سوال: عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟
جواب: جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی مول لیں گے۔
محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بیہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔
اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے علاوہ اُمت کے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیونکر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔
بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے:
- ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے۔
- دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما شاء اللہ)ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے کچھ غیر شرعی اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بجائے اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانشوری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی؟ اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے لئے ہر وہ کام سر انجام دینا شرعی طور پر جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کے لئے درست اور رائج الوقت ہو۔ میلاد کی روح پرور تقریبات کے سلسلے میں انتظام وانصرام کرنا، درود وسلام سے مہکی فضاؤں میں جلوس نکالنا، محافل میلاد کا انعقاد کرنا، نعت یا قوالی کی صورت میں آقا علیہ السلام کی شان اقدس بیان کرنا اور عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے کرنا سب قابل تحسین، قابل قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
کتب سیر واحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:
فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاء ُ فَوْقَ الْبُیُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِی الطُّرُقِ یُنَادُونَ: یَا مُحَمَّد! یَا رَسُولَ اﷲِ! یَا مُحَمَّدُ! یَا رَسُولَ اﷲِ!
مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے و خدام راستوں میں پھیل گئے، سب نعرے لگا رہے تھے یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!
(مسلم، الصحیح، 4: 231، رقم: 2009)
اہلِ مدینہ جلوس میں یہ نعرہ لگا رہے تھے:
جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم.
اﷲکے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔
(ابن حبان، الصحیح، 51: 298، رقم: 68970)
مدینہ کی معصوم بچیاں دف بجا کر دل وجان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو ان اشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَاتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ
اَیُهَا الْمَبْعُوْتُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمَطَاعِ
’’ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اﷲکو پکارتے رہیں گے، ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔‘‘
(ابن ابی حاتم رازی، الثقات، 1: 131)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد پر مذکورہ بالا اشعار کا پڑھا جانا محب طبری، امام بیہقی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، علامہ عینی، امام قسطلانی، امام زرقانی، احمد زینی دحلان کے علاوہ بھی دیگر محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے۔
مدینہ طیبہ میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوئی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کی خوشی منانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناقب و محاسن بیان کرنا اور جلسے جلوس کا اہتمام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔
(اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ کیجیے۔)
سوال: وہ کون لوگ ہیں جن کے ایمان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عجیب ترین ایمان قرار دیا؟
جواب: وہ خوش نصیب جن کے مشاہدے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ بے حجاب صبح و شام آتا ہو اور آنکھیں ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے ٹھنڈی ہوتی ہوں تو یہ سب دیکھ لینے کے بعد اگر وہ ایسے رحیم و کریم اور مہربان وحسین آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے قائل ہو جائیں تو کوئی بڑی بات نہیں، (اگرچہ ایک لحاظ سے یہ بڑی بات ہے کیونکہ بعض لوگ اتنے تنگ نظر، کدورت پسند اور حاسد ہوتے ہیں کہ سمندر کو بہتا اور سورج کو چمکتا دیکھ کر بھی اس کا انکار کر دیتے ہیں لیکن وہ غلام جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کیے بغیر انہیں اپنا محبوب اور ملجا و ماوٰی مان لیں، ان کی منفرد شانوں پر ایمان لے آئیں اور ان کے ارشادات مبارکہ کو حرزِ جان بنا لیں تو یہ بڑی بات ہی نہیں بلکہ ایمان کی یہ حالت بڑی تعجب خیز اور قابلِ رشک ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیثِ مبارکہ میں ایمان کی عجیب تر حالت کی عکاسی کی گئی ہے۔ ایک دن صحابہ کرامl کی جماعت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑا ایمان افروز سوال کیا :
اَیُّ الْخَلْقِ اَعْجَبُ اِلَیْکُمْ ایْمَانًا؟
تمہارے نزدیک کس مخلوق کا ایمان عجیب ترین ہے؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا :یا رسول اللہ! فرشتوں کا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَمَالَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ؟
وہ کیسے ایمان نہ لائیں جبکہ وہ اللہ کی حضوری میں ہوتے ہیں اور ہمہ وقت اس کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! انبیاء کرام کا ایمان عجیب تر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَمَالَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْیُ یَنْزِلُ عَلَیْهِمْ.
وہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے جبکہ ان پر وحی اترتی ہے؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (معصومیت بھرے انداز سے)عرض کیا: یا رسول اللہ!پھر ہمارا ایمان عجیب تر ہو گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَمَالَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ وَ اَنَابَیْنَ اَظْهُرِکُمْ؟
کیا تم (اب بھی)ایمان نہ لاؤ گے جبکہ تمہارے سامنے ہر وقت میرا سراپا رہتا ہے؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلاَ! اِنَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَیَّ ایْمَانًا لَقَوْمٌ یَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ یَجِدُوْنَ صُحُفًا فِیْهَا کِتَابٌ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِیْهَا.
(مشکوٰة المصابیح، باب ثواب هذه الامّه، 584)
’’میرے نزدیک ساری کائنات میں سب سے عجیب (قابل رشک)ایمان ان لوگوں کا ہے جو تمہارے بعد ہوں گے۔ وہ صرف اوراق پر لکھی ہوئی کتاب دیکھیں گے اور اس پر ایمان لے آئیں گے‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بن دیکھے ایمان لانے والے اور عشق کرنے والے ہر وقت حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دھیان ہی میں نہیں بلکہ محبوب کی نگاہوں میں رہتے ہیں اور اب سے نہیں بلکہ جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، اس وقت سے وہ نگاہِ مصطفی میں ہیں۔ اس لیے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے فرما دیا کہ میرے وہ امتی جو بعد میں آئیں گے، ان کا ایمان قابلِ رشک حد تک عجیب تر ہو گا۔
سوال: شہادتِ رسالت سے کیا مراد ہے؟
جواب: شہادتِ رسالت سے مراد یہ ہے کہ زبان سے اس بات کا اقرار اور دل سے تصدیق کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف انبیاء و رسل علیہم السلام بھیجے جو تمام کے تمام برحق تھے اور ان کی نبوت و رسالت مخصوص زمانوں اور افراد کے لئے تھی، جبکہ سب سے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جن و انس کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ابد تک ہمیشہ کے لئے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یٰـٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا. وَّ دَاعِیًا اِلَی اﷲِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا.
(الاحزاب،33: 45-46)
’’اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔‘‘
شہادتِ رسالت کے ساتھ درج ذیل امور کی تصدیق کرنا لازمی اور واجب ہے:
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیبی واقعات کے بارے میں دی گئی ان تمام خبروں کی تصدیق کرنا جو گزر چکے ہیں یا آئندہ پیش آنے والے ہیں۔
2۔ ان تمام چیزوں کی تصدیق کرنا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال اور حرام قرار دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا.
( الحشر، 59: 7)
’’ جو کچھ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو۔‘‘
3۔ جن چیزوں کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا انہیں بجا لانا اور جن امور سے منع فرمایا ان سے رک جانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی خوشی اور دل جمعی سے اِتباع کرنا اور ظاہر و باطن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو اپنے اوپر واجب کرنا۔ کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ أطَاعَنِیْ فَقَدْ أطَاعَ اﷲَ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصٰی اﷲَ.
’’جس نے میری اطاعت کی سو اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی سو اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘‘
(بخاری، الصحیح، کتاب الاحکام، باب قول اﷲ تعالٰی: أطیعوا اﷲ و أطیعوا الرسول و أولی الأمر منکم، 6: 2611، رقم: 6718)
انبیاء و رُسل کا مقصدِ بعثت ہی یہ ہے کہ ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل اور ان کی اطاعت کی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ.
(النساء، 4: 64)
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
مذکورہ آیات و احادیث واضح کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت فرض ہے، اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر نہیں چلتا، شرعی احکام کی پیروی نہیں کرتا تو وہ شخص اپنے دعویٰ میں سچا نہیں، کیونکہ ایمان بالرسالت اتباع و اطاعتِ رسول کا تقاضا کرتا ہے۔