سوال: کیا مشینی ذبیحہ حلال ہوتا ہے؟
جواب:شرعی طور پر ذبح کے لیے چند شرائط فقہاء کرام نے ذکر کی ہیں ان کا ذبح میں ہونا ضروری ہے:
- ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا اہل کتاب ہو۔
- ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا۔
- فقہا احناف کے نزدیک تین رگوں کا کاٹنا ضروری ہے بہتر چار رگوں کا کاٹنا ہے۔ مگر کم از کم تین ضروری ہیں۔ 4۔ تیز دھار آلہ سے کاٹنا۔
- جمہور علماء کے نزدیک سینہ کے بالائی حصہ اور جبڑے کے درمیان سے کاٹنا۔
مشین کے ذریعے ذبح میں اگر یہ شرائط پائی جائیں تو ذبح درست ہے ورنہ نہیں۔ مشین کے ذریعے ذبح کرتے وقت ہر جانور پر الگ الگ بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ذبح سے پہلے یہ جانور کسی اور وجہ سے مرا ہوا نہ ہو یعنی ذبح کے وقت جانور کا زندہ ہونا ضروری ہے۔
فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اﷲِ عَلَيْهِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰيٰـتِهِ مُوْمِنِيْنَ.
’’سو تم اس (ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہو‘‘۔
(الانعام، 6: 118)
اس آیت مبارکہ میں ’’ذُکِرَ‘‘ مجہول کا صیغہ آیا ہے یعنی جس پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کا اسم مبارک لیا جائے وہ ذبیحہ کھایا کرو۔ لازم نہیں ہے کہ فاعل موجود ہو۔ اس لیے ریکارڈنگ بھی چل رہی ہو تو حکم پورا ہو جائے گا۔ لیکن ریکارڈنگ والی آواز مسلمان یا کتابی کی ہونی چاہیے۔ لہذا مشینی ذبیحہ ریکارڈنگ کے ذریعے ہو تو جائز ہے۔
سوال: کیا شدید تکلیف میں مبتلا لاعلاج مریض موت کا انجکشن لگوا سکتا ہے؟
جواب: اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے کائنات کی کسی شے کا یہاں تک کہ خود اپنا مالک بھی نہیں ہے۔ اس لیے جس طرح اس کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی زندگی کے در پے ہو اور اسے ہلاک کر دے یا اس کے جسم کو جزوی نقصان پہنچائے، اسی طرح اسے یہ بات بھی روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاک کر لے اور کسی شرعی مصلحت کے بغیر اپنے جسم کے کسی حصہ کو ضرر پہنچائے۔ اس کا جسم اس کے ہاتھوں میں اللہ تعالی کی امانت ہے جسکی حفاظت اس کا فریضہ ہے اور جس کا استعمال اس کو حکم خداوندی کے مطابق کرنے کی اجازت ہے۔ لہذا لاعلاج بیماری سے دلبرداشتہ ہوتے ہوئے مہلک دواؤں اور موت کا انجکشن کا استعمال جائز نہ ہوگا۔
- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیا تو وہ دوزخ میں بھی ہمیشہ اسی طرح اپنے آپ کو گراتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنی جان دی تو وہ دوزخ میں بھی اسی طرح پیتا رہے گا اور جس نے کسی دھار دار ہتھیارسے خودکشی کی تو دوزح میں بھی خود اپنے ہاتھ سے اپنے پیٹ پر وار کرتا رہے گا۔
(بخاری، ج: 1 ص: 182 باب، ماجاء فی قاتل النفس)
اس حدیث پاک سے ثابت ہواکہ چاہے قتل کے لیے کسی آلہ کا استعمال کیا جائے یا کسی مشروب کا۔ ہر ایک خود کشی کے زمرہ میں آئیگا، اسی طرح انجکشن، ادویات اور مشروب زہر میں شمار ہوں گی اور حرام ہونگی۔
- حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے کی قوموں میں ایک شخص کو زخم تھا۔ وہ شدت تکلیف سے گھبرا گیا۔ پھر چھری لے کر اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا اور خون تھم نہ سکا یہاں تک کہ موت آ گئی۔ اللہ تعالی نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی ذات کے معاملہ میں میرے فیصلے پر سبقت کی۔
- حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کے ایک آدمی کے ساتھ ہجرت کی۔ وہ شخص بیمار پڑ گیا اور شدتِ تکلیف سے گھبرا کر چاقو سے انگلیوں کے پورے کاٹ ڈالے۔ ان کے ہاتھ سے بے تحاشہ خون بہنے لگا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے ان کو خواب میں اچھی حالت میں دیکھا۔ البتہ ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان سے پوچھا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کرنے کے طفیل مغفرت کر دی۔ لیکن ہاتھ اس لیے ڈھکے ہوئے ہیں کہ مجھے کہا گیا کہ ہم اس چیز کو درست نہیں کرتے جسے تم نے خود بگاڑ دیا۔
- حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیماریوں کا علاج کروایا کرو۔ بڑھاپے کے علاوہ ساری بیماریاں وہ ہیں جن کا علاج اللہ تعالی نے پیدا فرما دیا ہے۔
(ترمذی، جلد :2 باب: ما جاء فی الدواء والحث عليه)
لہذا لاعلاج بیماری یا شدت تکلیف کی وجہ سے انجکشن لگوا کر موت قبول کرنا خود کشی کے زمرے میں ہے اور یہ حرام ہے۔ خودکشی کرنے سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ.
’’اور اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو‘‘۔
(النساء، 4: 29)
شدت تکلیف کی حالت ہو یا لا علاج مرض کی حالت، اگر کوئی انجکشن کے ذریعے اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے یا زہر پی کر یا گولی مار کر۔ یہ خود کشی ہے اور خود کشی حرام ہے۔
سوال: ضعیف اوراقِ قرآن کی حفاظت کیسے کی جائے؟اس مقصد کے لئے اگر کوئی مسلمان قرآن پاک کو جلائے تو کیسا ہے؟
جواب:خلافت عثمانی میں سیدنا حذیفہ بن الیمان فتح ارمینیہ و آذربائیجان کے زمانہ میں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ اس زمانہ میں اہل عراق و شام کے ہمراہ شریکِ جہاد تھے۔ آپ نے لوگوں میں قراتِ قرآن کریم کے بارے میں جو اختلاف پایا جاتا تھا، اس پر اظہار پریشانی کیا۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کی، امیر المومنین!
ادرک هذه الامة قبل ان يختلفوا فی الکتاب اختلاف اليهود والنصاری.
’’اس سے پہلے کہ امت کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے جیسے یہود ونصاریٰ نے کیا۔ اس کو سنبھال لیجئے‘‘۔
اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ قرآن کریم کا نسخہ (مصحف) ہمیں بھیج دیں تاکہ اسے کئی مصاحف میں ہم نقل کر لیں، پھر آپ کو یہ نسخہ واپس کر دیں گے۔ سو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ نسخہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن زبیر، سیدنا سعید بن العاص، سیدنا عبدالرحمن بن الحارث بن ھشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا اور ان حضرات نے متعدد مصاحف میں اسے نقل فرمایا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان میں سے تین قریشیوں سے فرمایا۔ جب کسی لفظ قرآن میں تم اور زید بن ثابت میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا کہ قرآن انہی کی زبان میں اترا ہے۔ سو ان حضرات نے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ جب مصاحف کے نسخے تیار ہوگئے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ نسخہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیا اور لکھے گئے نسخوں میں سے ہر علاقے میں ایک نسخہ بھیج کر ساتھ ہی یہ حکم دیدیا کہ
بما سواه من القرآن فی کل صحيفة او مصحف ان يحرق.....
’’اس کے علاوہ کسی بھی صحیفے یا مصحف میں لکھا ہوا قرآن جلا دیا جائے‘‘۔
(صحيح بخاری، 2: 746)
ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے۔
المصحف اذا صار خلقا لا يقرا منه ويخاف ان يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن ودفنه اولیٰ من وضعه موضعا يخاف ان يقع عليه النجاسة او نحو ذلک ويلحد له لانه لو شق ودفن يحتاج الی اهالة التراب عليه وفي ذلک نوع تحقير الا اذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب اليه فهو حسن ايضاً. المصحف اذا صار خلقا وتعذرت القراة من لا يحرق بالنار.
’’جب قرآن کریم پرانا ہو جائے اور پڑھا نہ جائے اور ضائع ہونے کا ڈر ہو تو اسے پاکیزہ کپڑے میں باندھ کر دفن کر دیا جائے اور دفن کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسی ایسی جگہ رکھ دیا جائے جہاں اس پر نجاست وغیرہ پڑنے کا ڈر نہ ہو۔ دفنانے کے لئے لحد کھودے کیونکہ اگر سیدھا گڑھا کھودا اور اس میں بوسیدہ قرآن دفن کردیا تو اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت پڑے گی اور اس میں ایک طرح کی بے ادبی ہے۔ ہاں اگر اوپر چھت ڈال دے کہ قرآن کریم تک مٹی نہ پہنچے تو یہ بھی اچھا ہے۔ قرآن کریم جب بوسیدہ ہو جائے اور اس سے قرات مشکل ہو جائے تو آگ میں نہ جلایا جائے۔
(فتاویٰ عالمگيری ، 5: 323)
لہذا بہتر یہی ہے کہ بوسیدہ اوراق قرآن کریم کے ہوں یا حدیث پاک کے یا کسی دینی کتاب کے جن میں قرآن و حدیث کے حوالے نقل کئے گئے ہوں ان کو جلایا نہ جائے اور مذکورہ بالا طریقہ سے ان کو دفنا دیا جائے۔
مگر اس خیال سے کہ آج کل دفنانے کیلئے بالخصوص شہروں میں محفوظ زمین کا ملنا مشکل ہے نیز جہاں محفوظ جگہ سمجھ کر ان اوراق کو دفنایا گیا ہے، عین ممکن ہے کہ کوئی انسان لاعلمی میں اس جگہ پر پیشاب کرے اور گندے اثرات ان اوراق مبارکہ تک پہنچ جائیں۔
اسی طرح دریا برد کرنے میں بھی بے ادبی کا آج کل بہت امکان ہے جبکہ اختلاف و انتشار امت سے بچنے اور فتنہ و فساد کے امکانات ختم کرنے کی خاطر صحابہ کرام کی موجودگی میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے نسخوں کو جلوا دیا اور کسی صحابی نے اس پر انکار نہ کیا۔ پس جلانے کے جواز پر جبکہ نیت قرآنی تقدس کی حفاظت کرنا ہو، معاذ اللہ بے ادبی کرنا نہ ہو، صحابہ کرام کا اجماع ہو چکا ہے۔ اسی لئے فقہائے کرام نے بہت نرم لہجے میں جلانے سے منع فرمایا مگر جلانے پر کوئی سخت حکم نہ لگایا، کہ اس کے جواز کی بنیاد موجود تھی۔