صبر کیا ہے؟ مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر شکوہ کو ترک کر دینا صبر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا مشکل کام ہے کیونکہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے ۔ صبر کی اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ جب بندہ مصابرہ کے درجے پر پہنچتا ہے تو پھر صبر کرنے میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔ اس کی مثال حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صبر ہے۔ صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولوالعزم کی خصلت ہے۔خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے تقویٰ کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے شہواتِ نفس پر قابو پا لیا۔
صبر کی اہمیت و افادیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے ہاں اس کا بے حساب اجر رکھا ہے۔آج کا انسان دین سے دوری کی وجہ سے رب تعالیٰ کی حضوری، ایمان بالغیب یعنی مرنے کے بعد کی دنیا، قیامت، یومِ حساب اور جنت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بخود ہی حل ہو جائیں گے۔ کیونکہ انسان معاشرے یا خاندان میں جس بھی حیثیت یا عہدے پر ہے، ضروری نہیں کہ وہاں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہو جیسا وہ چاہتا ہے۔ جب کوئی کام انسان کی مرضی و منشا کے خلاف سرزد ہو تو یقینا انسان غصے میں آتا ہے اور بعض اوقات غصے سے مغلوب ہو کر اس سے کچھ ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو اس کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں۔
گویا گھرکے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے کے ایک اہم رکن تک اور کسی بھی ادارے کے ایک عام آفس بوائے سے لے کر اُس ادارے کے سربراہ تک ہر شخص کو خلافِ طبع و خلافِ معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کامیاب اُس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں سے دوسرے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ مشکلات کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے اور ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے لبریز ہو۔ دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والے سبھی شرکاء تجربہ کار اور دوڑ کے اہل ہوتے ہیں، ہر ایک کو دوڑتے ہوئے کم یا زیادہ مگر تکلیف ضرور ہوتی ہے مگر جیتتا صرف وہی ہے جو آخر تک صبر سے کام لیتا ہے۔
دورِ جاہلیت کے مشہور شاعر اور قبیلے کے سردار امرؤ القیس سے کسی دوسرے قبیلے کے سردار نے پوچھا کہ آپ کا قبیلہ آپ کی بڑی عزت و قدر کرتا ہے جب کہ وہ سب کچھ میں بھی کرتا ہوں جو تم کرتے ہو تو پھر تم میں ایسی کون سی بات ہے جو مجھ میں نہیں؟ امرؤ القیس نے جواب دیا کہ میں مشکلات برداشت کرتا ہوں اور انہیں کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا جب کہ تم ایسا نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امرؤ القیس کا نام آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
صبر صرف مشکلات پر نہیں ہوتا بلکہ امورِ اطاعت و فرمانبرداری میں بھی صبر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب پر صبر کرنے سے اُس کی اطاعت پر صبر کرنا زیادہ آسان ہے۔ لہٰذا آج صبر کی اُس اہمیت اور اُس کی صداقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اس معاشرے کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا و آخرت بھی سنوار سکیں۔
موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر ہم قرآن و حدیث اور اقوالِ سلف صالحین سے صبر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
صبر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے
اللہ رب العزت نے صبر سے مدد لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.
(البقرة، 2/ 153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔‘‘
آزمائش پر صبر اللہ تعالیٰ کی بشارت کا ذریعہ ہے
دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر ان مشکلات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے برداشت کر لیا جائے تو ایسے صبر والوں کو اجر کی خوشخبری اللہ خود دیتا ہے۔ فرمانِ الہٰی ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَo
(البقرة، 2/ 155-156)
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘
- سورۂ رعد کی آیت نمبر 122 میں رب کی رضا جوئی کے لیے صبر کرنے والوں کو آخرت میں حسین گھر کی خوشخبری دی گئی ہے۔
وَاٰتَیْنٰـهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَاِنَّـهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ.
’’اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بے شک وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہوں گے۔‘‘
- صبر تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا خاصہ رہا ہے۔سورۂ الانبیاء کی آیت نمبر 85 میں ارشاد فرمایا:
وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ.
’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھے۔‘‘
- اللہ تعالیٰ نے سچے پرہیزگاروں اور شدائد و آفات میں صبر کرنے والوں پر صبر کی شرط لگائی اور صبر کے ذریعہ ہی ان کی صداقت و تقویٰ کو ثابت کیا۔ اس سے ان کے اعمال صالحہ کو کامل کیا۔ فرمایا:
وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ.
’’اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔‘‘
صبر: احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے متعدد ارشادات میں صبر کی اہمیت و فضیلت کو واضح فرمایا ہے۔
1۔ صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے عرض کیا:
’’یا رسول اﷲ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام f کی، پھر درجہ بدرجہ اﷲتعالیٰ کے مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام و مرتبہ (یعنی ایمانی حالت) کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین اور ایمان میں مضبوط ہو تو آزمائش سخت ہوتی ہے، اگر دین اور ایمان میں کمزور ہو تو آزمائش اس کی دینی اور ایمانی حالت کے مطابق ہلکی ہوتی ہے۔ بندے پر یہ آزمائشیں ہمیشہ آتی رہتی ہیں حتیٰ کہ (مصائب پرصبر کی وجہ سے اسے یوں پاک کر دیا جاتا ہے) وہ زمین پر اِس طرح چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہتا‘‘۔
2۔ اولاد بڑی نعمت ہے ، اولاد کے ساتھ انسان میں زندگی کی رونق بحال ہو جاتی ہے اور گویا جینے کا مقصد مل جاتا ہے مگر جب کسی وجہ سے اولاد چھن جائے تو انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ اس مشکل وقت میں صبر کرنے والے کے بارے میں مسند احمد اور سنن ترمذی کی یہ روایت پیش ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے نہایت پیارے بیٹے کی روح قبض کرلی؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے اس پر کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اورکہا ’بے شک ہم بھی اللہ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے لیے جنت میں ایک مکان بنا دو اور اس کا نام بَیْتُ الْحَمْد (تعریف والا گھر) رکھ دو‘‘۔
3۔ دنیا میں مشکلات پر صبر کرنے والوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جو بے حساب اجر و ثواب ملے گا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے روز جب مصیبت زدہ لوگوں کو (ان کے صبر کے بدلے بے حساب) اجر و ثواب دیا جائے گا تو اس وقت (دنیا میں) آرام و سکون (کی زندگی گزارنے) والے تمنا کریں گے: کاش! دنیا میں ان کی جلدیں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں (تو آج وہ بھی اِن عنایات کے حقدار ٹھہرتے)۔‘‘
(جامع ترمذی)
4۔ صبر کی اہمیت کے پیشِ نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کو نصف ایمان قرار دیا۔ (سنن بیہقی)
5۔ صبر کہنے کو تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج کے دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:
’’تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا دہکتے کوئلے کو مٹھی میں پکڑنے کے مترادف ہے اور ایسے زمانے میں صبر کرنے والے کو اُس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا‘‘۔ دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے پوچھا کہ پچاس اُس کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ آپ کے زمانے کے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا‘‘۔
6۔ صبر کرنے والوں کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حوضِ کوثر پر ملاقات ہو گی۔ غزوۂ حنین کا مالِ غنیمت تقسیم کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’ عنقریب تم دیکھو گے کہ بہت سے معاملات میں لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی، تم اس پر صبر کرنا حتیٰ کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے جا ملو کیونکہ میں حوض پر ہوں گا۔ انصار نے کہا ہم عنقریب صبر کریں گے‘‘۔
7۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قیامت والے دن جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا تو پکارنے والا پکارے گا! صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ فرمایا: کچھ لوگ اُٹھیں گے جو تعداد میں کم ہوں گے اور وہ جلدی جلدی جنت کی طرف جائیں گے۔ راستے میں انہیں فرشتے ملیں گے جو اُن سے پوچھیں گے، ہم آپ لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ جنت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ، آخر آپ ہیں کون؟ وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم اہلِ صبر ہیں۔ فرشتے پوچھیں گے کہ آپ نے کس بات پر صبر کیا؟ وہ جواب دیں گے ہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اور گناہوں سے بچنے پر صبر کیا۔ اُس وقت اُن سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جائیں، بے شک صبر کرنے والوں کا یہی اجر ہے۔‘‘
(علامہ ابن القیم، عدة الصابرین)
8۔ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت یاسر ، عمار بن یاسر اور امّ عمار کے پاس سے گزرے، جب انہیں اذیت دی جا رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اے ابو یاسر و اہلِ یاسر! صبر کرو، بے شک آپ کی جزاء اور بدلہ جنت ہے۔
(مسند احمد)
9۔ اصل صبر کسی مشکل وقت یا مصیبت کے آغاز میں کیا جاتا ہے نہ کہ بعد میں، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
صبر وہ ہے جو مصیبت کے آغاز میں کیا جائے۔
(بخاری)
10۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے پاس تشریف لائے تو پوچھا: ’’کیا تم مومن ہو؟‘‘ وہ خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ انہوں نے عرض کیا:
’’ہم آسانی میں شکر کرتے ہیں اور ابتلاء میں صبر کرتے ہیں اور قضاء پر راضی رہتے ہیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’کعبہ کے رب کی قسم! تم مومن ہو‘‘۔
صبر: صحابہ و ائمہ کے اقوال کی روشنی میں
1۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ہم نے اپنی زندگی کے بہترین اوقات حالتِ صبر میں پائے ہیں۔ (امام احمد ’کتاب الزہد‘) (ابو نعیم، ’حلیۃ الاولیاء‘)
2۔ امام قشیری رسالہ قشیریہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:
ایمان میں صبر کا وہی مقام ہے جو بدن میں سر کا ہوتا ہے، بغیر سر کے جسم ہلاک ہو جاتا ہے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے بآوازِ بلند فرمایا کہ جس کا صبر نہیں اُس کا ایمان نہیں۔ صبر ایسی سواری ہے جو کبھی نہیں بھٹکتی۔
(امام غزالی، احیاء علوم الدین)
3۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: صبر کے چار ستون ہیں:
- شوق
- شفقت
- زہد
- انتظار
چنانچہ جو آگ سے ڈرا وہ محرمات سے دور ہوگیا اور جو آدمی جنت کا مشتاق ہوا وہ شہوات سے سلامت رہا۔ جو آدمی دنیا میں زاہد ہوا اس پر مصائب آسان ہوگئیں اور جس نے موت کا انتظار کیا اس نے بھلائیوں کی طرف جلدی کی۔ چنانچہ انہوں نے ان مقامات کو صبر کے ارکان فرمایا، اس لیے کہ یہ صبر سے نکلتے ہیں اور ان تمام ارکان میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور زہد کو ان میں سے ایک رکن قرار دیا۔
4۔ امام سلمی طبقات الصوفیہ میں حضرت حارث المحاسبی کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہر شے کا جوہر ہوتا ہے، انسان کا جوہر عقل ہے اور عقل کا جوہر صبر ہے۔
5۔ امام قشیری رسالہ قشیریہ میں اور علامہ ابن القیم مدارج السالکین میں امام علی الخواص کا صبر کے متعلق قول نقل کرتے ہیں، فرمایا:
کتاب و سنت کے احکام پر ثابت قدم رہنا صبر ہے۔
6۔ حضرت ابو علی الدقاق نے فرمایا:
صابرین دونوں جہانوں میں عزت کے ساتھ کامیاب ہوئے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی معیّت حاصل کرلی۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
(ابن القیم، ’مدارج السالکین‘)
7۔ حضرت ابو حامد بلخی نے فرمایا: جس نے صبر پر صبر کیا (یعنی صبر کر کے اسے ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ وہ مصائب پر صبر کر رہا ہے) وہی صابر ہے نہ کہ وہ شخص جس نے صبر کیا اور(صبر کا اظہار کر کے) شکوہ بھی کر دیا۔ (امام شعرانی، ’الطبقات الکبریٰ‘)
8۔ فقیہ، صوفی اور عابد ابراہیم التیمی فرماتے ہیں:
جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اذیت، آفت اور مصیبت پر صبر عطا کیا گویا ایمان کے بعد اُسے سب سے بڑی نعمت عطا کی۔
صبر کی شرائط میں سے ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کیسے صبر کریں گے، کس کے لیے صبر کریں گے اور صبر سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ صبر کے لیے ہمیں نیت کو درست کرنا اور اس میں اخلاص لانا ہوگا ورنہ ہمارے اور جانور کے صبر میں کوئی فرق نہیں ہو گا کیوں کہ اُس پر جب مصیبت آ جاتی ہے تو وہ بھی برداشت کرتا ہے مگر اسے اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ اُ س پر مصیبت کیوں نازل ہوئی اور اُس سے کیسے نمٹنا ہے اور اس کا کیا فائدہ ہو گا۔
اللہ رب العزت کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔