علامہ محمد اقبال کی شخصیت سے کون واقف نہیں؟ ان کی غیر فانی شاعری اب اسلامی فکر کا معیار اور پہچان بن گئی ہے۔ انہوں نے امت کے درد میں ڈوب کر جو پیغام دیا وہ سرمایۂ ملت ہے۔ وہ حکیم الامت تھے اور خدا نے انہیں دلِ فطرت شناس، آہِ رسا اور چشمِ بینا سے نواز رکھا تھا۔ انہوں نے جو دیکھا اور محسوس کیا صدقِ دل سے اسے اپنی خدا داد حکمت کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد پورے اعتماد کے ساتھ اس کی نشاندہی کردی۔
ان کی الہامی فکر یوں تو متعدد موضوعات پر منقسم ہے اور ہر موضوع اپنی جگہ کئی مہلک اور قومی و ملی امراض کے علاج کا مجرب نسخہ ہے لیکن انہوں نے اپنے سارے کلام میں جس چیز پر زیادہ زور دیا ہے وہ پیغامِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ وہ مسلمان قوم کی بے بسی، شکست خوردگی اور علمی و عملی بے چارگی پر آنسو بہاتے اور دل سے نکلی ہوئی آہِ سحر بارگاہِ خداوندی میں جب رسائی پاتی تو ہاتفِ غیبی سے آواز آتی کہ:
ایں قوم دلے دارند و محبوبے ندارند
اقبال جب جب ملت اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ کو چشمِ تصور میں لاتے تو برملا کہہ اٹھتے:
تاشعار مصطفیٰ از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت
وہ جب پوری امت کا مجموعی تنقیدی مطالعہ کرتے تو انہیں سب سے زیادہ پریشان کن چیز مسلمانوں کے طرزِ حیات میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ عشق کا فقدان نظر آتا۔ اس لئے بارہا جمالِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنائی کی تاکید فرماتے:
عصر ما ما را زما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفیٰ بیگانہ کرد
آج اقبال پرست تو بے شمار ہیں لیکن اقبال شناس شاذ شاذ ملتے ہیں۔ اقبال شناسی کا حق تب ادا ہوتا ہے جب اس کی فکر کا مدعا اور مرکزی پیغام عام کیا جائے تاکہ وہ لوگ جو جدید تہذیب کے دلدادہ ہیں اور مغربی فکر و فلسفہ سے متاثر ہو کر اسلام کے متعلق قسم قسم کے شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں انہیں علم ہو کہ اقبال جیسا فلسفی اور جدید دنیائے علم و فکر کا نامور محقق تمام یورپی علوم و فنون کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جب حقیقتِ حال تک پہنچا تو وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے:
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
اقبال کے نزدیک عشق ہرگز ایسا جذبہ نہیں جو انسان کے فکر و عمل کی قوتوں کو مضمحل یا مفلوج کرکے رکھ دے۔ اسی طرح اقبال اس کیفیت کو بھی عشق تصور نہیں کرتا جو انسانی زندگی کو جہدِ مسلسل کی تلخیوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کی ترغیب دے بلکہ اقبال کے ہاں عشق اس جذبے اور کیفیت کا نام ہے جو فردِ واحد کے وجود میں سرایت کر جائے اور اس کی اقلیمِ زندگی میں انقلاب برپا کر دے اور اگر اس کا پر تو معاشرے کی اجتماعی زندگی پر پڑ جائے تو اس کے فکر و عمل کے دھاروں کو بدل کر رکھ دے۔ اقبال کے نزدیک عشق درج ذیل عناصرِ خمسہ کے امتزاج سے وجود پذیر ہوتا ہے:
- اخلاص
- یقین
- عمل
- فقر
- حضوری
1۔ اخلاص
اخلاص ہر قسم کے حرص و طمع اور کدورت و مخالفت سے پاک قلب و باطن کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں انسان کا تعلقِ بندگی اللہ تعالی سے اس قدر یکسوئی اور خالصیت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے کہ اس کا ہر قول و فعل حتی کہ جینا اور مرنا بھی صرف اللہ کے لئے خاص ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ.
’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں، (ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں۔‘‘
(البینه، 98: 5)
اسی اخلاص کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ.
(الانعام، 6: 162)
’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
زندگی میں اخلاص کی یہی کیفیت عشق کا عنصرِ اولین ہے۔ اقبال اس مضمون کو یوں بیان کرتا ہے:
صدقِ خلیل بھی ہے عشق
صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں
بدر و حنین بھی ہے عشق
عشق کا آغاز تعلق میں اخلاص کے بغیر نہیں ہوتا اور تعلق میں اخلاص کا مظہر یہ ہے کہ سب کچھ محبوب کے لئے وقف کر دیا جائے۔ آتشِ نمرود ہو یا کنارۂ فرات، معرکہ ہائے بدرو حنین ہوں یا زندگی کے دیگر احوال و کیفیات، الغرض ہر حال اور کیفیت میں تعلق باللہ کا اخلاص کے ساتھ قائم رہنا اور اندیشۂ سود و زیاں سے بالاتر ہو کر محبوب کی رضا کا متلاشی رہنا، یہی عشق کا پہلا سبق ہے جسے فکرِ اقبال میں جابجا مختلف پیرایوں میں اجاگر کیا گیا ہے۔
2۔ یقین
اقبال کے تصورِ عشق کا دوسرا عنصر یقین ہے۔ یقین وہ لازوال دولت ہے جس تک رسائی کے لیے انبیاء و رسل علیہم السلام کو بھی عالمِ لاہوت و ملکوت کا مشاہدہ کرایا جاتا رہا ہے۔ قرآن منزلِ یقین کے باب میں حضرت ابراہیم ں کے کائنات کے مشاہدے کی نسبت یوں ارشاد فرماتا ہے:
وَ کَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰهِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ.
(الانعام، 6: 162)
’’اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام یقین کی اس منزل پر فائز کئے جاچکے ہیں، جو اقبال نے نزدیک عشق کا دوسرا زینہ ہے۔ اسی لئے اقبال وجودِ ابراہیم علیہ السلام کو عشق سے تعبیر کرتے ہوئے کہتا ہے:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
ایک مقام پر اقبال عقل اور عشق کا موازنہ کرتے ہوئے عقل کو شک کا آئینہ دار قرار دیتا ہے اور عشق کو یقین کا عکاس:
عقل را سرمایہ از بیم و شک است
عشق را عزم و یقین لاینفک است
قرآن اس تصور پر ان الفاظ میں مہر تصدیق ثبت کرتا ہے:
وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ.
(الحجر، 15: 99)
’’اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو (آپکی شان کے لائق) مقامِ یقین مل جائے (یعنی انشراحِ کامل نصیب ہو جائے یا لمحۂِ وصالِ حق)۔‘‘
اقبال کہتا ہے کہ اسی یقین سے نئی تقدیر رقم ہوتی ہے اور پرانی تقدیر بدل جاتی ہے:
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اقبال ایک اور مقام پر کہتا ہے:
مومن از عشق است و عشق از مومن است
عشق را ناممکن ما ممکن است
صاف ظاہر ہے کہ یقین کی اس کیفیت میں زندگی کے ہر قدم پر کامیابی و کامرانی کی ضمانت کا پایا جانا بھی از حد ضروری ہے۔ قرآن اس کی تائید یوں کرتا ہے:
وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.
(آل عمران، 3: 139)
’’اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آئو گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔‘‘
3۔ عمل
علم کی بنا شک ہے اور عمل کی یقین۔۔۔ علم ماضی و حال کی توجیہہ کرتا ہے اور عمل مستقبل کی تخلیق۔۔۔ علم کا محل عقل ہے اور عمل کا عشق۔۔۔ عقل سو د و زیاں کو ناپتی ہے اور عشق اس سے بے نیاز ہوتا ہے۔
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
وہ عمل جو عشق سے وجود میں آتا ہے، سراسر مجاہدہ ہے اور اسی مجاہدے میں منزل تک کی رہنمائی کی ضمانت دی گئی ہے۔ ارشاد ایزدی ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
(العنکبوت 29: 69)
’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘
اقبال کے نزدیک جب بادۂ حق کا راہی سامانِ عشق سے آراستہ ہو کر عازمِ سفر ہوتا ہے تو زمین و آسمان کی ساری مسافتیں اس کے قدموں میںسمٹ آتی ہیں اور وہ ایک ہی قدم میں بہت سے مرحلے طے کر جاتا ہے۔
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
4۔ فقر
اقبال کے نزدیک عشق عینِ فقر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کے نزدیک راہِ جذب سے آنے والوں کا سفر، راہِ سلوک والوں کے مقابلہ میں زیادہ جلدی طے ہوتا ہے کیونکہ یہ عشق کے شہسوار ہوتے ہیں۔
فقر کی ماہیت بیان کرتے ہوئے اقبال نے شرع کے ظاہر پرستانہ رجحان اور نام نہاد باطن پرستی دونوں کی خبر لی ہے۔ ظاہر پرستی کی رو میں بہنے والے منکرینِ فقر کو جو محض علمِ نظری کو ہی جملہ معارف کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اقبال ان الفاظ میں ہدفِ تنقید بناتا ہے:
علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ
علم فقیر و حکیم، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ
فقر مقامِ نظر، علم مقامِ خبر
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو
تیری نگہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ
فقرِ مومن کی تعریف اقبال نے یوں کی ہے:
فقرِ مومن چیست؟ تسخیرِ جہات
بندہ از تاثیر اُو مولیٰ صفات
فقرِ کافر خلوتِ دست و در است
فقرِ مومن لرزۂ بحر و بر است
فقرِ عریاں گرمئی بدر و حنین
فقرِ عریاں بانگ تکبیر حسین
اقبال کا عشق اس فقر کا نمائندہ ہے جو بدر و حنین کے معرکے بپا کرتا ہے، کربلا کے ریگزاروں کو لالہ زار کرتا ہے اور اقوام و ملل کی تقدیر اپنے خونِ مقدس سے رقم کرتا ہے۔
5۔ حضوری
اقبال کے نزدیک فقر سراسر انقلاب ہے مگر انقلاب کی سمت کے تعین کے لئے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رہنمائی اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرچشمے سے ہو تو سمت درست رہتی ہے اور اگر دل کی حالت بے حضوری کی ہو تو سمت غلط ہو جاتی ہے۔ اس لئے اقبال کے تصورِ عشق کا پانچواں عنصر حضوری ہے۔
اقبال نے اس کی توجیہہ یوں کی ہے:
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں
اقبال کے نزدیک صحیح رہنمائی کے لیے جس حضوری کی ضرورت ہے، وہ نہ عقل کے ذریعے میسر آسکتی ہے، نہ علم کے واسطے سے۔ حسنِ تمام کی صحبت جس قدر عشق کو نصیب ہے کسی اور کو نہیں۔ کیونکہ بقول اقبال اگر حسن محفل ہے تو عشق ہنگامہ محفل ہے۔۔۔ حسن زلف ہے تو عشق اُس کی پیشانی ہے۔۔۔ حسن تصویر ہے تو عشق اس کی حیرانی ہے۔۔۔ حسن جلوہ ہے تو عشق اس کا پر تو ہے۔۔۔ حسن خورشید ہے تو عشق اس کی تپش۔۔۔ حسن ماہتاب ہے تو عشق اس کا پرتو ہے۔۔۔ الغرض حسن و عشق جس جس روپ میں بھی ہوں عشق کو حسن کا وہ قرب حاصل ہے جو کسی اور شے کو میسر نہیں۔ لہذا اسی سے حضوری ممکن ہے۔
اقبال کے نزدیک جب عشق ان عناصرِ خمسہ سے ترتیب پاکر انسانی شخصیت کے باطن میں سما جاتا ہے تو وہ انسان کو اس زندگی سے بہرہ ور کر دیتا ہے جو موت سے آشنا نہیں ہوتی بلکہ وہ موت خود اس کے لئے حیاتِ جاوداں کا پیغام بن جاتی ہے اور اسے ہر لمحہ نئی اور تازہ زندگی عطا کرتی رہتی ہے۔
کشتگان خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرچشمۂ عشق ہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشق کی یہ چنگاری جو شعلۂ جوالہ بن کر انسانی شخصیت کے ہر گوشے کو منور اور اس کے قلب و باطن کو انقلاب آشنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، کس طرح بھڑکائی جائے؟
اقبال اس مقام پر ہماری رہنمائی کرتے ہوئے جمالِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فریفتگی کی تلقین کرتا ہے۔ جمال مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرچشمۂ عشق ہے۔ اقبال کے نزدیک دامن مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہوئے بغیر وہ آتشِ عشق نصیب نہیں ہوسکتی جو پیکرِ خاکی کو صد رشک ملائک کردے۔ اقبال جب ارض و سما کی وسعتوں پر نظر ڈالتا اور جہان رنگ و بو کی گہرائیوں میں اُتر کر دیکھتا ہے تو اسے ہر پیکرِ وجود عشق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز نظر آتا ہے۔ اسی طرح جب وہ جذبِ دروں کی پنہائیوں میں غوطہ زن ہوتا ہے، تو اسے زندگی کے جملہ مظاہر آفتاب مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرنوں سے مستنیر نظر آتے ہیں۔ یہاں اقبال بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے:
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش، بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفی اُو را بہا است
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است
اقبال کے نزدیک یہ عشق و مستی جو انسانی حقیقت کے ارتقاء کا وسیلہ ہے محض عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے نصیب ہوتی ہے۔ حلاوتِ ایمانی کی سرشاریاں اور جذب و کیفیتِ روحانی کی مستیاں، سب اسی آفتاب کی کرنیں ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بحر بے کنار ہے جس کی موجوں سے زمین و آسمان کی ساری کائنات معمور ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنے ایک مشاہدے کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ پر بارہا توجہ فرمائی اور مختلف شانوں کے ساتھ ظہور فرمایا یہاں تک کہ پوری کائنات میں جاری و ساری ہونے کی شان سے بھی جلوہ گر ہوئے:
حتی أتخیل ان الفضاء معتلیٌ بروحه علیه الصلوٰة والسلام.
(فیوض الحرمین: 83)
’’حتیٰ کہ میں نے خیال کیا کہ ساری فضا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحِ اقدس سے لبریز ہے۔‘‘
اقبال کہتا ہے کہ اے اہلِ دل! تم سب اسی سمندر سے سیرابی حاصل کرو تاکہ تمہیں نئی زندگی نصیب ہوسکے اور تمہاری گزری ہوئی وہ روحانی کیفیات اور ایمانی حلاوتیں جنہیں ہوا و ہوس اور مادیت و نفسانیت چھین کر لے گئی ہے تمہیں واپس مل سکیں۔
اقبال کے نزدیک اُمت مسلمہ کی عزت و آبرو سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ و وسیلہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت ہی حیاتِ جاو داں اور ناموسِ زندگی کی ضامن ہے۔
در دل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ما ز نام مصطفی است
وجودِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکرِ انسانی کی معراج ہے اور عملِ انسانی کا نقطۂ کمال بھی۔ اس لیے اقبال کے نزدیک اتباعِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصول اس ذاتِ ستودہ صفات کے اندر فنا ہوئے بغیر میسر نہیں آسکتا۔ اقبال مرد مومن کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
بمصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ ادست
اگر با او نہ رسیدی تمام بولہبی ست
وہ مرد مومن سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ تو اپنی ہستی کو وجودِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح فنا کردے کہ نہ تو تیرا انفرادی تشخص نسبت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر باقی رہے اور نہ ہی تیرا قومی وملی امتیاز۔ تو جہاں کہیں بھی جائے مصطفوی ہونے کے ناطے پہنچانا جائے۔ کیونکہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ نہ صرف فرد کا انفرادی وجود بلکہ قوموں کا جداگانہ تشخص بھی نسبتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کا مرہون منت ہے اور اگر وہ اس سے مستغنی و بیگانہ ہونے کی کوشش کریں گے تو پھر بقا کے بجائے فنا ان کا مقدر قرار پائے گی۔ کیونکہ بقول اقبال:
تاشعارِ مصطفی از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت