حمد باری تعالیٰ
سماء و ارض کی پہنائیوں میں گونجتا ہے
وہ جس کے نام سے ہوتی ہماری ابتدا ہے
زمینوں، آسمانوں میں وہ نورِ لم یزل ہے
اسی کے اسم سے روشن مرے دل کا دیا ہے
تہِ سنگِ گراں ننھے سے کیڑے کا بھی رازق
وہ رب العالمین ہی سب جہانوں کا خدا ہے
اسی سے ہیں ہمارے نالے،فریادیں کہ دائم
جڑا اس سے دعاؤں کا ہماری سلسلہ ہے
دلِ مومن کے اندر ہے سمایا وہ سراسر
اگرچہ وہ زمین و آسماں سے ماورا ہے
تصور کا جہاں آباد اس کے ذکر سے ہے
تخیل کی بھی وادی میں اسی کا تذکرہ ہے
وہی افتادگانِ خاک کا دمساز ومونس
وہی ہر بے نوا کا آخری اک آسرا ہے
بغیرِ مصطفی اس تک نہیں ممکن رسائی
حدِ ادراک سے باہر وہ ذاتِ کیبریاہے
لئے کشکول نیّر بھی پڑا ہے اس کے در پر
گدایانہ جہاں ہر کجکلاہ و شہ کھڑا ہے
{ضیاء نیّر}
نعتِ رسولِ مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
سرکار ہے چہرے پہ مرے گردِ سفر بھی
کشکول میں بھر لایا ہوں اشکوں کے گہر بھی
صحرا میں مسافر پہ کئے رکھا ہے سایہ
سرشار محبت میں ہیں رستے کے شجر بھی
آقا، مری تہذیب کہیں کھوئی ہوئی ہے
روپوش ہیں صدیوں سے مرے شمس و قمر بھی
تھامے نہ اگر آپ کی توصیف کا پرچم
کس کام کا، سرکار مرا دستِ ہنر بھی
زخمی ہیں مرے پائوں مگر چلنا پڑے گا
کانٹوں سے بھری رہتی ہے ہر راہ گذر بھی
پھر گردِ مفادات میں گم ہیں مری آنکھیں
پھر چشمِ عنایت مرے آقا ہو اِدھر بھی
میں جھوٹ کو سینے سے لگانے کا ہوں مجرم
کب باقی رہا میری دعائوں میں اثر بھی
دیوارِ شبستان پہ اندھیرے ہیں مسلط
محروم اجالوں سے ہے دامانِ سحر بھی
آقا جی، ریاض آپ کی چوکھٹ پہ کھڑا ہے
کھو جائے مدینے میں کہیں اس کی نظر بھی
{ریاض حسین چودھری}