17 جون 2014ء کا سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ کاایک بدترین سانحہ تھا، جس میں ریاستی ادارے پولیس نے 14شہریوں کو شہید اور درجنوں کو شدید تشدد کر کے اپاہج بنادیا ۔ اس وقت کی شریف برادران کی حکومت نے بلااشتعال پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے پرامن کارکنان کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔ جس وقت پنجاب پولیس نے ماڈل ٹاؤن لاہور کا گھیراؤ کر رکھا تھا، اس وقت قائدِ تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری بیرون ملک تھے۔ انہوں نے نہ کسی دھرنے کااعلان کیا تھا اور نہ ہی کارکنوں کو کسی شارٹ یا لانگ مارچ کی کال دی تھی۔ انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ایک سیاسی پروگرام دیا تھا جسے 10 نکاتی انقلابی ایجنڈا کا نام دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس ایجنڈے کے تحت فقط اتنا مطالبہ کیا تھا کہ آئین کے بنیادی 40آرٹیکلز پر عملدرآمد، پاکستان کے غریبوں، مزدوروں، کلرکوں، کسانوں، بیوگان، عمر رسیدہ شہریوں کو ان کے حقوق دئیے جائیں، کرپشن کے خاتمے کے لیے کرپٹ عناصر کو عبرتناک سزائیں دی جائیں، پاکستان کی سرزمین کو دہشتگردی اور انتہا پسندی سے پاک کرنے کیلئے بلاتفریق کارروائی کی جائے، غیر ملکی فنڈنگ کا راستہ روکا جائے، نفرت اور فرقہ واریت پھیلانے والوں سے ریاست آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔ اس سیاسی پروگرام کے اعلان کے بعد اس وقت کی ’’شریف حکومت‘‘ نے عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے کارکنان کا عرصہ حیات تنگ کر دیا، ہزاروں کارکنوں کو گھروں سے اٹھا لیا گیا، چادر اور چاردیواری کا تقدس بری طرح پامال کیا گیا اور 17 جون 2014ء کے دن ہونے والی درندگی کے مناظر قوم نے میڈیا کی آنکھ کے ذریعے براہ راست دیکھے۔ اشرافیہ کے حکم پر پولیس اور حکومت کے ماتحت دیگر ایجنسیوں نے ظلم کی انتہا کر دی، خواتین کے نہ صرف دوپٹے نوچے گئے بلکہ دو خواتین شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد کو مرد پولیس اہلکاروں نے قریب سے مشین گنوں اور کلاشنکوفوں کے برسٹ مار کر شہید کر دیا۔ اس سارے خونی منظر نامے کو جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ میں ایک جملے میں اس طرح بیان کیا گیا کہ پولیس نے وہی کیا اسے جوکرنے کا حکم اور مینڈیٹ دیا گیا تھا۔
17 جون 2014ء کے خون آلود واقعات کے بعد اس وقت کی حکومت نے انصاف کا قتل عام شروع کر دیا۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ 17 جون 2014ء کی شام پریس کانفرنس کر کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری کروانے کا اعلان کیا اور قوم کے روبرو کہا کہ اگر کمیشن کی رپورٹ میں میری طرف اشارہ بھی ہوا تو میں اقتدار چھوڑ دوں گا۔ اس پریس کانفرنس کی ابھی بازگشت بھی نہ تھمی تھی کہ پولیس نے اپنی معیت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کر لی اور اس میں عوامی تحریک اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کارکنوں کو سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور جب شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء ایف آئی آر درج کروانے تھانہ فیصل ٹاؤن گئے تو ان کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکارکر دیا گیا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد بھی شریف برادران کی حکومت نے ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھا۔ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے گھر کا محاصرہ کر لیا گیا، ماڈل ٹاؤن کو عملاً پورے پاکستان سے کاٹ دیا گیا، ماڈل ٹاؤن کے رہائشیوں کو پینے کے پانی اور ادویات لے جانے کے لیے بھی پولیس کے ناکوں سے گزرنا پڑتا تھا اور ماڈل ٹاؤن میں داخل ہونے والے رہائشیوں کو اس بات کی گارنٹی دینی پڑتی تھی کہ ان کا ڈاکٹر طاہرالقادری کے ادارہ منہاج القرآن یا عوامی تحریک سے تعلق نہیں ہے۔
اس دوران شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری پاکستان تشریف لائے تو ان کے طیارے کو اسلام آباد نہیں اترنے دیا گیا بلکہ طیارے کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا۔ یعنی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی ایف آئی آر درج کرنے کے انکار سے لے کر ہر حوالے سے عوامی تحریک کے کارکنوں کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ یہ وہ سارے حالات تھے جن کے ردِ عمل میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انقلاب مارچ کا اعلان کیا۔ یعنی یہ انقلاب مارچ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کے خلاف تھا۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کروانے اور انہیں انصاف دلوانے کے لیے تھا۔ اس وقت کے حکمرانوں کے ظلم کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے کارکن سڑکوں پر نکلے یعنی انقلاب مارچ کا ایجنڈا حصول انصاف تھا اور پھر اس احتجاج اور دھرنے کے دباؤ پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج ہو سکی۔ اس وقت بھی غیر جانبدار تجزیہ نگار کہتے تھے اور آج بھی کہتے ہیں کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کی ایف آئی آر درج ہو جاتی اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی خواہش کے مطابق انہیں سانحہ کی غیر جانبدار تفتیش کا آئینی حق مل جاتا تو دھرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کا اگست 2014ء کا دھرنا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے تھا۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد دھرنے کے دوران اپنے کارکنوں کو پرامن رہنے کا حکم دیا، قانون کے احترام کا درس دیا، انہوں نے اپنی تقریروں میں ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی کی بات کی، آئین کی بالادستی بالخصوص آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عملدرآمد کی بات کی۔ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ عوامی تحریک کا دھرنا آئین و جمہوریت کے خلاف تھا، وہ حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عمر بھر حقیقی جمہوریت کی بحالی اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی۔ ملکی سیاسی تاریخ کے دو بڑے مارچ عوامی تحریک کے پلیٹ فام سے ہوئے: ایک مارچ جنوری 2013ء میں ہوا جس کا مقصد دھاندلی زدہ انتخابی نظام کو آئین کے تابع لانا تھا۔ جن مطالبات کے تحت یہ لانگ مارچ کیا گیا اسے اس وقت کی حکومت نے من و عن تسلیم کیا۔ دوسرا احتجاج سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کے خلاف ہوا، اس احتجاج کے نتیجے میں ایف آئی آر درج ہوئی اور حکومت نے اپنی شکست تسلیم کی۔
جب کسی سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جائے، اسے دیوار سے لگا دیا جائے اور پھر اس کی آواز پارلیمنٹ سنے اور نہ کوئی انصاف کا ادارہ تو پھر سڑک پر نکلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ جب سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس عدالت کے فلور پر زیرِ بحث آیا اور سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اب احتجاج کی بجائے قانونی چارہ جوئی کی جائے تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے بلاتاخیر سپریم کورٹ کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو قانونی چارہ جوئی تک محدود کر لیا۔ یہ ان کی قانون کے احترام، عدلیہ کے احترام کی ایک مثال ہے اور آج کے دن تک عوامی تحریک اپنے شہداء کا مقدمہ عدلیہ کے فلور پر لڑرہی ہے۔ اگرچہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے صورتِ حال تسلی بخش نہیں ہے اور غیر جانبدار تفتیش کا حق نہیں مل رہا، اس کے باوجود ساری توجہ قانونی چارہ جوئی پر مرکوز ہے۔ ان شاء اللہ سانحہ ماڈل ٹاون کا انصاف ہو گا اور ظالم اس دنیا میں اپنے کیے کی سزا بھگت کر جائیں گے۔
آخر میں عجز و انکساری کے ساتھ یہ لکھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پر پاکستان کی سرزمین تنگ کرنے کے منصوبے بنانے والے وقت کے فرعونوں اور ان کی نسلوں پر بھی آج پاکستان کی زمین تنگ ہو چکی ہے اور جو سمجھتے تھے کہ اقتدار اور تخت ہمیشہ کیلئے ہے آج وہ کھلی فضاء میں سانس لینے کی آرزو کرتے ہیں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری پہلے سے بھی زیادہ طاقت اور توانائی کے ساتھ پوری دنیا میں اسلام کے پرچم کو سربلند رکھے ہوئے ہیں۔