میثاقِ مدینہ کرۂ ارض کا ایک ایسا آئینی و قانونی ڈاکومنٹ ہے جو اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی امن اور بقائے باہمی کی تعلیمات کا مظہر ہے۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کو تاقیامت دنیا کے ہر مذہب اور مقدس ہستی پر یہ فضیلت و فوقیت حاصل رہے گی کہ جس طرح قرآنِ مجید کی صورت میں اسلام کے اساسی تعلیم و احکامات کا ایک ایک حرف محفوظ و مامون ہے اُسی طرح پیغمبرِ اسلام ﷺ کی حیات طیبہ کا بھی ہر لمحہ اور گوشہ محفوظ و مامون ہے جس سے قیامت تک انسانیت راہ نمائی حاصل کرتی رہے گی۔ اسلامی تاریخ کے اندر اسلام کے سنہری واقعات اور ادوار کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔ غزوات اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی مقدس ہستی سے منسوب لاتعداد واقعات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں، تاہم میثاقِ مدینہ ایک ایسا ڈاکومنٹ ہے جس پر ساڑھے 14 سو سالہ تاریخ میں جتنا لکھا جانا چاہیے تھا، نہیں لکھا گیا۔ یہ ڈاکومنٹ اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی تعلیمات کا ایک ایسا روشن پہلو ہے کہ جس کی موجودگی میں اسلام پر انتہا پسندی یا عدم برداشت کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ عرب کے ایک ایسے معاشرے کے اندر میثاقِ مدینہ وجود میں آیا جہاں عصبیت و لسانیت، خاندانی حسب و نسب، ذات پات، رنگ و نسل، مذہب، قبائلی اطوار و ثقافت کو ایک ثقہ بند نظریے اور عقیدے کا درجہ حاصل تھا۔ یہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کا الوہی ویژن تھا جس کے نتیجے میں عرب کے جنگجو قبائل ایک سیاسی وحدت میں تبدیل ہو گئے، ایک ایسی وحدت کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ایک دوسرے کے محافظ بن گئے۔ میثاق مدینہ کے بہت سارے روشن پہلو ہیں، اس میثاق کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا گیا۔ پہلی بار مذہب ومذہبی رسومات اور مختلف الخیال طبقات کی قبائلی ثقافت و روایات کو بھی تحفظ دیا گیا۔ میثاقِ مدینہ کا حصہ بننے والے قبائل کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہوا۔ فساد فی الارض کو ایک جرم قرار دیا گیا اور مثالی لاء اینڈ آرڈر کے قیام کے لئے انہی قبائل کو ذمہ داریاں تفویض کی گئیں جن کی وجہ سے امن و امان کے مسائل جنم لیتے تھے اور پھر میثاق مدینہ کی برکت سے یہی لوگ لاء اینڈ آرڈر قائم کرنے کے روادار ٹھہرے ۔ میثاق مدینہ کا منفرد آرٹیکل مشترکہ دفاع سے متعلق تھا اور ریاستِ مدینہ کے ہر شہری کیلئے انصاف کو اس کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔
مذکورہ بالا سطور میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ میثاقِ مدینہ کی دستاویز کو جتنا نمایاں کرنے کی ضرورت تھی، مؤرخین نے اُس پر اتنا کام نہیں کیا۔ میثاق مدینہ کا تذکرہ منبر و محراب سے بھی ہونا چاہیے تاکہ ہم اپنی نئی نسل اور دنیا کو باور کرا سکیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے مسلمانوں کی مل جل کر رہنے کی تعلیم اور تربیت فرمائی ہے۔ الحمدللہ تحریک منہاج القرآن کو یہ اعزاز اور سعادت میسر ہے اس پلیٹ فارم سے جہاں ایمان و عقائد کے دیگر لاتعداد مسائل پر تحقیقی و تجدیدی کام ہوا ہے، وہاں میثاقِ مدینہ کے موضوع پر بھی بہت ضخیم تحقیقی کام ہوا ہے۔ ریاستِ مدینہ اور میثاقِ مدینہ پچھلے چند سالوں سے پاکستان کے اندر بھی سیاسی، سماجی، قانونی حلقوں میں ایک موضوع کے طور پر زیر بحث ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی تحریک منہاج القرآن کی قیادت کو جاتا ہے۔ رواں صدی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے دستور مدینہ کو شق وار کتابی شکل دی اور اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد تحقیق ثابت ہوئی، اس کے بعد منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے میثاقِ مدینہ کا جدید دساتیر کے ساتھ ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جس کی علمی و تحقیقی پذیرائی کی بازگشت شرق و غرب میں سنائی دے رہی ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی یہ تحقیق واقعتاً اس صدی کی ایک ایمان افروز تحقیق ہے۔
چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری ریاست مدینہ کے موضوع پر لاہور بار کونسل سمیت پنجاب کی دیگر بار کونسلز سے بھی خطاب کر چکے ہیں جس سے وکلاء برادری بے حد متاثر ہوئی ہے۔ چیئرمین سپریم کونسل نے حال ہی میں مشرقِ وسطی کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور اُنہوں نے میثاقِ مدینہ کے موضوع پر وہاں کے علمی و قانونی حلقوں میں لیکچررز دئیے تو عرب شرکاء ان کی عربی زبان میں فصاحت و بلاغت اور موضوع پر گرفت پر انگشت بدنداں تھے اور انہوں نے والہانہ انداز میں چیئرمین سپریم کونسل کو اس منفرد تحقیق پر مبارکباد دی۔ میثاقِ مدینہ ایک ایسا ڈاکومنٹ ہے جسے اُمت مسلمہ کے ہر سکالر، عالمِ دین، علوم اسلامیہ کے طلبہ و طالبات کو ازبر ہونا چاہیے۔ مصدقہ و مستند مواد چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے مہیا کر دیا ہے۔ اُن کی یہ تحقیق عربی کے ساتھ ساتھ اُردو اور انگریزی زبان میں بھی شائع ہورہی ہے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ نومبر کے پہلے ہفتے میں تقریب رونمائی متوقع ہے۔
میثاقِ مدینہ کی دستاویز کی تاریخی اہمیت و افادیت کے پیش نظر مختلف ادوار میں مستشرقین نے بھی اس پر خامہ فرسائی اور لب کشائی کی ہے اور اِس دستاویز کے بارے میں نہایت شاندار آراء دی ہیں جن کا مختصر تذکرہ بے محل نہ ہو گا۔ ایک معروف مغربی مفکر تھامس آرنلڈ میثاق مدینہ کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ میثاقِ مدینہ سے پہلے خطۂ عرب میں کوئی باقاعدہ انتظامی یا عدالتی نظام نہیں تھا۔ یثرب میں رہائش پذیر ہر قبیلہ یا جماعت ایک آزادانہ وجود رکھتی تھی۔ ایسے ماحول میں مختلف الخیال طبقات کو یکسو کر لینا حضرت محمد ﷺ کی کمال سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔ ایک معروف مغربی مفکر آر اے نکلسن لکھتے ہیں کہ کوئی شخص بھی میثاقِ مدینہ کی دستاویز کا مطالعہ کر کے آپ ﷺ کی سیاسی بصیرت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے اس معاہدے کو انقلاب کا نام دیا۔ ولیم تھامسن نے بھی میثاقِ مدینہ کو حضور نبی اکرم ﷺ کی سیاسی بصیرت کا شاہکار قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس معاہدے سے متحارب قبائل کو ایک نظم کے تحت ہی نہیں لایا گیا بلکہ اس سے تجارتی فوائد بھی حاصل کئے گئے۔ میثاقِ مدینہ کے ذریعے اہلِ یثرب کو اہلِ مکہ کے تجارتی راستے پر اختیار حاصل ہو گیا۔ وہ لکھتے ہیں حضرت محمد ﷺ نے تجارتی شاہراہ کے ساتھ رہنے والے قبائل کو اہلِ مکہ سے اپنی ماہرانہ سیاسی حکمت عملی کے ذریعے الگ کر دیا۔ ایڈورڈ گبن نے لکھا میثاقِ مدینہ کی صورت میں آپ ﷺ کو دوسری قوتوں کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے اور دفاعی و اقدامی جنگیں کرنے کا اختیار مل گیا۔ منٹگمری واٹ لکھتے ہیں کہ آئینِ مدینہ کے مطابق مختلف ریاستی معاملات کا محمد ﷺ کے سامنے پیش کیا جانا اس بات کی دلیل تھی کہ آپ ﷺ کو اہلِ مدینہ نے اپنا حاکم بھی تسلیم کر لیا اور پیغمبرِ خدا بھی۔ وہ لکھتے ہیں دستور میں یہ الفاظ شامل ہیں کہ تمام تنازعات فیصلہ کے لئے اللہ اور محمد ﷺ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ فرانٹس بوہل لکھتے ہیں کہ محمد ﷺ کو ہجرتِ مدینہ کے بعد پہلا مسئلہ مہاجرین کی کفالت کے لئے ضروری ذرائع و وسائل پیدا کرنا تھا کیونکہ جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ ہجرت کر کے آئے تھے، وہ اکثر و بیشتر بے سروسامان تھے اور ان کی آباد کاری فی الحال انصار کی ایثار و قربانی سے ہی ممکن تھی۔ اِنہیں مناسب تحفظ کی فراہمی کے لئے آپ ﷺ نے رشتۂ اخوت کے قیام کا اعلان فرما کر اُنہیں مہاجر اور انصار کے رشتے میں باندھ کر بھائی بھائی بنا دیا اور متحارب قبائل کو اکٹھا کر کے مزید انتظامی امور بہتر بنانے کے لئے وقت حاصل کر لیا۔ میثاقِ مدینہ آپ ﷺ کی سیاسی بصیرت کا شاہکار ہے۔
مستشرقین کے یہ کلمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ میثاق مدینہ آپ ﷺ کی الوہی بصیرت کا شاہکار ہے اور آپ ﷺ نے اس معاہدے کے ذریعے قیامت تک کے انسانوں، اقوام اور جماعتوں کو یہ پیغام دیا کہ اسلام تنہائی پسند دین نہیں ہے بلکہ وہ جماعت کے تصور کانہ صرف ہم نوا ہے بلکہ وہ جماعتی نظم کا سب سے بڑا محرک بھی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ سے قیام پاکستان کے موقع پر اقلیتوں اور ان کے حقوق کے بارے میں جب بھی سوال کیا جاتا تھا تو بانی پاکستان میثاق مدینہ اور ریاستِ مدینہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ میثاق مدینہ ایک ایسی دستاویز ہے جو ہمیں دیگر اقوام اور مذاہب کے ساتھ مشترکات پر مل جل کر رہنے کی تعلیم اور تحریک دیتی ہے۔ ریاستِ مدینہ اور میثاقِ مدینہ کے حوالے سے مستند معلومات کے حصول اور مطالعہ کے لئے چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی کتاب کا مطالعہ اہلِ علم اور علوم اسلامیہ کے طلبہ کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوگا۔