عالم اسلام کی عظیم اور ہزار سالہ تابناک ماضی رکھنے والی قدیم ترین درسگاہ الازہر یونیور سٹی اورمصر اس طرح لازم وملزوم ہیں کہ مصر کا نام لیتے ہی الازہر یونیورسٹی کا تصور پردئہ خیال پر نمودار ہوجاتا ہے جوکہ مصر کی علمی، تہذیبی اور ثقافتی پہچان ہے۔ اسی طرح الازھر یونیورسٹی کا نام لیتے ہی ذہن مصرکی طرف منتقل ہوجاتا ہے جوکہ اِس عظیم درسگاہ کا جغرافیائی وطن ہے۔ عالمِ اسلام کی یہ عظیم یونیورسٹی ایک ہزار سال سے پوری دنیا میں علم کا نور پھیلا رہی ہے، الازھر یونیورسٹی نے جہاں دنیا بھر میںعلم کی روشنی پھیلائی ہے وہیں اعتدال پسندی، تحمل، رواداری اور فکری وسعت کو فروغ دینے میں بھی بے مثال کردار ادا کیا ہے، فرقہ وارانہ تعصب اور دین میں شدت پسندی کے رجحان کے حوصلہ شکنی کی ہے۔ ایک طرف دنیا بھر کے طلبہ یہاں آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں تو دوسری طر ف الازھر یونیورسٹی کے ذی علم اساتذہ مصری حکومت کے خرچ پر دنیا بھر میں علم کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔
میں 1996ء سے 2005ء تک الازہر یونیورسٹی قاہرہ میں زیر تعلیم رہا ہوں۔ اس دوران میں نے مصر میں ماہ ِ ر بیع الاول شریف کے حوالے سے جو کچھ دیکھا وہ انتہائی خوش کن تھا اور قابلِ تقلید بھی۔ سرزمین مصر پر قدم لگنے سے قبل میرا گمان تھا کہ شاید عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور برصغیر پاک و ہند تک محدود ہے مگر غیر ملکی طلبہ کے لئے الازہر یونیورسٹی کے ہاسٹل’’ مدینۃ البعوث الاسلامیۃ‘‘ میں روسی ریاستوں: تاجکستان، آذربائیجان، قازقستان اور چیچنیا وغیرہ کے طلبہ سے ملا تو اُن سے معلوم ہوا کہ اُن کے ہاں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت جوش و خروش سے منایا جاتاہے۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ روس کے ٹوٹنے سے قبل جب سوشلسٹ حکومت کے دور میں مذہبی آزادی نام کی کوئی چیز نہیں تھی تب بھی نقشبندی مشائخ پہاڑوں کی غاروں میں اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے ہوئے حکومتی کارندوں کی نظروں سے بچ کر ذکر کروایا کرتے تھے جبکہ ربیع الاول شریف کے مہینے میں میلاد بھی مناتے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ہم کھڑے ہو کر دیر تک درودو سلام پڑھا کرتے تھے۔
راقم الحروف کو ایک مرتبہ قاہرہ میں مقیم چیچنیا کے طلبہ کی ایک محفل میلاد میں حاضری کا موقع ملا جہاں چیچن طلبہ کو جھوم جھوم کر نہایت سرشاری کے ساتھ قصیدہ بردہ پڑھتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔مسجد سیدنا الحسین رضی اللہ عنہ کے پہلو میں یمنی بزرگ حبیب عمر بن عبدالحفیظ مدظلہ العالی کے متعلقین کا ایک (ساحہ)تھا جیسے ہم خانقاہ بھی کہہ سکتے ہیں، وہاں مقیم حبیب عمر کے چند سعودی مریدین جو الازہر یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور اپنے وسیع فلیٹ پر ہر جمعرات کو ’’حضرہ‘‘ یعنی محفل ذکر کروایا کرتے تھے، اس مجلس میں پڑھی جانے والی مناجاتیں، شجرہ شریف اور نعتیں کیف و سرور سے سرشار کر دیا کرتی تھیں۔ خاص طور پر جب یہ حضرات دف کے ساتھ ’’یا نبی سلام علیک ۔یا رسول سلام علیک ۔صلوات اللّٰہ علیک‘‘ اور دیگر اشعار پڑھتے تو رقت، سوزو گداز اور ایک عجب سرشاری کی کیفیت نصیب ہوتی تھی جو الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی۔یہاں ربیع الاول شریف کے مہینے میں اور بارہ ربیع الاول کو خصوصی محفل کا انعقاد ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حبیب عمر اور حبیب علی الجفری ربیع الاول شریف کے مہینے میں مصر تشریف لائے تو مصر کے اصحاب ِثروت کے گھروں میں میلاد شریف کے حوالے سے ان دونوں حضرات کے بہت پراثر خطابات سننے کو ملے۔ دونوں حضرات محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی خوبصورت گفتگو فرماتے کی ساری محفل اشکبار ہو جاتی۔ ان دونوں حضرات کی گفتگو میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاشنی کے ساتھ جہاں بے پناہ سوزوگداز ہوتا تھا وہیں توبہ اور اصلاحِ اعمال کی دعوت بھی کمال کی ہوتی تھی ۔حبیب عمر بن عبد الحفیظ یمن کے مقبول ترین مبلغ ہیں۔ ’’تریم‘‘ میں ان کے قائم کردہ ادارے ’’دارالمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے یمن میں بہت علمی اور روحانی اثرات ہیں۔ یہ حضرات ’’حضرموت‘‘ میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہیں تو پورا یمن اس پروگرام میں اُمڈآتاہے ۔
نائیجیریا، نائیجر، سینیغال اور سوڈان کے علاوہ دیگر افریقی ممالک کے طلبہ نے بتایا کہ سلسلہ تیجانیہ کے مشائخ بھی ان ممالک میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جوش وخروش سے اہتمام کرتے ہیں جہاں تلاوت، نعت اورقصیدہ بردہ کو خاص ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔یہی صورت حال انڈونیشیا اور ملائیشیا سے آئے ہوئے طلبہ سے معلوم ہوئی۔ وہاں یمن سے آئے ہوئے مشائخ نے اسلام پھیلایا تھا اور آج بھی انڈونیشا اور ملایشیا میں مقیم یہ یمنی الاصل مشائخ لوگوں کو ذکر وفکر کی تلقین کرتے ہیں اور میلاد شریف کے مہینے میں بہت اہتمام سے میلاد مناتے ہیں۔
میرے علم کے مطابق مصر کے تمام بڑے شہروں میں میلاد منایا جاتا ہے۔ چھوٹی بڑی مساجد میں محفل میلاد کا انعقاد ہوتا تھا ۔قاہرہ میں رہتے ہوئے مسجد سیدہ زینب، مسجد سیدنا الحسین، مسجد سیدہ نفسیہ اور دیگر مساجد میںمنعقد ہونے والی محافل میں تو حاضری نصیب ہوئی جبکہ دیگر شہروں کی مساجد میں منعقد ہونے والی محافل مصری ٹی وی کے ذریعے دیکھیں یا وہاں پر ہونے والے خطابات قاہرہ ریڈیو کے پروگرام ’’اذاعۃ القرآن الکریم‘‘ کے ذریعے سنے۔ ہر مسجد میں تلاوت اور نعت کے بعد ایک جامع تقریر ہوا کرتی تھی ۔ بارہ ربیع الاول سے متصل جمعہ کے دن وزارت اوقاف کے تحت مساجد میں بھی اسی حوالے سے تقاریر ہوا کرتی تھیں، وزارت اوقاف اپنے خطباء کو جمعہ کے دن تقریر کے حوالے سے اہم نکات مہیا کیا کرتی تھی جس سے معاشرے میں ایک مؤثر دینی پیغام جاتا تھا۔
چند مرتبہ کلیۃ اصول الدین، جامعۃ الازہر کے استاذ ڈاکٹر ضیاء الدین نقشبندی کردی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں محفل میلاد میں حاضری کا موقع ملا، جہاں تلاوت و نعت کے بعد’’ مولد البرزنجی‘‘ پڑھا گیا اور جونہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ِباسعادت کا تذکرہ ہوا تو ڈاکٹر کردی صاحب اور تمام حاضرین کھڑے ہوگئے اور یوں کچھ دیر کھڑے رہ کر مولد شریف کو سنا گیا اور پھر جب ولادت ِمبارکہ کا ذکر مکمل ہوگیا تو باقی حصہ بیٹھ کر سنا گیا۔
محافل میلاد کے دوران بعض اوقات دیکھا گیاکہ کسی شخص پر خاص کیفیت طاری ہوتی تو وہ بلند آواز سے پکار کر کہتا : ’’مدد یا سیدنا النبی۔ مدد، مدد، بلاعدد۔‘‘
وہاں کے لوگوں میں بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی نسبت پائی جاتی ہے کہ اگر دو آدمی آپس میں لڑ پڑیں تو ان کو چھڑانے والا شخص سب سے پہلے یہ کہتا ہے:
’’صل علی النبی‘‘ پھر وہ دونوںیوں درود شریف پڑھتے ہیں: ’’علیہ الصلاۃ و السلام۔‘‘پھر وہ شخص دونوں کو صلح صفائی سے معاملہ حل کرنے کی تلقین کیا کرتا تھا۔
اس کے علاوہ مصریوں کو ایک خاص لہجے میں ’’واللّٰہ ‘‘ کہہ کر قسم اٹھاتے دیکھا گیاجبکہ بعض اوقات یہ لوگ ’’والنبی‘‘ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم اٹھاتے ہیں۔
مصر میں قراء کے علاوہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالی کی حمد، مناجاۃ اور نعت پڑھتے ہیں، انہیں ’’منشد‘‘ کہا جاتا ہے جو مختلف مواقع پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خاص طور پر ربیع الاول شریف میں نعت خوانی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مصر میں ایک ’’منشد‘‘ یاسین تہامی بہت مشہور ہیں جوربیع الاول میں نعت خوانی کرتے ہیں جبکہ اعراس کے موقع پر ساری ساری رات مصر ی صوفیاء کا عرفانی کلام پڑھتے ہیں تو سامعین کو محبت الہیٰہ سے سرشار کر کے اپنے خاص لہجے کے سحر میں یوں جکڑ لیتے ہیں کہ سامعین کو رات گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
ٍ مصر میں رہتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ تمام عرب ممالک میں سلسلہ شاذلیہ، سلسلہ رفاعیہ اور سلسلہ تیجانیہ سے وابستہ مشائخ اور ان کے مریدین میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ میں نے مختلف عرب ممالک سے نکلنے والے مجلات کے وہ شمارے دیکھے جو ربیع الاول شریف میں شائع ہوئے تھے تو ان مجلات میں میلاد شریف کے حوالے سے خوبصورت مضامین دیکھ کر مجھے بے حد مسرت ہوئی، بلکہ بعض عرب ممالک کی وزارت اوقاف کے تحت منعقد ہونے والی’’ الاحتفال بالمولد النبوی الشریف‘‘ کے عنوان سے تقریبات کی رپورٹس بھی پڑھیں اور تصویری جھلکیاں بھی دیکھیں جن سے اندازہ ہوا کہ ان ممالک میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں علماء، شیوخ اور ڈاکٹرز شریک ہوتے ہیں۔
قاہرہ میں بھی ’’الاحتفال بالمولد النبوی‘‘ کے عنوان سے ’’قاعۃ المؤتمرات‘‘ میں بارہ ربیع الاول کے دن ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوتی تھی جس میں اس وقت کے صدر حسنی مبارک میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حالات حاضرہ کے تناظر میں طویل خطاب کیا کرتے تھے جو قاھرہ کے سب سے بڑے اخبار ’’الاھرام‘‘ میں لفظ بلفظ شائع ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح مصری وزارت اوقاف بھی ہر سال میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ایک خاص عنوان کے تحت عالمی کانفرنس کروایا کرتی تھی جس میں مختلف ممالک کے ڈاکٹرز اپنے تحقیقی مقالہ جات پڑھتے تھے جنہیں بعد میں ضخیم کتابی صورت میں شائع کیا جاتا تھا۔
مصر میں دیگر عرب ممالک کی طرح ربیع الاول شریف کا مہینہ شروع ہوتے ہی سڑکوں پر ٹینٹ لگا کر خصوصی دوکانیں سجائی جاتیں جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مٹھائیاں فروخت کرتی تھیں، 12 ربیع الاول شریف گزرنے کے چند دن بعد سڑکوں پر سجی یہ خصوصی دوکانیں سمیٹ لی جاتی تھیں۔ پیک کی ہوئی مٹھائیوں کی پیکنگ پر ’’حلوی المولدالنبوی الشریف‘‘ چھپا ہوتا تھا۔ مصر کی بڑی بڑی بیکریز اور مٹھائی کی دوکانیں اس موقع پر خصوصی مٹھائیاں تیار کرتی تھیں اور لوگ یہ مٹھائیاں شوق سے احباب کو پیش کرتے تھے۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر مصری جہاں ایک دوسرے کو مٹھائی پیش کرتے تھے ہیں، وہیں الازہر یونیورسٹی میں زیر تعلیم اورہاسٹل میں مقیم ہر طالب علم کو ہاسٹل انتظامیہ قاہرہ کی بہترین بیکری کی بنی ہوئی مٹھائی کا ڈبہ پیش کیاکرتی۔ یہ مٹھائی عید الفطر کے موقع پر پیش کی جانے والی مٹھائی سے زیادہ عمدہ اور معیاری ہوتی تھی۔ طلبہ کے علاوہ ہاسٹل میں کام کرنے والے مصری ملازمین کو بھی مٹھائی پیش کی جاتی تھی۔
ہرسال مصری حکومت سرکاری طور پر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتی ہے، اس موقع پر سرکاری چھٹی ہوتی ہے، اخبارات اور کیلنڈروں میں اس چھٹی کو ’’عید المولد النبوی‘‘ لکھا جاتا ہے، سرکاری سطح پر ایک محفل الاحتفال بالمولد النبوی الشریف کے عنوان سے منعقد ہوتی تھی جس میں اُس وقت کے مصری صدرجناب حسنی مبارک، شیخ الازہر، پروفیسر ڈاکٹر محمد سید طنطاوی، وزیراوقاف پروفیسر ڈاکٹر محمود حمدی زقزوق اور مفتی اعظم مصر پروفیسر ڈاکٹر نصر واصل کا خصوصی خطاب ہوا کرتا تھا۔ اس موقع پر صدر مملکت عالم اسلام کی چیدہ چیدہ شخصیات کو ایوارڈ بھی اور خصوصی مقابلوں میں پوزیشنیں حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات دئیے جاتے تھے۔
اخبارات ورسائل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے خصوصی مضامین شائع کیاکرتے تھے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر خصوصی پروگرام نشر کئے جاتے تھے، اس موقع پر بھی غیر ملکی طلبہ کے ہاسٹل میں مصری ٹی وی کی ٹیم انٹرویو کرنے آتی تھی، طلبہ سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کے ممالک میں میلاد شریف کیسے منایا جاتا ہے؟
وزارتِ اوقاف کے تحت مساجد میں خطبئہ جمعہ کا موضوع بھی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا تھا۔ عالم اسلام کے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ان مسائل کا حل تلاش کیا جاتا تھا۔ قاہرہ کا ایک ریڈیو اسٹیشن:اذاعۃ القرآن الکریم۔ پورا مہینہ کسی نہ کسی مسجد سے محفل میلا دکی پوری کارروائی نشر کرتا تھا۔
مصر میں سلسلہ شاذلیہ، رفاعیہ اور تیجانیہ معروف ہیں، ان سلاسل طریقت سے تعلق رکھنے والے مشائخ عظام کی ایک تنظیم ہے جسے ’’مجلس الطرق الصوفیۃ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے مشائخ اور ان کے مریدین پرانے قاہرہ میں واقع ’’درَّاسہ‘‘ نامی محلے میں واقع مسجد الشیخ صالح الجعفری سے مسجد سیدنا الحسین تک بینرز اٹھائے، نعتیں پڑھتے اورذکر کرتے ہوئے نہایت باوقار جلوس کی صورت میں اپنے اپنے شیخ طریقت کی اقتداء میں مسجد سیدنا حسین پہنچتے تھے۔ اس جلوس کے اختتام پرمسجد سیدنا الحسین میںاجتماع ہوتا جس میں اس وقت کے شیخ الازہر ڈاکٹر سید محمد طنطاوی، وزیرِ اوقاف ڈاکٹر حمدی زقزوق اور ڈاکٹر احمد عمر ہاشم کے خطابات ہوتے۔ ڈاکٹر احمد عمر ہاشم مصر کے بہت بڑے محدث، سلسلہ رفاعیہ کے شیخ طریقت، سادات گھرانے کے چشم وچراغ اور الازہر یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر ہیں۔ ان کی تقریر بالخصوص میلاد شریف پر بہت علمی اور پرجوش ہوتی تھی۔ مسجد سیدنا حسین میں ہونے والا مذکورہ بالاپروگرام ٹی وی سے بھی نشر کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر احمد عمر ہاشم کی پر جوش تقاریر انٹر نیٹ پر آج بھی سنی جاسکتی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آخری مرتبہ ڈاکٹر غلام محمد قمر اور ڈاکٹر اصغر جاوید صاحب کے ہمراہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس میں ’’درّاسہ‘‘ سے ’’مسجد سیدنا الحسین‘‘ تک حاضری ہوئی تھی۔
مصر میںاس طرح جو ش وخروش اور اعتدال کے ساتھ میلاد شریف منایا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل واسوئہ حسنہ پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلو اجاگر کئے جاتے ہیں۔ غیر مستند روایات کبھی سننے میں نہیں آئیں، مردوزن کا اختلاط بھی دیکھنے میں نہیں آیا، غیر شرعی حرکات سے بھی گریز واضح نظر آتا تھا، خطباء بھی پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہوتے تھے، یا کم از کم ایم اے ضرور ہوا کرتے تھے ۔ اللہ کرے کہ ہمارے ہاں بھی ماہِ ربیع الاول شریف کا تقدس ملحوظ رکھ کرجوش و خروش سے میلاد منانے کا سلسلہ جاری رہے اور ہم سب مل کر اس مہینے میں محبتوں کے چراغ روشن کریں نیز محبت، اعتدال پسندی اور رواداری کو فروغ دیں جو اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔