیں، جہاں بھی جاتے ہیں خیر کے دروازے کھل جاتے ہیں اور کچھ لوگ شر کی چابیاں ہوتے ہیں، جہاں بھی جاتے ہیں شر کے دروازے کھل جاتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں انسان بنایا ہے اور اصلاح احوال کا باقاعدہ انسانوں والا طریقہ بھی درج ذیل آیت کریمہ میں سکھایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو‘‘۔
(النحل: 125)
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے دعوت دین کے اس خوب صورت طریقے کو ترک کرکے انتہائی غلط روش اختیار کرلی ہے۔ ہمارے مذہبی ٹھیکے داروں کے روّیے صاف بتاتے ہیں کہ وہ اصلاح کے نام پر اندر کا بغض نکالتے ہیں۔ موافقت کے بجائے منافرت اور اصلاح کے بجائے فساد کو فروغ دیتے ہیں۔ تخیل ملکوتی اور جذبہ ہائے بلند کے بجائے مورومگس پہ نگاہ رکھتے ہیں۔
آج اگر ہم سے سیادت کا تاج چھن گیا ہے اور طاقت صفر ہوکر رہ گئی ہے تو اس کی ایک اہم وجہ ہمارے یہی مناظرانہ رویے ہیں۔ جب ہمارے اوپر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا بھوت سوار ہوتا ہے تو پھر ہم آئو دیکھتے ہیں نہ تائو اور یک بارگی مدمقابل پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ ہمارا اصل مقصد احقاقِ حق یا ابطالِ باطل نہیں ہوتا بلکہ سستی شہرت، انا کی تسکین، علمیت کا اظہار، حصولِ مفاد یا مد مقابل کی عزت کو خاک میں ملانا وغیرہ ہوتا ہے۔ ہاں! بعض نادان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مقصود فقط اظہارِ حق ہوتا ہے مگر طریقہ کار وہی عامیانہ اور سوقیانہ ہوتا ہے۔
ہمارے انہی رویوں کی وجہ سے کوئی بھی علمی شخصیت ہمارے پوسٹ مارٹم اور آپریشن وغیرہ سے محفوظ نہیں رہی۔ ہم لوگوں کو اسلام اور سنیت میں جوق در جوق داخل کرنے کے بجائے انہیں فوج در فوج نکالتے پھر رہے ہیں۔ ہماری خدمت دین کی کل کائنات یہی ٹھہری ہے کہ ہم نے کتنے اہلِ علم کے ساتھ نیش زنی کی، کتنوں کو ٹھیس پہنچائی اور کتنوں کو دوسروں سے ہٹا کر اپنے پیچھے لگانے کی جدوجہد کی۔ کیا خدمتِ دین، احقاقِ حق اور علم پروری اسی کو کہتے ہیں؟
ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
یہ ہمارے اپنے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا ہمارے اوپر ہنس رہی ہے۔ ہم لوگوں کے لئے تماشا گاہ بن چکے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم نے اپنوں کے ساتھ کھلی مخالفت کا رویہ اپناکر اپنے آپ کو مذاق بنالیا ہے۔ ایک دوسرے کا قلع قمع کرنے کے شوق نے ہمیں تر نوالہ بنادیا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہوتے ہیں تو اس وقت اپنی اجتماعیت کے بخیے ادھیڑ رہے ہوتے ہیں۔ دشمن ہمارے انہی نزاعات کو لوگوں کے سامنے بطور ثبوت پیش کرکے ہمارے بگاڑ کو طشت از بام کررہا ہے مگر ہم ہیں کہ اپنی روش بدلنے کے لئے قطعاً تیار نہیں۔
اگر ہم کلام الہٰی کے لب و لہجہ، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرزِ عمل اور صوفیاء کے طریقہ تبلیغ کی روشنی میں اپنے رویوں کو ملاحظہ کریں تو شرم سے پانی پانی ہوجائیں۔ اسلاف کے رویوں سے تو ٹوٹے ہوئے جڑتے، بھاگے ہوئے پلٹتے اور کٹے ہوئے ملتے نظر آتے تھے، جبکہ ہمارا رویہ یہ ہے کہ جڑے ہوئے ٹوٹتے، کھڑے ہوئے بھاگتے اور ملے ہوئے کٹتے نظر آتے ہیں۔ جس کی پتنگ ذرا سی چڑھنے لگے ہم فوراً پیچہ ڈال دیتے ہیں، جس کی نائو تھوڑی سی ابھرتی نظر آئے ہم فوراً ڈبونے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی رفتارہلکی سے بڑھتی نظر آئے ہم فوراً ٹانگ اڑادیتے ہیں۔ کسی کی عزت ہمارے لئے ناقابل برداشت اور اس کی تذلیل ہمارے لئے راحت جان ہوتی ہے۔ پھر یہ کوئی ہمارے انفرادی رویئے نہیں بلکہ اجتماعی رویئے ہیں۔ حیف صد حیف! یہ ہم کس ڈگر پہ چل پڑے۔
یاد رہے کہ شائستگی کے ساتھ علمی اختلاف کوئی اور چیز ہے اور دریدہ دہنی کے ساتھ دوسروں کی عزت کو خاک میں ملانے کی کوشش کوئی اور چیز ہے۔ علمی اختلاف کا ہونا تو دراصل زندہ قوم کی علامت ہے مگر مخالفت کا بازار گرم کردینا مردہ قوم کی نشانی ہے۔ مزید یہ کہ علمی اختلاف کے ساتھ کچھ اور مصلحتوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے، جس میں امت کی اجتماعیت، ملت کی وحدت، سیاست کی بقا، دشمنوں کی شماتت اور جماعتی نظم کا تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔ مگر ہم نے ایسی تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف دلائل کی سر پھٹول کا نام ہی کل دین رکھ چھوڑا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری مناظرانہ ذہنیت نے ہماری سوچنے سمجھنے کی تمام تر صلاحیتوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔
علمی اختلافات کو حل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ باہم متحد ہوکر ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے کر ایسے تمام معاملات ان کے سپرد کردیئے جائیں، وہاں سے جو فیصلہ صادر ہو اس کے آگے سر تسلیم خم کرلیا جائے۔ یہ تو پرلے درجے کی بدتہذیبی ہے کہ ہر ہر مسئلے پر باہمی سر پھٹول کرکے بدنظمی کی انتہا کردی جائے اور اپنے آپ کو انتہائی حد تک کمزور کرلیا جائے۔ کیا ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ علما کی مخالفت بازی عوام کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ لوگ سخت تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ انہیں کوئی راستہ نہیں سوجھتا اور ہر طرف ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرتے ہیں۔
ہدایہ شریف کتاب البیوع وغیرہ اٹھا کر دیکھ لیں، اسلام تو ہر ایسی چیز سے منع کرتا ہے جو مفضی الی النزاع ہو۔ جہاں تھوڑا سا بھی جھگڑے کا خطرہ ہو، وہاں ہمارا دین فوراً پائوں بریک پہ رکھ دیتا ہے۔ مگر اس اسلامی فکر اور دینی سوچ کے برعکس ہماری اسپیڈیں اس وقت تک نہیں رکتیں جب تک دس پندرہ گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکڑا کر ریزہ ریزہ نہ ہوجائیں اور جب تک بیس پچیس ہزار افراد شدید متاثر نہ ہوجائیں۔
اسلام تو ہمیں کافروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے مگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں (وہ بھی اہل علم) کے کپڑے اتارنے سے بھی باز نہیں آتے۔ فتنہ و فساد کی ایسی آگ بھڑکاتے ہیں کہ ہر چیز جلا کے بھسم کردیتے ہیں۔ اگر کسی نے کوئی خلاف مزاج یا قابل اصلاح بات کہہ دی تو بس پھر اس کی تو شامت ہی آجاتی ہے۔ ہم تو بہ زعم خویش حق کا جھنڈا اٹھائے ادھر سے ادھر بھاگتے پھررہے ہوتے ہیں مگر دنیا ہم پہ کھڑی ہنس رہی ہوتی ہے۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
ہماری حالت اس حد تک ابتر ہوچکی ہے کہ اگر ایک تنظیم پہلے سے کام کررہی ہو تو اس میں رخنہ ڈال کر بالکل اسی نام کے ساتھ دوسری تنظیم بنالیتے ہیں اور وہ بھی ایک دو نہیں، سابقوں لاحقوں کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ دس دس تنظیمیں وجود میں آجاتی ہیں۔ پھر اس کے بعد ان کے باہمی مقابلے شروع ہوجاتے ہیں۔ ذہنی پستی کا عالم یہ ہے کہ تقسیم در تقسیم اور تفریق در تفریق کے اس عمل کو دین کی ترقی اور کام کی تیزی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔
ہمارا مزاج یہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنی بڑائی چاہتا ہے اور دوسرے کی بڑائی کا انکار کرتا ہے۔ ہم اتحاد کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے۔ سمع و طاعت کلیتاً مفقود ہے۔ نظم کے بجائے بدنظمی کا ذہن ہے۔ شورائیت کے بجائے من مانی کی عادت ہے۔ ہمارے ہاں بڑائی کا معیار اہلیت نہیں بلکہ بڑوں کی اولاد ہونا ہے۔ جس کو جیسے تیسے بڑائی مل گئی وہ وہیں جم کے بیٹھ گیا، اب وہ باقی سب کو یا تو اپنا غلام سمجھتا ہے اور یا پھر شمشیر بے نیام سمجھتا ہے۔ اگر کوئی شخص جمود کے بجائے تحقیق کا راستہ اختیار کرتا ہے تو سارے روایت پسند اس کے خلاف صف آراء ہوجاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ہندی مسلمان کی اسی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا:
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہر تا ہے بہت جلد
اسلام نے بڑوں چھوٹوں سب کے لئے کچھ حدود و قیود مقرر فرمائی ہیں۔ نہ بڑے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آدمی چھوٹوں کو چھوٹا سمجھنا شروع کردے اور نہ ہی چھوٹے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آدمی بڑوں کو بڑا ہی نہ سمجھے۔ سب کے حقوق ہیں، سب کی عزت نفس ہے، سب کے لئے ضابطہ اخلاق ہے۔ اگر کوئی شخص بڑا ہو تو وہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکے اس واقعہ سے سبق حاصل کرے اور سب کو ساتھ لے کر چلے، جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکو کعبۃ اللہ کی دیوار میں حجر اسود نصب کرنے کے لئے بالاتفاق منتخب کرلیا گیا تو آپ نے حجر اسود کو چادر میں رکھ کر سب کو اٹھانے کا حکم دیا اور پھر خود اسے دیوار کعبہ میں نصب فرمادیا۔
یہ ہے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا طریقہ مگرہم اس ذہنیت سے عاری ہیں، نہ ہم کسی کے ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا ہمارے ساتھ چل سکتا ہے۔ ہمیں اپنے اس رویے کو بدلنا ہوگا اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اگر ہم دوسروں کی حیثیت کو تسلیم کریں گے تو ہماری بڑائی بھی قائم رہے گی اور اگر ہم دوسروں کی حیثیت کو ماننے سے انکار کردیں گے تو پھر ہماری بڑائی بھی جاتی رہے گی، اس کے بعد صرف چند مخصوص خوشامدیوں، مفاد پرستوں اور عقیدت مندوں کا ایک ٹولہ ہمارے ساتھ رہ جائے گا اور ہم اپنے نفس کو ان کے درمیان مطمئن پائیں گے۔
یہاں ایک عظیم بزرگ کا درج ذیل اقتباس ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے زمانے کے اہل علم اپنی شکل و صورت، لباس فاخرہ اور پرکشش سواریوں کی سجاوٹ و خوبصورتی میں لگے رہتے ہیں، اگر ان کے باطن پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح کسی پہاڑ کے گرنے سے موت کا خوف ہوتا ہے اسی طرح ان کے دلوں میں رزق اور مخلوق کا خوف بھرا ہوتا ہے، انہیں یہ ڈر بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں لوگوں کے دلوں سے ہماری عزت و مقام کم نہ ہوجائے۔
نیز اپنی تعریف پر خوشی و مسرت، اقتدار کی محبت، بلندی چاہنا، ظالموں اور مال داروں کی خوشامد کرنا، غریبوں کو حقیر جاننا، فقر سے دور بھاگنا، مقام حق میں بڑائی مارنا، اپنے مسلمان بھائی سے کینہ اور بغض و عداوت رکھنا، ذلت کے خوف سے حق و سچ کو چھوڑ دینا اور بولنے میں اپنی خواہش کے پیچھے چلنا، دنیا کی رغبت اور حرص ہونا، بخل و کنجوسی کرنا، لمبی امیدیں باندھنا، اترانا اور اکڑنا، دل میں کھوٹ ہونا، دھوکا دہی، فخر کرنا، ریاکاری، شہرت چاہنا، مخلوق کی عیب جوئی، چاپلوسی کرنا، خود پسندی، مخلوق کے لئے زیب و زینت، شیخی بھگارنا (یعنی ڈینگیں مارنا)، تکبر کرنا، دل کے دھوکے اور سختی و بے رحمی کا شکار ہونا، اکھڑ مزاج ہونا، سختی و بداخلاقی سے پیش آنا، تنگ دل ہونا، مال ملنے پر خوش اور جانے پر غمگین ہوجانا، قناعت اختیار نہ کرنا، دوسرے کے کلام میں طعن کرنا، معاملات میں تلخی و سختی اپنانا، اوچھا و کم ظرف ہونا (یعنی غیر سنجیدہ ہونا اور بے ہودگی کرنا)، عجلت پسند ہونا، شدت و غصہ کرنا، رحمت و شفقت کی کمی ہونا، محض اپنی عبادت پر بھروسہ کرنا اور نعمتوں کے چھن جانے سے بے خوف ہونا، فضول گفتگو کرنا، مخفی خواہشات کا شکار ہونا (جن کو صرف عقل و بصیرت والے ہی پہچانتے ہیں)، عزت و مرتبہ کی خواہش ہونا، مسلمانوں کو بظاہر بھائی کہنا اور دل میں عداوت رکھنا، اپنی بات ٹھکرائے جانے پر غصہ ہوجانا، لوگوں کے لئے مبالغہ آرائی کرنا، صرف اپنی فتح و جیت کی کوشش کرنا، مخلوق سے انسیت ہونا جبکہ حق تعالیٰ سے وحشت ہونا، غیبت، حسد، چغلی، ظلم اور زیادتی کرنا ان کی عادتوں میں شامل ہے۔
یہ گندگی اور کوڑے کے وہ ڈھیر ہیں جن میں ان کے باطن ملوث ہیں اور ان کے ظاہر کو دیکھو تو نماز، روزہ، دنیا سے بے رغبتی اور اچھے اعمال کی بہت سی اقسام نظر آتی ہیں مگر جب بارگاہ الہٰی میں ان امور سے پردہ اٹھے گا تو یہ ایک کوڑا خانہ کی مانند ہوں گے۔
یہ ہے وہ ریا کار و چاپلوس علم والا جو اپنی خواہشات کے لئے تصنع و بناوٹ اختیار کرتا ہے۔ ایسا شخص اپنے عمل میں مخلص نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا نفس شہوت کی آگ میں جکڑا ہوا اور دل نفسانی خواہشات سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور یہ تمام کے تمام عیب ہیں اور غلام میں اگر عیبوں کی کثرت ہوجائے تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے‘‘۔
(اصلاح اعمال، مطبوعة مکتبة المدينة، کراچی، ص:5-794)
انہی معاملات کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا تھا:
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت
عرض کی میں نے الہٰی مری تقصیر معاف!
خوش نہ آئیں گے اسے حورو شراب و لب کشت
نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزیِ اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کنشت