گذشتہ ماہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ’’آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ‘‘ کی خصوصی دعوت پر عالمی صوفی کانفرنس میں شرکت کے لئے 13 مارچ 2016ء کو محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی کے ہمراہ بھارت پہنچے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل بھارت کے صدر محترم ناد علی کی قیادت میں نئی دہلی ایئرپورٹ پر منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے کارکنوں اور عہدیداروں نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔
ائیر پورٹ پر شیخ الاسلام نے کارکنوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’منہاج القرآن دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنا عالمی اسلامی کردار ادا کررہی ہے۔ بھارت کی سرزمین پر صوفیائے کرام کی انسان دوستی پر مبنی تعلیمات کے گہرے اثرات اور ثمرات ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کی طرف سے فروغ امن نصاب کی اشاعت کے بعد بھارت کے تنظیمی عہدیداروں اور کارکنوں کی خواہش تھی کہ میں بھارت آؤں اور فروغ امن نصاب کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کروں۔ اللہ تعالیٰ نے عالمی صوفی کانفرنس کے انعقاد کی صورت میں مجھے یہاں آنے کا موقع دیا۔ اسلام امن، محبت اور رواداری کا دین ہے۔ صوفیائے کرام کی روشن تعلیمات ،احترام آدمیت اور رواداری پر مبنی باعمل زندگی اس کا قابل تقلید ثبوت ہے‘‘۔
ایئرپورٹ سے شیخ الاسلام کو ان کی رہائش گاہ لے جایا گیا۔ تمام راستے کو خیر مقدمی بینروں سے سجایا گیا تھا۔ اس دورہ کے دوران شیخ الاسلام نے متعدد دعوتی و تنظیمی پروگرامز میں شرکت کی، مزاراتِ اولیاء کرام پر خصوصی حاضری دی اور بھارتی نیوز چینلز نے آپ سے خصوصی انٹرویوز لئے جس میں آپ نے حالاتِ حاضرہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ اس دورہ کی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:
- عالمی صوفی کانفرنس کے میزبان اور آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے صدر محترم المقام سید محمد اشرف کچھوچھوی نے بورڈ کے تمام معزز عہدیداران کے ہمراہ 14مارچ 2016ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ملاقات کی اور کانفرنس میں شرکت کے لئے آنے پر آپ کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کانفرنس کے حوالے سے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔
مزاراتِ اولیاء پر حاضری
بھارت پہنچنے کے بعد اگلے دن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے رفقاء و کارکنان تحریک اور محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی کے ہمراہ 14 مارچ 2016ء کو اجمیر شریف میں حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دی۔ اجمیر شریف پہنچنے پر دربار کے خادم محترم سلمان چشتی نے ہزاروں زائرین کے ہمراہ شیخ الاسلام کا پرتپاک استقبال کیا۔ مزار پر شیخ الاسلام اور صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی کی دستار بندی کی گئی اور روایتی تحائف دئیے گئے۔ شیخ الاسلام کو اپنے درمیان دیکھ کر زائرین اور عوام نے بے حد محبت و عقیدت کا اظہار کیا اور اجمیر شریف کی فضا ’’جیوے جیوے طاہر جیوے ‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ ہند کی سرزمین پر شیخ الاسلام کی اس حد تک پذیرائی گویا حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی طرف سے ہی اپنے غلام کی حوصلہ افزائی کا ایک مظہر تھی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہاکہ ’’خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی دینی خدمت اور برکت سے بر صغیر پاک و ہند میں بالعموم اور راجپوتانہ میں بالخصوص اسلام پھلا پھولا۔ آپ کے انسان دوست طرزِ معاشرت اور حسنِ سلوک سے ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو ئے۔ انکی زندگی صدق و صفا، زہد و تقوی اور عبادت و طہارت کا عملی نمونہ تھی۔ انکے پاس نہ کوئی دولت تھی، نہ فوج، نہ خزانہ، اسکے باوجود انہوں نے کروڑوں انسانوں کے دلوں پر حکومت کی جو آج تک قائم ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت رکھنے والوں میں ہر مذہب و نسل اور مکتبہ فکر کے لوگ ہیں جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے تمام عمر امن، محبت، رواداری کو فروغ دیا اور مخلوق خدا کی خدمت کی۔ جب کوئی انسان ذات، جماعت، مسلک، دنیاوی فوائد اور لالچ سے خود کو بلند کر لیتا ہے تو وہ اللہ اور اس کی مخلوق کا محبوب ترین بن جاتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت اور علم کے نور سے آراستہ زندگی کو اپنے لئے نمونہ حیات بنایا جائے‘‘۔
- حضرت خواجہ غریب نواز کے مزار پرانوار پر حاضری دینے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سرزمین ہند کے اولیاء میں سے ایک اور نامور ہستی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بھی حاضری دی۔ اس موقع پر درگاہ کے سجادہ نشین نے آپ کی اور محترم صاحبزادہ حماد مصطفی العربی کی باقاعدہ دستار بندی کی۔ اس موقع پر بھی عوام الناس کے ایک جم غفیر نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی بارگاہ سے بھی آپ کو ہمیشہ کی طرح خوب فیض اور نظرم کرم میسر آئی۔
میڈیا پر غیر معمولی پذیرائی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اس دورہ کے دوران متعدد انڈین نیوز چینلز نے آپ کے خصوصی انٹرویوز براہ راست نشر کئے جن میں شیخ الاسلام نے دہشت گردی و انتہاء پسندی کے سدباب، پاک بھارت تعلقات میں بہتری اور کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور پر مذاکرات کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عالمی صوفی کانفرنس میں شرکت یقینی ہونے کی خبر کے ساتھ ہی تمام بھارتی اخبارات اور نیوز چینلز نے اسے نمایاں شائع و نشر کیا۔The New Indian Express (6-03-2016) میں Partual Sharma لکھتے ہیں کہ
Historic Ramlila Maidan will play host to a unique event to denounce terrorism, delinking it with Islam on March 20. Leading the massive congregation, rejecting violence would be Dr Tahir-ul- Qadri, an eminent scholar of Sufism and Pakistani politician, along with Sufi scholars from India and other 25 countries.
Tahir-ul-Qadri, an influential light at interpreting the Quran and stressing inclusivity of the faith, is expected to speak against the use of violence using Islam as a pretext at the three-day World Sufi Forum beginning March 20 at Ramlila Maidan. Known as Pakistan’s Anna Hazare, Qadri has been instrumental in raising voices against Islamic State (IS). His message is expected to provide a strong counter-narrative to current attempts of radicalisation of Muslim youth, sources said. As the Islamic world jostles with influences of radicalism and terrorism, Sufi thought is considered an antidote, a voice that can bring harmony between the religions. (www.newindianexpress.com)
- 14 مارچ 2016ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھارتی نیوز چینل ANI نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جیو اور جینے دو کی پالیسی ہی بھارت و پاکستان کے درمیان جاری کشمکش کو کم کرسکتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تمام متنازعہ امور بشمول کشمیر، پٹھان کوٹ و ممبئی حملے اورانڈیا کی طرف سے بلوچستان اور کراچی، پشاور میں دہشت گردی کے واقعات پر شفاف، واضح اور کھلے دل کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ خواہ یہ ہندو انتہا پسند ہوں، یا مسلم انتہا پسند یا کوئی اور، ان کے خلاف مشترکہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
کرکٹ ٹیمیں تو ایک دوسرے کے ملک میں آ جا نہیں سکتیں تو پاک بھارت وزراء اعظم کے ذاتی تعلقات کا کیا فائدہ؟ دونوں وزرائے اعظم ذاتی تعلقات کے بجائے عوام میں دوستیاں پیدا کریں۔سرحدوں پر کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کی طرح انڈیا کے اندر بھی ہندو انتہا پسند گروہ ہیں۔انتہاء پسندی و دہشت گردی کو ایک مشترکہ دشمن سمجھ کر تمام ممالک، تمام مذاہب اور تمام سوسائٹیز کو مشترکہ جنگ لڑنا ہوگی اور آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا، آپس کے تنازعات کو حل کرنا ہوگا۔ غیر ضروری محاذوں پر توانائیاں صرف ہونگی تو انتہا پسند گروہوں کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کا موقع ملے گا۔ ایک دوسرے کے قومی وقار، روایات اور آزادی کا احترام کیا جائے۔ دونوں ممالک معدنی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہیں، ان وسائل کو خطہ کے عوام کی بہبود کیلئے استعمال کیا جائے اور ایک دوسرے کے علمی، تحقیقی اور سائنسی تجربات سے استفادہ کیا جائے۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اس سے نمٹنے کیلئے جدوجہد بھی مشترکہ طور پر کرنا ہو گی۔ کوئی ایک ملک یا معاشرہ تنہا دہشت گردی کے ناسور سے نہیں نمٹ سکتا۔ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اورامن کے فروغ کیلئے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے‘‘۔
MQI ویسٹ زون (انڈیا) ورکرز کنونشن
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 15 مارچ 2016ء کو جے پور تشریف لے گئے جہاں آپ نے منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا ویسٹ زون کے کارکنان کے ورکرز کنونشن میں خصوصی شرکت کی اور اظہار خیال فرمایا۔ تنظیمی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ
’’تحریک منہاج القرآن کا ہر کارکن امن کا سفیر اور اسلام کا سچا سپاہی ہے۔ اسلامی تعلیمات عالمی امن اور انسانی بھائی چارے سے عبارت ہیں۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو مسلمان تو کیا غیر مسلم کے نا حق قتل کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ پیغمبر امن صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلم معاشرے میں غیر مسلم کے جان و مال اورعزت کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ اسلام کے نام پر گلے کاٹنے والے، سکولوں، عبادتگاہوں، ہسپتالوں اورتجارتی مراکز میں دہشتگردی کرنیوالوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ انسانیت اور عالمی امن کے دشمن ہیں۔ ان دہشتگردوں نے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچایا ہے۔ امن نصاب واحد نصاب ہے جو تاریخ عالم میں پہلی بار امن کو فروغ دینے کیلئے مرتب کیا گیا ہے۔ اس نصاب کے ذریعے اسلام کا نام استعمال کرنے والے دہشتگردوں کو دنیا میں تنہا اور بے نقاب کر دیا گیا ہے۔
- ویسٹ زون کارکنان تحریک سے جے پور میں ملاقات کے بعد شیخ الاسلام 16 مارچ 2016ء کو نئی دہلی واپس پہنچے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل دہلی تنظیم کے ممبران نے آپ کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا۔ اس خصوصی ملاقات میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام بھارت میں دعوتی، تربیتی، علمی، فکری اور فلاحی خدمات کے فروغ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
نیوز چینلز کو انٹرویو
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دعوتی و تنظیمی اور تعلیمی و تربیتی تناظر میں مصروفیات کا دائرہ کار پاکستان کی طرح بھارت میں بھی ہمہ جہتی رہا۔ بھارت بھر سے کارکنان، تنظیمات اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نمائندہ شخصیات سے ملاقاتوں اور انٹرویوز کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا۔
- 16 مارچ کو شیخ الاسلام سے انڈیا کے چینل TV اردو نے خصوصی انٹریو لیا۔اس انٹرویو میں نیشنلزم کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ
’’اس حوالہ سے بھی بہت سی غلط فہمی پائی جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کو اس کی سمجھ ہی نہیں ہے کہ نیشنلزم کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ میں مسلمانوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک اتحاد بنایا اور ریاست مدینہ کے لئے پہلا آئین لکھا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلا تحریری آئین ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی ریاست کا باقاعدہ تحریری آئین نہ تھا۔ ریاست مدینہ کے اس تحریری آئین کے 63 آرٹیکلز ہیں۔ اس آئین میں مسلمان، یہودی اور ان کے تمام قبائل اور ان کے تمام اتحادیوں پر مشتمل ایک قوم تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا۔ میثاق مدینہ کے الفاظ ہیں:
انهم امة واحدة من دون الناس.
’’تمام (دنیا کے دیگر) لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی‘‘۔
یہ State Nation کا تصور تھا جو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا۔ پھر فرمایا:
وان يهود بنی عوف امة مع المومنين، لليهود دينهم، وللمسلمين دينهم.
’’بنی عوف کے یہودی، مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت (قومیت) تسلیم کئے جاتے ہیں۔ یہودیوں کے لئے ان کا دین ہے اور مسلمانوں کے لئے اپنا دین ہے‘‘۔
یعنی دین اور مذہب یہودیوں کا اپنا ہوگا اور مسلمانوں کا اپنا ہوگا۔ یعنی مذہبی آزادی ہوگی مگر ایک ملک میں رہتے ہوئے سب ایک Single Nation ہوں گے۔ دین و مذہب میں کوئی سمجھوتہ نہ ہوگا۔
پس آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے نیشنلزم (قومیت) کی سمجھ آئی کہ کوئی شخص خواہ وہ ہندو، سکھ، عیسائی ہے اور وہ پاکستان کا شہری ہے، اس کے اوپر پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے پاکستان کی شہریت اور پاکستان کے قوانین کا احترام و وفاداری اتنی ہی لازم ہے جتنی وہاں کے رہنے والے مسلمان باسیوں پر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان، سکھ، عیسائی یا کوئی بھی مذہب رکھنے والا انڈیا کا شہری ہے تو اسلامی نقطہ نظر سے اس مسلمان پر اپنے دین و مذہب کی آزادی ہے، اس دین و مذہب کو چھوڑنے کی کسی کو اجازت نہیں مگر وہ چونکہ انڈیا کا شہری ہے، لہذا اس مسلمان پر واجب ہے کہ وہ انڈیا کے ریاستی قوانین کی پابندی کرے۔ اسے اپنے ملک کے ساتھ وفادار رہنا، ملک کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے یہاں کے سیاسی، معاشرتی، معاشی معاملات کا حصہ بننا، مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہنا اور معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔ مسلمان کو یہ نہیں سوچنا کہ میں مسلماں ہوں اور یہ انڈیا ہے لہذا میں اس ملک کی بہتری کے لئے کردار کیوں ادا کروں۔ یہ سوچ غیر اسلامی سوچ ہوگی اور اسلام اور سنت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہوگی۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو 84 صحابہ عیسائی ریاست حبشہ پہنچے۔ مسلمانوں کے ساتھ وہاں پر اچھے سلوک کی خبر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی تو حبشہ کے عیسائی ریاست ہونے کے باوجود آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ارض صدق ہے یعنی سچائی کی سرزمین ہے۔ اس لئے کہ وہاں کسی کے ساتھ ظلم اور حق تلفی نہیں ہوتی۔ گویا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک Universal Criteria for Humanity بنادیا کہ جس سرزمین پر انسانی حقوق پامال نہ ہوں، ظلم نہ ہو تو اس سرزمین کو عدل و انصاف کی وجہ سے صدق کی زمین کہا جائے گا۔
جہاں جہاں جس مذہب کے پیروکار رہ رہے ہیں وہ پاکستان ہے یا انڈیا، برطانیہ ہے یا امریکہ، عرب کی سرزمین ہے یا عجم کی، ان پر دو طرح کی ذمہ داریاں ہیں:
- اپنے مذہب پر رہیں، مسلمان قرآن و سنت، شریعت، فقہ پر رہیں اس کو ترک نہ کریں، ہندو اپنی ویدوں پر عمل کریں، عیسائی و یہودی اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کریں۔ مذہب کو برقرار رکھیں۔
- دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ جس ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے اس ملک کے آئین و قانون کے وفادار ہوں اور اس ملک کے امن اور بہتری کے لئے تعاون کریں اور حصہ لیں‘‘۔
- 17 مارچ کو انڈین ٹی وی چینل ABP نیوز نے آپ کا خصوصی انٹرویو لیا۔ شیخ الاسلام نے اس انٹرویو میں کئے جانے والے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ’’آئی ایس آئی پر ایک خاص قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں جن کی تائید نہیں کی جا سکتی کیونکہ ایسے الزامات کے کسی کے پاس شواہد نہیں ہیں اور اگر الزامات ہی لگائے جاتے رہے تو پھر مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جائیں گے۔ میں دہشت گردی کی مذمت کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں اور برملا کہتا ہوں کہ دہشت گردی کرنے والوں کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ظالم ہیں، انسانیت کے قاتل ہیں، وہ پاکستان اور انڈیا دونوں کے دشمن ہیں، انہیں آڑے ہاتھوں لینا چاہئے۔
انڈیااگر پٹھانکوٹ، ممبئی حملوں کی بات کرتا ہے تو پاکستان کراچی، پشاور اور بلوچستان کی دہشتگردی پر پریشان ہے۔ یہ مسائل تبھی حل ہونگے جب دونوں ملک ملکر دہشتگردوں کو بے نقاب کرینگے۔ کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل مذاکرات میں ہے۔ الزامات سے آگے بڑھا جائے اور جس کے پاس دہشتگردی کے ثبوت ہیں وہ پیش کرے۔ دہشتگرد بھارت اور پاکستان دونوں کے دشمن ہیں۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات لگتے ہیں تو دونوں ریاستیں ان دہشت گردوں کو بے نقاب کیوں نہیں کرتیں۔ جو ذمہ دار ہیں ان کے شواہد پیش کریں۔ انہیں کسی قسم کی رعایت کا حق ہے اور نہ ملنا چاہئے‘‘۔
’’پاکستان اور بھارت کو آزاد ہو ئے 70 سال ہو گئے، کیا یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے دشمن بن کر رہنا ہے۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ ہے تو یہ آئندہ نسلوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ دشمنی ختم کر کے آئندہ نسلوں کا سوچا جائے۔ دونوں طرف ایک دوسرے کے خاندان آباد ہیں۔ ویزوں کیلئے مہینوں انتظار نہ کروایا جائے اور گھنٹوں قطار میں نہ کھڑا کیا جائے بلکہ ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ بجٹ دشمنی پر خرچ کرنے کے بجائے غربت کے خاتمے، تعلیم اور صحت کے فروغ پر لگائے جائیں‘‘۔
’’یہ درست نہیں کہ عام مسلمان دہشتگردی کی مذمت نہیں کرتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب دہشتگرد بے گناہوں کی جانیں لیتے ہیں تو میڈیا کی خبر بنتی ہے مگر جب عام مسلمان اس کی مذمت کرتا ہے تو خبر نہیں بنتی۔ پاکستان کے عوام مجھے بے حد پیار کرتے ہیں اور انڈیا کے عوام کی طرف سے ملنے والی محبت بھی پاکستان سے کم نہیں۔ گویا عوام میں خرابی نہیں ہے، عوام کے دل اچھے ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں۔ سیاسی قیادت بعض اسباب کے باعث ملنے نہ دے تو اس میں عوام کا کیا قصور؟ صوفی کانفرنس جیسی سرگرمیاں بھارت اور پاکستان میں کثرت سے ہونی چاہئیں۔ ایک دوسرے کے ملکوں میں قافلے آتے جاتے رہنے چاہئیں تاکہ پتہ چلے کہ اس خطے کے لوگوں میں نفرت نہیں ہے اور یہاں کے لوگ مل کر انتہا پسندی و دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں۔ اسلام دہشتگردی کو مسترد کرتا ہے۔ اس ضمن میں میرا 6 سو صفحات پر مشتمل فتویٰ اس کا ثبوت ہے، جسے پوری دنیا میں پذیرائی ملی‘‘۔
’’وطن کی سرزمین کو ماں کا درجہ قرار دینے پر اسلامی نقطہ نظر کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ ’’وطن کی سرزمین کو ماں کا درجہ دینا، وطن کی سرزمین سے محبت کرنا، وطن کی سرزمین کے لئے جان بھی دے دینا، یہ ہرگز اسلام کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین اسلام کی تعلیمات میں داخل ہے جو شخص وطن سے محبت کرنے کے خلاف بات کرتا ہے اور اس کو اسلام کے خلاف سمجھتا ہے اسے چاہئے کہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے‘‘۔
MQI ساؤتھ زون (انڈیا) ورکرز کنونشن
17 مارچ 2016ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا ساؤتھ زون کے کارکنان منہاج القرآن کے ورکرز کنونشن میں خصوصی شرکت کی۔ اس ورکرز کنونشن میں محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے بھی خصوصی شرکت کی۔ اس کنونشن میں کارکنان سے تربیتی گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ
’’بندے کو جب نیک کام کی سوچ مل جائے تو وہ اس پر ہر وقت رب کائنات کا شکر ادا کرے کہ اس کی توفیق نے مجھے یہ سوچ عطا کی۔ ورنہ کتنے لوگ ہیں جنہیں یہ سوچ نہیں ملتی۔ جب شکر ادا کریں گے تو لئن شکرتم لازیدنکم کے مصداق مزید نعمتیں میسر آئیں گی۔ یہ سوچ چونکہ ایک نعمت ہے جس جس مرحلہ کا شکر ادا کریں گے اس مرحلہ کا دوام، استقامت اور اضافہ نصیب ہوگا۔ شکر ادا کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس نیک کام کی سوچ ذہن سے جائے گی نہیں بلکہ برقرار رہے گی۔ آدمی جب اس سوچ کے مطابق عمل کرتا ہے تب ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ رب کائنات عمل سے پہلے تک توفیق دیتا ہے، اگر وہ کسی مرحلہ پر توفیق روک لے تو سوچ وہیں رک جائے گی، وہ سوچ ہی رہے گی پوری زندگی عمل وجود میں نہ آئے گا۔ اس لئے ہر لمحہ پر شکر ادا کریں۔ شکر عاجزی، انکساری اور تواضع کے ساتھ ادا کریں۔ یہ پختہ یقین رکھیں کہ یہ سوچ میری نہیں ہے بلکہ میرے اندر ڈالی گئی ہے۔ ڈالنے والا کوئی اور ہے۔ اسی جذبہ کے ساتھ دین اسلام کی حقیقی خدمت کو اپنا شعار بنائیں اور اپنے عمل و کردار سے اسلام کے دین امن و محبت اور دین رحمت ہونے کا ثبوت معاشرے میں پیش کریں‘‘۔
انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز میں لیکچر
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نئی دہلی میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینلسز (IDSA) میں Importance of Moderate Islam for south Asia کے موضوع پر 18 مارچ کو خصوصی لیکچر دیا اور شرکاء کے سوالات کے جوابات دیئے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ
’’دنیا داعش اور دہشتگردی کے فتنے سے نمٹنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے۔ داعش عصر حاضر کا سب سے بڑا فتنہ اور یہ اپنی نوعیت کے بدترین دہشتگردہیں۔ ان کے مقابلہ اور خاتمہ کیلئے پوری دنیا بالخصوص ’’او آئی سی‘‘ اور مسلم ممالک کو فیصلہ کن جنگ کی تیاری کرنا ہو گی۔ داعش پر میری ایک کتاب اگلے دو تین ماہ میں چھپ جائے گی جس میں داعش کے فتنہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور اس فتنہ سے نمٹنے کیلئے حل بھی تجویز کئے گئے ہیں۔ بین الاقوامی تنازعات جو زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہیں، ان کے حل میں عدم دلچسپی کے باعث انتہا پسندی، تشدد اور داعش جیسی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ غربت تعلیم، صحت کی سہولتوں کے فقدان، دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے نا ہموارسیاسی و سماجی رویے دہشتگردی اور داعش جیسے فتنوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
یہ سوالات جواب طلب ہیں کہ داعش کے پاس وسیع و عریض آئل اور وسائل کہاں سے آئے؟ انکے تصرف میں وسیع و عریض رقبہ ہے، یہ سب سہولتیں ان نووارد درندوں کو کہاں سے میسر آئیں؟ انہیں اسلحہ اور تربیت کون دیتا ہے؟ انکی معیشت کیا ہے؟ یہ دنیا بھر سے افرادی قوت کو پر کشش معاوضوں پر کیسے حاصل کر رہے ہیں؟ کون ہیں جو انکے سہولت کار بنے ہوئے ہیں؟ یہ سب منظر عام پر آنا چاہیے۔ ان حقائق کو چھپانا یا بیان نہ کرنا داعش کی مدد کرنے جیسا عمل ہے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے 14سو سال قبل ایسے فتنوں کی نشاندہی کر دی تھی اور اس کے خاتمے کیلئے بھرپور ریاستی طاقت برؤے کار لانے کی ہدایت کی تھی۔ داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام نے اسلام اور انسانیت کے ان دشمنوں کا حلیہ بتاتے ہوئے انہیں قتل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لہذا دہشتگردی اورداعش کو اسلام سے نہ جوڑا جائے، اسلام تو ایسے فتنوں کو کچل دینے کا حکم دیتا ہے‘‘۔
شیخ الاسلام کا IDSA کے شرکاء کے ساتھ سوال و جواب کا سیشن 2 گھنٹوں پر محیط تھا جس میں شیخ الاسلام نے ہر حوالے سے ان کی تفصیلی رہنمائی کی۔
MQI ایسٹ زون (انڈیا) ورکرز کنونشن
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 18 مارچ کو منہاج القرآن انٹرنیشنل ایسٹ زون (بھارت) سے تعلق رکھنے والے کارکنان کے ورکرز کنونشن میں خصوصی شرکت کی۔ آپ نے کارکنان سے تربیتی گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ولی اور صوفی وہ ہے جس کے اندر نبی کی سیرت کا عکس نظر آئے، نبی کی رحمت و شفقت کا عکس نظر آئے۔ نبی کی تواضع و اکساری کا عکس نظر آئے، نبی کی سخاوت کا نقش نظر آئے۔ معاملات درست ہوں تو عبادات کام آتی ہیں۔ اولیاء، ابدال اونچے اونچے درجوں پر عبادتوں کی وجہ سے نہیں پہنچے بلکہ وہ سخاوتوں کے ذریعے پہنچے۔ ولی کی علامت یہ ہے کہ ولی لینے والا نہیں ہوتا بلکہ ولی دینے والا ہوتا ہے۔ لہذا کارکنان و رفقاء مخلوقِ خدا کی بھلائی کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ آپ کا ہر عمل آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور سیرت کی اتباع میں ہو تاکہ معاشرے میں امن و رحمت فروغ پائے‘‘۔
’’عالمی صوفی کانفرنس‘‘ میں شرکت
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا بھارت کا یہ دورہ ’’عالمی صوفی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے تھا۔ اس کانفرنس کے روح رواں ’’آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ‘‘ کے بانی و صدر محترم المقام سید محمد اشرف کچھوچھوی تھے۔ جو ساداتِ اشرفیہ کچھوچھہ کے عظیم بزرگ حضرت شیخ سید مختار اشرف اشرفی الجیلانیؒ کے پوتے اور شیخ اعظم علامہ سید اظہار اشرف صاحب کے صاحبزادہ ہیں۔ دنیا بھر سے اسکالرز، صوفیہ، علماء، مشائخ اور امن کی بحالی کے لئے کام کرنے والی دو سو سے زائد شخصیات نے ہندوستان، پاکستان، امریکہ، کینیڈا، مصر، جرمنی، جارڈن، سنگاپور، ترکی، برطانیہ، یمن، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
ورلڈ صوفی فورم‘‘ کی افتتاحی تقریب 17 مارچ کو وگیان بھون ہال دہلی میں منعقد ہوئی جس کے افتتاحی سیشن سے وزیراعظم بھارت نریندر مودی نے خطاب کیا۔ بعد ازاں 18 اور 19 مارچ کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر دہلی میں انٹرنیشنل صوفی سیمینار ہوا۔ جن میں دنیا بھر سے تشریف لائے ہوئے سکالرز و علماء نے اپنے اپنے مقالہ جات پڑھے۔ ان سکالرز و علماء میں آکسفورڈ یونیورسٹی، کیلی فورنیا یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کے وہ اسکالرز پروفیسرز شامل تھے جو تصوف پہ کام کررہے ہیں اور اس حوالے سے علمی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان، مصر، یمن، بنگلہ دیش، ترکی، عراق، لندن سے بھی تصوف کے عالمی نمائندوں نے بطور خاص شرکت کی۔
ورلڈ صوفی فورم کی ان چار روزہ تقریبات کا اختتامی سیشن ’’عالمی صوفی کانفرنس‘‘ کے عنوان سے 20مارچ کو رام لیلا میدان نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ جس میں ورلڈ صوفی فورم میں شریک جملہ سکالرز، علماء و مشائخ کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بالخصوص اس سیشن کے لئے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے جہاں آپ نے اس کانفرنس کا ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل مرکزی خطاب ارشاد فرمایا۔
(یہ تفصیلی خطاب صفحہ5 پر ملاحظہ فرمائیں)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہ خطاب انڈین نیشنل چینلز نے خصوصی طور پر براہ راست نشر کیا اور تمام انڈین میڈیا کی ہیڈ لائنز کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسلام کے حقیقی پیغام امن کو بھارتی عوام اور سرزمین ہند کے ہر خاص و عام تک پہنچانے کے لئے شیخ الاسلام کے اس خطاب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ شیخ الاسلام خطاب کیلئے آئے تو لاکھوں شرکاء نے کھڑے ہو کر آپ کا والہانہ استقبال کیا اور خیر مقدمی نعرے لگائے۔ اس کانفرنس میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر محترم ڈاکٹر حسین محی الدین اور محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس میں ہندو مذہب کے پیشوا اور دیگر مذاہب کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بامقصد اور کامیاب صوفی کانفرنس کے انعقاد پر علماء مشائخ بورڈ کے جملہ ذمہ داران و ممبران کو مبارکباد دی۔
کانفرنس کے موقع پر تحریک منہاج القرآن کی جانب سے شیخ الاسلام کی جملہ کتب پر مبنی ایک بہت بڑے بک سٹال کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں لوگوں نے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔
BBC ہندی، DDنیوز اور دیگر انٹرویوز
20 مارچ 2016ء کو شیخ الاسلام سے BBC ہندی نے بھی خصوصی انٹرویو لیا۔ دہلی میں بی بی سی ہندی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ
’’مقصد کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو غیر ملکی فنڈنگ پر حکومتوں کا موثر کنٹرول ہونا چاہیے۔ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے فروغ میں غیر ملکی فنڈنگ کا بنیادی کردار ہے۔ دہشتگردی اژدھا ہے تو فرقہ واریت، تنگ نظری، عدم برداشت کے رویے سانپ ہیں۔ یہی سانپ دہشتگردی کے اژدھا میں تبدیل ہوئے۔ تنگ نظری کے خاتمے کیلئے صوفی ازم کا فروغ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت نے 70سال ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے اور کہنے میں گزار دئیے۔ دونوں ملک بطور دشمن ہمسایہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ دونوں طرف کے کروڑوں مسلمان اور عوام خوشگوار تعلقات کے آرزو مند ہیں۔ دونوں طرف کی حکومتوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے‘‘۔
- بعد ازاں DD نیوز کے پروگرام CANDID Conversation کے لئے بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی انٹرویو کیا گیا۔ اس انٹرویو میں آپ نے پاک بھارت تعلقات، دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف اسلامی تعلیمات اور صوفی ازم کو انگلش زبان میں بیان کیا۔
- 21 مارچ کو انڈیا کے معروف صحافی محترم حسین رضوی نے شیخ الاسلام کا خصوصی انٹرویو کیا۔ جس میں شیخ الاسلام نے نہایت معلوماتی، جامع اور حالات حاضرہ پر گفتگو کی۔ دہشت گردی کا علاج کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ
’’دہشت گردی کے مختلف علاج ہیں۔ ان میں سے بہترین علاج صوفی ازم ہے۔ دہشت گردی ایک خاص ذہنیت ہے۔ اس کے پیچھے تنگ نظری پر مبنی سوچ کارفرما ہے۔ اس کا مقابلہ محض مذہبی تعلیمات سے نہیں ہوسکتا جب تک مذہبی تعلیمات صوفی ازم کی بنیاد پر نہ ہوں۔ کیونکہ صوفی ازم اور صوفیانہ تعلیمات ایک ایسا راستہ ہے جو انسانوں کو بلا تمیز محبت سکھاتا ہے۔ دلوں میں وسعت پیدا کرتا ہے۔ اعتدال کا رویہ دیتا ہے۔ صبر، محبت اور عدم تشدد کی راہ سکھاتا ہے۔ اگر ان تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں گے تو لامحالہ اس خاص ذہنیت کا مقابلہ کامیابی سے ہوجائے گا۔
کوئی بھی ملک اگر دہشت گردی کو سپورٹ کررہا ہے، ان کو فنڈنگ کررہا ہے تو اس کو بے نقاب کرنا ریاستوں کا کام ہے۔ ریاستیں ریاستوں کی دوست ہوتی ہیں۔ بہت سی ریاستوں کے ایجنڈے مشترک ہوتے ہیں۔ کئی حوالوں سے وہ مل کر کام کررہے ہوتے ہیں۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ دہشت گرد کی خلاف جنگ بھی جاری ہے، دنیا کے بڑے بڑے ملک اور طاقتیں اس جنگ میں شریک بھی ہیں۔ ان سب کو علم ہے کہ فنڈنگ ہوتی ہے اور کون کون سا ملک فنڈنگ کرتا ہے مگر وہ خاموش ہیں۔ اس فنڈنگ کو رکوانے کے لئے ان ریاستوں کو عالمی سطح پر ایک طریقہ اور نظم مرتب کرنا چاہئے۔ اس فنڈنگ کی اجازت ہی کیوں دی جاتی ہے۔ پرائیویٹ سطح پر فنڈنگ کے معاملے کنٹرول نہیں ہوسکتے۔ اس کے لئے ریاستوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا‘‘۔
پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ پر سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ ’’پاکستان میں مجموعی طور پر غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف کوئی نفرت موجود نہیں ہے۔ مقامی سطح پر بعض جگہوں میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض علاقوں میں غریب کو اس کی غربت کی وجہ سے تحفظ حاصل نہیں، کسی کمزور کو اس کی کمزوری کی وجہ سے تحفظ نہیں۔ مقامی وڈیروں اور جاگیرداروں کی طرف سے اپنے مزارعین اور اہل علاقہ پر خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ظلم و ناانصافی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، اسی وجہ سے میں نے غریب اور کمزور کو اس کے حقوق اور تحفظ اور طاقت دینے کے لئے آواز بلند کی۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ غربت اور کمزوری کی وجہ سے پاکستان میں بعض اوقات مسلمانوں کے معاملات میں بھی ظلم و انصافی ہوجاتی ہے اور بعض اوقات غیر مسلموں کے معاملات میں بھی ایسا ہوجاتا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ میڈیا غیر مسلموں کے ساتھ ہونے والے معاملہ پر اپنے زاویہ سے نوٹس لے لیتا ہے اور عام کمزور مسلمانوں کے معاملہ میں اگر اسی علاقے میں وہاں کا جاگیردار یا وڈیرہ ظلم و ستم کرے تو اس کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ میں اس کو اس تناظر میں دیکھتا ہوں۔ سوسائٹی میں مجموعی طور پر غیر مسلموں کے بارے میں نفرت نہیں پائی جاتی۔
گویا میڈیا جس واقعہ کو جس بھی انداز سے دکھا دے گا لوگوں کے ذہن میں بھی اسی طرح کا پیغام جائے گا۔ پاکستان یا انڈیا میں اگر کوئی پیار، محبت اور انسانیت کی بات کررہا ہوگا تو چونکہ اس سے کوئی خبر نہیں بنتی، اس میں میڈیا کے لئے خبریت نہیں ہے لہذا اس کو Highlight نہیں کیا جاتا۔ دوسری طرف اگر کوئی بم دھماکہ ہوجائے تو پاکستان و انڈیا سمیت عالمی میڈیا میں اس خبر کو نمایاں مقام ملتا ہے۔ لہذا اس خبر کو دیکھنے والے میں اس کا اثر بھی ہوگا، خوف بھی پیدا ہوگا اور اس ملک و ریاست کے بارے میں اس کے ذہن میں ایک امیج بھی بنے گا۔
دہشت گرد ایک تھا جبکہ اس کے برخلاف اس ریاست میں امن و انسانیت اور بھائی چارہ کے لئے کام کرنے والے لاکھوں کروڑوں ہوں گے مگر اس میں میڈیا کے لئے خبریت نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اور ان کی خدمات میڈیا Highlight نہیں کرتا۔ لہذا لوگوں کو TV سکرین پر بھیانک منظر ہی ملتا ہے، محبت کا منظر دکھایا نہیں جاتا۔ یہ صرف پاکستان و انڈیا کے میڈیا کی بات نہیں بلکہ عالمی سطح پر میڈیا کا مزاج ہی یہ ہے۔ اس سلسلہ میں میڈیا کو ایک کردار ادا کرنا ہوگا۔ امن کے لئے ایک Space Createکرنا ہوگی۔ امن، بھائی چارہ اور انسانیت کے لئے سرانجام پائے جانے والے کام اگرچہ میڈیا کی اصطلاح میں اپنے اندر خبریت نہیں رکھتے تب بھی ان کاموں کو نمایاں نشر کرنا ہوگا اور یہ سب انسانیت اور معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی نیت سے کرنا ہوگا‘‘۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی اور منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے دیگر عہدیداران کے ہمراہ 21 مارچ کو محبوب الہٰی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر انوار پر حاضری دی۔ یہاں بھی عوام الناس کی ایک بہت بڑی تعداد نے آپ کا استقبال کیا اور درگاہ کے سجادہ نشین و انتظامیہ نے آپ کی دستار بندی کی۔
MQI نارتھ زون (انڈیا) ورکرز کنونشن
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا نارتھ زون کا ورکرز کنونشن 21 مارچ کو دہلی میں منعقد ہوا۔ جس کی صدارت محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کی اور خصوصی اظہار خیال کیا۔
- شیخ الاسلام کے عالمی صوفی کانفرنس سے خطاب اور آپ کی شخصیت کا تعارف و خدمات بھارتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر نمایاں طور پر نشر و شائع کیا گیا۔ تمام بڑے بھارتی اخبارات اور نیوز چینلز نے دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف اور اسلام کی حقیقی تعلیمات تک رسائی اور آشنائی کے حوالے سے شیخ الاسلام کے افکار و خدمات کو سراہا اور اسے عالمی امن کے لئے ایک مضبوط و توانا آواز قرار دیا۔ شیخ الاسلام کے اس دورہ بھارت کی تصاویر، ویڈیو کلپس، شیخ الاسلام کی گفتگو، خطابات اور نیوز چینلز کو دیئے جانے والے انٹرویوز درج ذیل لنکس پر ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں:
www.facebook.com ahirulqadri
facebook.comminhajulquran(official)
- شیخ الاسلام نئی دہلی میں منعقدہ عالمی صوفی کانفرنس میں شرکت کے بعد 22 مارچ کو منہاج القرآن کے زیراہتمام منعقدہ’’امن کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے ہیوسٹن (امریکہ) روانہ ہوگئے۔ امریکہ روانگی سے قبل نئی دہلی میں آپ نے مصروف ترین دن گزارا۔ منہاج القرآن کی مقامی تنظیمات کے صدور و ذمہ داران سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں انہیں فروغ امن نصاب کے حوالے سے تربیتی ورکشاپس منعقد کرنے اور بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کیلئے فعال کردار ادا کرنے کی ہدایت کی۔ دورے کے مثالی انتظامات پر آپ نے منہاج القرآن انڈیا کے صدر محترم سید ناد علی، محترم رفیق احمد، محترم مولانا حبیب احمد الحسینی، منہاج القرآن کے جملہ فورمز (یوتھ، طلبہ، خواتین، علماء) کے عہدیداران اور جملہ ذمہ داران، کارکنان اور رفقاء کو خصوصی مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا۔